Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Peer Zadi | Episode 8 | By Waheed Sultan - Daily Novels

 پیرزادی

وحیدسلطان

قسط8

کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد مشال سیما فیز فور کیفے ٹیریا میں اعجاز احمد خالطی کے ساتھ موجود تھی۔ دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے وہ اعجاز احمد خالطی سے ماضی کی کچھ یادیں شیئر کر رہی تھی ۔ وہ اسے بتا رہی تھی کہ چھوٹی ہی عمر میں اسے فارس نامی لڑکے سے محبت ہو گئی تھی۔ مشال نے اسے بتایا کہ فارس کے بال اور آنکھیں بالکل اعجاز احمد خالطی کی طرح تھی۔

۔"مطلب فارس کے بال سنہری اور آنکھوں کا رنگ بھی سنہری تھا؟"اعجاز احمد خالطی استفہامیہ انداز میں بولا تو مشال سیما نے سر ہلاتے ہوئے اعجاز کی بات کی تصدیق کی اور اعجاز نے ایک اور سوال داغ دیا تھا۔

۔"کیا وہ میری طرح بھلکر تھا؟"اعجاز کی بات سن کر مشال نے اس کی جانب دیکھا تو اسکی آنکھوں میں نمی نمودار تھی۔

۔"نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بھلکر نہیں تھا لیکن اچانک اسکی یادداشت چلی گئی تھی اور پھر وہ ایک دن اپنے گھر سے فرار ہو گیا۔"مشال سیما افسردہ لہجے میں اعجاز کو فارس کے بارے میں بتا رہی تھی۔

۔"وہ گھر سے فرار ہو گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا؟"اعجاز نے پوچھا تو مشال سیما نے نفی میں سر ہلا دیا۔

۔"وہ واپس کیوں نہیں آیا؟ ۔ ۔ ۔ ۔"اعجاز احمد خالطی دھیمی آواز میں بڑبڑایا اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

دانیال اور سالار مغل بھی کیفے ٹیریا میں داخل ہو چکے تھے ۔ سالار نے اعجاز احمد خالطی اور مشال سیما کو ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر باتیں کرتے دیکھا تو اسے بہت ناگوار گزرا۔ وہ لمحہ بھر کے لیے رکا اور دانیال کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔

۔"تم اس بھلکر لڑکے سے دوستی کرو گے۔"سالار کی بات سن کر دانیال نے تابعداری میں سر ہلایا اور پھر وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔

اب قطب مشال اور اعجاز کی باتوں میں مخل ہو گئی۔ قطب کے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار دیکھ کر مشال سیما نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو قطب نے مشال کو یاد دلایا کہ اس نے ایک بار اسے بولا تھا کہ اب سالار مغل کو نیچا دکھانے کی باری اس کی ہے۔ قطب کی بات سن کر مشال سیما کے چہرے پر بھی مسکراہٹ کے آثار نمودار ہو گئے جبکہ اعجاز احمد خالطی بڑی معصومیت سے دونوں مسکراتی لڑکیوں کے چہروں کو دیکھ رہا تھا۔

☆☆☆☆

دو پونڈ کا کریم کیک سالار مغل کے سامنے پڑا تھا جبکہ اس کے اطراف میں مشال سیما ، دانیال ، اعجاز احمد خالطی اور سدرہ فرہین موجود تھی۔ کمپیٹیشن کی شرائط کے مطابق سالار مغل کو پانچ منٹوں میں دو پونڈ کا کریم کیک کھانا تھا ۔ اگر وہ یہ کیک پانچ منٹوں میں کھانے میں کامیاب ہو گیا تو مشال سیما کو اپنا نقاب ریموو کرنا پڑے گا اور اگر سالار مغل کامیاب نہ ہو سکا تو وہ مشال سیما کو پیرزادی کہنا چھوڑ دے گا۔ ٹائم نوٹ ہو چکا تھا اور سالار مغل نے کریم کیک کھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ انگلیوں کی مدد سے تیزی سے کیک کھا رہا تھا جبکہ اس کے اطراف میں موجود افراد اسے دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے جبکہ کسی کو خبر بھی نہیں تھی کہ قطب محتاط انداز میں دبے پاؤں سالار مغل کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس کی ہتھیلی پر کوکنگ کریم سے بھرا ہوا ایک بڑا سا باؤل تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سالار مغل پانچ منٹوں میں دو پونڈ کا کریم کیک کھا جائے گا اور مشال سیما کو اپنے چہرے سے نقاب ریموو کرنا پڑے گا لیکن اگلے ہی لمحے قطب نے سالار مغل کے سر پر کوکنگ کریم انڈیل دی۔ مشال سیما سمیت سالار کے اطراف میں موجود افراد حیرت زدہ ہو گئے اور حیرت کے مارے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے جبکہ قطب مسکرا رہی تھی۔ سالار مغل کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا ۔ وہ کرسی سے اٹھا اور قطب پر جھپٹا ہی تھا کہ مشال سیما سالار مغل اور قطب کے درمیان کھڑی ہو گئی۔

۔"سالار مغل! تمہاری ویڈیو ریکارڈنگ ہو رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔"مشال سیما سرد لہجے میں بولی تو قطب کی جانب اٹھتا ہوا سالار کا ہاتھ اب ہوا میں ساکن ہو چکا تھا۔

۔"سالار! ہمیں یہاں سے جانا چاہیے۔"دانیال اپنے رومال سے سالار کے بالوں کو صاف کرتے ہوئے سرگوشیانہ انداز میں بولا۔

سالار مغل اور دانیال دونوں کیفے ٹیریا سے باہر آ چکے تھے جبکہ سالار مغل اب بھی غصے سے تلملا رہا تھا ۔ دانیال اسے غصہ ضبط کرنے اور پرسکون ہونے کی تلقین کر رہا  تھا۔

۔"میں کیسے پرسکون ہو جاؤں؟ ، تم دیکھ نہیں رہے کہ کیسے وہ ہر بار مجھے نیچا دیکھانے کی کوشش کر رہی ہے ، وہ مجھے ان لڑکیوں کے سامنے ذلیل کر رہی ہے جنہیں میں کئی بار ذلیل کر چکا ہوں۔"سالار نے دانیال کو شعلہ بار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے غصیلے لہجے میں کہا اور پھر اس کی سماعتوں سے قطب کی چہچہاتی آواز ٹکڑائی تو قطب یوں گویا ہوئی تھی۔

۔"جب کھیل میں دھوکا دے کر جیت حاصل کی جائے تو ہارنے والے کو بھی رولز بدل کر جیتنا سیکھ لینا چاہیے۔"قطب نے طنزیہ انداز میں کہا اور  پھر مشال سیما اور سدرہ فرہین کے ہمراہ آگے بڑھ گئی جبکہ سالار مغل اب عقب سے ان تینوں کو غصیلی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔

☆☆☆☆

۔"اگر تم دوستی کا حق ادا کرنا ہی چاہتی ہو تو مجھے میرا حق دلا دو ، جب تمہارے بابا کو تمہاری اور فارس کی محبت کے بارے میں معلوم ہوا تھا تو انہوں نے فارس پر جو تشدد کیا تھا وہ شاید تم آج تک بھول نہیں پائی ہو گی تو پھر اپنے بابا کو مسند سے ہٹا کر تم فارس پر ہونے والے تشدد کا انتقام لے سکتی ہو اور مجھے میرا حق بھی دلا سکتی ہو ، کیا تم نے کبھی غور کیا ہے گلفام صاحب تمہارے بابا سے اپنی ہر بات منوا لیتے ہیں میرا خیال ہے تمہارے کہنے پر گلفام صاحب تمہارے بابا کو مسند چھوڑنے کے لیے قائل کر ہی لیں گے اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو مجھے میرا حق مل جائے گا اور تمہیں فارس پر ہونے والے تشدد کا بدلہ پورا ہونے پر تسکین مل جائے گی۔"مشال سیما کو نور بنت نذیر کی وہ باتیں یاد آ گئیں تھی جو گذشتہ رات نور بنت نذیر نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہی تھیں۔

مشال سیما اب سدرہ فرہین کے ساتھ لان میں موجود تھی اور سدرہ فرہین نے اپنی گفتگو کا آغاز ایک سوال سے کیا تھا۔

۔"مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ تم اپنی خوشی سے حجاب نہیں کرتی ہو؟"

۔"یہ درست ہے کہ میں اپنی خوشی سے حجاب نہیں کرتی لیکن اس ٹاپک پر ہم بعد میں کسی بھی وقت بحث کر لیں گے اور اب مجھے تم سے ایکدوسرے ٹاپک پر بات کرنی ہے۔"مشال سیما نے سدرہ فرہین کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا تو سدرہ فرہین نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

۔"مجھے پاورفل رینج والا بلیوٹوتھ مائیکرو مائیک درکار ہے۔ ۔ ۔ ۔"مشال سیما نے کہا اور بات ادھوری چھوڑ دی  تو سدرہ فرہین بے تکلفانہ انداز میں استفسار کرتے ہوئے بولی۔

۔"بلیوٹوتھ مائیک کا کیا کرو گی؟"مشال سیما جو کہ گھاس پر نگاہیں جمائے بیٹھی تھی سدرہ فرہین کی بات سن کر اسکی جانب متوجہ ہوئی۔

۔"کیا میں تم پر بھروسہ کر سکتی ہوں؟"مشال نے سدرہ کے سوال کا جواب سوال سے دیا تو سدرہ فرہین ہاں میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔

۔"جی بالکل ، تم مجھ پر مکمل بھروسہ کر سکتی ہو۔"

۔"کیا تم میرے رازوں کو راز رکھ پاؤ گی؟"مشال سیما نے ایک اور سوال داغا تو سدرہ فرہین نے ہاں میں سر ہلایا۔

۔"بچپن سے لے کر اب تک جب بھی میرے بابا نے مجھے کسی چیز سے منع کیا تو گلفام صاحب نے ہمیشہ میری مدد کی ۔ ۔ ۔ ۔"مشال سیما نے ایک بار پھر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔

۔"کیا مطلب؟ یہ گلفام صاحب کون ہے؟"سدرہ فرہین نے پوچھا۔

۔"مطلب یہ کہ میں نے جب بھی بابا سے کوئی بات منوانا ہوتی تو میں گلفام صاحب سے اپنا معاملہ بیان کرتی اور وہ بابا کو ہر بار قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اب میرا ایک معاملہ ہے جو میں گلفام صاحب کے سامنے رکھوں گی لیکن اس بار میں جاننا چاہتی ہوں کہ گلفام صاحب کس طرح بابا کو قائل کرتے ہیں۔"مشال سیما نے رطب اللسان بولتے ہوئے کہا تو مشال سیما کی بات سن کر سدرہ کچھ حیران ہوئی اور اسے مشال سیما کی باتوں پر تعجب بھی ہوا۔

۔"مطلب تم بلیوٹوتھ مائیکرو مائیک کے ذریعے اپنے بابا اور گلفام کی گفتگو سننا چاہتی ہو؟"سدرہ فرہین استفہامیہ انداز میں بولی تھی جبکہ مشال سیما نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

مشال سیما کے جانے کے بعد سالار مغل وہاں آ گیا تھا۔ اب اس کے  چہرے پر غصے کے آثار نمودار نہیں ہوئے تھے۔ اس نے سنجیدہ لہجے میں السلام علیکم کہا تو سدرہ فرہین اپنا حجاب درست کرتے ہوئے اسکی جانب متوجہ ہوئی اور پھر دھیمی آواز میں سلام کا جواب دیا۔

۔"میں اپنی غلطی درست کرنا چاہتا ہوں ، اگر تم حجاب کی تحریک دوبارہ شروع کرو تو میں تمہیں ہر طرح سے سپورٹ کروں گا۔"سالار مغل نے گھاس کے فرش پر بیٹھتے ہوئے کہا تو سدرہ فرہین جو کہ پہلے بیٹھی تھی اب وہ کھڑی ہو گئی تھی۔

۔"میری تحریک کو ناکام بنانے کے لیے تم نے قطب کو میرے خلاف استمعال کیا تھا اور اب مشال سیما سے اپنی ہار کا بدلہ لینا چاہتے ہو تو اس کے لیے تم مجھے مشال سیما کے خلاف استمعال کرنا چاہتے ہو۔"سدرہ نے کہا تو سالار لمحہ بھر کے لیے پریشان سا ہو گیا۔

۔"کچھ ٹھرکی دوستوں کے کہنے پر تمہاری حجاب والی تحریک کو ناکام کیا تھا کیونکہ وہ کلاس کی لڑکیوں کو ماڈرن لباس میں دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔"سالار مغل سدرہ کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بولا۔

۔"اوہ تو شہر کے مشہور بزنس مین کا بیٹا چند آوارہ اوباش ٹھڑکی لڑکوں کی چمچہ گیری کر رہا تھا۔"سدرہ فرہین طنزیہ انداز میں بولی تھی۔

۔"تم کچھ بھی بولو مجھے پرواہ نہیں ، میں اب تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔"سالار مغل دو ٹوک انداز میں بولا تھا۔

۔"امتحانات کے بعد میں پردہ داری مہم دوبارہ شروع کروں گی اور اس کے لیے مجھے تمہاری مدد درکار نہیں۔"سدرہ فرہین نے بارعب لہجے میں کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

۔"پیرزادی! جو کھیل تم میرے ساتھ کھیل رہی ہو وہی کھیل اب میں تمہارے ساتھ کھیلوں گا۔"سالار مغل نے سوچا اور پھر وہ بھی لان سے چلا گیا۔

☆☆☆☆

مشال سیما جیسے ہی یونیورسٹی سے واپس لوٹی تو اسے گلفام صاحب کا پیغام موصول ہوا تو وہ اپنا بیگ اور دیگر سامان ملازمہ کے حوالے کرنے کے بعد کتب خانے کی جانب چلی گئی جہاں پر گلفام کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا۔ مشال سیما کی آمد کا احساس ہوا تو گلفام نے وہ کتاب بند کر دی جس کا وہ مطالعہ کر رہا تھا اور اب وہ مشال سیما کی جانب متوجہ ہو چکا تھا۔

۔"مجھے بتایا گیا ہے کہ میری غیر موجودگی میں کل آپ یہاں میرے کتب خانے میں تشریف لائیں تھیں ۔ ۔ ۔ ۔"گلفام نے کہا اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا تو مشال معصوم سا منہ بناتے ہوئے استفہامیہ انداز میں گلفام سے مخاطب ہوئی تھی۔

۔"کیا آپ کی غیر موجودگی میں یہاں آنا منع ہے؟"گلفام نے نفی میں جواب دیا اور ساتھ ہی مشال سیما کو یہ بھی بتایا کہ اس نے کل تین چارٹس لکھے تھے اور ان میں سے ایک چارٹ غائب ہے۔ مشال سیما نے فوری طور پر بتا دیا کہ چارٹ نمبر دس کی عبارت اسے بہت پسند آئی تھی اس لیے وہ چارٹ نمبر دس لے گئی تھی۔

۔"چھوٹی سرکار!میں جو چارٹس لکھتا ہوں وہ اپنے دوستوں کی محفل میں لے جاتا ہوں اور جس دوست کو چارٹ پر لکھی عبارت پسند آ جائے تو وہ مطلوبہ چارٹ لے جاتا ہے اور پھر اگلے روز وہ ایک نیا چارٹ لکھ کر دوستوں کی محفل میں پیش کرتا ہے ، اب اصول کے مطابق آپکو بھی ایک چارٹ لکھنا پڑے گا۔"گلفام نے رطب اللسان بولتے ہوئے کہا۔

۔"چارٹ تو میں لکھ دوں گی لیکن پہلے آپ کو یہ بتانا پڑے گا کہ کل جب میں آپکو تلاش کر رہی تھی تب آپ کہاں تھے؟"مشال سیما نے سنجیدگی سے پوچھا۔

۔"چھوٹی سرکار! آپ پہلے چارٹ لکھ کر لے آئیں پھر میں آپ کو وہاں لے جاؤں گا جہاں میں کل گیا تھا۔"گلفام نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

۔"جی بہتر۔"مشال سیما نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا اور پھر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

☆☆☆☆

اے امان علی! تم نہیں سمجھ سکتے ، تم نہیں جان سکتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوہ امان علی تمہیں میری اذیت اور تکلیف کا کچھ اندازہ نہیں۔ میں تمہیں اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کرتی ہوں مگر ہر بار ناکام ہو جاتی ہوں لیکن تمہیں شاید معلوم ہی نہیں ہے کہ تمہاری محبت ہی میرے جینے کی وجہ ہے۔ تمہاری محبت میری رگوں میں خون کی طرح بہتی ہے۔ میری ہر سانس تمہاری محبت اور یادوں سے وابستہ ہے۔ میری ہر رات تمہارے ہی تصورات میں گزرتی ہے اور ہر صبح تمہاری محبت کی امین ہوتی ہے۔ تمہاری محبت میرے آس پاس تمہاری موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔

نور بنت نذیر کا پرانا خط جسے امان علی کئی بار پہلے بھی پڑھ چکا تھا لیکن آج جب اس نے خط ابھی آدھا ہی پڑھا تھا کہ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں۔

۔"کیا یہ الفاظ نور کے ہیں؟ کیا اسے اتنی ہی شدید محبت ہے مجھ سے جو اس نے اس خط میں بیان کی تھی؟"امان علی کے ذہن میں کئی سوال امڈے تھے۔

۔"بہت مکار عورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ خط میں پرانی محبت کو لکھتے وقت بھی میرا ناماستمعال کرتی ہے۔"امان علی سسکتے ہوئے بڑبڑایا تھا اور اگلے ہی لمحے نور بنت نذیر کا لکھا خط ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر فرش پر بکھرا پڑا تھا۔

☆☆☆☆

جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments