Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Main Ishq Hoon | Episode 7 | By Salman - Daily Novels

میں عشق ہوں

سلمان

قسط7 

لبھنا کام اے انسان دا

چھپنا کام اے یزدان دا

لبھ نہ سکے انسان اونہوں

چاہے ٹٹولے ہر کونہ جہان دا

او تا اوکھی بڑی پہیلی اے

ذہن جواب دے دیوے انسان دا

لیکن قلب کول بڑی طاقت اے

اوہو ای تا گھر اے یزادن دا

بس بندیا چھڈ دنیا دے نشے

کھوج رستہ اوہنوں پان دا

درویش بزرگ مسکراتے ہوئے کلام پڑھ رہے تھے اور منصور سالار ان کے سامنے گھٹنے ٹیکے بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ ناشتہ کرنے کے بعد اور سپاہیوں کی تربیت کے بعد یہاں چلا آیا تھا اور بابا جی سے اپنے مسئلے کی بابت دریافت کررہا تھا

" پتر ۔۔ انسان اپنی پہیلی خود کو سلجھائے یہی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے ۔ زندگی کٹھن بہت ہے یہاں تو کوئی رب کو پانے کا راستہ نہیں بتاتا تو یہ تو تیری زندگی کی ایک الجھی پہیلی ہے "

بزرگ مسکراتے ہوئی اس کے برابر بیٹھ گئے

" مجھے لگتا ہے بابا جی زلیخا اپنے بابا کا قتل کرنا چاہتی ہے "

منصور نے کہا

" تیرا سب سے بڑا دشمن تو خود ہے"

بابا جی نے اسے گھورا

" خود پر قابو پالے ورنہ تیرا اپنا آپ تجھے برباد کر دے گا "

وہ غصے سے بولے ۔

" بنا کسی ثبوت کے کسی کو تو قصوروار کہہ کیوں سکتا ہے ؟؟ خدا کے بندے بندا بن غیب کا علم نہیں رکھتا تو ۔۔

تو غیب کے فیصلے بھی نہ کر "

" مگر بابا جی .."

منصور نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو بابا جی نے اسے روک دیا اور کھڑے ہو گئے

" تو جو کتاب عشق پڑھنا چاہتا ہے

پہلے کتاب زیست تو پڑھ ۔۔

تو کیا عشق کرے گا جب تو زندگی جینا ہی نہیں جانتا ۔۔ تو تو برباد ہو جائے اگر تجھے عشق ہوگیا تو ۔۔

خدا کرے تجھے کبھی عشق نہ ہو !"

بابا جی نے ڈرتے ہوئے کہا تو منصور بھی کھڑا ہوگیا

" کیوں بابا جی ؟"

اس نے آہستگی سے کہا

بابا جی اس کی طرف مڑے اور پھر ایک دم بولے

" تو ابھی بہت چھوٹا ہے عشق کرنے کے لیے ۔۔

بس پتر زندگی کو جینے کے طریقے سیکھ یہی بہتر ہے تیرے لیے اور کوشش کرنا کبھی عشق نہ ہو تجھے ۔۔

اگر ایسا ہوا تو عشق کے وار سہہ نہیں پائے گا تو "

" بابا جی میں نے ہر جنگ لڑی ہے ۔ بڑے سے بڑے دشمن کو شکست دی ہے ۔ ہر جنگ میں فتح ہوئی ہے مجھے ۔ ہاں کئی بار دشمن نے وار بھی کیے مجھ پر مگر میں اتنا مضبوط ہوں کہ سہہ گیا سارے وار "

منصور نے ثابت قدمی سے کہا تو بابا جی ہنس دیے

" پتر یوں باؤلوں جیسی باتیں نہ کر ۔۔

عشق کی جنگ اور دوسری جنگوں میں بہت فرق ہوتا ہے ۔۔ بہت فرق ۔۔ "

" کیسا فرق بابا جی ۔۔

آپ مجھے سرمد کے عشق کی داستان سنائیں نا مجھے پتا چلے گا کہ عشق کیا ہوتا ہے ؟"

