Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Meri Ghumshuda Aankhain | Episode 10 | By Syeda Alisha - Daily Novels

 



 


 

 

 

 

 


میری گمشدہ آنکھیں

سیّدہ علیشاہ کے  قلم سے

قسط نمبر 10

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: سیّدہ علیشاہمیری گمشدہ آنکھیں

Text Box: قسط نمبر 10

 


اس نے لرزتے کانپتے ہاتھوں سے نوری کی آنکھوں کو چیک کرنے کی غرض سے چھوا ، ان آنکھوں کے اس وقت وہ اس قدر قریب تھا کہ اس کا دل چاہا کہ وقت  ہمیشہ کے لئے یہیں رک جائے ، کاش اس کے بس میں کچھ ہوتا تو وہ قیامت تک دینا کی تمام گھڑیاں منجمد کر دیتا ، وہ وقت کو اپنی مٹھیوں میں قید کر لیتا  ۔۔۔۔۔ اس کی ساحرہ اسی طرح اس کے سامنے بیٹھی رہتی اور بس اسے ہی دیکھتا رہتا ، وہ سب کچھ دل ہی دل میں سوچ کر رہ گیا ۔۔۔۔۔ وقت بھلا کب کسی کا تابع ہوا ہے جو آج اس کی خواہش پہ رک جاتا  ، ساحرہ کو اپنے سامنے پا کر اسے اپنے ارد گرد ایک نور سا پھیلتا ہوا محسوس ہوا ، اسے یوں لگا جیسے  ساری کائنات کی روشنی اس کے پاس محوِ رقص  ہے مگر اس کی ساحرہ نہ تو اس روشنی کو دیکھ سکتی تھی نہ ہی اس رقص کو محسوس کر سکتی ، یہ سوچ اسے عقل و خرد کی دنیا میں واپس لے  آئی  اس نے ایک گہری سانس لے کر اپنے دل کی حالت پہ قابو پانے کی کوشش کی اور اپنی آنکھوں سے اس ساحرہ کی من موہنی صورت حفظ کرنے لگا

"میری نوری کی آنکھوں میں نور اتر آئے گا نا ؟؟؟ "

"اوں ، آں ۔۔۔ ہاں ، کیوں نہیں"

سانول کا سوال جیسے اسے اس دنیا میں واپس کھنچ لایا تھا ، ورنہ وہ تو نوری کی آنکھوں کے سمندروں میں  مکمل غرق ہونے والے تھا ۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ وہ غرق تو بہت پہلے ہی ہو چکا تھا مگر  محبوب کے قرب کی لذت انسان کو مدہوش کر کے رکھ دیتی ہے  ۔۔۔۔۔۔ نوری کا قرب بھی اسے مدہوش کر رہا تھا  ، اسے نوری کے وجود سے ایک مہک سی اٹھتی ہوئی محبت ہو رہی تھی جو اس کی سانسوں کو ہی نہیں اس کی روح کو بھی معطر کر رہی تھی  ،  نوری کے ضروری چیک اپ کے بعد  اس کا نوری کے چہرے پر نظریں جمائے رکھنا مشکل ہو گیا تھا

اب اسے نوری کی تکلیف اپنی رگوں میں اترتی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔

یہ تھیں اس کی ساحرہ کی آنکھیں جو بے نور تھیں

جو جانے کب سے اس دنیا کے رنگوں کو دیکھنے سے محروم تھیں

نوری کی محرومی اسے اپنی محرومی لگی تھی مگر اب وہ اسے مزید محروم نہیں رہنے دے گا

اس نے تہیہ کیا

"آپ کی مسزز کی آنکھوں کا آپریشن ہو گا

ہمارے پاس ڈونر کی آئیز آلریڈی سیو ہیں

آپ بس یہ ضروری میڈیسنز جو میں نے لکھ دیں ان استعمال کروائیں ، دو دن بعد انشاءاللہ ان کا آپریشن ہو جائے گا"

اس نے ڈاکٹری پرچے پر ادویات لکھ کر پرچہ اسے کی جانب بڑھاتے ہوئے  کچھ ضروری ہدایات دیں

"شکریہ ڈاکٹر صاحب ، لیکن کوئی خطرے کی بات تو نہیں  ؟"

اس نے ڈاکٹر سے سوال کیا

"ارے ڈونٹ وری ، یہ ایک مائنر سا آئیز ٹرانس پلانٹ  ہے کوئی پریشانی والی بات نہیں

انشاءاللہ یہ جلد ٹھیک ہو جاۓ گئیں  "

پیشہ ورانہ انداز میں سانول کو تسلی دے کر وہ اپنے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہو گیا

ڈاکٹر کا شکریہ ادا کر سانول نوری کو وہاں سے  لے کر سیدھا میڈیکل سٹور  پر  چلا گیا

 

وہ گھر آ کر سیدھا دادی کے کمرے میں چلا آیا

دادی اپنے کمرے میں  مغلیہ طرز کے بیڈ پر بیٹھی قدیم آبنوس کی لکڑی سے بنے خوبصورت نقش و نگار والا صندوقچہ کھولے جانے کیا تلاش کر رہی تھیں

"اسلام علیکم! دادو "، دادی کو عقب سے اس نے سلام کیا

"وعلیکم اسلام ، بیٹا!"  دادی نے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے اسے جواب دیا

یہ کیا دادو  ، آپ رو رہی ہیں ،؟؟؟!" دادی کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا

"نن... نہیں پگلے ،  میں کہاں رو رہی ہوں

یہ تو یادیں رو رہی ہیں"

دادی نے اپنے صندوقچے کا ڈھکن بند کرتے ہوئے کہا

'کون سی یادیں دادو ؟ "

اس نے اگلا سوال کیا

"کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں بیٹا جو بس یادیں ہی رہ جاتی ہیں

کبھی سنبھال کر کسی صندوقچے میں بند کر دی جاتی ہیں تو کبھی انسان خود ان یادوں کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے

تم کون سی والی یادوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہو بیٹا ؟ "

اب کی بار دادی نے الٹا عبدالہادی سے ہی سوال کیا تھا

"میں تو اس صندوق میں سنبھالی گئی یادوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں

کیونکہ یہ صندوق میں بچپن سے ہی دیکھتا چلا آیا ہوں

آخر کیا ہے ایسا اس صندوق میں ؟؟!"

آخر کار وہ پوچھ ہی بیٹھا

دادی اس کے سوال پر ایسے مسکرائیں جیسے وہ جانتی تھیں کہ وہ یہی سوال کرے گا

"اس میں تمہارے دادا مرحوم کی محبت کی گم گشتہ یادیں ہیں  جو انہوں نے مجھے ہمارے نکاح کے بعد تحفے میں دیں تھیں

انہوں نے وہ یادیں مجھے سنبھالنے کو دی تھیں

ان کی یادیں سنبھالتے سنبھالتے میں ان یادوں کی قیدی بن کر رہ گئی اور وہ خود یادوں کو اس،صندوقچے میں ڈال کر بھول بھال گئے"

دادی نے صندوقچے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کھوئے کھوئے انداز میں اسے جواب دیا

"اب یہ بوجھ اور نہیں اٹھایا جاتا "

انہوں نے صندوقچے کو ایک طرف کھسکاتے ہوئے کہا

عبدالہادی دادی کی باتوں میں کچھ الجھ سا گیا

مگر دادی سے مزید کوئی سوال پوچھ کر وہ انہیں کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا

وہ محبت اور یادوں کے درد کو اچھے سے سمجھ سکتا تھا

"اوہ ہو دادی ، یار ! جس کام سے میں یہاں آیا تھا وہ تو بھول ہی گیا"

"کون سا کام ؟!"دادی نے پوچھا

"دادو ..."

وہ دادی کے سامنے آکر بیٹھا اور دادی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولا

"ہاں کہو کیا بات ہے ؟،"

دادی نے کچھ پریشان ہوتے ہوئے کہا

"یار وہ ، وہ ، دادو یار.....!!!"

وہ کہتے ہوئے تھوڑا ہچکچایا

"ہاں ، ہاں بول نا بچے"

دادی نے پیار سے اس کے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا

"آپ میرے اور عنایا کے نکاح کی تیاری کریں

اگلے مہینے تک اور نکاح سادگی سے ہو اور مجھے کوئی فضول رسم نہیں چاہئے

آپ سب کو بتا دیں"

دادی کے کمرے میں آتی عنایا کے کانوں میں عبدالہادی کے الفاظ امرت بن کر گرے تھے وہ وہاں رکی نہیں اور سیدھا اپنے کمرے میں چلی آئی

کچھ پل بے یقینی سے اس کے کہے لفظوں کے بارے میں سوچتی رہی اور پھر خوشی سے پاگل ہو کر اللہ کے حضور سجدے میں گر گئی کیوں عبدالہادی اس کا ہی نصیب تھا اور اسے عنقریب ملنے والا تھا

ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کیا کہا اگلے مہینے عبدالہادی اور عنایا کا نکاح ہے ؟؟؟!"

صالحہ بیگم نے حیرت میں ڈوبے لہجے میں عمارہ بیگم سے دریافت کیا

'ہاں ، مجھے تو خود ابھی اماں سے پتا چلا ہے  "

' حیرانی ہے بھئی ! تم سب نے مل کر اندر ہی اندر کھچڑی پکا اور ہمیں اب بتا رہی ہو'

عمارہ بیگم کی بات  پر صالحہ بیگم کے چہرے تاثرات اچھے خاصے بگڑے تھے

" جی ہاں بھابھی ، ہمیں خود بھی حیرت ہوئی تھی اس فیصلے پر مگر حیرت سے زیادہ خوشی  تھی

اور ویسے بھی یہ عبدالہادی اور اماں کا فیصلہ ہے  شہروز اور فیروز بھائی سے بھی ان کی بات ہو چکی ہے اور بھائیوں کو کوئی اعتراض نہیں  اتنی جلدی نکاح کا.... ویسے بھی شہروز  کو بھی سادگی بہت پسند ہے "

اس بار جواب عمارہ بیگم نے نہیں بلکے عنبرین پھوپھو نے دیا تھا

جبکہ ہنڈیا میں چمچ چلاتی صالحہ بیگم  کو عنبرین کی بات پر اچھا خاصا غصہ آیا تھا مگر وہ چپ رہیں وہ سمجھ گئی تھیں کہ عنبرین نے سیدھا سیدھا عمارہ بیگم کو اس معاملے سے بچایا ہے

" ارے نہیں عنبرین میرا مطلب تھا کہ یہ مہینہ تو ختم ہونے والا ہے  نا   تو اتنی جلدی نکاح کی تیاری کیسے کریں گے ؟!

آخر میں بھی تو عبدالہادی کی تائی ہوں نا "

انہوں نے بات بنانے کی کوشش کی

" ارے تائی امی آپ کو آخر تیاری کی کیا ضرورت ہے

آپ تو بنا کسی تیاری کے بھی بے حد خوبصورت ہیں

اگر آپ تایا ابا کی بیگم نہ ہوتی تو میں آپ سے ہی نکاح کرتا" ، اس نے صالحہ بیگم کو کاندھے سے پکڑ کر اپنی طرف کیا اور سالاد بناتی عنایا سے ایک کھیرے کا ٹکڑا اٹھا کر ان کے منہ میں ڈال دیا

کچن کے پاس سے گزرتے ہوئے سب کی آواز سن کر وہ وہیں چلا آیا تھا

اس کی اس بات پر جہاں صالحہ بیگم جھنپ گئیں تھیں وہیں سب ہنسنے لگے تھے

جبکہ عنایا کا دل وہاں عبدالہادی کی موجودگی پر اتھل پتھل ہونے لگا اور اس کے چہرے پر گلنار سے کھلنے لگے

ایک اچٹتی نظر عنایا کے چہرے پر ڈال کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے وہاں سے چلا گیا

"میں عنایا سے کوئی ناانصافی تو نہیں کر رہا نا ؟!"

اپنے کمرے میں آتے ہی اس نے خود سے سوال کیا

اور تھکے تھکے سے انداز میں اپنے بستر پر گر گیا

وہ عنایا کی اپنے لئے محبت کو بہت اچھے سے سمجھتا تھا ، وہ اس کی آنکھوں میں چھپے  جذبوں کی دھک سے بھی انجان نہیں تھا اس نے عنایا سے شادی کا فیصلہ بھی اسی لیے کیا تھا کہ اگر وہ اپنی محبت سے محروم رہ گیا ہے تو کم از کم کسی دوسرے کو اس کی محبت سے محروم نہ رکھے یہ فیصلہ اس کے لیے خود بہت مشکل تھا مگر  وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا

اس کی ساحرہ تو کسی اور کی امانت تھی یہی سوچ کر درد کی شدت سے اس کا دل پھٹ جانے کی حد تک تکلیف میں تھا

