Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Umeed Ki Kiran | Episode 1 | By Haafi Baloch - Daily Novels

امید کی کرن

از قلم: حافی بلوچ

قسط 1

یہ داستان ہے ایک ایسی زہین لڑکی کی جو تعلیم کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔

یہ داستان ہے ایک ایسے لڑکے کی جس کو جوانی میں وقت اور حالات نے اپنوں سے دور کر دیا۔

یہ داستان ہے ایک ایسی بہادر لڑکی کی جو ہر کسی کے لیے امید کی کرن ثابت ہونا  چاہتی تھی۔

****************************************************

یہ بی ایس انگلش کی کلاس تھی سارے سٹوڈنٹس بینچوں پر بیٹھے پڑھائی میں مگن تھے آج ان کے زمے پریزنٹیشن تھا اس لیے روزانہ کی نسبت کلاس میں  کچھ زیادہ ہی خاموشی چھائی ہوئی تھی لیکن درمیان بیٹھا وہ شخص لاپرواہی سے موبائل پہ گیم کھیلنے میں مصروف

 

تھا۔کبھی تو سیریس ہوا کرو حیدر  آج ہمارے زمے پریزنٹیشن ہے اور تم ہو کہ صبح سے موبائل پہ لگے ہوئے ہو علی نے اسے خوب جھڑکا۔کیا ہو گیا ہے یار ایک پریزنٹیشن تو ہے کوئی آفت تھوڑی ہے تم مجھے سیریس ہونے کا کہہ رہے ہو حیدر نے اسے آنکھ دکھاتے ہوۓ کہا۔

 

سر احسن کے کلاس میں داخل ہوتے ہی سب سٹوڈنٹس  ادب سے کھڑے ہو گئے۔پاس بیٹھی انیلہ نے حیدر کو کہنی ماری وہ جلدی پینٹ میں موبائل ڈال کر کھڑا ہو گیا ہاں تو سٹوڈنٹس آج پریزنٹیشن ہے نا آپ لوگوں  کا  حاضری لینے کے بعد سر کلاس سے مخاطب ہوئے ۔  ہاں سحرش بیٹی آپ کو پریزنٹیشن یاد ہے سحرش فوراً بینچ سے اٹھ کھڑی

 

ہوئی ۔۔جی سر پریزنٹیشن یاد ہے سحرش نے ادب سے کہا۔آج ہماری پریزنٹیشن کا جو ٹاپک ہے وہ ہائپرٹینشن کے متعلق ہے۔ہم اپنے غصے کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں  سب سے پہلے تو ہمارے اندر برداشت ہونی چاہیے ۔ہم کسی بات کو مکمل طور پر جانچے بغیر اس پر عمل نہیں کرنا

 

چاہیے۔میں یہاں ایک واضح مثال دینا چاہتی ہوں اگر کوئی ہمارے بارے میں یہ کہہ دے کہ ہم برے ہیں تو یہاں غصہ کرنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ انسان ہر کسی کی نظروں کے سامنے اچھا نہیں ہوتا ۔ہمیں اپنے آپ پہ بھروسہ کرنا چاہیے اور ذرا سوچنا چاہیے کہ اگر

 

دوسروں کی کہی ہوئی باتیں یا خامیاں ہمارے اندر نہیں ہیں تو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ہم اچھے ہیں اور ہمارا کوئی نعملبدل نہیں سحرش بہت اچھے طریقے سے پریزنٹیشن دے رہی تھی پوری کلاس سحرش کی قابلیت کو داد دے رہی تھی لیکن حیدر کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔سحرش دوبارہ اپنی پریزنٹیشن کی طرف آئی ۔ان سب باتوں کا تعلق ہائپرٹینشن سے ہے اگر ہم

 

دوسروں کی کہی ہوئی باتوں کو برداشت ہونے کے قابل ہوں گے تو ہم غصے اور ٹینشن سے بچ سکتے ہیں ۔سحرش نے پریزنٹیشن مکمل کر لی اگر کسی کو ٹاپک کے متلعق کوئی سوال پوچھنا ہے تو آپ لوگ پوچھ سکتے ہیں

 

سحرش کلاس سے مخاطب ہوئی جی میرا ایک سوال ہے عادت کے مطابق حیدر نے ہاتھ اوپر اٹھایا ۔انسان یہ خوش فہمی میں کیوں ہوتا ہے؟ کہ دوسرا انسان اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے حیدر نے اپنی بات مکمل کی۔جی نہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہے اگر  ایک انسان پہلے ہی سے جانتا ہو  کہ دوسرے انسان کی نظر میں اس کی کیا اہمیت ہے وہ ایسے کسی سوچ میں نہیں پڑے گا یہ دنیا ایک پہیے کی

 

طرح ہے انسان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ یہی سوچتا رہے کہ کوئی اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے امید ہے آپ کو میری بات سمجھ آ گئی ہو گی سحرش نے چہرے پہ ہلکی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا اور   حیدر ہمیشہ کی طرح چپ کر کے بیٹھ گیا  ۔شاباش بیٹی آپ کی پریزنٹیشن بہت اچھی تھی اب آپ اپنی جگہ پہ بیٹھ جائیں  اور

 

مجھے فخر ہے  کہ میرے سٹوڈنٹس کے اندر اتنی قابلیت ہے سحرش اپنی بینچ پر آ کر بیٹھ گئی سب نے باری باری پریزنٹیشن دی ۔سٹوڈنٹس آج کے لیے یہی کافی ہے سر احسن کلاس کو اللّه حافظ کہہ کر چلے گئے۔

 

یار ویسے سحرش نے پریزنٹیشن اچھی طرح دی ہے علی نے حیدر کو چھیڑتے ہوئے کہا۔وہ اپنے کمرے سے باہر صحن میں آ چکے تھے ۔کیا ہے اپنے آپ کو اچھا ظاہر کرنے کے لیے ایسی باتیں کرتی ہے حیدر نے ہنستے ہوئے کہا۔اچھا نا چھوڑو یار اس کو مجھے بھوک لگی ہے کینٹین چلتے ہیں۔انیلہ نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔نہیں تم دونوں چلو میں ابھی لائبریری ہو کر آتا ہوں حیدر انیلہ سے مخاطب ہوا۔اور وہ دونوں کینٹین کی جانب چل دیے۔

 

حیدر لائبریری میں پہنچا تو سحرش بھی پہلے سے وہاں کھڑی کچھ کتابیں دیکھ رہی تھی۔ویسے باتیں بڑی کر لیتی ہیں آپ حیدر نے سحرش کے قریب جا کر کہا۔کونسی باتیں سحرش نے سوالیہ نظروں  سے حیدر کی جانب دیکھا۔پریزنٹیشن جو دی ہے آپ نے حیدر نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ہاں تو اس میں برا کیا میرے زمے جو ٹاپک تھا مجھے

 

وہی پریزنٹ کرنا تھا سحرش نے جوابا کہا۔ویسے ایک بات

کہوں آپ مجھے پاگل لگتے ہیں سحرش نے اس بار ہنستے ہوئے کہا۔انسلٹ کر رہی ہیں میری حیدر نے غصے سے کہا۔آپ نے سوال ہی ایسے کیا تھا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ  ایسی چیپ سوال کر سکتے  ہیں سحرش نے اسے کھری سنا دی اور جو آپ دوسروں کے سامنے اچھا بننے کا ناٹک کرتی ہیں وہ آپ کو دکھائی نہیں دیتا حیدر نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ میں نے تو کبھی ایسے نہیں سوچا  آپ جیسے سمجھیں مجھے  کوئی فرق نہیں پڑتا  اور  ہاں آج تو ہماری کلاس کا فائنل میچ بھی ہے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ والوں کے ساتھ کپتان صاحب سوال تو آپ بڑے بڑے کرلیتے  ہیں دیکھتے ہیں کسی کو جواب بھی دیں سکیں گے یا نہیں سحرش نے اپنی بات مکمل کی ۔آپ کو کیا لگتا ہے میں ہار جاؤں گا حیدر نے غرور سے کہا وہ تو کرکٹ کے میدان میں میں ہی پتہ چلے گا سحرش ذرا سا مسکرائی اور لائبریری میں سے ایک کتاب اٹھا کر باہر چلی گئی جبکہ حیدر اسے غصے سے کھڑا گھورتا رہا ۔ حیدر اور سحرش دونوں کلاس کے ٹاپر تھے ہمیشہ ہر بات پہ ان کی لڑائی شروع ہو جاتی تھی۔حیدر اسے نیچا دکھانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتا تھا جبکہ  وہ سحرش ہی کیا جو کسی سے ہار جائے وہ ہمیشہ حیدر سے ایک قدم آگے چلتی تھی۔

******************

دس سالہ فاطمہ اپنے گاؤں کے زہین لڑکیوں میں سے ایک تھی۔وہ اپنے گاؤں کے سرکاری اسکول میں آٹھویں کلاس میں پڑھ رہی تھی لیکن کبھی کبھی وہ میم سے ایسے سوال کرتی تھی خود میم بھی حیران رہ جاتی تھی۔آج بھی جب میم سدرہ انھیں پڑھا رہی تھیں تو روزانہ کی طرح سوال و جوابات کی سلسلہ شروع ہو گیا۔میم انسان اپنی زندگی کے اتنے سال گزارنے کے باوجود ہمیشہ ایسے

 

کیوں کہتا ہے کہ مجھے یہ کام کرنا چاہیے تھا ہمیشہ کی طرح فاطمہ کے سوال نے میم سدرہ کو حیران کر دیا۔دیکھو بیٹی ایسی باتیں صرف وہی انسان کرتا ہے جس کی زندگی میں کچھ کرنے کا جذبہ نہ ہو جس کے سامنے وقت کی اہمیت نہ ہو اب میں آپ کو ایک مثال دیتی ہوں ایک انسان صبح اٹھ کر موبائل دیکھنے لگ جاتا ہے وہ اپنے موبائل میں ایسے کھو جاتا ہے اسے یہ پتہ نہیں چلتا کہ کب وقت اس کے ہاتھ سے نکل  جاتا ہے اس دوران اس کے پورے کام اور جو دن بھر میں نماز پڑھنا ہوتا ہے وہ رہ جاتے ہیں۔اب ایسے انسانوں کو  پچھتاوے کے سوا اور کچھ نہیں ملتا پوری کلاس میم سدرہ کو توجہ سے سن رہی تھی۔میم اس کا

 

مطلب زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے وقت کی پابندی ضروری ہے فاطمہ نے معصومیت سے کہا۔جی بلکل  بیٹی امید ہے آپ کو میری بات سمجھ آ گئی ہو گی میم سدرہ نے پیار سے کہا فاطمہ نے اثبات میں سر ہلایا۔میم سدرہ فاطمہ کو بہت پسند کرتی تھی فاطمہ بھی کبھی کبھی میم سے ایسی باتیں کرتی تھی جیسے وہ اپنی امی سے باتیں کر رہی ہو۔آج فاطمہ بہت خوش تھی کیوں کہ آج اسے زندگی کا ایک اور سبق مل گیا تھا۔

*********

علی اس وقت اپنے ہوسٹل کے  کمرے میں لیپ ٹاپ پہ مووی دیکھ رہا تھا ۔یار علی آج تو نے کرکٹ کھیلنے نہیں چلنا کیا حیدر اپنے ہاتھ میں بلا  اٹھائے علی کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا ہاں یار چلتے ہیں علی نے اٹھتے ہوئے کہا۔ویسے خیریت ہے آج بڑے پر جوش لگ رہے ہو اچھا اب یاد آیا آج تجھے سحرش نے چیلنج کیا ہے علی نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔یار فضول باتیں نہ کرو چلتے ہیں دیر ہو رہی ہے حیدر نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا۔ حیدر انگلش ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم کا کپتان تھا اس لیے وہ وقت سے پہلے وہاں پہنچنے چاہتا تھا آج ان کا فائنل میچ تھا اور حیدر کسی بھی صورت میں میچ جیتنا چاہتا تھا۔

 

حیدر سٹیڈیم پہنچا تو اس کی  کلاس میں سے بڑی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں میچ دیکھنے آئی ہوئی تھیں اور اسے ایک طرف سحرش رمشا کے ساتھ بیٹھی  ہوئی دکھائی دی ۔ حیدر آج تم نے میچ جیتنا ہے انیلہ حیدر کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔بس تم دیکھنا میں کیا کرتا ہوں حیدر نے اسے غرور سے کہا اور وہ سٹیڈیم کے اندر چل دیا جہاں لڑکے اس کا انتظار کر رہے تھے۔مخالف ٹیم (کمیسٹری ڈیپارٹمنٹ )  والوں نے پہلے بیٹنگ کا آغاز کیا اور آدھے گھنٹے تک کھیلتی رہے  اب حیدر کی ٹیم کی باری تھی وہ اپنی ٹیم کی اچھی طرح حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ان سے

 

دور کچھ فاصلے پر بینچ پہ بیٹھا وہ چالیس سالہ شخص غور سے حیدر کی ہر سرگرمی کو پورے غور سے دیکھ رہا تھا۔حیدر جب بھی یہاں کھیلنے آتا تھا وہ اس شخص کو اسی جگہ بیٹھتے پاتا تھا۔آج بھی حیدر نے ادھر نگاہ دوڑائی  تو اس شخص کو وہاں بیٹھے دیکھ کر حیدر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔پتہ نہیں کیوں حیدر اس شخص کو دیکھ کر ہمیشہ چڑ جاتا تھا۔حیدر نے مونہہ آگے کی طرف پھیرا اور بیٹنگ کے لیے خود کو تیار کرنے لگا۔مخالف ٹیم نے چھے اوور میں ایک سو پانچ سکور بنائے تھے یہ میچ حیدر کے لیے ایک چیلنج بن چکا تھا کچھ دیر تک وہ کھیلتے رہے اب پانچ بال میں حیدر کو چار سکور بنانے تھے ۔حیدر احتیاط سے کھیل رہا تھا۔پہلی گیند مس ہو گئی جبکہ دوسری گیند پہ صرف ایک سکور بن گیا۔میچ کافی دل چسپ بن چکا تھا اب تین بال میں تین سکور

 

بنانے تھے۔علی اور انیلہ پرجوش سے حیدر کو کھیلتے دیکھ رہے تھے۔لیکن انھیں پتہ نہیں تھا آج ہار حیدر کی قسمت میں لکھا ہوا تھا۔تمہیں کیا لگتا ہے سحرش ہم جیت جائیں گے رمشا اس سے مخاطب ہوئی ۔پہلے تھوڑی سی  امید تھی جیت جانے کی لیکن جس نے حیدر کو میچ جیتنے کے لئے کہا اب تو پکا کنفرم ہو گیا ہے ہم جیت نہیں سکتے۔سحرش نے ہنستے ہوئے کہا۔رمشا جانتی تھی

 

سحرش انیلہ کے بارے میں کہہ رہی تھی ۔جیلس ہو رہی ہو رمشا نے اسے چونکا دیا ۔ہاہاہا میں بھلا کیوں جیلس ہوں گی وہ بھی انیلہ سے سحرش نے جواباً کہا اچھا چھوڑو میچ دیکھتے ہیں رمشا نے دوبارہ  اس کی توجہ میچ کی جانب دلائی اگلے تین بال ایسے مس ہوگئے  حیدر کو پتہ بھی نہیں چلا اس کے  چہرے سے پسینہ چھوٹ رہا تھا وہ اب میچ ہار چکا تھا اور سٹیڈیم کے باہر آ گیا جہاں علی اور انیلہ دونوں کھڑے ہوئے تھے ۔جبکہ کمیسٹری ڈیپارٹمنٹ والے جیتنے کی خوشی میں اچھل کود رہے تھے ۔بیٹا اگر اپنی قابلیت میں غرور کرو گے تو تم کبھی نہیں جیت پاؤ گے اس وقت بولنے والا وہ چالیس سالہ شخص تھا جو ان کے کچھ فاصلے پر کرسی پہ  بیٹھا ہوا تھا۔حیدر نے غصے سے اس شخص کی طرف دیکھا اور

 

وہاں سے چل دیا۔بہت اچھا کھیل لیتے ہیں آپ سحرش نے حیدر کے قریب آ کر کہا حیدر کے ساتھ مذاق کرنے کا یہ اچھا موقع تھا ۔ حیدر جانتا تھا سحرش اس کے مذاق کر رہی ہے اس لیے اس وقت کچھ کہنے کی بجائے ماحول کو  ٹھنڈا رکھا چھوٹے لوگ ہمیشہ چھوٹی باتیں ہی کرتے ہیں کچھ کرنا آتا نہیں اور اچھی طرح حوصلہ افزائی بھی نہیں کر سکتے اس بار انیلہ  نے آنکھ دکھاتے ہوئے کہا۔اررے واہ کچھ لوگوں کی تو  عادت ہوتی ہے ہر کسی کی باتوں میں ٹانگ اڑانے کی  سحرش نے جواباً کہا انیلہ غصے سے  سحرش کی جانب بڑھنے لگی کہ حیدر نے فورا اسے روک لیا اور علی سمیت وہ تینوں  وہاں سے چلے گئے ۔

*******************

سحرش اس وقت عصر کی نماز پڑھ کر کمرے سے باہر آئی جبھی ماسٹر صاحب بھی گھر میں داخل ہوئے اور آگے بڑھ کر چیئر پہ بیٹھ گئے۔سحرش نے آگے بڑھ کر پانی کا گلاس ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔بیٹی تم نے نماز تو پڑھ لی ہے نا ماسٹر صاحب نے پیار سے پوچھا جی بابا سحرش نے اثبات میں سر ہلایا اور خود بھی چیئر پہ بیٹھ گئی۔بابا آج کلاس  میرا پریزنٹیشن تھا سحرش نے مسکراتے ہوئے کہا ماشاءالله بیٹی پھر کیا ہوا سحرش نے پریزنٹیشن کے بارے میں انھیں سب کچھ تفصیل سے بتا دیا۔ دیکھو بیٹی پڑھائی بھی ایک ذمہ داری ہی ہے اگر انسان وقت پر ذمہ داری مکمل کرے تو انسان اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔تم نے محنت کی ہے اس لیے تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی ہو ماسٹر صاحب نے پیار سے کہا۔بیٹی ہمیشہ محنت کرتی رہو اللّه پاک کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔سحرش ہمیشہ کی طرح اپنے بابا کی باتیں سن کر لاجواب ہو گئی۔

Post a Comment

0 Comments