Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan | Episode 3 | By Gohar Arshad - Daily Novels

 



 


 

 

 

 


عشق یزداں

گوہرارشد کے قلم سے

قسط3

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: گوہرارشدعشق یزداں

Text Box: قسط نمبر 03

 



مسجد کی فضا پر کیف،پنکھوں کی ہوا جسم کو چھو کر گزرتی تو کچھ ٹھنڈ کا احساس ہوتا۔نماز باجماعت ادا کی،ہر نماز کے بعد مولوی صاحب (اللہ ھو) کا ذکر کرواتے،یہ ان کا معمول تھا۔(اللہ ھو) کا ذکر کرتے ہوئے تن تو یہاں موجود رہتا ہے،لیکن روح دور کسی سکون کی وادی میں نکل جاتی ہے،ایسی پرسکوں وادی جہاں شور وغل کا خدشہ ہی نہ ہو،ایسی وادی جہاں ہر شے متحرک ہو لیکن اس کے آنے جانے کی خبر بھی سکون بخشتی تے تھی۔نماز باجماعت میں الگ ہی طرح کا اک سکون ہے۔سب چھوٹے بڑے،اعلی ادنیٰ برابر صف میں موجود ہوتے ہیں۔اسلام کے سارے ہی راستے بہت اچھے اور کمال کے ہہں۔لیکن خاص طور پر نماز والا،صرف اسی تصور کو آپ دیکھ لیں کہ آپ اس مالک دو جہاں کے حضور حاضری کے لیے حاضر ہیں۔جس کے سایہ قدرت میں تمام مخلوقات پل رہی ہیں۔محلے کی مساجد اکثر چھوٹی ہوتی ہیں۔ہماری مسجد بھی دو کمروں پر مشتمل تھی۔باہر چھوٹا سا صحن تھا۔جس کے اندر طرح طرح کے پھول لگے ہوئے تھے۔ان میں کچھ سفید،کچھ گلابی،کچھ ہلکے پیلے رنگ کے تھے۔پھولوں کی مہک کی وجہ سے مسجد کا باہر کا حصہ اکثر معطر رہتا۔اور ہر اک آنے جانے والے کی نظر اپنی طرف مبذول کروا لیتا۔بیشک دنیا میں جہاں دل کو سکوں حاصل ہوتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کا گھر مسجد ہی ہے اور دل کو سکوں اللہ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔مسجد کا اک کمرہ حافظ صاحب کے لیے مخصوص تھا۔جو بہت ہی متقی اور پرہیز گار انسان تھے۔ان کا رب تعالیٰ پر یقین اس قدر پختہ تھا۔کہ ان کو کبھی غصے میں یا قدرت سے گلہ کرتے نہیں دیکھا۔اپنی زندگی کے پچاس برس وہ مسجد کو دے چکے تھے۔اور باقی زندگی بھی وہی گزارنے کا کہا کرتے تھے۔کہتے تھے زندگی اس کی امانت ہے تو اسی کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہونی چاہیے۔مسجد کا دوسرا کمرا صرف نماز کے لیے مختص تھا۔جگہ کچھ زیادہ نہ تھی۔جمعہ کی نماز کے لیے تھوڑا دور جانا پڑتا تھا۔ہم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے۔۔۔مسجد سے باہر آئے۔تو انجم نے کہا تو پھر میں چلتا ہوں کافی دیر ہو چکی ہے۔گھر میں امی انتظار کر رہی ہوں گی۔پھر کبھی جب فارغ ہوا توچکر لگاتا رہوں گا؟

ٹھیک ہے تم جاؤ۔گھر والے انتظار کر رہے ہوں گے۔مجھے بھی گھر میں تھوڑا کام ہے۔فی امان اللہ

انجم آگے کی طرف چلتے ہوئے بولا پھر ملتے ہیں؟

وہ چلا گیا لیکن میں کافی دیر وہاں کھڑا رہا۔میں اپنے گھر کی طرف چل دیا۔۔۔راستے میں سوچا آج گھر چل کر شفق آپی سے کچھ سوال پوچھوں گا؟ان کے پاس میرے سوالوں کے جواب ضرور ہوں گے۔اور وہ بآسانی مجھے بتا بھی دے گی۔گھر میں پہنچ کر سب سے پہلے میں نے ادھر اُدھر آپی کو دیکھا۔آج وہ کام سے جلدی واپس آ گئی تھی۔ورنہ اکثر اوقات وہ مغرب کے بعد گھر پہچاتی تھی۔وہ بازار کے اندر موجود اک چھوٹے سے کارخانے میں کام کرتی تھی۔جس کے اندر لڑکیوں کے کپڑوں کے حوالے سے مختلف چیزیں بناتی اور کپڑے سلائی بھی ہوتے تھے۔آپی سلائی کڑھائی میں بہت ماہر تھی۔ان کو 25 ہزار تک تنخواہ ملتی تھی۔لیکن وہ ساری کی ساری آکر امی کو دے دیتی۔امی بہت بار کہتی بھی کے تم کو بھی ضرورت ہوگی اور اکثر لڑ کر کچھ پیسے ان کو دیتی۔ان کو وہاں کام کرتے ہوئے۔تین سال ہو چکے تھے۔ابو اور امی کی اتنی محبت تھی ان کے ساتھ۔۔۔۔کہ بعض دفعہ میں سوچتا تھا۔کہ اگر ان کی کوئی اپنی بیٹی ہوتی۔۔تو شاید اتنی محبت نہ دے پاتے۔۔۔جتنی ان کو مل رہی ہے۔کام سے گھر آ کر گھر کا سارا کام کرتی۔اپنے کام خود کرنے کی بہت حد تک قائل تھی۔میں نے ان کو کمروں ساری جگہ دیکھا لیکن وہ کہیں نظر نہ آئی۔ہمارے گھر میں تین کمرے ایک باتھ روم اور اک باورچی خانہ تھا۔باورچی خانے سے امی کی آواز آئی۔تم آ گے آؤ کھانا کھا لو۔میں نے پوچھا امی شفق آپی کدھر ہیں؟

وہ بولی اوپر چھت پر ہو گی،تم آؤ پہلے کھانا کھا لو۔

میں نے جلدی میں جواب دیا ابھی نہیں میں چھت پر جا رہا ہوں ابھی نہیں کھانا۔

وہ بھاگ کر سیڑھیاں سے اوپر گیا۔وہ دور کہیں تخیلات کی دنیا میں تتلی کی طرح گہرے پانی کی بوند اور پھول کی خوشبو کو اپنے اندر جذب کرنے میں مصروف عمل تھی۔ان کی آنکھوں میں شکایات کا دور دور تک کوئی سراغ نہ ملتا تھا۔ان کے کرب و درد کو دیکھ کر محسوس کیا جاسکتا تھا۔ورنہ ان کی زبان حال سے درد کا تذکرہ ناممکن تھا۔اپنی ذات کو کہیں کھو دینے والوں کی اک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ کسی اک چیزیں سے کھیلتے رہتے ہیں۔وہ ان کے ہاتھ کی انگوٹھی بھی ہوسکتی ہے،وہ ان کے بال بھی ہو سکتے ہیں،وہ ان کے ہاتھ پر کوئی چین بھی ہو سکتی ہے،ان کی نظر مسلسل کسی چیز کی تلاش میں رہتی ہی ہے۔شفق آپی اکثر اوقات اپنی انگوٹھی کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی۔محبت کرنے والوں کا درس ہمیشہ محبت رہا ہے۔محبت کرنے والے اکثر بہت آگے نکل جاتے ہیں،جہاں سے پلٹ کر آنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔اور شاید شفق آپی بھی ان میں سے ایک تھی۔انھوں نے اپنے وقت کو گزارنے کے لیے اک طوطا پال رکھا تھا۔وہ اس سے بے انتہا پیار کرتی۔اکثر اس سے اشاروں اشاروں میں کچھ کہتی رہتی جو میری سمجھ سے تو پرے تھا۔میرے پاؤں کی آواز سن کر وہ میری طرف متوجہ ہوئی۔

ارے عاصم!تم واپس کب آئے؟اک پرجوش انداز میں ان کا سوال تھا۔

میں نے بیٹھتے ہوئے کہا ابھی ابھی آیا ہوں نماز پڑھ کر۔۔۔انجم گھر چلا گیا اور میں آ گیا۔آپ بتائیں آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ آج آپ جلدی واپس آ گئی۔

بات کو بدلتے ہوئے جلدی سے بولی۔۔۔کچھ خاص نہیں بس سر میں درد تھا تو آ گئی۔

میں نے پوچھا ابھی بھی ہے سر درد یا نہیں۔آپ نے دوا لی؟؟؟

وہ مسکرا دی اور بڑی شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر بولی میں ٹھیک ہوں۔کچھ نہیں ہوا،پریشان نہ ہو،وہ بس ویسے ہی مسلسل پچھلے اک دو ہفتوں سے کا م زیادہ تھا۔اس وجہ سے بوریت ہو گئی۔

میں خوشی سے جھوم اٹھا۔۔۔اس کا مطلب اب آپ ٹھیک ہیں؟؟

وہ مزاح کی حالت میں۔۔۔۔ہاں ہاں میں بلکل ٹھیک ہوں۔تم سناؤ کیسے گزر رہے ہیں۔دن گھر میں؟ویسے کیا محسوس کر رہے ہو سکول میں ٹھیک تھے یا گھر؟

میں نے آسماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دن تو اچھے ہی گزار رہے ہیں کل آخری دن ہے۔جہاں تک بات ہے سکول اور گھر کی تو سکول میں ہوں تو لگتا ہے گھر میں ہوں تو اچھا ہے۔۔۔گھر میں رہے تو لگتا ہے سکول سے بہتر تو کچھ بھی نہیں۔اچھا ان سب کو باتوں کو چھوڑ کر میں نے سنا ہے آپ جب سکول کالج میں رہی ہیں۔آپ کو شاعری اور کہانیاں بہت پسند تھی۔

وہ گہری سوچ میں چلی گئی ہاں بہت زیادہ پسند تھی شاعری اور کہانیوں کی بات ہی مت کرو۔

شاعری اور کہانی سننے کی خوشی کو محسوس کرتے ہوئے میں نے کہا آج آپ مجھے دونوں سنائے گی ابھی؟

پہلے کیا سنانا پسند کرے گی۔

پہلے تو شاعری ہی۔۔۔۔۔۔کیوں کے شاعری سے میرا خاصہ شغف رہا ہے۔شاعری میری زندگی تھی،اشعار تو اب اس قدر یاد نہیں رہے لیکن پھر بھی کچھ۔۔۔۔۔۔وقت اور حالات آپ کو مکمل بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

اچھا تو سنائیں پھر

تو پھر سنو یہ جو اشعار سنا رہی ہوں ان کے شاعروں نامعلوم ہی ہیں۔

آپ ہی تو نہیں مگر دل میں

اک تصویر آپ کی سی ہے

 

آج انسان کا چہرہ تو ہے سورج کی طرح

روح میں گھور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں

 

آج کا دن بھی در و بام کو تکتے گزرا

آج کی رات بھی آنکھوں میں گنوا دی جائے

 

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے میری جاں

اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے میری جاں

بس اس سے زیادہ اس وقت مشکل ہیں۔پھر کبھی سہی

اچھا ٹھیک ہے بہت مزے کے ہیں۔اور کوئی کہانی جو آپ کو پسند ہو۔

محبت کی سچائی،اور محبت میں جان کتنی ہوتی ہے محبت اگر مادہ پرست سے ماورا ہو تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔اس کے حوالے سے بہت پہلے اک کہانی پڑھی تھی وہ آپ کو سناتی ہوں۔کہانی کچھ بھی ہو وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔لیکن ان کا مقصد اک ہی طرح کا ہوتا ہے۔اب میں جو آپ کو کہانی سنانے جا رہی ہوں۔شاید کے اس میں تھوڑی بہت تبدیلی ہو۔لیکن اس کا مقصد وہی پرانا ہے۔کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ بادشاہ کے شاہی محلات کے اندر دو محبت کرنے والے نوکر اور نوکرانی رہ رہے ہوتے ہیں۔وہ دونوں آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں۔کافی عرصے سے اک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں۔نوکر اور نوکرانی دونوں ہی اک دوسرے کو حد سے زیادہ چاہ رہے ہوتے ہیں۔نوکرانی بہت حسیں ہوتی ہے۔اس کے حسن کی وجہ سے بہت سے اور بھی اس کو دل دے بیٹھتے ہیں۔لیکن وہ صرف اس سے ہی محبت کر رہی ہوتی ہے۔اک دن اچانک شہزادے کی نظر اس نوکرانی،غلام یا خادمہ پر پڑتی ہے۔وہ اس کے حسن وجمال کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔اور شادی کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔اب ہے وہ شہزادہ اس کو انکار کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے،اک غلام کی اتنی جرات تو ہو نہیں سکتی کے اپنے مالک کے سامنے انکار کر دے۔دونوں بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں کہ آخر ایسا کیا کیا جائے کہ دونوں ہی بچ جائے۔کیونکہ اگر شادی سے انکار کرتی ہے،خادمہ تو دونوں کو یا ایک کو جان سے مار دیا جائے گا۔یس نوکری سے نکال دیا جائے گا،دونوں ہی صورتوں میں مشکلات ہی مشکلات ہیں۔اب کی بار غلام اک حکیم کے پاس جاتا ہے کہ اس مشکل میں پھنس گیا ہوں۔کچھ حل بتائے۔۔۔حکیم اس کو کہتا ہے کہ میں آپ کو اک راستہ بتاتا ہوں اس پر عمل کروں تو دونوں ہی بچ جاؤں گے،نوکری اور نوکرانی دونوں ہی تمہارے پاس رہے گی،وہ کہتا ہے پھر جلدی بتائے۔

حکیم اس کو کہتا ہے کہ شہزادے نے ابھی شادی نہیں کرنی۔ایک دو ہفتوں کے بعد کرنی ہے۔آپ ایسا کرو شادی سے پہلے اس کو اک کال کوٹھری میں بند کر دو

اس کا حسن اک ہفتہ میں ختم ہو جائے گا۔پھر شہزادہ اس کو دیکھ کر شادی سے انکار کر دے گا۔پھر آپ دونوں شادی کر لینا۔نوکر کو حکیم کی بات پسند آئی اس نے ایسا ہی کیا۔اک ہفتہ اس کو کال کوٹھری میں بند رکھا۔۔۔۔اس کو کھانا اتنا دیا جتنا زندہ رہنے کے لیے ضروری تھا۔ہفتہ گزار تو اس نے نوکرانی کو باہر نکالا،تو اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا،شہزادے نے اس کو دیکھا تو اس نے کہا میں نے شادی نہیں کرنی اس سے۔۔۔۔دونوں نے خوشی سے پاگل ہو گے،جاکر حکیم کا شکریہ ادا کیا۔اور شادی کرلی۔اس ساری کہانی کا مقصد یہ ہے کہ جس سے محبت ہو وہاں ظاہری حسن کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ہر اک انساں کے دو حسن ہوتے ہیں۔اک صورت اور دوسرا سیرت کا،

کہانی کو پورا بیان کرنے کے بعد انھوں نے منہ دوسری طرف کرلیا۔مجھے لگا کہ وہ رو رہی ہیں۔مجھے تو بس اتنا سمجھ آیا کہ جب بھی آپ محبت کے صحرا سے گزار چکے ہوں،تو محبت کا ذکر آ جائے تو آنکھوں سے اشک کا آنا معمولی بات ہے۔یہ واحد اک ایسا صحرا ہے جہاں پانی کی کمی نہیں ہوتی۔

جاری ہے.....!!!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

 

Post a Comment

0 Comments