Header Ads Widget

Responsive Advertisement

La Hasil Se Hasil Tak | Episode 7 | By Fozia Kanwal - Daily Novels

 



 


 

 

 

 


لاحاصل سے حاصل تک

فوزیہ کنول کے قلم سے

قسط7

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: فوزیہ کنوللاحاصل سے حاصل تک

Text Box: قسط نمبر 07

 


”کنول گھر آئی تو پارسا کی باتیں رہ رہ کر اس کی سماعتوں سے ٹکراتی رہی مگر اس نے اس کی باتوں پر زیادہ کان نہ دھرا

وہ اپنے آپ کو بےچین محسوس کر رہی تھی، وہ عجیب کشمکش کا شکار تھی دل بے چینی اور اضطراب کے گھیرے میں تھا

دل جس پر آمادہ تھا دماغ اس سے انکاری ہو رہا تھا“ سوچیں بھی مضطرب ہی محسوس ہو رہی تھی

کافی دیر بستر پر لیٹی یوں ہی سوچتی رہی،یوں ہی کروٹیں بدلتی رہی پھر بالآخر اٹھ کر بیٹھ گئی اپنے دھیان کو ان سوچوں سے ہٹانے کے لیے اس نے  ٹی وی آن کیا پانچ منٹ تک وہ سرچ کرتی رہی پھر ریموٹ کو بیڈ پر اچھال کر کھڑی ہو گئی، الماری سے گرم شال اٹھائی اور اوڑھتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔

باہر ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا وہ آہستگی سے سیڑھیاں اترتی ہوئی ڈرائنگ روم میں کھلنے والے دروازے میں آگئی

کھڑکی کھولی جو کہ کھلتے میں خاصی آواز پیدا کرتی تھی اس نے بڑی احتیاط سے ہینڈل تھام کر جیسے ہی دروازے کو اپنی طرف کھینچا تو اس سے ابھرنے والی بلند آواز کی چرچراہٹ پورے گھر میں گونجی  وہ بہت دیر تک کھڑکی کو کوستی رہی اور بڑبڑاتی رہی۔

وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی اسے باہر کا ماحول اپنے دل کے ماحول سے خاصا پرسکون لگ رہا تھا

ٹیرس پر لگی مدهم سی نیلے رنگ کی بتیاں جو فسوں خیز روشنی زمین پر پھیلائے ہوئے تھی

اسے بھلی محسوس ہو رہی تھی

ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کی زلفوں سے اٹھکلیاں کرنے میں مگن تھے

اس کے سیاہ کشادہ بال اسکی کمر کو چھو رہے تھے

اسکی خوبصورت،گہری سرمٸی اور عزت و احترام میں جھکی رہنے والی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں

خوبصورت اور کٹاٶ دار ہونٹ نرمی سے بھنچے ہوۓ تھے

کتنی نازک میزاج تھی وہ

اور کہاں دیکھی تھی اس نے جوانی ابھی تک؟

اور نہ ہی وہ یہ جانتی تھی کہ وہ کس قدر حسین،پر کشش اور صاف گو ہے

اگر وہ یہ جان جاتی تو فحر کرتی، اتراتی اپنے آپ پہ،پیدا کرنے والے کا لاکھ شکر بجا لاتی

اس نے آہستگی سے ہاتھ شال سے باہر نکالا اور اپنی بکھری ہوٸی زلفیں سمیٹنے لگی

پیشانی پہ آۓ بال ہٹانے لگی

وہ سالار کے بارے میں کوٸی ختمی فیصلہ نہیں کرپارہی تھی

وہ ساری رات دل اور دماغ کے درمیان پستی رہی

دل اور دماغ کی مسلسل جنگ جاری رہی، جس میں آخرکار جیت دل کی ہوٸی

محبت اور عقل کی جنگ میں فتح محبت کا ہی نصیب ہوتی ہے

کتنا مسحور کن تصور ہے ناں؟

کوٸی آپکے لیے پاگل ہے اپنی تمام تر خردمندی کے باوجود دیوانا ہے

اپنے شعور کے باوجود ساری دیوانگی غالب ہے اس ہوش مندی پر

وہ فاتح ہے ہر میدان کا،سارے جہان کا،مگر ایک مقام ایسا آتا ہے جہاں وہ بے بس اور ہارا ہوا ہوتا ہے

********

وہ اپنے روز مرہ کے کاموں میں مگن تھی کہ اچانک اسکے کانوں میں کنول کی بے تکی باتیں گونجنے لگیں

اسے پھر سے کنول کی فکر کھانے لگی

اس نے بنا سوچے سمجھے،خالہ سے اجازت لی اور کنول کے گھر کا رخ کیا

مین گیٹ پار کرکے پارسا سیدھا كنول کے کمرے میں گئی

میں اندر آسکتی ہوں اس نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر مسکراتے ہوئے شرارت سے اجازت چاہی

آٶ آٶ “ پارسا

۔زہے نصیب ہمارے تم ہماری چوکھٹ پر تشریف لائی“  ہمارے غریب خانے کو دیدار کا شرف بخشا

ارے بس بس زیادہ چاپلوسی کی ضرورت نہیں، پارسا نے ہاتھ اٹھا کر جوش اور اپناٸیت کی ملی جلی کفیت میں کہا

اصل میں كنول مجھے تمہاری فکر کھاۓ جا رہی تھی“ جب سے تم میرے پاس سے آئی ہو مجھے تمہاری باتیں پریشان کیے ہوۓ تھی

میں پریشان تھی تمہارے بارے میں کہ تم سالار کے بارے میں کوئی غلط فیصلہ نہ کرلو

پارسا نے محبت بھرے لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی

انتہائی گھٹیا قسم کا شخص ہے وه کمبخت

پلیز میری بات مان لو كنول

اسکا خیال دل سے نکال دو

آخر مجھے سمجھ نہیں آتا سالار نے تمہارا بگاڑا کیا ہے  پارسا؟

جو تم اتنا برا بھلا کہتی ہو، اس نے سلگتے ہوئے انداز میں کہا

بس پلیز اب سالار کے بارے میں ایک لفظ بھی مت کہنا پارسا

اگر تم نے کچھ بولا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا اس نے ہاتھ اٹھاکر  وارننگ دیتے ہوئےکہا

وہ شخص رنگ بدلنے میں ملکہ رکھتا ہے کنول،تم اسے جانتی نہیں

پلیز پارسا

اس نے پارسا کی طرف بے تحاشا سلگتے انداز میں گھورتے ہوۓ دیکھا تو پارسا خاموش ہوگٸ

آج تمہیں اس شخص کی چار دن کی دکھاوے کی محبت اہم لگنے لگی اور ہمارے برسوں کے مراسم کی کوٸی وقعت نہیں

پتہ نہیں تاسف تھا یا شکوہ؟

مگر دوسری طرف جاننے کی کسے پرواہ تھی

اس سے پہلے کہ وہ  کچھ کہنے کو لب کھولتی

پارسا اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اسکی جانب دیکھے بغیر کمرے سے باہر نکل گئی

اس نے ایک گہری سانس خارج کی اور دوسری جانب دیکھنے لگی

جیسے اپنے آپ کو بہت ہلکا پهلكا اور مطمٸن محسوس کر رہی تھی

سالار کی محبت اسے مکمل طور پر مفلوج کر چکی تھی

 

یہاں سے وہاں تک پھیلی

افرا تفری اور ۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھ کو اس سے سنگ سنگ باندھے

تیرے دھیان کے موسم ۔۔۔۔۔۔۔

 

آرزووں کے تسلسل پر کوئی بند نہیں باندھا جا سکتا

خواہشوں کے سلسلے نہ تهمنے والے ہوتے ہیں

خواب بیش بہا ہوتے ہیں

مگر کوئی ایک خواہش ایسی ہوتی ہے جو تمام باتوں پر تمام چیزوں پر سبقت لے جاتی ہے

باقی ساری خواہشیں، ساری آرزٶیں اور خواب دهرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور طاق دل پر ایک ہی خواب دیا بن کر جلنے لگتا ہے اور ھر طرف رنگ كهلنے لگتے ہیں

ایک خواہش ایک خواب ایسا ہوتا ہے جو متاع جاں بن جاتا ہے

۔چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی، اچانک  بہت اچانک دل میں جگہ بنتی ہے اس ایک خواب کے لیے

اس ایک تمنا کے لیے، اس ایک خواہش کے لیے، اور باقی سب غیر ثانوی سا ہو جاتا ہے

دل کو فقط وه بات اچھی لگتی ہے جو اس سے وابستہ ہو

بس وه حوالہ اچھا لگتا ہے جو اس سے وابستہ ہو

وه خواب اچھا لگتا ہے جو آنکھیں اس نسبت سے دیکھیں

وه آرزو ،وه تمنا اچھی لگتی ہے جو اس کے توسط سے، اس ایک فرد کے واسطے دل میں جگہ کرے

یہ دانستگی کے فیصلے نہیں

یہ ہوشمندی کے اقدام نہیں

سب بےاختیاری ہے

سب فیصلے دل کے ہوتے ہیں

دل جسے چاہے نواز دے دھنی کردے

سرخرو کردے

اور جسے چاہے نگاہ سے گرا دے

کیا محبت بولتی ہے؟ ہاں شاید واقعی محبت بولتی ہے “ تبھی تو ہر شے کو اتنے زاویوں میں ڈھالنے لگتی ہے

ہر رنگ کو اپنے رنگوں میں رنگنے لگتی ہے

محبت ایک حیران کن جذبہ ہے جو عقل سے بالا تر ہے  اور دل پہ پر اثر پزیر ہے“وہ کتنی ہی دیر اضطراب سے ادھر ادھر ٹہل کر وقت ضائع کرتی رہی پھر تھک کر ایزی چیٸر پر بیٹھ  گئی اور ہولے سے اپنی آنکھیں موند لیں۔

جاری ہے.....!!!

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

 

Post a Comment

0 Comments