Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Andheri Raat Ke Musafir | Episode 1 | By Naseem Hijazi - Daily Episodes

اندھیری رات کے مسافر
نسیم حجازی کے قلم سے
پہلی قسط
1491کے آخری مہینے کی ایک صبح افق مشرق پر ابھرتا ہوا سورج اپنی سنہری کرنوں کے جال پھیلا رہا تھا ....جنوب کے کوہستانوں میں خوابیدہ دھندلکے آہستہ آہستہ اپنا دامن سمیٹ رہے تھےاور سیرانوادا، الفجارہ اور الحمہ کی بلند چوٹیوں پر برف کے تاج جگمگا رہے تھے۔
سنیٹا فے کے فوجی کیمپ میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔
ملکہ ازابیلا شاہی خیمے سے کچھ دور ایک پہاڑی پر کھڑی تھی اور غرناطہ کا دھندلا سا منظر اس کے سامنے تھا۔کبھی کبھی اس کی نگاہیں ارد گرد پھیلے ہوئے خیموں یا پڑاؤ سے آگے ویگا کے نشیب و فراز میں ان ویران بستیوں میں جا رکتیں جہاں جلے اور اجڑے ہوئے مکانات جنگ کی ہولناکیوں کی گواہی دے رہے تھےلیکن چند ثانیے کے بعد یہ طلسماتی شہر جسے وہ چھ میل کے فاصلے سے بار بار دیکھ چکی تھی اور جس کے بلند مینار اور گنبد اس کے ذہن پر نقش ہو چکے تھے،پھر اس کی نگاہوں کے سامنے آجاتا۔
جنگ کے ایام میں جب اس نے پہلی بار اس پہاڑی سے غرناطہ کا منظر دیکھا تھا ،اس وقت سورج ڈوب رہا تھااور اسے ایسا محسوس ہوا تھا کہ سینٹا فے اور الحمرا کا درمیانی فاصلہ یکایک کم ہو گیا ہے۔اس کے بعد پہاڑی اس کے لیے ایک مستقل سیر گاہ بن چکی تھی ۔ اس کی سہولت کے لیے اوپر چڑھنے کا راستہ کشادہ کر دیا گیا تھااور چوٹی پر ایک خوبصورت شامیانہ بھی لگا دیا گیا تھا۔
عام طور پر جب وہ شاہی خیمے سے باہر نکلتی تو خادماؤں اور کنیزوں کی پوری فوج اس کے ساتھ ہوتی تھی لیکن جب کوئی ذہنی الجھن پیش آتی تو اسے اپنی خاص سہیلیوں کی رفاقت بھی ناگوار گزرتی تھی اور آج اس کی یہ حالت تھی کہ جب وہ شاہی خیمے سے باہر نکلی تو صرف دو خادمائیں اس کے ساتھ تھیں، لیکن اس نے پہاڑی پر پہنچتے ہی انہیں بھی رخصت کر دیا۔
ازابیلا اس بات سے پریشان تھی کہ قسطلہ کے بشپ اور کلیسا کے محکمہ احتساب کے سربراہ نے اپنے خط میں جنگ بندی کے معاہدے کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا اور فرڈنینڈ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ متارکہ جنگ کے معاہدے کو بلاتاخیر منسوخ کر کے غرناطہ پر بھرپور حملہ کر دے۔
اس خط کا جواب دینا ضروری تھا لیکن فرڈی ننڈنے ریمینس کے خط پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا.....رات کا کھانا کھاتے وقت ملکہ نے تیسری بار اس خط کا ذکر کیا تھا لیکن فرڈی ننڈ نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ"ہم صبح غور کریں گے ...اس وقت ہم بہت تھکے ہوئے ہیں"۔
اور جب صبح ہوئی تو وہ گشت پر جا چکا تھا۔
٭٭٭
ازابیلا کچھ دیر شامیانے کے قریب کھڑی رہی،پھر وہ پیچھے ہٹ کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔اچانک اسے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی اور وہ اٹھ کر دائیں طرف دیکھنے لگی۔فرڈی ننڈ ٹیلے پر پہنچتے ہی گھوڑے سے کود پڑا اوراس نے آگے بڑھ کر ملکہ کے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہوئے کہا"آج سردی زیادہ تھی ۔آپ کو کچھ دیر اور آرام کرنا چاہیےتھا!"
ملکہ نے جواب دیا"جب منزل اتنی قریب آ چکی ہو تو مسافر آرام نہیں کر سکتے۔آج صبح ہوتے ہی میں آپ کو یاد دلانا چاہتی تھی کہ جنگ بندی کے دس دن گزر چکے ہیں اور معاہدے کے مطابق ہمیں سنیٹافے اور غرناطہ کے درمیان یہ چھ میل کا فاصلہ طے کرنے میں ساٹھ دن اور لگ جائیں گے"۔
فرڈی ننڈ نے جواب دیا"ملکہ ! آپ یہ کیوں نہیں سوچتیں کہ یہ ساٹھ دن اور چھ میل اس قوم کی زندگی اور موت کے درمیان آخری حد فاصل ہیں جس نے آٹھ سو سال اس زمین پر حکومت کی ہے.....مجھے معلوم ہے کہ آپ کے ذہن میں ابھی تک ریمینس کے خط کا اثر ہے لیکن اس بوڑھے پادری کو کیا معلوم کہ جس قوم کو ہم ہلاکت کے آخری کنارے پر لے آئے ہیں،اس نے چند برس کے اندر اندر جبل الطارق سے لے کر پیرے نیزے کی چوٹیوں تک کلیسا کے سارے پرچم سر نگوں کر دیئے تھے"۔
ریمینس کو کون سمجھا سکتا ہے کہ جب اس قوم کا زوال شروع ہو چکا تھا تو بھی کلیسا کی متحدہ قوت کو دریائے ٹاگس اور وادی الکبیر کے درمیان چند منازل کا فاصلہ طے کرنے میں چار صدیاں لگ گئیں تھیں اور ان چار صدیوں میں جب کبھی ان کا مدافعانہ جذبہ پیدا ہوا تھا وہ دنوں میں برسوں کا حساب چکا دیتے تھے"۔
وہ دونوں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ازابیلا نے کہا "میرا مقصد آپ کی رائے سے اختلاف نہ تھا۔میں اس بات پر فخر کرتی ہوں کہ جن ہاتھوں سے اندلس کی آزادی کا چراغ بجھنے والا ہے،وہ میرے شوہر کے ہاتھ ہیں۔میں صرف اشتیاق کا مظاہرہ کر رہی تھی ۔ اگر آپ ریمینس کے خط کو اچھی طرح پڑھ لیتے تو آپ کو یہ غلط فہمی کبھی نہ ہوتی کہ وہ آپ کی عظیم کامیابیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔"
میں نے اس کا خط پڑھ لیا تھا ۔وہ چاہتا ہے کہ ہم بلا تاخیر متارکہ جنگ کا معاہدہ منسوخ کر کے غرناطہ پر چڑھائی کر دیں....وہ صرف ایک پادری ہے اور میں تمام حالات پر نگاہ رکھنے والا سپاہی ہوں۔وہ یہ سمجھتا ہے کہ اہل غرناطہ مر چکے ہیں اور اب صرف ان کی لاشیں نوچنے کا کام باقی رہ گیا ہے لیکن میرے نزدیک غرناطہ ایسی حالت میں بھی ایک ایسا آتش فشاں پہاڑ ہےجس کی تہہ میں ابھی تک لاوا ابل رہا ہے.....اس آتش فشاں کے دہانے پر کلیسا کے اقتدار کی مسند سجانے سے پہلے مجھے اس اطمینان کی ضرورت ہے کہ وہ لاوا ٹھنڈا ہو چکا ہے.....
~¤¤~
یہ درست ہے کہ ہماری فوجیں غرناطہ سے صرف چھ میل دور ہیں لیکن متارکہ جنگ کا معاہدہ کرنے سے پہلے میں نے یہ اطمینان کر لیا تھا کہ ہماری جنگ اب غرناطہ کے مضافات کی بجائے اس کی چاردیواری کے اندر لڑی جائے گی اورجو کا م ہمارے لشکر برسوں میں نہیں کر سکے وہ اب ان لوگوں کے ہاتھوں سے پورا ہو رہا ہے جو غرناطہ کے اندر رہ کر اپنی قوم کے ذہنی حصار کی بنیادیں توڑ سکتے ہیں۔کیا میری کامیابی معمولی ہے کہ جو مقصد ہمیں ہزاروں سپاہیوں کی قربانی پیش کرنے کے بعد حاصل ہو سکتا تھا،وہ اس شخص کے ہاتھوں پورا ہو رہا ہے جسے ہمارے دشمن اپنے آخری قلعے کا محافظ سمجھتے ہیں"۔
ازابیلا نے کہا"میں ہر لمحہ یہ دعا کرتی ہوں کہ جو توقعات آپ نے ابو عبداللہ سے وابستہ کی ہیں وہ پوری ہوں، لیکن کبھی کبھی یہ بات مجھے یہ بات بہت پریشان کرتی ہے کہ وہ ایک بار آپ سے وعدہ خلافی کرچکا ہے ،اس لیے اس پر دوبارہ اعتبار کرنا دانشمندی نہیں"۔
فرڈی ننڈ بولا"قسطلہ کے بشپ نے بھی اپنے خط میں یہی بات لکھی ہے ۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے کہ میں اس پر اعتماد کرتا ہوں۔وہ ایک عیاش ،کاہل اور متلون مزاج آدمی ہے۔مگر مجھے اس کی ضرورت ہے۔ مجھے اس کی اس لیےضرورت ہے کہ اپنی قوم کی تذلیل کے لیے جو سامان اس نے پیدا کیے ہیں وہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔آج غرناطہ کی حالت اس شیر کی سی ہے جو زخمی ہونے کے بعد کسی جھاڑی کی اوٹ میں اپنے زخم چاٹ رہا ہو۔اب میں آگے بڑھ کر آخری وار کرنے سے پہلے ابو عبداللہ کو اس بات کا موقع دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس زخمی شیر کو باندھ کر میرے قدموں میں ڈال دے"۔
ملکہ نے کہا"آپ کو یقین ہے کہ اگر آنئدہ ساٹھ دن کے اندر اندر اہل غرناطہ نے لڑنے کا فیصلہ کر لیا تو ابوعبداللہ ان کے جوش و خروش کے سامنے ٹھہر سکے گا؟"
فرڈی ننڈ نے جواب دیا" ابوعبداللہ جیسے لوگ ہر آندھی کے ساتھ اڑنے والے اور ہر سیلاب کے ساتھ بہنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔اسے ہمیشہ کسی سہارے کی تلاش رہتی ہے۔جب ہم نے اسے سہارا دیا تھا تو اس نے اپنے باپ کے خلاف بھی بغاوت کر دی تھی۔اور پھر جب موسی بن ابی غسان نے اس کا ہاتھ پکڑلیا تھا تو وہ ہمارے خلاف کھڑا ہو گیا تھا۔اب غرناطہ میں کوئی دوسرا موسی نہیں ہے اور ابو عبداللہ آج ایک ایسے آدمی کے قبضے میں ہے جسے میں اپنی فتح کی ضمانت سمجھتا ہوں۔وہ اسے ایسے مقام پر لے آیا ہے جہاں سے واپس جانے کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں رہا....ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس آدمی کو موسی بن ابی غسان نے اہل بربر اور ترکوں کے پاس اپنا ایلچی خاص بنا کر بھیجا تھا ،وہ مالٹا کے قید خانے میں پڑا ہوا ہے۔اور اگر وہ بیرونی اعانت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو ہمارا بنا بنایا کھیل بگڑ سکتا تھا"۔
"خداکا شکر ہے یہ آخری خدشہ بھی دور ہو چکا ہے....."۔
فرڈیننڈ نے جواب دیا"یہ خدشہ اس وقت دور ہو گا جب وہ ایک قیدی کی حیثیت سے میرے سامنے کھڑا ہو گا اور اسے جاننے والے یہ گواہی دیں گے کہ حامد بن زہرہ یہی ہے"۔
ملکہ نے پریشان ہو کر سوال کیا"کیا یہ بھی ممکن ہے کہ مالٹا والوں نے کسی اور آدمی کو حامد بن زہرہ سمجھ کر گرفتار کر لیا ہو اور ہمارے سفیر نے بھی اس کے متعلق مزید چھان بین کی ضرورت محسوس نہ کی ہو؟"
"نہیں!مالٹا میں ہمارا سفیر ایک ہوشیار آدمی ہے ۔مجھے صرف یہ تشویش ہے کہ ہم نے جو جہاز قیدی کو لانے کے لیے بھیجا تھا اس کی واپسی سے متعلق ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی"۔
ملکہ نے فکر مند ہو کر کہا" آپ کہتے تھے کہ ترکوں کے جنگی جہاز ان دنوں بحیرہ روم میں گشت کر رہے ہیں۔خدا نہ کرے ہمارے جہاز کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہو!"
فرڈیننڈ نے جواب دیا"اگر ایک جہاز کی قربانی سے وہ خطرات ٹل جائیں جو ہمیں حامد بن زہرہ کے زندہ واپس آنے کی صورت میں پیش آ سکتے ہیں تو یہ سودا مہنگا نہیں ہوگا"۔
"آپ اسے اتنا خطرناک سمجھتے ہیں؟"
فرڈیننڈ نے جواب دیا"کبھی کبھی رات کے سناٹے میں ایک ہی پہریدار کی چیخ سے ساری بستی جاگ اٹھتی ہے۔یہ میری پہلی ذمہ داری ہے کہ میں جس بستی پر شب خون مارنا چاہتا ہوں وہاں کسی جاگتے ہوئے پہریدار کی چیخیں اس کے حلق سے باہر نہ نکل سکیں اور ہمیں ایک جیتی ہوئی جنگ دوبارہ لڑنے کی ضرورت پیش نہ آئے"۔
ملکہ آزردہ ہو کر اپنے شوہر کی طرف دیکھنے لگی....اس کی حالت اس بچے کی سی تھی جس کے ہاتھ سے کوئی خوبصورت کھلونا چھینا جا رہا ہو۔
فرڈیننڈ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا"ازابیلا!میرا مقصد آپ کو پریشان کرنا نہیں تھا۔مجھے یقین ہے کہ میں نیا سال شروع ہوتے ہی آپ کو غرناطہ کا تحفہ پیش کر سکوں گا۔تاہم بعض جنگی تدبیریں ایسی ہوتی ہیں جن کا علم صرف سپہ سالار تک محدود رہنا چاہیے۔میرے دل میں کئی ایسی باتیں ہیں جو میں نے ابھی تک آپ پر ظاہر نہیں کیں۔ اس لیے نہیں کہ میں کسی مسئلہ میں آپ کو اعتماد میں نہیں لینا چاہتا تھا ۔بلکہ میری خواہش یہ تھی کہ میں کسی دن اچانک خوشخبری سناؤں اورآپ کو زیادہ سے زیادہ خوشی ہو"۔ 
جاری ہے

Post a Comment

0 Comments