Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Afat Ki Mari | Episode 2 | By Amir Sohail - Daily Novels

آفت کی ماری

عامرسہیل

قسط2

نمرہ نے اس بار تھوڑا غصہ دکھاتے ہوئے اور ڈانٹ پلاتے ہوئے شگفتہ سے کہا، دیکھو ابھی تمہارے پاس وقت ہے،ہمیں فضول کا ناصح سمجھنے اور اپنے کام میں خلل ڈالنے والا نہ سمجھتے ہوئے اپنے کاموں کو خود سر انجام دینے کا ہنر اپناؤ، ورنہ بہت پیچھے رہ جاؤ گی، یہ بچوں والی حرکات اور دھوکہ دہی سے کام لینا چھوڑ دو، اب تم خیر سے دسویں جماعت میں ہو، اور امسال میٹرک بھی کر جاؤ گی، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک سے دو سال کے اندر تیرے رشتے کی بات چل نکلے گی، اور منگنی کے بعد شادی اور پھر تم اپنے گھر کی ہو جاؤ گی، یہ حقیقت اور اصلیت ہے کیونکہ اب مرحوم کہا کرتے تھے کہ نمرہ! بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں، اس لیے شگفتہ تم ابھی سے ہوش کے ناخن لو، اور سُدھر جاؤ، ورنہ یہ نا ہو کہ بعد میں ہاتھ ملتی رہ جاؤ، شگفتہ نے نمرہ کے غصے کو عین بھانپتے ہوئے جواب دیا کہ نمرہ آپی یہ سکھ اور راحت کی گولیاں کہاں سے ملتی ہیں؟ اور یہ ہوش کے ناخن اور پاؤں کتنے کے لینے ہیں اور کہاں سے ملیں گے؟ آپی دیکھو نا تمہاری زندگی میں جب سے اختر آیا ہے تم کتنی خوش ہو، اور وہ تمہارا کتنا خیال بھی رکھتا ہے، پھر بھی تم ہمہ وقت اسے کوستی رہتی ہو، اور پھر مجھے ڈانٹنے کا کوئی موقع تو ہاتھ سے جانے ہی نہیں دیتی، لاؤ ادھر یہ احسان لاؤ ادھر میں خود ہی مغز ماری کرتی ہوں، اور یہ مضمون تحریر کر دیتی ہوں، تم مجھے یہ بتاؤ کہ اختر سے محبت کیسے ہوئی؟ کیسے نظریں چار ہوئیں اور تم دونوں ایک دوسرے کے بن بیٹھے، اپنی ساری داستانِ محبت مجھے گوشِ گزار کرو، کہ مجھے بھی پتہ چلے اس عشق اور محبت کی ٹیس کا، تڑپن کا، عشق کی ابتدا سے متعلق میں بھی کچھ جان سکوں اور پتہ چلے کہ کس واقعے نے میری پیاری آپی کی زندگی بدل کر رکھ دی، اور پھر یہ محبت شادی کے اٹوٹ بندھن تک پہنچ گئی، نمرہ نے شگفتہ کو چٹکی کاٹتے ہوئے کہا کہ بدمعاش کتنی شیطان اور چالاک ہو، ابھی سے یہ باتیں سوچنے لگی ہو، جب کبھی کسی سے نظریں چار ہوئیں تو سب پتہ چل جائے گا، پھر کوئی بات نہ کر پاؤ گی، کچھ اچھا نہیں لگے گا، سوتے، جاگتے، چلتے پھرتے فقط اپنے اسی مجنوں، رانجھے یا فرہاد کو سوچا کرو گی اس کے سوا کہیں من کا لگنا ممکن نہ ہو گا، اسی کے خواب دیکھنے سے ایک لمحہ بھی فرصت نہیں ملنی، جب بھی کوئی امر سر انجام دینے لگو گی اسی کا من موہنا چہرہ نظروں کے سامنے آ کر تڑپا دے گا، جذبات کو گرما دے گا، فشارِ خون تیز کر دے گا، اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسی کی جانب کھینچی چلی جاؤ گی، مانو کہ کوئی ایسی قوت ہو گی جو تم سے تمہارے حواس تک چھین لے گی، تم اسی کی زبان بولنے لگو گی اور سماج کی پروا کیے بغیر اسی کا حکم تمہارے واسطے حرفِ آخر ٹھہرے گا، تمہاری کیفیت ہی بدل جائے گی، ایک عجب قسم کا جنون اور سکون و آتشی تمہیں میسر ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختر تیار ہو کر باہر جانے لگا تو شبنی اسے پھر لپٹ گئی، اور غیر اخلاقی حرکات کرنے لگی، اختر یار شبنی تم بھی نا، کس واسطے اس طرح کی حرکات شروع کر دی ہیں، لوگ دیکھ رہے ہیں، کیا کہیں گے؟ میری بابت کیسے کیسے گمان کریں گے، شرم کرو، آدمیوں کو تو دیکھ لیا کرو، پھر چاہے لپٹ ہی جایا کرو مگر تم کہ کسی کو دیکھنا ہی گوارہ نہیں کرتی ہو اور فوری لپٹ دوڑتی ہو، آخر کو میری بھی کوئی عزت اور مرتبہ ہے اس معاشرے میں  کیوں تم اپنی عزت کے ساتھ ساتھ میری آبرو کا بھی جنازہ نکالنے کو تل جاتی ہو، شبنی نے سب کچھ سن لینے کے بعد بڑے نکھریلے انداز میں جواب دیا اور اختر کو اور زیادہ کس کر پکڑنے کے بعد کہا کہ دیکھنے دو اختر لوگوں کو، کیا ہو جائے گا؟ میں اپنے ہونے والے شوہر کے گلے لگی ہوں، کوئی گناہ تھوڑی نا ہے، یار اختر ایک تو تمہاری شروع دن سے ہی یہی بیماری رہی ہے کہ تم ڈرپوک بڑے ہو، یاد کرو وہ کالج کے دن جب میں پہلے پہل تمہارے عشق میں گرفتہ تھی، تب بھی میں زور زبردستی تم سے لپٹ جاتی تھی مگر تم کہ کچھ بھی نہ کرتے تھے اور عجب قسم کی شرم اور جھجک تھی تمہارے اندر، جب ہمارے دوست روز تمہیں رومانس واسطے آمادہ کرنے کی ناکام سعی کرتے تھے تب بھی تمہارا یہی حال تھا کہ فوری منع کر دیتے تھے، میں تو تمہیں اس وقت بھی کہا کرتی تھی کہ یار اختر خدا کا نام لو تھوڑے تیز بننے کی سعی کرو یہ نا ہو کہ کوئی بڑا نقصان کر بیٹھو اور پھر اس کی بھروائی ہی ممکن نا ہو مگر تم کہ میری کبھی مانی ہی نہیں  ہمیشگاں سے ہی مجھے اپنا دشمن گردانا، میں نے تمہیں لاکھ سمجھایا کہ اختر زیست اس طرح تھوڑی نا بسر ہوا کرتی ہے کہ ہم دوسروں کے سہارے ہی جیے جائیں، مگر تمہاری ضد کہ تم نے تو نہ بدلنے کی قسم کھا رکھی ہے، پھر جب نمرہ سے تمہاری شادی ہونے لگی تو تب بھی میں نے تمہیں بہت سمجھایا کہ ہمت کرو اور جواب اثبات کی بجائے نفی میں دے دو مگر نہیں تم ٹھہرے حاتم طائی، کود پڑے مشکل میں اور دیکھا اب تک وہی خمیازہ بھگت رہے ہو اور نہیں خبر ہمیں ابھی اور کتنا انتظار کرنا پڑے گا، مگر نمرہ نام کی بلا تو تمہارا پیچھا چھوڑنے کو تیار ہی نہیں، اب جب کہ یہاں تھوڑا بہت وقت مل جاتا ہے مجھے پیار کرنے کا اور تمہارے سنگ وقت گزارنے کا تو تم یہاں بھی جھڑک دیتے ہو اور مجھے بہت تنگ کرتے ہو، تمہارا مسلئہ کیا ہے، تم چاہتے کیا ہو؟ آج مجھے صاف صاف بتا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیگم(نمرہ کی ہمسائی) جھنجھلاتی ہوئی آواز میں بولی کہ مہرو بیٹا جاؤ ذرا دس روپے لے کر آؤ، سارا موسیقی کا مزا ہی کرکرا کر دیا، اس کم بخت فقیر نے، مہرو یہ لو دس روپے اور فقیر چل دیا چل مہرو اب ذرا گانے کی آواز اور اونچی کر، موسیقی کا تڑکا لگے گا، اور ہاں آواز دو کلومیٹر تک جانی چاہیے، آخر بیگم کے بیٹے کی شادی ہے، اہلِ علاقہ کو پتہ ہونا چاہیے، کہ ہم نوابوں کو جب مسرت ہوتی ہے تو اس کا کیا نظارہ ہوتا ہے، ہم لوگ مہینا مہینا سوتے نہیں ہیں، آتش بازیاں ہوتی ہیں، دعوتیں چلتی ہیں اور ہم لوگ مہینوں مہینوں سوتے ہی نہیں ہیں، طرح طرح کے کھیل ہوتے ہیں، لوگ ہماری مثالیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نواب لوگ اپنی ٹھاٹھ ہی علیحدہ رکھتے ہیں، عجب سواد ہوتے ہیں، عجب ٹُھسے ہوتے ہیں، عجب طرح کی آسائشیاں میسر ہوتی ہیں اور کمال کے چلبلے پن ہوتے ہیں،ہم لوگ اپنی ایک شان رکھتے ہیں اور پھر عجب طرح کی توانائیاں ہوتی ہیں، الغرض ہمہ قسم شغل بھی ہوتے ہیں اور ہمہ قسم پکوان بھی پکا کرتے ہیں  ہائے مگر غریب لوگ نہیں سمجھتے، یہ غریب لوگ پستی کے مارے ہوئے اور رنجیدہ رنجیدہ سے رہنے والے، ہمہ وقت ملال زدہ رہنے والے، عجیب عجیب صورتیں بنا کے رکھتے ہیں ،بڑے عجیب سے لوگ ہوتے ہیں، یہ غریب تو قسم سے نہ ہی ہوتے تو ٹھیک تھا، یہ عجب قسم کا واہمہ پال لیتے ہیں، اور خواہ مخواہ نیک اور سیرت و کردار کے دھنی بن جاتے ہیں، عجب طرح کی منحوسیت ہوتی ہے ان کے ماتھے پہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments