Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Meri Ghumshuda Aankhain | Episode 7 | By Syeda Alisha - Daily Novels

Meri Ghumshuda Aankhain By Syeda Alisha
Meri Ghumshuda Aankhain By Syeda Alisha


'' میری گمشدہ آنکھیں'' 

از : سیّدہ علیشاہ 

قسط07

"آج شام کی چائے پر تمہاری دادو نے سب کو موجود رہنے کا کہا ہے "

وہ دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا جب عمارہ بیگم نے اسے مطلع کیا 

"آہاں، خیر تو ہے نا ؟؟ آج کل دادو کچھ زیادہ ہی میٹنگز نہیں کرنے لگیں آپ لوگوں کے ساتھ ! "

اس نے پلیٹ میں چاول ڈالتے ہوئے کہا 

"ہاں جی ، اور اس بار کی میٹنگ میں تمہیں بطور خاص بلایا گیا ہے "

عمارہ بیگم نے اسے جواب دیا 

"ارے واہ ! ایسے کون سے سیکرٹس آ گئے ہیں دادو کے پاس  جو مجھے سپیشل بلایا گیا ہے "

وہ شرارت پر آمادہ تھا 

"یہ تو تمہیں تمہاری دادی ہی بتائیں گئیں "

وہ بھی اس کی ماں تھیں سو ویسا ہی جواب دیا 

مما کا جواب سن کر وہ منہ بنا کر کھانا کھانے لگا 


"ڈاکٹر سے ٹائم مل گیا ہے نوری 

آج شام سات بجے کا وقت ملا ہے ، تو پریشان نہیں ہونا ۔ اب انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا "

متوسط طبقے کے ہوٹل کے ایک کمرے کی کھڑکی میں بیٹھی ہوئی نوری کے پاس آ کر وہ بولا 

" یہاں سے ہؤا کتنی اچھی آتی ہے نا سانول "

 وہ اپنی ہی رو میں بولی 

" آ تو بھی یہاں بیٹھ جا  میرے ساتھ میرے پاس "

  اس نے ہوا میں کچھ ٹٹولتے ہوۓ  اس کا ہاتھ پکڑ لیا 

  سانول بے خودی میں اس کے پاس فرش پر ہی دو زانوں بیٹھ گیا 

"نوری تیرا آپریشن ہونے کے جب تو دیکھنے لگے گی نا تو میں تجھے پورا لاہور شہر گھماؤں گا 

  اور ہر اس جگہ لے کر جاؤں گا جہاں تو جانا چاہتی تھی 

  میں تیری ہر چاہتا پوری کروں گا "

" تو میری ہر چاہتا پوری کرنا چاہتا ہے نا سانول "

  اس نے کھوئے کھوئے انداز میں اس سے پوچھا 

 " ہاں نوری یہ  بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے 

  میں تیری ہر خواہش پوری کروں گا" 

  اس نے نوری کا دباتے ہوئے کہا 

 " اچھا تو میری ہر خواہش پوری کرے گا نا 

  تو ایسا کر مجھے واپس لے چل سانول 

  میرا دل نہیں لگ رہا یہاں "

  وہ بے بس لہجے میں گویا ہوئی 

  "تو پاگل ہو گئی  ہے نوری ، میں اب تیری آنکھوں کا علاج کروا کے ہی واپس جاؤں گا "

  وہ خفگی بھرے انداز میں  بولا 

  اس کی خفگی بھری آواز سن کر وہ خاموش ہو گئی مگر دل تھا کہ سنبھل ہی نہیں رہا تھا 

شام کی چائے پر سب ہی موجود تھے ، ڈرائنگ روم میں  ٹیبل پر تکلف لوازمات سے بھری ہوئی تھی  

میز کے سامنے والے صوفہ پر  دادی سفید رنگ کی ساڑھی میں ہونٹوں پہ ہلکی گلابی لپ اسٹک لگائے 

 ہاتھوں میں دادا جان اسفندیار کی والدہ کے دئیے کنگن پہنے بیٹھی ہوئی تھیں ، 

 "یقینا کوئی خاص بات ہے آج "، دادو کو دیکھتے ہی اس کے ذہن میں خیال آیا 

 سب کو سلام کر کے وہ دائیں جانب والے صوفہ پر بیٹھنے ہی لگا تھا جب دادی نے اسے اپنے پاس بلایا 