منصور نے کہا

" نہیں تیرا ذہن بہت چھوٹا ہے ۔۔ تو بس دنیا کو سمجھ لے ۔۔یہی بہتر ہے تیرے لیے ۔۔

ہاں اتنا یاد رکھ عشق کی جنگ میں تیرا دشمن تیرا من ہوتا ہے یہاں لڑائی اپنے آپ سے ہوتی ہے ۔ تیرا اپنا آپ ہی تجھے زخم دیتا ہے تجھ پر وار کرتا ہے اور خود سے لڑنے والی جنگ کیسے جیتے گا تو ۔۔ ارے عشق کی پہلی سیڑھی ہی شکست تسلیم کرنا ہوتا میرے بچے ۔۔"

بابا جی مسکرائے

" بابا جی مجھے اور بتائیں عشق کے بارے میں ۔۔

مجھے عشق کے بارے میں جاننا اچھا لگتا ہے "

منصور نے دلچسپی سے کہا

" اب تم جاؤ یہاں سے اور جا کر اپنی پہیلی سلجھاؤ اور کوشش کرنا کہ خود پر قابو پانا

یہی عقل مندوں کا شیوہ ہے ۔۔ "

بابا جی نے منصور کو جانے کا کہا اور پھر زمین پر جا کر بیٹھ گئے ۔

منصور نے سر جھکایا اور پھر وہاں سے نکل گیا۔

******

وہ سپاہی جو باورچی خانے میں گیا تھا وہاں اسے عاطرہ اور لیلیٰ دکھائی دی تھیں ۔ وہ انہیں گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا جہاں دوسرے سپاہی قطاروں میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ۔ اسے دور سے آتا دیکھ کر سب لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ سواگت سنگھ جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا تھا عاطرہ کو دیکھ کر فورا چونک گیا ۔

" یہ تو وہی لڑکی ہے "

سواگت سنگھ کو رات والا واقعہ یاد آگیا ۔

" ارے رکو سب لوگ ۔۔

یہ لڑکی میرا شکار ہے "

سواگت سنگھ شیطانی مسکان بڑھتا ہوا آگے بڑھا

عاطرہ نے ایک لمحے سواگت سنگھ کو دیکھا اور پھر اپنی ماں کی طرف ۔۔

" دیر سے مگر مل تو گئی ہو ۔۔

لوگ صحیح کہتے ہیں قیمتی چیزیں آسانی سے نہیں ملتیں ۔ حسن کی دیوی "

سواگت سنگھ نے آگے بڑھ کر عاطرہ کا ہاتھ تھاما

" چل میرے ساتھ "

" میرا ہاتھ چھوڑو ۔۔

چھوڑو میرا ہاتھ "

عاطرہ چلائی

" چھوڑو میری بیٹی کو ۔۔ چھوڑو"

لیلیٰ بھی چلائی

" چل بڈھی مرنے کی تیاری کر لے

تو ہمارے کسی کام کی نہیں ۔"

سواگت اور اس کے ساتھی قہقہہ لگاتے ہوئے آگے بڑھے ۔

" ماں "

عاطرہ نے لیلیٰ کی جانب دیکھا

چھوڑو میری ماں کو "

عاطرہ نے خود کو سواگت کے ہاتھوں سے آزاد کرایا اور لیلی کی طرف بڑھی ۔

" کہاں جائے گی تو حسن کی دیوی ۔۔؟

لوٹ کر میرے پاس ہی آئے گی

ہاہاہاہا "

سواگت نے جھٹ سے عاطرہ کا ہاتھ تھام لیا

" کون ہیں یہ ؟"

ایک دم ایک بلند آواز گونجی تو وہاں کھڑے سب لوگ حیرت زدہ رہ گئے اور انہوں نے آواز کی سمت مڑ کر دیکھا تو کچھ فاصلے پر سامنے انہیں ایک آدمی کھڑا دکھائی دیا ۔ وہ سورج کی مخالف سمت میں کھڑا تھا اسی لیے ڈھلتے سورج میں اس کا چہرہ کوئی نہ دیکھ سکا ہاں وہ شخص ان کو ضرور دیکھ سکتا تھا ۔

" چھوڑ دو اسے"

اس نے بلند آواز سے کہا تو سب لوگ حیرت زدہ رہ گئے ۔

کچھ دیر میں وہ شخص ان کے پاس آگیا تھا ۔ وہ عاطرہ پر نظر ٹکائے کھڑا تھا ۔ اس شخص کے آتے ہی سارے سپاہی ادب سے سر جھکا کر کھڑے ہوگئے ۔ یہ شخص کوئی اور نہیں ان کا سپہ سالار کبیر سنگھ تھا جو کہ سندھ کے راجا دبیر سنگھ کا بیٹا تھا ۔

دبیر سنگھ اور اس کا خاندان پچھلے تین سال سے سندھ پر حکمرانی کررہے تھے اور وہاں صرف انہی کا تاج چلتا تھا ۔ دبیر سنگھ سکھ تھا اور اسلام دشمنی اس کے دل میں بچپن سے ہی تھی اور اس لیے جب سے وہ راجا بنا تھا اس کے دشمن صرف مسلمان ہی تھے ۔ اس کے علاقے میں اگر کوئی شخص اسلام قبول کرتا تو دبیر سنگھ اسے پھانسی دیے جانے کی سزا سنا دیتا ۔  دبیر سنگھ کو خبر ہوئی کہ ایک تجارتی قافلہ عرب سے ہند کی جانب چلا آرہا تھا تو دبیر سنگھ نے اپنے بیٹے کبیر سنگھ کی قیادت میں ایک لشکر بحری جہاز پر اسی بحری جہاز کے جانب بھیج دیا ۔ عرب کر تجارتی جہاز پر حملہ کر کے عرب کو معاشی نقصان پہنچانا ہی ان کا مقصد تھا اور دبیر سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے بحری جہاز آن لیا جب وہ ہند سے ایک دن کی دوری پر تھے ۔

" چھوڑ دو اسے "

سب نے حیرت سے کبیر سنگھ کو دیکھا ۔

کبیر سنگھ بھورے رنگ کے جنگی لباس میں ملبوس تھا ۔ سر پر مذہبی پگڑی پہن رکھی تھی ۔ اس کی مونچھیں کافی بڑی تھیں مگر صحیح طرح بنائی گئی تھیں اور اسی طرح اس کے داڑھی زیادہ بڑی تو نہیں تھی لیکن چھوٹی بھی نہ تھی ۔ جنگی لباس میں موجود کبیر سنگھ عجب قیامت ڈھا رہا تھا ۔  اس کی خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ اس کے علاقے کی ساری لڑکیاں اس پر کٹ مرنے کو تیار ہو جائیں ۔

" چھونا بھی مت اسے "

کبیر سنگھ چلایا تو سواگت سنگھ نے عاطرہ کو چھوڑ دیا ۔

" اے حسن کی دیوی ! تو کسی اور کی نہیں کبیر سنگھ کی ملکیت ہوگی "

کبیر سنگھ نے قہقہہ لگایا ۔۔

" اور اس بڑھیا کو قتل کردو "

کبیر سنگھ نے لیلیٰ کی طرف دیکھا تو عاطرہ اور لیلیٰ نے مارے خوف کے ایک دوسرے کو دیکھا ۔

" ماں "

عاطرہ کے دل سے آواز آئی ۔

" عاطرہ "

لیلیٰ نے تڑپ کر اپنی ماں کو دیکھا

" چل بڑھیا"

ایک سپاہی نے لیلیٰ کو کھینچا

" مان "

عاطرہ نے اپنی ماں کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے اس سے دور کھینچا جارہا تھا

" عاطرہ "

لیلیٰ نے بھی چیخ کر کہا

دونوں کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں ۔ بیٹی کے سامنے اس کی ماں کو قتل کیا جانا تھا اور وہ اتنی مجبور تھی کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی ۔

" میری ماں کو چھوڑ دو ۔۔

میری ماں کو چھوڑ دو "

عاطرہ رو رہی تھی اور چیخ رہی تھی

" ماں "

پھر اس کے بعد دنیا نے ایک بہت کرب ناک منظر دیکھا ۔ ایک بیٹی کے سامنے اس کی ماں کو قتل کر دیا گیا اور ماں تڑپ تڑپ کر مر گئی اور بیٹی کو اپنی ماں کا چہرہ بھی نہ دیکھنے دیا بلکہ اسے گھسیٹ کر وہاں دور لے جایا گیا ۔

****

 

اپنے باپ کی موت کی خبر رخشی پر پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی ۔ سامنے باپ مردہ وجود تھا اور وہ تھی بھی اکیلی ۔۔ تن تنہا۔۔۔

اگر کوئی پاس تھا تو ایک اجنبی تھا جس سے اس کی ملاقات بھی آج ہی ہوئی تھی وہ بھی پہلی بار ۔۔

" بابا"

وہ چیخی اور چلائی اور اپنے بابا کی لاش سے لپٹ کر رونے لگی ۔ اس کو روتا دیکھ کر اس کے پاس کھڑے اس اجنبی کی آنکھیں بھی بھر آئیں ۔

" یقیناً سب کو چلے جانا ہے اس دنیا کو چھوڑ کر "

اس اجنبی نے دل ہی دل میں کہا ۔ اس کے سامنے ایک اکیلی بے سہارا لڑکی تھی جو رو رہی تھی اور کوئی سہارا نہ تھا اس کے پاس ۔ کوئی بھی نہیں تھا جو اس کے آنسو پونچھ سکے ۔ اس کی اس بیچارگی کی حالت پر اس کو ترس آگیا اور اس نے ہاتھ  بڑھا کر اسے تسلی دی ۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا

" محترمہ یہی حقیقت ہے آپ کو تسلیم کرنی ہوگی "

اس نے رخشی کی آنکھوں میں دیکھا جہاں آنسوؤں کا ایک دریا چھپا بیٹھا تھا ۔ آنکھیں چھوٹی سی دکھائی دیتی ہیں لیکن جب روتی ہیں تو نہ جانے اتنے کہاں سے نکال لیتی ہیں ! "

اس نے دل میں سوچا

" یہ آنکھ بھی تو اسی نے دی ہے رونے کے لیے جس نے یہ موقع دیا ہے رونے کا "

اس کے جسم میں ایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی ۔

جب انسان بالکل بے سہارا ہو جاتا ہے تو اسے جو بھی سہارا ملتا ہے وہ اسی پر اکتفا کر لیتا ہے اور اسے ہی اپنا سمجھ لیتا ہے ۔ جب اس انجان آدمی نے رخشی کے کندھے پر دستک دی تو رخشی کے رکے ہوئے آنسو اور تیزی سے بہنے لگے ۔

*****

 

" جانتی ہوں آپ ہمیں پسند نہیں کرتے ۔۔

اور یہ بھی پتا ہے ہمیں آپ ہمیں کیوں پسند نہیں کرتے "

زلیخا سلطان آئینے کے سامنے کھڑی تھی ۔ اس نے سیاہ رنگ کا جنگی لباس اوڑھ رکھا تھا اور خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھی ۔

" آپ کو پتا ہونا چاہیے منصور سالار میں شہزادی زلیخا ہوں جس سے شادی کرنے کے لیے ہر شہزادہ تیار بیٹھا ہے لیکن میں نے صرف آپ کو چنا ۔۔

صرف آپ کو ۔۔

آپ کوئی شہزادے نہیں ہو صرف ایک سپہ سالار ہو لیکن ہمیں اس سے فرق نہیں پڑتا ۔۔

ہمیں صرف اپنی محبت سر فرق پڑتا ہے ۔۔"

وہ مسکرائی اور چہرے پر سیاہ نقاب اوڑھا

" ہمیں معلوم ہے آپ ہمیں کیوں پسند نہیں کرتے ؟

ہم آپ کو ایسا بن کر دکھائیں گے جیسا آپ چاہتے ہیں ! "

وہ مسکرائی اور پھر کمرے سے نکل گئی ۔

*****

 

" ارے منصور تم ایسا کیوں سوچتے ہو ؟؟

تمہیں کیوں لگتا ہے کہ زلیخا قصوروار ہے ۔۔

ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جو تمہیں دکھائی دے رہا ہے وہ حقیقت نہ ہو "

منصور سالار اپنے دوست ریان کے ساتھ اصطبل میں تھا اور وہ دونوں گھوڑوں کو دیکھ رہے تھے ۔

اچانک انہیں اصطبل کے سامنے والی طرف سے کوئی نقاب پوش بھاگتا ہوا دکھائی دیا جسے دیکھتے ہی دونوں حیرت زدہ رہ گئے ۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments