Header Ads Widget

Responsive Advertisement

La Hasil Se Hasil Tak | Episode 4 | By Fozia Kanwal - Daily Novels

 لاحاصل سے حاصل تک

فوزیہ کنول

قسط4


یہ تمہارا کمرہ ہے

كنول نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوۓ مجھے مطلع کیا

سامنے دیوار کے ساتھ خوبصورت بیڈ  لگا ہوا تھا

اس کے سامنے ڈریسنگ تھا جو مختلف پرفیومز سے بھری پڑی تھی بیڈ کے برابر میں ایک دروازہ تھا جو کے ٹیرس میں کھلتا تھا میں نے ایک نظر میں سارا جائزہ لے ڈالا پیچھے آہٹ کی آواز سنی تو میں نے چونک کر دیکھا

سبکتگین کو دیکھ کر میرے دل کی دھڑکنیں بےترتیب  ہونے لگیں۔

مجھے اپنے کانوں کی لویں تپتی  محسوس ہونے لگی

سردی میں بھی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے

كنول اور خالہ جان  کی سرگوشیاں میرے کانوں میں گونجنے لگیں۔

میرا رواں دواں دل دھڑکنے لگا۔

کہ میں کیسے سبکتگین  کو بتاؤں گی کہ میں نے لمحہ لمحہ تم سے ملنے کی دعاکی؟

نکاح کے اس اٹوٹ بندھن میں بندھتے ہی میرے سارے جذبے میرے سارے خواب آپ کے نام ہوگٸے۔

وہ بھی مجھے چاہیں گے،میرے روپ کو سراہیں گے

میں نے دونوں ہاتھوں کو باہم جکڑ کر ان کی لرزش روکنے کی کوشش کرتے ہوئے لمبا سانس لے کر اپنے آپ کوپرسکون کرنے کی کوشش کی۔

مجھے خیالوں میں کهوے  ہوئے کتنی دیر ہو چکی تھی

ان کے پاس آنے پر میرا سر خود بخود جھک گیا

سوری پارسامجھے نیچے کچھ دوستوں نے روک لیا تھا“ تم میرا انتظار کر رہی تھی

انہوں نے معافی خیز لہجے میں کہا

بھرپور خوشبو کے جھونکے پورے کمرے میں پھیل  چکے تھے خوشبو کے بہت شوقین تھے اس بات کی تصدیق تو میں ڈریسنگ پر رکھی پرفیوم کی شیشیوں سے ہی کر چکی تھی۔

وہ آہستگی سے بیڈ کے ساتھ پڑی راکنگ چٸیر پر بیٹھ گئے

یہ تمہاری منہ دکھائی ہے

انہوں نے ڈائمنڈ رِنگ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا

تم کپڑے چینج کر لو

آرام کرو لمبے سفر سے آٸی ہو تھک گئی ہوگی ۔

وہ میرے قریب آ بیٹھے مجھے دیکھا اور  چند ثانیے یونہی گھورتے رہے

آخر نئی نویلی دلہن کا روپ اتنی آسانی سے تھوڑی نظر انداز کیا جا سکتا ہے

وہ آہستگی سے  سے میرے مقابل آ بیٹھے

اور میرے سرد پڑے ہاتھ نرمی سے تھام لیے

میں اپنے آپ میں مزید سمٹ گی۔

ان کا چہرہ میرے اس قدر قریب تھا کہ میں ان کی سانسوں کی تپش محسوس کر سکتی تھی

یکدم جھٹکے سے وہ مجھے چھوڑ کر کھڑے ہوئے

اچھا تم آرام کرو فریش ہو جاؤ اور سو جاؤ

مجھے سبکتگین کایہ لہجہ عجیب سالگا وہ میری خوبصورتی اور گہری نیلی آنکھوں کی تاب نہ لا سکے ہوں گےافراط، اسی لیے وہ مجھ سے نظریں چرا رہے ہونگے

میں اپنے بے چین دل کو تسلی دینے لگی

انکے اس  بدلے رویے پر حیران تھی میں

پہلے ہی بیزاری اور الجھن پھر یہ بے خودی آخر میں یہ بے رخی“ کیا تھا یہ سب؟ میں اپنے سوالات سے بھرے دماغ  کے ٹوکرے کو لے کر آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی بلاشبہ میرا میک اپ بڑی مہارت سے کیا گیا

تھا اس میں کوئی کمی نہ کی گئی تھی

اور کنول تو کہتی تھی سبکتگین مجھے دیکھتے ہی میرے صدقے واری ہوگا

تمہارا یہ روپ دیکھ کر تمہارا دیوانہ ہو جائے گا،اور تمہاری تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے گا

کمرے کے در و دیوار سرگوشیاں کر رہے تھے اور میری آنکھیں لبا لب پانیوں سے بھرنے لگی تھی

میں نے آہستہ آہستہ سارے زیورات اتار کر ڈریسنگ پر رکھ دیے اور ہلکے سبز رنگ کا جوڑا پہن لیاجو خالہ نے پہلے ہی استری کرکے الماری میں رکھا تھا

میں ہاتھ منہ دھو کر بستر پر لیٹی تو مجھے رہ رہ کر ایک ہی بات بے چین کرتی رہی آخر سبکتگین کے بدلے ہوئے لہجے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

بے ساختہ ایک گہری سانس میرے لبوں سے نکلی کہیں نہ کہیں کچھ غلط تو ضرور ہے

مگر کیا۔؟؟

سبکتگین کا رویہ میری سمجھ سے باہر تھا

اپنے خیالوں سے الجھتےالجھتے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی پتہ نہ چلا

