Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan | Episode 1 | By Gohar Arshad - Daily Novels

  

 


عشق یزداں

گوہرارشد کے قلم سے

قسط1

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 


عشق یزداں


 


رونے کی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی۔

کافی ڈر کے میرے اندر ہونے کا مجھے احساس آج پہلی بار ہوا۔

کمرے کا دروازہ بند۔۔۔۔کھڑکیاں بند لیکن ہاں!اک کھڑکی کھلی تھی-

اور رات کی تیز ہوا موسم کی کسی طوفانی بارش کی نوید دے رہی تھی۔

ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔

ہلکی سے ہلکی آواز بھی خاصی اونچی سنائی دیتی تھی۔روشنی بند کر کے سونا میرا معمول تھا۔

روشنی سے مجھے اک عجب سی قسم کی نفرت تھی،لوگوں کو عموما دن کا اجالا پسند ہوتا ہے۔

اور اک میں ہوں۔"مجھے اجالوں سے نفرت ہے،نفرت ہونے کی وجہ یہ ہے۔۔۔

کہ اجالا کسی بھی چیز کو راز نہیں رہنا دیتا۔۔۔خواہ وہ آپ کا چہرا ہو،عبادت ہو،اشک و خلوص ہو یا کہ محبت۔۔۔۔،

اور اندھیرے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ آپ کے رازوں کو چھپا لیتا ہے۔۔خواہ وہ آپ کے اشک ہوں،خلوص و محبت ہو یا کہ اذیت۔۔۔۔روشنیوں میں سننے والے بہت ہوتے ہیں۔مگر دوا والا کوئی نہیں ہوتا۔

مرہم والا کوئی نہیں ہوتا۔۔۔لیکن اندھیرا خود،دوا اور مرہم ہے،یہ آپ کو ہجر و فراق کا احساس نہیں ہونے دیتا"۔

شاید یہی وجہ ہے کہ تاریکی ہماری زندگی کی اولین ترجیح رہی ہے؟؟

ہوا کی تیز سنساہٹ سے کمرے میں موجود پردے ہوا کے زور کی وجہ سے یوں جھول رہے تھے۔

جیسے کسی صحرا میں راک،جیسے سمندر کی لہر بھنور،جیسے کسی جنگل میں پتے۔

میں نے بستر سے لیٹے لیٹے فون اٹھایا اور وقت دیکھا۔۔

تو رات کے دو بجے تھے،آسمانی بجلی کی ہلکی ہلکی شعاعیں واقفے واقفے سے کمرے میں آ رہا تھا،

کچھ سیکنڈ کے لیے کمرے میں روشن کرتی پھر واپس پلٹ جاتی،

دوسرے کمرے سے ہچکیاوں کی آوازیں آہستہ آہستہ تیز ہوتی جا رہی تھی،

ساتھ میں کی جانے والی دعا کی کچھ آواز بار بار میری سماعت سے ٹکرار رہی تھی۔

وہ کچھ یوں تھی---"یااللہ پاک میں  تیری عاجز و مسکین بندی ہر قسم کے شیطانی عمل سے پناہ مانگتی ہوں

اے میرے رب عرش و فرش کے مالک صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔

یا میرے رب اس کی حفاظت فرما۔

اس کو ہر برا کام سے بچنے اور ہر اچھا عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔

یا میرے پروردگار قبول فرما۔

۔۔۔یا میرے جسم و جاں میرے سانس کے مالک میری دعا اس کے حق میں قبول فرما۔

یہ کہنے کے بعد دو منٹ تک لگاتار پھوٹ پھوٹ کر رونا ایسے جیسے کوئی بچہ میلے میں اپنی ماں کو کھو کر  روتا ہے۔اتنا خلوص و محبت کے بیان کرتے ہوئے الفاظ کم پڑ جائے۔

پھر سانس کی الجھن کو دور کرتے ہوئے

یا میرے ملک و مختار اے کریم رب اپنے حبیب جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ سلم کی نسبت سے میں گناہ گار بندی پر رحم کرم فرما،میرے گناہوں کو بخش دے۔ بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے

یا میرے پروردگار اس کی ہر موڑ پہ حفاظت فرما۔۔اس کی زندگی کے تمام مشکل مراحل کو آسان فرما۔

اس کو زندگی کی تمام تر خوشیاں نصیب فرما۔

یا باری تعالی اس کو راہ راست پر چلنے کی توفیق دے

آمین۔

دعا کا اختتام بھی آنسوؤں کی بہتی لڑی سے ہوا۔میں ان کے سامنے موجود تو نہ تھا۔لیکن پھر بھی بعض چیزیں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ان کا اخلاص و محبت محسوس کرنے کے لائق تھا۔

اور ساتھ میں ان کا تعلق رب کی ذات سے اتنا مظبوط تھا۔

کہ رب کا شکر ہر حال میں بجا لانا ان کا معمول تھا۔ورنہ ہمارے ہاں تو اکثر اوقات دیکھنے کو یہ ملتا ہے۔بہت سے انسان اللہ تعالی کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں کو چھوڑ کر ذرا ذرا سی بات پر گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔مثال کے طور پر اک انسان کے پاس 25 لاکھ کی کار ہے تو اس کا شکر ادا نہیں کرے گا۔وہ اس میں اپنی محنت۔ اپنا کمال سمجھ رہا ہوتا ہے۔جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔یہ سب اللہ رب العزت کی عطا ہے۔وہ جس کو چاہتا ہے۔دیتا ہے۔اور جس کو چاہتا ہے عطا نہیں کرتا۔تو بات گاڑی کی ہو رہی تھی۔اب ہوتا کیا ہے؟؟

25 لاکھ والی گاڑی کا کبھی شکر ادا نہیں کیا۔لیکن اک دن اچانک کہیں جاتے ہوئے پٹرول ختم ہو گیا۔اس کے بعد شکوئے شکایت شروع۔۔۔۔۔طرح طرح کی باتیں مثلاً

اس ملک کے حالات ہی نہیں ہیں؟بہت دو نمبر لوگ ہیں

کر پشن کرتے ہیں پٹرول پورا نہیں ڈالتے؟؟

یہ ساری مصیبتں اللہ نے میرے لیے رکھی ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔اور سارا کچھ ہونے کی وجہ انسان کی اپنی سستی کا نتیجہ ہے۔لیکن ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی خرابی خود کے اندر موجود ہعتی ہے۔اور ہم آدھے سے زیادہ وقت دوسروں کی اصلاح میں گزار دیتے ہیں۔

آپی کا یہ معمول مجھ بذات خود بہت پسند تھا۔وہ بلند آواز کے ساتھ  یااللہ تیرا شکرا۔۔یااللہ تیرا شکر ۔۔۔یااللہ تیرا شکر کا ہر نماز کے بعد تین بار ورد ضرور کرتی تھی۔

۔پرندوں کی ہلکی ہلکی آواز آنا شروع ہوگئی،

بارش شروع ہوئی۔لیکن زیادہ شدت سے نہیں،

ان بوندوں زمیں پر پڑنے کی آواز میں الگ سی کشش تھی۔ٹپ ٹپ کی آواز

سچ میں میں نے اس دن سے پہلے کبھی اتنے غور سے بارش کے قطروں کی آوازوں کو نہ سنا تھا۔موسم کی ٹھنڈی ہوا کا لطف ہی کچھ اور تھا۔میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ آج شفق آپی سے صبح سے ضرور پوچھوں گا کہ آپی ایسا کون خوش نصیب ہے جس کے لیے آپ رات کو دو بجے دعا کر رہی ہوتی ہیں۔ایسی کیا خاص بات ہے اس میں۔

شفق میرے ابو کے دوست کی بیٹی تھی،لیکن وہ میرے لیے محترم،معزز اور قابلے رشک۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان سے مجھے زندگی میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا،

وہ میری بڑی آپی اور اچھی دوست  تھی،

ان کی باتوں میں عجب قسم کا طلسم تھا،ان کے الفاظ سنتے یہ اندازہ کرنا مشکل ہوتا تھا۔

کہ وہ بول رہی ہیں۔۔۔۔یہ احساس ہوتا تھا کہ کوئی اور بات کر رہا ہے.

ان کا ہر اک انداز نرالا اور وکھرا تھا،

ہر اک بات میں اک اور بات تھی،

میرا نام عا صم ہے۔۔

میری عمر بیس سال تھی

اور آپی کی عمر تیس سے زیادہ ہو گی

لیکن ان کی باتوں میں اتنا وزن اور تاثیر تھی

کہ سننے والا دنگ رہ جاتا تھا۔میں ویسے بھی جاگ رہا تھا فجر کی اذان مجھے سنائی دی،

فورا اٹھا اٹھ کر وضو کیا اور نماز شروع کر دی۔۔۔۔اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان تھا

کہ پانچوں وقت نماز باقاعدگی سے ادا کرتا تھا،تلاوت قرآن پاک ہر صبح کا معمول تھا

،نماز سے فروغ ہو کر قریب اک پہاڑ کی چوٹی پر جا کر بیٹھ جاتا۔۔۔او سوری!آپ کو بتانا بھول گیا

کہ ہمارا مکان شہر سے دور پہاڑوں اور جنگلوں کے درمیان واقع تھا،

شہر سے ہماری گھر تک گاڑی میں ایک گھنٹہ لگ جاتا تھا،

اور ہمارے گھر کے دو کلو میڑ کے فیصلہ تک چاروں طرف کوئی مکان نہ تھا۔

میں اکیلا بھائی تھا،شفق آپی کے آنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی تھی،ان دنوں میں کالج جاتا تھا۔۔

۔ابو شہر کے اندر اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ احسان تھا کہ زندگی بہت خوش گوار گزار رہی تھی۔شفق آپی کو امی اور ابو دونوں ہی بہت پیار کرتے تھے۔میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر پرندوں کی اللہ تعالی حمد و ثناء کو سناتا۔۔۔ان کا ادھر ادھر گھومنا پھرنا دیکھتا،طلوع ہوتے۔۔۔ سورج کو دیکھتا جس کی ہر کرن اک اک ذرہ کو روشنی بخشتی تھی۔اور الگ رنگ عطا کرتی تھی۔صبح کی تازہ ہوا،ماحول کو معطر کر دیتی،وہاں سے واپسی سورج کی آمد سے ہوتی۔صبح کے اس حیسن منظر کو دیکھ کر مجھے میرے دوست انجم کا اک واقعہ یاد آ گیا۔انجم میرے سکول کے وقت کا دوست تھا۔ بچپن سے ہم اکٹھے سکول میں رہے۔

دوستی جیسی دوستی نہیں تھی۔

بلکہ بےتکلف کوئی بھی بات کر سکتے ہیں۔

بہت حد تک اک دوسرے کے قریب رہنا ہم پسند کرتے تھے۔

وہ ہمارے گھر آتا رہتا تھا۔

اک دن یوں ہی میں گھر کے چھت پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔

کہ اتنے میں نیچے سے امی کی آواز آئی۔۔ارے عاصم۔۔۔۔بیٹا کدھر ہو۔۔۔۔تمہارا دوست آیا ہوا ہے؟؟

جلدی نیچے آؤ۔

میں چونکہ دور کئی بادلوں کی سیر کو نکالا ہوا تھا

جلدی سے پلٹا اور امی کی آواز کا جواب دیا۔۔

امی اس کو اوپر چھت پر بھیج دے۔

امی نے کافی حیرت بھرے لہجے میں پوچھ۔۔۔کیوں بیٹا آج چھت پر ہی رہنے کا ارادہ ہے؟

میں نے کہا ہاں اماں چھت پر ہی رہوں گا۔۔۔آپ اس کو اوپر چھت پر بھیج دے۔او یار انجم تم خود ہی آ جاؤں

اماں کے سوال جواب ختم نہیں ہونے والے۔۔۔؟

عاصم بھاگ کر سیڑھیاں سے چھت کی طرف آیا۔اماں پانی بھر رہی تھی اور پانی بھر کر اندر کچن میں چائے بنانے کے لیے چلی گئی۔

اماں نے اندر جاتے ہوئے یہ کہا کہ میں چائے بنا رہی ہوں۔

چائے کے بغیر عاصم کو جانے مت دینا؟؟

انجم کو کرسی پر بیٹھنے کا کہہ کر میں نے اماں کو جواب دیا۔

اماں یہ کون سا چائے کے بغیر جانے والا ہے؟؟اسکے کون سے ٹریک چل رہے ہیں۔

انجم نے ہنستے ہوئے مجھے کوہنی مارتے ہی کہا

تم  ٹھیک نہیں ہو سکتے کبھی۔

میں نے کچھ سوچنے والے انداز میں کہا یہ تو ہے۔

میرے گھر والوں کی اک خاص بات یہ بھی تھی

وہ مہمانوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔وہ پھر چاہے بچہ ہو یا بوڑھا۔وہ مہمانوں کہ خدمات میں ایسے مشغول ہو جاتے کی جیسے اک درباری خادمہ بادشاہ کو پورا دن پینکھ جھولتی رہتی ہے۔

عاصم سے یہاں آنے کی وجہ پوچھی کہ آج کیسے آنا ہوا۔؟

اس نے بتایا کہ یار آج تم کو اپنی زندگی کا سچا واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔یہ تقریباً دو تیں ماہ پہلے کی بات ہے۔کہ میں قدرت کی عطائیں شمار میں لانا کی کوشیش کر رہا تھا۔

جوں جوں میں دھیان میں آگے بڑھ رہا تھا۔مجھ پر قدرت کے راز عیاں ہو رہے تھے۔

بچپن میں جب میں چھوٹا تھا۔تو ہر روز گھر کے چھت ہر صبح اٹھ کر چڑیوں کو دانے ڈالتا تھا۔

سب سے پہلے جب میں نے دانے ڈالنا شروع کیے

تو اس وقت اک ہی چڑیا تھی۔لیکن اس کے سامنے دانوں کے جاتے ہی وہ دانے کھاتے جاتی اور `اپنی آواز میں کچھ

بولتی جاتی۔۔۔شاید اللہ تعالی کا شکر ادا کر رہی تھی کہ مجھے رزاق عطا کیا

دیکھتے ہی دیکھتے بہت سی چڑیاں آئی

اور دانے کھا کر اڑ گئی۔میں یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور لطف اٹھا رہا تھا۔مجھے ہمیشہ سے دوسروں کو کھلا کر بہت خوشی ملتی ہے۔دوسروں کی مدد کر کے بہت پر سکون ہو جاتا ہوں

مجھے بہت مزا آیا میں نے سوچا کل بھی چڑیوں کو اور زیادہ دانے ڈالوں گا؟؟؟

اب اگلی صبح ہوئی میں حسب معمول چھت پر آگیا۔آج دور دور تک کوئی چڑیا نہیں تھے۔کچھ پل کے لیے میں ادھر ہی رک گیا۔کافی دیر بعد میں نے واپس نیچے جانے کا فیصلہ کیا۔اتنے میں میں نے سوچا دانے زمیں پر ڈال دیتا ہوں۔

دیکھتا ہوں آتی ہیں ۔چڑیاں کے نہیں

دانے زمیں پر جانے کی دیر تھی ساری چڑیاں اڑاتی اڑاتی آئی اور دانوں پر جھپٹ پڑی۔کچھ دیر میں سارے دانے ختم اورسب شور کرنے لگی ۔کہ اور ڈالے جائے۔میں نے نیچے گیا برتن بھرا اور ان کے سامنے پھنک دیا۔اب کی بار دو تین قسم کے اور پرندے آئے۔اورخود کھانے لگے مثلاً کوا اور اس سے منسلک بڑی جسامت والے پرندے۔۔۔۔۔

میں نیچے چلا آیا اب اس کہ بعد کیا تھا پرندوں کی تعداد زیازہ سے زیادہ ہوتی گئی پرندے آہستہ آہستہ اتنے بڑھ گئے کہ وہ اتنا شور کرتے کہ امی ابو نے بھی ڈینٹ شروع کردی۔مجھے خود الجھن محسوس ہونے لگی کچھ اک ہفتہ بعد میں نے سب کو اڑا دیا۔اس وقت ںہت غصہ آیا ہوا تھا۔اف اللہ اتنا شور ساری نیند خراب کر دی اور ساتھ میں امی ابو سے اتنی بے عزتی کروا دی۔۔۔۔۔میں نے اڑا تو لیکن اب تک سوچتا ہوں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا.اور عاصم یار اک بات بہت اذیت دیتی ہے کہ وہ پرندے کبھی پلٹ کے واپس  نہیں آتے جن کو آپ خود اڑا دیتے ہیں۔

رب کی ذات کے بارے میں آگاہی اس وقت اتنی زیادہ تو نہیں تھی۔

لیکن اتنا ضرور جانتا تھا۔کہ کوئی ہے ۔جو ان کو رزاق دے رہا ہے ۔وہی خدا ہے۔

جاری ہے.....!!!


 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

 


Post a Comment

0 Comments