مگر اس کی اس تکلیف کا کو مداوا بھی نہیں تھا

وہ جو تکلیف خود سہہ رہا تھا وہ تکلیف وہ عنایا کی آنکھوں میں بھی دیکھ چکا تھا

وہ مرد تھا رو نہیں سکتا تھا مگر پھر بھی درد اپنی ساری حدیں پار کرتا ہوا اس کی آنکھوں کے کونوں پر آ ٹکا جسے اس نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے سمیٹ لیا اور ہمیشہ کی طرح وضو کرنے چلا گیا

 

دو دن بعد پھر وہ دشمنِ جاں اپنی تمام تر بے نیازی ، دلکشی اور رعنائیوں کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھی

یہ کیسی آزمائش تھی جو اس کے حصے میں آئی تھی

وہ اس کے سامنے تھی مگر اس کی نہیں تھی نہ ہی اس کے دل کی کیفیت سے آشنا تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بے خبر تھی ہر ایک شے سے ، وہ مکمل طور پر اس بات سے انجان تھی کہ سامنے والے کا کتنا بڑا نقصان وہ کر چکی ہے اپنی جادوئی آنکھوں سے مگر اس کی تو اپنی آنکھیں خود اس کے لیے بھی آزمائش تھیں

وہ اس کی قصور وار ہوتے ہوئے بھی بے قصور تھی

وہ تو خود معصوم تھی

وہ خود تکلیف زدہ تھی کیا اس کی مسیحائی کرتی

وہ تو خود اس تک آن پہنچی تھی اپنی آنکھوں کی مسیحائی کو اور اب وہ اس کا مسیحا بھی تھا اور اس کی آنکھوں کا طلب گار بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نوری کو اس کی گرم گرم سانس اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی

وہ اس کا مسیحا تھا  جو اس آنکھوں کے معائنے میں مصروف تھا مگر نوری کا دل وہاں سے بھاگ جانے کو کر رہا تھا

اس بار بھی معائنہ کرتے ہوئے ہوئے وہ اس کے ہاتھ نوری کے چہرے سے مس ہو رہے تھے اور اس کے وجود سے اٹھتی کسی مردانہ پرفیوم کی مہک  اس کے دل پر عجیب ہی اثر کر رہی تھی

یہ اس کی زندگی کا پہلا تجربہ تھا جب سانول کے علاوہ کوئی دوسرا مرد اس کے اس قدر قریب آیا تھا کہ اس سانسوں کی حدت محسوس کی جا سکے

گھبراہٹ کے مادے اس کی پیشانی پسینے سے تر ہونے لگی اور ہاتھ برف کی طرح سرد ۔۔۔۔۔۔۔

"ریلکس۔۔۔۔۔۔" عبدالہادی اس کی حالت کو بھانپ گیا تھا

سو  نرمی سے اس کا گال تھپتھپا کر اس سے  دوستانہ انداز  کہا اور سانول کی طرف متوجہ ہو گیا

"پیشنٹ کی کنڈیشن آپریشن کے لئے بلکل موزوں ہے

اب ہمیں آپریشن کے لئے زیادہ دیر نہیں کرنی چاہیے

ویسے بھی ہم ڈونر کی آئیز زیادہ دن تک قابلِ استعمال حالت میں محفوظ نہیں کر سکتے

آپ پیشنٹ کو ایڈمٹ کروا دیں آج ہی

ہم ان کو انڈر آبزرویشن رکھیں گے اور کل انشاءاللہ ان کا آپریشن ہو جائے گا

ان دواؤں کا استعمال جاری رکھیں  اور میری ریسپشنسٹ سے دیگر معاملات طے کر لیں"

"  جی ڈاکٹر صاحب ، شکریہ

میری نوری  دیکھنے لگ جائے گی نا ؟!"

اس نے سوال کیا

"  ہاں ہاں ضرور ، انشاءاللہ

اللہ پر بھروسہ رکھیں"

تسلی دیتے ہوئے اس کے اپنے دل کو بھی کچھ ہوا تھا

ہم جن سے محبت کرتے ہیں ان کو کسی بھی طرح کی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا اور عبدالہادی کو نوری کی آنکھوں کی سرجری کرنا تھی وہ بھی اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے.....!!!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 

۔

Post a Comment

0 Comments