لیکن جسے بھرپور نیند کہتے ہیں وه نصیب نہ ہو سکی“ وقفے وقفے سے آنکھ کھل جاتی اور میں ایک نظر اپنے پہلو پہ ڈالتی جو ہنوز خالی پڑا تھا

ساری رات سبکتگین کمرے میں نہ آئے تھے

صبح ہلکی سے کھٹر پٹر سے میری آنکھ کھل گئی

میں نے دیکھا تو سبکتگین تیار ہو کر پرفیوم اسپرےکر رہے تھے۔

اوہ جاگ گی تم

حالانکہ میں چاہ رہا تھا تم اپنی نیند پوری کر لو

جھبی تو میں ہر کام  آہستہ آہستہ کر رہا تھا

جی سوری شاید میں دیر سے اٹھی

نہیں نہیں

ناشتہ تیار ہے تم کر لینا میں آفس جا رہا ہوں وہ مسکراتے ہوئے بولے جارہا تھا

جیسے اسے بیتی ہوئی رات کا احساس تک نہ ہو

میں خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی

چھٹیوں کا کوئی تصور نہیں ورنہ میں دو تین دن کی چھٹی ضرور لے لیتا

وہ شاید میری آنکھوں میں سوال پڑھ چکا تھا

اچھا میں چلتا ہوں تم اپنا خیال  رکھنا

ایسے کیسے سبکتگین؟

میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو تم؟

نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر بھلا کون نوکری پر جاتا ہے؟ اور میں نے تو سنا تھا شروع شروع میں دولہے کو دولہن کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں

پھر میرا دولہا کیسا تھا

اسے مجھ سے زیادہ کام عزیز  تھا

مجھے سبکتگین کا رات والا رو یہ یاد آتا تو آنکھوں کے  فرش گیلے ہونے لگتے

بھلا پہلی ہی رات دولہا اپنی دولہن کو وه بھی جس سے اتنا پیار کرتا ہو اکیلے کمرے میں کیسے چھوڑ سکتا ہے؟

رات سے اب تک اتنے سارے سوال میرے ذہن میں جمع ہو چکے تھے جن میں سے ایک کا جواب بھی اب تک میرے پاس نہ تھا سارا دن اپنی انہی سوچوں میں گزارا

جب الجھن زیادہ بڑھی تو میں چاۓ کا کپ لے کر ٹیرس پر آگئی

شام کا وقت تھا

موسم بے حد سرد تھا

صاف ستھری شفاف سڑکیں جن پر ٹریفک پورے قاعدے اور قانون کے ساتھ رواں  تھی

کوٸی رکاوٹ یا بے ترتیبی نہیں تھی

میری نظر اچانک سامنے والے اپارٹمنٹ پر پڑی جس کے ٹیرس پرایک  لڑکی کھڑی تھی نظریں ملیں تو اس نے گرم جوشی سے ہاتھ ہلایا

جوابًا میں نے بھی ہاتھ ہلا دیا

شکل و صورت سے ایشیائی لگ رہی تھی مجھے کچھ اطمینان محسوس ہوا ورنہ تو طبیعت اکتانے لگی تھی

کچھ بھی کھانے کو جی نہ چاہ  رہا تھا

خالہ بھی  فکر مند تھی میرے لئے“ اور کنول نے بھی تو   چکر نہ لگایا میری طرف

پھر سوچا چلو کمرے کی صفائی ہی کر لیتیہ ہوں“  مگر یہاں تو ہر شے پہلے سے ہی صاف ستھری تھی

فرنیچر پر گرد کا تو نام و نشان تک نہ تھا

بہت صفائی پسند تھے اس گھر کے لوگ

اس بات کا اندازہ مجھے ہو گیا تھا

میں نے نوٹ کیا کہ سبکتگین اپنا زیادہ کام خود ہی کرتے تھے

ویسے بھی اکیلی خالہ بیچاری کیا کیا کرتیں؟

میں نے دیکھا کہ ان کے کپڑے کس طرح وارڈ روب میں سلیقے سے رکھے ہوئے تھے

اور میلے کپڑوں کے لیے پاس ہی ایک ٹوکری رکھی ہوٸی تھی۔

ہر چیز اپنی جگہ پر کتنی مہارت سے مقید تھی

کوٸی چیز ڈھونڈنے میں دقت نہیں ہوتی ہوگی

میرے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں تھا سواے  سبکتگین کے انتظار کے

دن کاٹے نہیں کٹ رہا تھا

سارا دن ادھر ادھر بولاٸی بولاٸی پھرتی رہی

خدا خدا کرتے شام ہوئی اور پھر اطلاعی  گھنٹی بجی

میں نے لپک کر دروازہ کھولا اور ان کے ہاتھوں سے بریف کیس پکڑ کر جیکٹ اتارنے ان کی میں مدد کی

کھانا کھا لیا تم نے؟

نہیں“میں نے نفی میں گردن ہلاٸی

چلو فریش ہو جاؤ مل کر کھاتے  ہیں

مجھے لگا جیسے دھند کے دنوں میں سورج نے مجھ پر پہلی  کرن ڈالی ہو

جیسے ریگستانوں، صحراٶں میں بارش کی نوید سنا دی گئی ہو، جیسے کسی تھکن سے چور مسافر کو کسی پیڑ کی گہری ٹھنڈی چھاٶں مل گٸی ہو،جیسے کسی بیمار کو شفا مل گٸی ہو،جیسے مرنے والے کو زندگی مل گٸ ہو

میں الٹے پاؤں کمرے میں گئی اور خود کو آئینے میں دیکھ کر شرما گئی

”پرفیوم کی ہلکی سی بھوار اپنے  پر ڈالی اور ڈائننگ ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئی۔۔
جاری ہے.....!!!

Post a Comment

0 Comments