Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Binte Kashmir By Bismah Malick

 



 


 

 

 

 

 


بنت کشمیر

از بسمہ ملک کے قلم سے

اردو ورچوئل پبلشرز

اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

بنت کشمیر

از بسمہ ملک

وطن کی آزادی کے لیے آج تک جتنی تحریکیں چلی ہیں ان میں مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی حصہ لے کر اپنی بہادری کے جوہر دکھاۓ ہیں آج کی کہانی مقبوضہ کشمیر کی ایک نڈر کشمالہ حیات کی ہے جس نے بنت کشمیر ہونے کا حق ادا کر دیا، وطن کی محبت اسے ورثے میں ملی تھی اس کے دادا محمد مشتاق حیات ، بابا سکندرحیات ، بھائی شہروز حیات ، نانا محمد عزیر اور ماموں شہوار حسن کشمیر کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے تھے ۔ بہادر کشمالہ پانچ فٹ چھ انچ لمبی، نازک کلائیاں ، پتلی کمر ، چوڑی پیشانی ، باریک بھنویں ،موٹی بڑی بڑی آنکھیں، کمر تک لمبے گھنے بال اور گورا رنگ جذبہ ایثار سے لبریز تیئس سالہ دوشیزہ ایم فل کیمسٹری کی طالبہ تھی ضلع پونچھ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھتی تھی گھر یونیورسٹی کے قریب تھی جہاں وہ اپنی  ماں کلثوم حیات کے ساتھ رہتی تھی مقبوضہ کشمیر کا یہ علاقہ پارہ چنار ، سری نگر اور پلوامہ سے محفوظ تھا جہاں دشمن فوجی کم کم ہی آتے تھے ایک دن یونیورسٹی سے واپسی پر ایک فوجی گاڑی نے اس کی سہیلیوں آسیہ اور ماہ پارہ سمیت روک لیا کچھ پوچھ تاچھ کر کے چھوڑ دیا کشمالہ خوفزدہ بالکل بھی نہیں ہوئی بلکہ غصہ ہوئی کہ ہمارے اپنے ہی وطن میں ہم پر پابندیاں ہیں آزادی سے کہیں آ جا نہیں سکتے خیر یوں ہی دن گذرتے گۓ پونچھ میں فوجی دستوں کا آنا جانا زیادہ ہو گیا آۓ دن معصوم لوگوں کو ٹھٹھرتی سردی میں سڑک پر کھڑا کر لیتے اور آتن وادی( مجاہدین ) کے بارے میں پوچھتے کبھی گھروں کے دروازے توڑ کر نہتے شہریوں کو ظلم کا نشانہ بناتے یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اب علاقے میں کرفیو لگنے لگ گۓ کاروبارے زندگی مفلوج ہو گئی تعلیمی ادارے بند رہنے سے طلباء کا تعلیمی سلسلہ رک گیا تب کشمالہ نے اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ مل کر تنظیم بنائی جس کا منشور دشمنوں کو اپنے علاقے سے خالی کروانا تھا سیاہ برقعے میں لپٹی کشمالہ اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ شہر کے چوک میں پہاڑی چوٹی پر کھڑے ہو کراتنے جوش سے آزادی کے نعرے لگاتی تقریریں کرتی سارا علاقہ اس کی آواز سے گونچ اٹھتا

زندہ  ہے  پر  مانگ  رہی ہ ے جینے کی آزادی

دیو کے جنگل میں شہزادی یہ کشمیر کی وادی

کشمالہ اور اس کی تنظیم کا دشمنوں کا پتہ چل گیا اب کشمالہ اور اس کی ساتھیوں کا اس شہر میں رہنا کسی خطرے سے خالی نہ تھا وہ کسی بھی وقت دشمن کی گولی کا نشانہ بن سکتی تھیں ۔کشمالہ سمیت اس کی تنظیم کی سب لڑکیوں نے میٹنگ کی اور محفوظ مقام پر جانے کا منصوبہ بنایا لیکن کشمالہ کی دوستوں کو ان کے گھر والوں نے گھر سے باہر جانے پر پابندی لگادی وہ وطن کی آزادی کے لیے لڑنا تو چاہتی تھیں لیکن مجبور ہو گئیں اصل میں وہ سب والدین سے چھپ کر تنظیم کے لیے کام کر رہی تھیں جب والدین کو پتہ چلا تو انہوں نے حفاظت کے پیش نظر اہنی بیٹیوں کو دوسرے شہر رشتے داروں کے ہاں بھیج دیا اب کشمالہ اکیلی رہ گئی وہ گھبرائی نہیں جلدی سے اپنے بھائی شہروز حیات کی خفیہ ڈائری ڈھونڈی جس میں اس مجاہد تنظیم کا پتہ لکھا تھا جس کا وہ حصہ رہ چکا تھا ڈائری میں پتے کے ساتھ موبائل نمبر بھی درج تھا اس نے وہ نمبر ڈائل کیا نامعلوم نمبر دیکھ کر شاید کوئی اٹھا نہیں رہا تھا چوتھی بار کال ملانے پر کال اٹینڈ ہوئی تو دوسری طرف سے ایک تیس سالہ نوجوان کی بارعب آواز نے کشمالہ سے کال کرنے کا مقصد پوچھا تو اس نے اپنے بابا اور بھائی کا حوالہ دیتے ہوۓ بتایا کہ وہ بھی وطن کی آزادی کے لیے اس جنگ میں شامل ہونا چاہتی ہے یہاں خطرے میں ہے دوسری طرف سے اسی بارعب آواز نے کہا میں مجاہد مزمل شاہ بات کر رہا ہوں پونچھ سے باہر جنگل کے پاس آجائیں وہاں ہمارا آدمی آپ کو ملے گا جو آگے ہم تک لے آۓ گا کال کے بند ہوتے ہی اس نے ماں کو ساتھ لیا اور جنگل کے باہر پہنچ گئی جہاں مزمل شاہ اس کا انتظار کر رہا تھا حیات خاندان کی اس آخری چشم و چراغ کو مزمل شاہ نے اپنی فورس میں شامل کر لیا دو ہفتوں کی سخت ٹرینگ کے بعد کشمالہ مجاہدہ بن گئی ۔ راتوں کے گھپ اندھیرے میں مرد مجاہد کی طرح جاتی اور کئی دشمنوں کو جہنم واصل کر کے آتی مزمل شاہ اس کے جذبہ حریت کو دیکھ کر ماشاءاللہ کہتے اور شاباش دیتے ، ادھر دشمن کے فوجی شہر پونچھ میں جگہ جگہ چھاپے مار کر اس کو تلاش کرتا پھر رہا تھا ان کو کشمالہ تو نہ ملی لیکن اس کی دو سہیلیاں آسیہ اور ماہ پارہ مل گئیں وہ ان سے کشمالہ کا پتہ پوچھنے کے لیے اپنی چوکی لے گۓ وہ نہیں جانتی تھیں کہ کشمالہ کہاں ہے انہوں نے ان کو بھی یہی بتایا پر وہ نہیں مانے انہوں نے دونوں صنف نازک پر ظلم کرنا شروع کر دیۓ کبھی بالوں سے نوچا کبھی منہ پر تھپڑ لگاۓ ،  کبھی ٹانگوں اور کمر پر ڈنڈے برساۓ ہر بار ایک ہی جواب کہ نہیں پتہ سننے پر ان کو آخری دھمکی دی کہ اب بھی نہ بتایا تو تم سے زبردستی کی جاۓ گی اب بھی ان کا جواب نہیں پتہ سن کر طیش میں آگۓ اور ان کی عصمتوں کو تار تار کر کے بازو اور ٹانگیں توڑ کے گولی ماری پھر پہاڑ سے دھکا دے دیا وہ لڑھکتی ہوئیں اس جنگل کے پاس جا کر گریں جہاں کشمالہ چھپی ہوئی تھی وہ وطن کی آزادی کے لیے اپنی عصمت کے ساتھ ساتھ جان بھی قربان کر چکیں تھیں ، کسی مجاہد نے کشمالہ کو جا کر