" یہاں بیٹھو عبدالہادی" ، انہوں نے اسے اپنی بائیں جانب بیٹھنے کو کہا 

 وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا 

 "عنایا کہاں ہے ؟ "انہوں نے عنبرین پھوپھو کی طرف دیکھ کر دریافت کیا 

" وہ بس آ ہی رہی ہے "، پھوپھو نے جواب دیا 

" جاؤ صالحہ تم جا کر دیکھو کیوں نہیں آئی عنایا ابھی تک "

" جی اماں میں دیکھتی ہوں جاکر "

 صالحہ بیگم اپنا ڈوپٹہ درست کرتی ہوئی وہاں سے عنایا کو بلانے چلی گئیں 

" تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی "، عنایا کے کمرے داخل ہوتے ہی انہوں نے اس سے پوچھا 

  وہ سنگھار میز کے سامنے کھڑی آنکھوں میں کاجل لگا رہی تھی 

" میں ریڈی ہوں ممانی جان  "وہ دیکھ کر مسکرائی 

" ماشاءاللہ!!"

 اس کی مسکراتی آنکھوں کو دیکھ کر بے ساختہ انہوں نے کہا 

 جواباً اس نے نظریں جھکا دیں ، اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی  

 ہلکے گلابی رنگ کے کلیوں والی فراک کے ساتھ  چوڑی دار پاجامہ پہنے دوپٹہ سلیقے سےسر پر اوڑھے  ہلکے ہلکے سے میک اپ کے ساتھ آنکھوں میں بے تحاشہ کاجل لگائے وہ نہایت دلکش لگ رہی تھی 

  اس کے بے حد متناسب جسم پر مشرقی لباس بے حد جچ رہا تھا 

  صالحہ بیگم کے ساتھ جب وہ ڈرائنگ روم میں آئی تو سب کی نگاہوں میں اس کے لیے ستائش تھی مگر عبدالہادی کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر کوئی تاثر نہیں ابھرا تھا وہ لمحہ بھر کو اداس ہوئی تھی مگر عمارہ بیگم نے اسے اپنے پاس بلا لیا 

  وہ ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی 

"آج تم سب کو یہاں جمع کرنے کا مقصد تو تم سب کو پہلے سے ہی پتا ہے اب سب ایک ساتھ ہیں تو رسم شروع کرتے ہیں "

  دادو نے عنایا کے آنے کے بعد سب سے کہا 

 سب ثریا بانو کی طرف متوجہ ہوئے  مگر عبدالہادی حیران ہوا 

 "کس کی رسم اور کیسی رسم ؟ "اس نے سوال کیا 

  "بتاتی ہوں  لڑکے ذرا صبر تو کرو 

   عمارہ یہاں آؤ  یہ کنگن لو اور عنایا کو پہنا دو" 

   وہ اپنے ہاتھوں سے کنگن اتارتے ہوئے بولیں 

  "عنایا کو مگر کس کے نام کے کنگن پہنائے جاتے رہے ہیں" 

   اس سے صبر نہ ہوا تو پوچھ بیٹھا 

 "تمہارے نام کے کنگن پہنائے جا رہے ہیں عنایا کو..." صالحہ بیگم نے  اسے پیار سے چپت لگا کر اس کے تجسس کو ختم کیا 

" واٹ ؟ میرے نام کے کنگن ؟؟؟ "وہ یک دم اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔ 

" ہاں ہاں تمہارے ہی نام کے کنگن" 

   دادی نے اسے واپس بیٹھاتے ہوئے کہا 

  " عنایا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ابھی "

   اس سے پہلے کہ عمارہ بیگم عنایا کو کنگن پہناتیں  اس نے دوبارہ اٹھ کر عنایا سے کہا اور سب کے سامنے اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے آیا  

 سب آنکھوں میں تعجب اور تمسخر کے ملے جلے تاثرات لئے اس کو دیکھتے رہے 

 " یہ کیا حرکت ہے ؟؟ اسے بڑوں کا بھی لحاظ نہیں "

 فیروز ہاشم کو عبدالہادی کی اس حرکت پر بے حد غصہ آیا تھا 

 "چپ رہو فیروز ۔۔۔۔ بات کرنے دو بچوں کو یاد رکھنا غلطی ہمیشہ غلط فیصلوں سے بہتر ہوتی ہے " 

   دادی کی بات سن کر سب چپ ضرور ہو گئے تھے مگر سب کی آنکھوں میں اس کے لئے خفگی تھی جبکہ عمارہ بیگم نہ کوئی قصور ہوتے ہوئے بھی شرمندہ تھیں 

"چل نوری تیار ہو جا ، تیرے خون کے کچھ ٹیسٹ کروانے ہیں 

چھوٹے ڈاکٹر  نے کہا تھا سارے ضروری ٹیسٹ کروانے کے بعد آنا  

ڈاکٹر ہادی کو وقت پر سب رپورٹیں چاہیے

ٹیسٹوں کی رپورٹوں سے پتا چلے گا تیرے آپریشن کا کہ کب ہونا ہے"

نوری کو بدلنے کے لئے کپڑے دیتے ہوئے وہ اسے ساری تفصیل بتانے لگا 

"ڈاکٹر ہادی ۔۔۔۔۔۔ "اس نے زیرِ لب  ڈاکٹر کا نام دہرایا 

"کچھ کہا تو نے میرے سے نوری ؟ "

اس نے دریافت کیا 

"نہیں سانول کچھ نہیں ، بس میری چادر لا دے  کہاں رکھی ہے تو نے" 

وہ بولی  

"یہ رہی تیری چادر" وہ چادر اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولا اور خود کمرے سے باہر چلا گیا 

کپڑے بدل کے نوری نے خود کو خالی چادر میں اچھی طرح لپیٹ لیا اور سانول کا انتظار کرنے لگی 


"مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے عنایا" وہ اس کا  بازو پکڑے اپنے ساتھ ٹیرس پر لے آیا اور اسے اپنے سامنے کھڑا کر کے کہا 

عنایا حیران سی اس کی صورت دیکھنے لگی  

"یہ سب کیا ہے عنایا ؟ کیا تمہیں یہ سب پہلے سے معلوم تھا ؟؟؟ یا میری طرح تم بھی بے خیر تھی ؟؟؟ بولو "

اس نے عنایا پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تھی 

عنایا چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی 

"میں تم سے بات کر رہا ہوں عنایا "

وہ اسے کاندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے غصہ سے بولا 

"میں تم سے محبت کرتی ہوں" 

اس کی ساری باتوں کے جواب میں عنایا  نے نم ہوتے لہجے میں جواب دیا 

عبدالہادی نے سیدھا اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اسے اپنے لیے صرف اور صرف محبت نظر آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں محبت دیکھ کر اس کا دل تڑپ کر رہ گیا 

اس کی خوبصورت آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگیں تھیں 

بے تحاشہ لگے کاجل کی وجہ سے سیاہ آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر اس کے خوبصورت چہرے پر سیاہ لکیریں بناتے ہوئے اس کے آنچل میں جذب ہو گئے 

مجھے سوچنے کے لئے تھوڑا وقت چاہیے  ، تم جا کر سب کو سمجھاؤ  

وہ بنا اس کا جواب سنے اس کا گال تھپتھپا کر وہاں سے چلا گیا 

اور عنایا بے بس کیفیت میں گم صم کھڑی رہی پھر ہمت کر  زینہ اترنے لگی مگر اس کے قدم اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے اور آنکھوں میں چھائی دھند اس کی سوچ پر بھی حاوی ہونے لگی تھی 

وہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہی تھی سو چپ چاپ اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئی محبت کے کاری واروں کا سلسلہ جاری تھا ، محبت ہو اور دکھ نہ ملے ایسی تو مثال ہی نہیں ملتی سو عنایا کی محبت کا بھی امتحان شروع ہو چکا تھا 

اب اس کے محبوب نے اسے سب کو سمجھانے کی ذمہ داری سونپی تھی ، اب اسے اپنے دل پہ بھاری پتھر رکھنا تھا اور درد سہنا تھا مگر دشمن جاں کو سرخرو کرنا تھا سب کی نظر میں اور جرم محبت کی سزا کاٹنا تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

1 Comments

  1. ایک منجھے ہوئے لکھاری کو طرح ناول کو آگے لےجایا جارہا ہے۔ قوی امید ہے کہ آگے بھی سیدہ کی طرف سے بہت اچھا پڑھنے کو ملے گا۔ ﷲ پاک سیدہ کے قلم کو مزید روانیاں عطا فرمائے

    ReplyDelete