Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan | Episode 2 | By Gohar Arshad - Daily Novels

 



 


 

 

 

 


عشق یزداں

گوہرارشد کے قلم سے

قسط2

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 


عشق یزداں


 



یار عاصم!خدا کی ذات کے بارے میں جب جب سوچتا ہوں،کچھ نیا ہی سیکھنے کو ملتا ہے،اب دیکھو ناں۔۔۔میں یہ سوچ رہا تھا اور یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ میں پرندوں کی اک دو یا چار قسم کے چند اک پرندوں کو دانے ڈالنے سے گھبرا گیا۔اور اک وہ مالک و مختار ہے جو لاکھوں قسم کے پرندوں کو بیک وقت رزاق عطا کرتا چلا آرہا ہے۔اس کے خزانوں کی وسعت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔وہ یہ سب بغیر کسی غرض کے سب کو عطا کرتا ہے۔بس وہ صرف یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا یہ میرا شکر ادا کرتے ہیں۔کہ میری ناشکری میں زندگی گزارتے ہیں۔

اس کی عنایات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔وہ جتنا مرضی خفا ہو۔لیکن کسی بھی شہ کو بھوکا نہیں سونے دیتا۔بلکہ میں یہ بات کرنے میں کوئی آر محسوس نہیں کرتا کہ جب وہ خفا ہوتا ہے تو دوگنا عطا کر دیتا ہے۔دنیا کے اندر جہاں تک میرے علم میں ہے تو میں نے پڑھ تھا کہ پرندوں کی سات سو سے زائد قسمیں ہیں۔ہر اک قسم کے لاکھوں پرندے موجود ہیں۔اس کے علاوہ انساں،جن،جانور اور بہت سی ایسی مخلوقات جس کے بارے میں انسانی ذہن سوچ ہی نہیں سکتی،سب کے رازق جاں ومال کا ذمہ اللہ تبارک وتعالی کی بابرکت ذات نے خود لیا ہے۔انساں بہت ہی حقیر ہے،لیکن اس کے دعویٰ پر غور کرے تو لگتا ہےکہ اس سے زیادہ طاقتور کوئی ہے ہی نہیں۔۔۔لیکن اتنا وہ بھی جانتا ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور کوئی یہاں موجود ہے۔حقیقت کو تسلیم نہ کرنے سے حقیت بدل نہیں جاتی بلکہ وہ ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے۔عاصم یار تم بھی سوچ رہے ہو گے میں نے آتے ہی یہ کیا شروع کر دیا؟

میرے ذہن میں کافی ٹائم سے یہ چیزیں گھوم رہی تھی۔سوچا تم کو بتا دوں۔تم بتاؤں کیسی ہے صحت؟

عاصم:یار تم سے سچ میں بہت کو سیکھنے کو ملتا ہے۔اور صحت اللہ پاک کا احسان ہے۔بہت اچھی۔تمہں تو پتہ ہے۔ناں کالج میں اک ہفتے کی چھٹیاں ہیں۔تو بس گھر میں ہی وقت گزارتا ہے۔

انجم؛گھر میں وقت اچھا گزارتا ضرور ہے مگر کالج والی بات ہی کچھ اور ہے دیکھو ناں صبح بھاگ کر سکول کی طرف جانا وہاں دوستوں سے بات چیت،ہنسی مذاق اور بہت کچھ۔

اتنے میں امی چائے لے کر چھت پر آئی۔اور آتے ہی ان کے سوال جواب شروع ہو گے؟

بیٹا تم کیسے ہو؟

تمہارے امی ابو کیسے ہیں؟

آجکل کدھر ہوتے ہو بہت کم نظر آتے ہو خیر تو ہے ناں یا ہم سے کچھ ناراض ہو؟

اک ہی سانس میں بہت سے سوال پوچھ لیے۔۔۔ظہر کا وقت ہونےوالا تھا۔ہم دونوں کی گفتگو میں اکثر اوقات یہ ہوتا تھا۔بہت زیادہ وقت گزار جاتا اور ہم کو خبر تک نہ ہوتی تھی۔اب دیکھے کہ ہم دس بجے کے بیٹھے ہوئے اوپر سے ظہر ہوگئی اور ہم کو پتہ ہی نہیں چلا۔سورج اپنے عروج پر تھا۔پیاس سے پرندے ادھر ادھر پانی کی تلاش میں گھوم رہے تھے۔پانی کی اک گھونٹ کو ترسنے والے پانی کو پا کر خوشی سے جھول رہے تھے۔زیست کے نشیب وفراز سے پرے قدرت کی رنگینیوں کا مزا لے رہے تھے۔ہمارے مکاں کی چھت سے دور اک نہر نظر آتی تھی۔وہاں پرندوں کا ہجوم اک نئے جہاں میں جینا کا سلیقہ اور پتہ دیتا تھا۔وہ ہم کو یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ زندگی کے حالیہ لمہات کو کیسے جیا جاتا ہے۔ میں نے کہا بس بس امی سانس لے لے ابھی وہ ادھر ہی ہے۔آپ کے سارے سوالوں کا جواب دے کر جائے گا۔

وہ پریشان سی ہو گئی،اور کچھ کہے بغیر ہمارے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔

میں جھٹ سے بولا!او ہو امی میں مذاق کر رہا تھا،آپ تو ناراض ہی ہو گئی۔

اس سے پہلے کے انجم کچھ بولتا امی نے معصومانہ انداز میں کہا ہاں اب ہماری باتوں کی کیا حیثیت رہ گئی ہے؟اب تو تم لوگ جواں ہو گے ہو ناں؟تمہیں پتہ ہے جب تم چھوٹے تھے۔تو اک ہی چیز کے بارے میں بار بار سوال کرتے تھے۔اور میں ہر بار جواب دیتی تھی۔میں نے کبھی بھی تم کو اس لیے نہیں ڈانٹا اور نہ یہ کہا کہ بار بار اک ہی سوال کیوں کر رہے ہو مثلاً اک بار میں تم کو گاڑی پر بازار لے کر جا رہی تھی۔تمہارے ابو کام پر تھے تم کو سخت بخار تھا مجھ سے رہا نہیں گیا۔تو اکیلے ہی نکل پڑی۔اب تو پھر بھی واقفے واقفے سے گاڑیاں آتی رہتی ہیں۔اس وقت بڑی مشکل سے دو یا تین گاڑیاں جاتی تھی بازار۔اس دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ نزدیک والے گاوں میں دو لوگ فوت ہو گے ساری گاڑیاں وہاں چلی گئی اب فون کا تو دور تھا نہیں۔۔۔صبح جب تمہارے ابو کام پر جا رہے تھے تو ان کو بتایا لیکن اس وقت تمہاری طبعیت کافی ٹھیک تھی۔انہوں نے کہا کہ کل چھٹی ہے تو کل اس کو لے کر ہسپتال چلے گے۔ابھی دیکھوں ناں ادھر وہ گھر سے نکلے ادھر تمہاری طبعیت بگاڑنا شروع ہو گئی۔اب ہوا یہ کہ تم کو لے کر میں سڑک پر نکل گئی۔گاڑی پر جہاں ایک گھنٹہ لگتا ہے وہاں پیدل دو یا اڑھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔کچھ پانچ سات منٹ ہی چلی تھی کہ پیچھے سے اک گاڑی آ گئی،اب نہ وہ گاڑی گاوں کی لگ رہی تھی ناں ڈرائیور؟اور گھر سے میں بہت کم باہر نکلتی تھی،اور آج تھی بھی اکیلی وہ خوف الگ۔۔۔خیر گاڑی والا روکا اس نے پوچھا کہ آپ نے کہاں جانا ہے؟میں نے اس کو بتایا کہ بازار جا رہی ہوں بچے کی طبعیت بہت خراب ہے۔وہ ساتھ والے گاؤں فوتگی پر جا رہا تھا۔لیکن اس نے کہا کہ آپ کو پہلے بازار چھوڑ دیتا ہوں بعد میں وہاں چلا جاؤں گا ابھی بہت وقت ہے آپ آئیں بیٹھے؟اس کی باتیں سن کر اطمینان ہوا۔لیکن گھبراہٹ کسی طور بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔اب تمہارے سوال شروع ہو گئے۔اک تو تم بچے تھے اوپر سے بخار کا اثر۔

ہم کہاں جا رہے ہیں؟

میں نے تمہیں بتایا کہ بازار۔

ہم بازار کیوں جا رہے ہیں،وہی والا بازار ناں جہاں بہت سے کھلونے ہوتے ہیں،وہاں آئس کریم بھی ہوتی ہے۔وہی والا ناں۔

ہاں ہاں بیٹا۔۔۔وہی والا بازار جہاں کھلونے اور آئس کریم ہوتی ہے۔لیکن ابھی ہم ہسپتال جا رہے ہیں آپ بیمار ہو ناں؟

میں بیمار ہوں تو کیا میں آس کریم نہیں کھا سکتا۔اور کھلونے بھی نہیں لے سکتا؟

اب کی بار میرے بجائے گاڑی والے آنکل نے تھوڑا مسکرائے اور بولے کہ بیٹا بیمار کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ آپ کھانا پینا چھوڑ دو۔بلکہ کچھ چیزیں جو آپ کو بیمار کرتی ہیں ان سے پرہیز کرنا ہے۔باقی آپ آئس کریم بھی کھا سکتے ہو اور کھلونے بھی لے سکتے ہو۔

اس کے بعد تمہارا آخری سوال اور اس کے بعد تم اچانک سے چپ ہو گئے۔

امی یہ ہسپتال کیا ہوتے ہیں؟

بیٹا ہسپتال ایسی جگہیں ہوتی ہیں،جہاں مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔جہاں دکھی انسانیت کی خدمات کی جاتی ہے۔جہاں لوگوں کے درد کو کم کر کے ان کو سکون کے لیے دوا دی جاتی ہے۔

بخار کی شدت کی وجہ سے تم سو گے۔کچھ ہی دیر میں ہم ہسپتال پہنچ گئے۔گاڑی سے تم کو لے کر اتری کرایہ دینا چاہا تو ان بھائی صاحب نے انکار کر دیا۔اور کہا کہ اک بھائی کا کیا یہ فرض نہیں ہے کہ اپنی بہن کو مصیبت سے نکالے۔بہنوں سے کچھ لیا نہیں بلکہ دیا جاتا ہے،آپ ہو بھی اکیلی اگر آپ کہے تو میں آپ کے ساتھ ہسپتال چلوں۔

میں بولی نہیں بھائی بہت شکریہ میں چلی جاوں گی آپ نے کرایہ بھی نہیں لیا۔آپ کا بہت سا وقت یہاں آتے لگ گیا۔آپ واپس جائیں ورنہ دیر ہو جائے گی۔میں ہمیشہ آپ کی احسان مند رہوں گی۔وہ چلا گیا۔میں اندر گئی۔تمہارا علاج کروا کر واپس آئی جب بل دینا چاہا تو انھوں نے کہا آپ کا بل تو ادا ہو چکا ہے۔میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بل کون دے گیا ہے۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ گاڑی والا بندا۔تب مجھے یقین ہو گیا کہ اس کائنات کے اندر اللہ تعالٰی کے نیک لوگ بھی ہیں،جو بغیر کسی لالچ کے انسانیت کی خدمات کرتے ہیں۔جن کا منشور صرف اور صرف رضا الہی ہے،جن کی وجہ سے آج تک انسانیت زندہ ہے،سب سے زیادہ سکون اس بھائی کی باتیں سن کر ہوا۔جو اس نے آخر میں کہی میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی تمام بہنوں کو ویسا بھائی عطا کریں۔میں نے اس کو پہلے کبھی نہیں دیکھا اور نہ بعد میں۔لیکن اس بھائی کو سوچ کر آج بھی دل سکون میں آجاتا ہے۔میں نے اندر کام کرنے والوں سے پوچھ کہ وہ تو اندر نہیں آئے پھر بل کیسے ادا کیا۔تو انھعں نے بتایا کہ وہ اس ہسپتال کے مالک کے دوست ہیں۔ہم سب ان کو جانتے ہیں۔انھوں نے باہر سے اشارہ کروا دیا تھا۔آپ جا سکتی ہیں۔

میں بول پڑا اچھا ناں امی غلطی ہو گئی اب آگے دوبارا سے ایسا کبھی نہیں ہو گا۔

وہ مسکرائی۔اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہیں۔ارے میرے بچے تو میری جان ہے۔اک غلطی چھوڑ تو لاکھ غلطیاں کرے۔میری مامتا ہمیشہ وہ بھول جائے گی۔

انجم ان کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے سیدھ ہوا۔

میں ٹھیک ہوں آنٹی اللہ پاک کا شکر ہے اور امی ابو بھی بلکل ٹھیک ہیں۔اور جانا کدھر ہے آپ کو تو پتہ ہے ناں سکول سے چھٹیاں ہیں۔اور امی چھٹیوں میں گھر سے نکلنے ہی نہیں دیتی۔میں نے بہت بار سوچا کہ آپ کے آؤ لیکن امی ہی نہیں آنے دیتی روز کچھ نیا کام بتا دیتی ہیں۔امی کس تو آپ کو پتہ ہے ناں میرا سب سے زیادہ خیال رکھتی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔آپ کو تو پتہ ہے ناں آنٹی خاص لوگوں میں بھی کچھ لوگ بہت خاص ہوتے ہیں۔بس جہ سمجھ لے کہ میں امی کا بہت خاص ہوں۔

اب کی بار امی تھوڑا سا جذباتی انداز میں بولی۔ہاں انجم یہ تو ہے۔بچے سارے ہی ماں کے لیے قابل قدر ہوتے ہیں لیکن کچھ بہت ہی خاص ہوتے ہیں اورتم نے بھی اکثر دیکھ ہو گا کہ ماں کو اسی سے زیادہ محبت ہوتی ہے جس سے باقی سب نظریں چرا رہے ہوتے ہیں۔ماں کو اپنے لائق بیٹوں سے زیادہ نالائق بیٹے اچھے لگتے ہیں۔

ابھی امی کی باتیں جاری ہی تھی کہ شفق آپی بھی چھت پر آگئی۔آتے ہی سلام کیا اور پوچھا کیا باتیں ہو رہی ہیں۔آپی کو دیکھ کر نہ جانے ایسا کیا تھا کہ سب کے چہرے پر خوشی کے اثرات نمایاں نظر آنے لگے۔

کچھ خاص نہیں بس دیکھو ناں انجم کتنے دنوں کے بعد آیا ہے،اس سے وجہ پوچھ رہی تھی؟

تم بتاؤں کیسا رہا دن؟؟کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا ناں؟

ہاں تو پھر بتایا اس نے کے کہاں رہا یہ اتنے دن۔۔

باقی سب بہت اچھا رہا۔آج تو میں بہت خوش ہوں اک دوست کی شادی ہے اگلے ہفتے۔

ہاں بتا دیا ہے کہتا ہے امی گھر سے نکلنے نہیں دیتی امی کا لاڈلا جو ہوں۔

سب نے اک زور دار قہقہہ لگایا اتنے میں ظہر کی اذان ہونا شروع ہوگئی۔آپی شفق بلا کسی تمہید کے چھت سے نیچے چلی گئی۔اذان ختم ہوئی چائے تو کب کی ختم ہو چکی تھی۔انجم نے کہا مسجد میں چلتے ہیں وہاں ہی وضو بھی کرے گئے اور نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔انجم بھی میری طرح نماز کا بہت پابند تھا۔مسجد ہمارے گھر سے دو منٹ کے فاصلے پر تھی۔ہم دونوں نماز کے لیے چل پڑے۔نماز کے فوراً بعد انجم کو گھر جانا تھا کیونکہ اس کو یہاں کافی وقت ہو گیا تھا۔ہم دونوں مسجد میں پہنچے وضو کیا۔مولوی صاحب سے مختصر بات ہوئی۔اچھے لوگوں کا زندگی میں ہونا بھی اللہ تعالٰی کی خاص نعمتوں میں سے ایک ہے۔وہ جب ساتھ ہوتے ہیں تو انساں کو احساس نہیں ہوتا۔لیکن ان کے نہ ہونے سے زندگی کا پہیہ ڈگمگانا شروع ہو جاتا ہے۔اچھے لوگوں کے بیچ رہنے سے آپ کو اچھی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔اچھے خیالات آپ کے ذہن میں آتے ہیں اور دوسری طرف آپ جتنے مرضی اچھے ہوں اگر آپ کے دوست احباب ٹھیک نہیں ہیں۔تو آپ کے اندر برائیوں کو آنے میں زیادہ وقت نہیں لگا گا۔اس لیے کوشیش یہ کریں کہ اپنے ادھر گرد کے ماحول کو نیک لوگوں سے  بھر دیں

جاری ہے.....!!!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

 

Post a Comment

0 Comments