خبر دی کہ جنگل سے باہر دو لڑکیوں کی لاشیں ملی ہیں جو بری طرح زخمی ہیں کشمالہ فوراً بھاگی دیکھا تو اس کی سہیلیاں تھیں وہ غم سے نڈھال سکتٌے میں آگئی ماں نے جھنجھوڑا کر سکٌتہ توڑا وہ چیخ کر اتنا زور سے روئی کہ لگتا تھا  ساری وادی بھی اس کے ساتھ رو رہی ہے ، مزمل شاہ نے ان کی لاشوں کو ان کے گھروں تک پہنچایا اور کشمالہ کو حوصلہ دیا کہ آسیہ اور ماہ پارہ بہن شہید ہوئی ہیں شہیدوں کے لیے رویا نہیں جاتا یہ سن کر کشمالہ چپ ہو گئی اب وہ دشمن سے بدلہ لینے کے لیے تیاری کرنے لگی اگلے دن اس نے بہت سا بارود اپنے نازک پتلیوں جیسے جسم کے ساتھ باندھا سیاہ برقعہ پہنا نقاب سے منہ چھپایا، کلاشنکوف  اٹھائی اور سیدھا دشمن کی چوکی پر پہنچ گئی پہرے پر کھڑے فوجیوں نے چوکی کے اندر جانے سے روکنا چاہا لیکن اس کے جوش اور ولولے کے سامنے ڈھیر ہو گۓ وہ اس آفس میں گئی جہاں انتیس سالہ کمانڈر رمیش ، پچیس سالہ میجر جگ موہن اور ستائس سالہ میجر رتن بیٹھے کشمیر میں لگی فوجی چھاونیوں کے نقشوں پر بات کر رہے تھے کشمالہ نے گرجدار آواز کے ساتھ کہا ہاں بولو کشمالہ کو ڈھونڈ رہے تھے میں ہوں کشمالہ مجھے مارنا چاہتے تھے میری معصوم اور نہتی سہیلیوں کو کیوں مارا انہوں نے تم لوگوں کا کیا بگاڑا تھا میجر رتن چیخا اور بولا اس کو اندر کس نے آنے دیا جلدی سے اپنی گولیوں سے بھری پستول نکالی اس سے پہلے کہ وہ کشمالہ پر گولی چلاتا کشمالہ نے اس کو اپنی کلاشنکوف سے گولیاں برسا کر اسے ڈھیر کر دیا اتنے میں میجر جگ موہن اس کی طرف اس کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھا  کہ کشمالہ نے اس پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی باہر کھڑے پہرہ دینے والے فوجیوں سے کہا وہیں رک جاؤ نہیں تو تم بھی اپنی جان سے جاؤ گے ۔ کمانڈر رمیش چپ کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں رہا تھا وہ کشمالہ کی بہادری پر فریفتہ ہو چکا تھا سوچ میں ڈوب گیا تھا کہ اتنی حسین لڑکی کو کسی کے دل کی ملکہ ہونا چاہیے تھا کاش میں اس کو حاصل کر سکتا انہی سوچوں میں گم تھا کہ کشمالہ نے گرجدار آواز میں اس کو پکارا کمانڈر کیا سوچ رہے ہو میرے سوالوں کا جواب دو کمانڈر مخاطب ہوا اور جھٹ سے دل کی بات کہہ دی   اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھا کشمالہ نے اپنی گرجدار غصے والی آواز میں کہا تم غیر مذیب میری سہیلیوں کے میرے وطن کے دشمن تم نے میرے بارے میں ایسا سوچ بھی کیسے لیا تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے نزدیک مت آنا ورنہ بھون کے رکھ دوں گی کمانڈر رتن اپنے ہوش کھو بیٹھا تھا اس کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا اس نے کشمالہ کی طرف ہاتھ بڑھایا کشمالہ وطن کی آزادی کا خواب لیے خود کو بارود سے اڑا لیا اور کمانڈر سمیت دوسرے فوجیوں کو بھی ختم کر دیا ۔ وہ وطن کو تو آزاد نہیں کرا سکی تھی لیکن اپنی سہیلیوں کا بدلہ لے چکی تھی ۔۔

ختم شدا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments