Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Momin | Episode 6 | By Ayesha Jabeen - Daily Novels

 

 

مومن

عائشہ جبین کے قلم سے

قسط نمبر 06

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 


مومن


 


وہ اندازے سے چلتا ہوا دروازے تک آیا تھا ۔ ہاتھ لگانے پر پرا چلا کہ  وہ باہر  سے لاکڈ  ہے ۔ وہ ابھی دروازہ کھٹکھانے لگا تھا کہ اس کو ایک بار  پھر کسی کے چلانے کی آواز آٸی تھی

" کون ہے یہاں"

 

وہ اپنی بھاری آواز  میں  بولا

درواز  کھو لو  اور  تم کون ہو  دور  رہو ہم سے ہاتھ مت  لگانا اپنے ناپاک  ورنہ ہم ماردیں گے تمہیں"

 

وہ  بےحد گبھراٸی  ہوٸی  تھی مگر کسی حد تک اپنا لہجہ مضبوط کرکے بولی

" دعا یہ تم  ہو" ?

وہ اس اندازِ تخاطب  سے پہچانتے  ہوۓ  بولا  اور  اپنی پینٹ  کی پاکٹ ٹٹولنے لگا

" او  شٹ  میرا فون  کہاں رہ  گیا  بات سنو  تمھارے پاس فون  نہیں  ہے  تمھارا" ?

" کیوں آپ نے ہمارے  فون  کا  کیا کرنا ہے "?

 

وہ  چڑ  کر  بولی

" بور  ہورہاہوں  سانپ  والی گیم  کھیلوں  گا "

 

وہ دوبد دو بولا

 

" جاہل لڑکی  فون  میں ٹارچ ہوتی  ہےجس سے  یہ اندھیرا کم ہوجاتا  اور  اس  سے ہم کسی کو کال کرکے اپنی مدد کے لیے بلا سکتے  ہیں "

 

وہ  اس  کو سمجھاتے  ہوۓ  بولا

" بہت  شکریہ بتانے کا ہم تو جانتے  ہی نہیں  تھے  یہ سب  "

 

وہ جل کر  بولی

" اگر  فون  ہوتا  تو اب تک ہم فون کرچکے ہوتے  کسی نہ کسی کو "

"  کیوں  تم  نے اپنا فون   دان  کردیا  ہے"

وہ  ہنسا

 

" جلدی  میں  کمرے  میں بھول گے  ہیں  شاید  "

وہ روہانسی  ہوکر  بولی

" اچھا گھبراو  نہیں  اس اندھیری  نگری میں  تم اکیلی تو نہیں  ہو میں  ہوں  تمھارے ساتھ  "

 

وہ اس کو تسلی دیتے  ہوۓ بولا

" ہم اکیلے ہوتے شاید  اتنا  نہ ڈرتے  جتنا  اب ڈررہے  ہیں  "

وہ  بولی  تو  تومومن اندھیرے میں  ہی اندازے  سے اس  کو گھورنے لگا

" کیا مطلب ہے اس بات کا "

 

" مطلب بہت آسان ہے جب مرداور  عورت تنہا ہوتے  ہیں  تو ان کے درمیان  شیطان ہوتا  ہے  اور  یہ رات  تو  ویسے  بھی اپنےاندر بہت  سےشر لاتی  ہے  یا اللہ  ہماری عزت  کی حفاظت  کرنا   "

 

وہ  بولی تو اس  کی  بات کو مطلب سمجھ کر  مومن کا دل چاہا کہ زمین پھٹ جاۓ  اور  وہ اس میں سما جاۓ  کہ اب اس کا کردار اتنا مشکوک ہے کہ کوٸی لڑکی  اس  کو نقب زن  لیڑا   سمجھ  رہی ہے۔ اس کو اپنی جان سے زیادہ اپنی عزت کی فکر تھی  اس نے جان کی سلامتی  نہیں  مانگی  بلکہ  عزت کی سلامتی مانگی ہے۔

"بات سنو  میری کان کھول کر  میرا  نام مومن  آفندی  ہے مجھ میں لاکھ براٸیاں ہیں  سگریٹ پیتا  ہوں کبھی کبھی شراب  بھی لڑکیاں  میری دوست ہیں  کبھی  کبھار  جوا  بھی کھیلتا ہوں  غرض  کی ہر طرح  کی براٸی  ہے  مجھے میں   مگر  میں  زانی  نہیں  ہوں  کبھی کسی  لڑکی  کا استعمال نہیں  کیا "

 

وہ  بولا  تو اس کے لہجے کی پختگی سے  دعا  سر جھکانے پر  مجبور ھوگی

" سنوابھی  آپ نے بولا  کہ سگریٹ پیتے  ہو تو   "

 

دعا کچھ بولنے لگی تو  اس کی بات پوری سنے بغیر  وہ  زور دار  قہقہےلگا کر بولا

 

" پاگل ہوگی ہو اب تم سگریٹ  پیو گی اب اتنا برا وقت  بھی نہیں  آیا  کہ تم یہ سب  کرو  نہیں  نہیں  ڈٸیر  میں  تمہیں  یہ سب نہیں  کرنے دوں  گا آخری  تم مسلمان  ہو  اور  میری  ہم وطن ہو "

 

وہ  ہنستے  ہوۓ  بولا

" آپ  کا دماغ خراب ہے زہر لگتی ہےہمیں زہرسگریٹ  اور سگریٹ پینےوالے ہم یہ بول رہےتھے کہ آپ کے پاس کو ماچس یا لاٸٹر  ھوگا جسے اندھیرا  کم  ھوسکے   ہمارا  دم گھٹتا  ہےاندھیرے  سے"

 

دعا  کے کہنے پر  وہ اپنی پاکٹ میں لاٸٹر تلاش کرتے  ہوۓ بولا

" ویسے کمال کی لڑکی ہو سگریٹ   نہ پیتی  ہو اور پسند ہے مگر پتا سب ہے  کیا بات ہے تمھاری  ذہانت  کی میں  تو فین ہوگیا "

 

بولتے بولتے اس نے لاٸٹر جلایا  تو   اس کے باقیکے الفاظ  جیسے  اس  کا ساتھ  چھوڑ  گے تھے ۔ وہ یک ٹک دعا  کو دیکھنے لگا  تھا  اس  کی زبان  کی گویا بولنے کی صلاحیت ختم  ھوگی تھی ۔

 

اور دعا  اس  کےاس طرح  دیکھنے  سےبری طرح نروس ہوکرخود   میں  سمیٹی  تھی ۔

#######

کہتے ہیں کہ ہر عمل آپ کا اپنا کردہ ہوتا ہے اور آپ کو اس کا نتیجہ کتنا برا  ہو کیسا  ہو  بھگتنا  ہوتا ہے  انسان جب کسی کے لیے گھڑھا کھودتا ہے وہ اس گڑھے میں خود گر  جاتا ہے اور قدرت اس انسان کو بچا لیتی ہے اگر اس کو بچانا مقصود ہوتا ہے تو انسان اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے جلن حسد سدا  انسان کی دشمن  رہی  ہے جس انسان  میں کینہ حسد جلن ہوتی  وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا ۔    یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان اگر پڑ جاتا ہے تو اس کا کچھ باقی نہیں رہتا یہ بیماری  انسان سے بہت کچھ غلط بھی کروا دیتی ہے انسان اپنی جلن میں بہت کچھ غلط کرنے کے بعد بھی نہیں سمجھتا تا  کہ وہ انجانے میں اپنا ہے نقصان  کررہاہے

 

#####

وہ نشے میں دھت کمرے میں داخل ہوئی جھومتی ہوئی نشے میں دھت  تھی بری طرح اس کی جانب سے آج اس نے اپنا پلین پورا کرلیا تھا جو وہ چاہتی تھی وہ حاصل کر لیتی اگرچہ   وہ نہیں جانتی تھی کہ کاتب تقدیر وہ نہیں ہے کاتب تقدیر تو وہ ہے جو ہر چیز کا مالک ہے وہ جو ساتوں آسمانوں کا  مالک ساتوں زمینوں  کا مالک   اور زمین کے اوپر اور زمین کے نیچے موجود ہر شے کا مالک ہے جو آسمان کے اوپر اور درمیان اور اس کے نیچے ہر شے کا مالک ہیں کہیں سے بھی کچھ بھی کر کے وہ جو حاصل کرنا چاہتی تھی آج اس کے مطابق وہ حاصل کر نے والی تھی وہ عجیب سی کیفیت میں تھی جب اچانک اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا وہ ایک انداز اد دل  دلرباٸی سے پیچھے پلٹی لیکن سامنے کھڑے انسان کو دیکھ کر وہ جیسے  حواس باختہ ہوٸی    تھی اور اس  انسان نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔

اس کے سامنے ایک حبشی نما انسان کھڑا تھا اس نے دعا کے لیے جو گڑھ کھودا تھا وہ اس نے خود  گرنے والی تھی وہ چیخنے چلانے لگی مگر باہر تیز میوزک کے شور کی وجہ سے اس کی باہر کوئی آواز نہ جا سکی وہ اس کو دھکے دینے لگیں مگر اس نے اس کے منہ پر اپنا ہاتھ کی گرفت بڑھا دی اور دوسرے ہاتھ سے دروازے لاک کردیا ۔

وہ دیوانہ وار اس کو مارنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وحشی نما انسان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنی درندگی کا اس کو نشانہ بنانے لگا  تھا۔  اس حبشی نما انسان نے اپنے ہاتھ اس کی طرف بڑھائے اور وہ  چیختی چلاتی نہ جانے کب اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی گی

"بابا جان !  آپ نے اتنا بڑا فیصلہ کرلیا اور ہمیں پوچھنا تو دور بتایا بھی نہیں "

بسمہ آفندی  نے شاہنواز  آفندی  سے  کہا

 

"ہم مومن کے ماں باپ ہیں اس  کا  بھلا  چاہتے  ہیں  ہم "

" بہو بیگم !میں اس کا دادا ہوں  اس کے باپ کا  باپ ہوں تو مجھے اتنا بھی حق نہیں ہے کچھ سوچ کر ہی میں نے یہ فیصلہ لیا ہےاور کیا برائی ہے? دعا بیٹی میں "

شانواز آفندی صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے اور بسمہ  آفندی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا

"بابا جان! میرا وہ مطلب نہیں تھا  دعا  تو آپ بہت پیاری بچی ہے لیکن آپ مومن کو تو جانتے ہیں اسے ہر چیز اپنی پسند ہوتی ہے اور یہ تو شادی کی بات ہے شادی کو دو دن کا تعلق نہیں ہے   جو  اس  طرح  اس  سے پوچھے بنا  ہم  اس کی زندگی  کا اتنا  اہم فیصلہ  کرے  اور  ویسے بھی مومن کی ضدی  اور اپنی من مانی کرنے کی عادت  سے باخوبی  واقف  ہیں"

وہ   مومن کی ضدی  طبیعت اور من مانی  کی عادت  کو پیش نظر رکھتے ہوئے بولی

"ہہہہم تم فضول میں وہم پال رہی ہوبسمہ اگر بابا  جان نے فیصلہ لیا ہے تو اسکی ضرور کوئی  وجہ ہوگی

بابا جان نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہو گا اس کے پیچھے ضرور کوئی وجہ ہوگی اور ہمیں بابا  جان  کے فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہیے بلکہ ان کا ساتھ دینا چاہیے"

شہریار آفندی  نے اپنی بیوی کو سمجھایا

بسمہ نے کچھ کہنا چاہا تو شاہنواز آفندی نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اسے چپ کروا دیا اور کہا

"تم کچھ نہیں جانتی

مومن ہمارا بہت لاڈلا ہے وہ تمہاری اکلوتی اولاد ہے

اکلوتی اولاد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو بے راہروی کاشکار  ہونے کے لئے چھوڑ دیا جاۓ

اس لیے بہتر ہے کہ میری بات مان لی جائے اور یاور کی بیٹی کے لئے تیاری کی جائے جیسے ہی مومن چھٹیاں آئے گا  ہم سب کراچی جا کر دلہن لے آئیں گے

بس یہ میرا حتمی فیصلہ ہے اگر کسی کو مسئلہ ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں

مجھے اپنی نسل بچانی ہے اسے راہ راست پر لانا ہے

اور یہ سب ایک ہی طرح ہو سکتا ہے جب میں دعا کو مومن کی دلہن بنا کر گھر لے آوں"

شاہنواز آفندی نے حتمی فیصلہ سنا کر بسمہ کو مزید بولنے سے روکا تھا جس کی وجہ سے وہ شکایتی  نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھنے لگی

"یہ کیا بابا جان پہلے تو آپ نے کہا تھا ہم صرف مومن کا نکاح کریں گے رخصتی  دعا اور مومن کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد کریں گےاور اب اچانک  کہہ رہے ہیں نکاح کے ساتھ رخصتی بھی ہو جائے گی"

بسمہ آفندی نے ہچکچاتے ہوئے کہا

"بسمہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں تم کچھ نہیں جانتی تم نے اولاد کو صرف اکلوتا ہونے کی وجہ سے اس کو دنیا کی رنگینی میں چھوڑ دیا

اور رنگینی میں اس قدر کھو گیاکے اسے  ثواب گناہ برابر لگنے لگے گے

تم نے اس کی پرورش میں کمی رکھی جبھی  میں  یہ فیصلہ  کرنے پر مجبور  ہوں  اگر تو  اور یہ تمھارا   ناکارہ  شوہر  بروقت  مومن پر توجہ  دیتے  تو آج  یہ سب نہ ہوتا  اب  جو  میں کررہا ہوں  پسند آتا ہے تو ٹھیک  ہے ورنہ  یہ  میرا گھر  ہے  اور یہ میری اولاد   ہے میری نسل  اس کو  بچانے  کےلیے  میں کسی بھی  حد  تک جاسکتا ہوں  مجھے کسی  کو جواب  نہیں  دینا "

شاہنواز  سختی   سےبولے

ا ن کے لہجے کی سختی بسمہ آفندی کی برداشت   سے باہر  تھی جبھی  وہ     یہ کہتے ہوئے  اپنے کمرے کی طرف چل دی

 

"  اب پھر  جو ھوگا  اس کے ذمے دار آپ  ھونگے  بابا جان !  آپ  بھی اپنے پوتےکو جانتے   ہیں  وہ  کس  قدر  ضدی  ہے "

 

"  بہو بیگم  !تم اس  کی  فکر  مت  کرو   بس تیاری  کرو"

 

شاہنواز آفندی  بولے  اور اپنے بیٹے  کو دیکھنے لگے   جو  سر جھکاۓ   ان  دونوں  کی باتیں  سن   رہے تھے

" جاو اب تم بھی برخودار  ابھی جاکر   تم  نے اپنی بیگم کو  بھی منانا  جس کے لیے کافی  وقت  درکار   ہے "

وہ  طنزیہ  سے  ہنستے  ہوۓ  بولے

 

" نہٕیں  بابا جان !  ایسی  کوٸی بات نہیں  آپ  کو غلطی فہمی ہوٸی  وہ  تو بس

 

شہریار آفندی  کمزور   سے لہجے   میں بولے  رہے تھے  جب ان  کو شاہنواز آفندی  نے  خاموش  ہونے  کا اشارہ  کیا

" بیٹا  جی ! یہ بال میں نے  دھوپ  میں سفید  نہٕیں  کی ایک  عمر گزاری  ہے  ایک  تجربہ   ہے  میرے پاس   خیر  بیوی  کو منانےکا تجربہ  اس گھر  میں سب سے زیادہ  تمہارا   ہے  خیر  اب  جاو  "

 

وہ  بولے  کر بک ریک  تک  گے  اور اپنی   مطلوبہ  کتاب اٹھا کر  صوفے  پر جاکر  بیٹھے   گے اور  کتاب   کھول  کر  اس  میں مگن ہوگے   ان کو دیکھ کر  شہریار   آفندی  نے ٹھنڈا  سانس  خارج  کیا  اور اپنے  کمرے  کی طرف  چل دیے  جہاں  ایک امتحان  ان  کا منتظر   تھا

مومن  نے لائٹر جلایا جس کی مدہم سی روشنی میں ددعا  کا چہرہ بہت ہی پر نور   لگ رہا تھا اس کی نظر اس پر پڑی تو وہ اس کو ایک دیکھنے لگا   آج  دعا پہلی بار نقاب کے بنإ اس کے سامنے تھی ۔ جبکہ دعا اس کی نظروں سے نروس ہو رہی تھی اچانک دعا  بولی

"  ہمیں لگتا  ہے کوٸی کینڈل  تلاش  کرنی چاہیے  " ۔

"آہا  ہاں  ٹھیک  بول  رہی  ہو  تم  رکو  میں دیکھتا  ہو ں"

 

" یہ  مل  گی "

 

مومن نے  دراز  سے  کینڈل  نکال  کر  اس کے سامنے کی  اور  اس  نے کینڈل جلاٸی  اور  دعا کی طرف بڑھنے لگا ۔

 

دعا نے جب اس  کو  اپنی طرف  آتا دیکھا  تو وہ  زور زور  سر  کو داٸیں باٸیں  حرکت دینے لگی  اور  اور سہمی  ہوٸ آواز  میں  بولتے  ہوۓ  پیھچے  کی جانب  قدم اٹھا تے ہوۓ  دیوار سے جا لگی  اس نے اپنی آنکھیں سختی سے ملیں اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے  چہرے کو ڈھانپ لیا

"مومن خدا کا واسطہ ہے ہمارے قریب مت آنا ہمیں مت  چھونا  ہم ایسی ویسی لڑکی نہیں ہے جیسے تو ہمیں سمجھ رہے ہو"

جب کہ مومن اس کی بات سن کر  ہکابکا  ہو کر کھڑا تھا  اور اس کے قریب جا کر بولا

" تم پاگل ہو کیا ?تم مجھے اس قسم  کا  گرا ہوا  سمجا  ہوا ہے   کہ میں  ایک  لڑکی  کا  ناجاٸز  فاٸدہ اٹھاوں  گا"

 

وہ غصہ  میں  آرہاتھا

"  تم مجھ کیا  سمجتی ہو میں نے آج تک کبھی اس طرح کا کوئی گناہ نہیں کیا پھر کیوں تم مجھے اس طرح کہہ رہی ہو تمہیں سمجھ جانا چاہیے مجھے لاکھ  برائیاں سہی مگر یہ برائی میں نے آج تک نہیں کی میں حلال حرام کا فرق سمجھتا ہوں الحمدللہ  مسلمان   ہوں  یار  زنا  کا  گناہ  اور  اس کی  سزا  کا  پتا  ہے مجھے "

وہ اس کو سمجھاتے میں بولا مگر وہ اس کی بات سمجھنے سے قاصر تھی اور چیختی اور جلاتی جا رہی تھی کہ اچانک اس کا سر دیوار پر جا لگا جہاں کی موجود کیل اس کے سر میں لگی اور شاید وہ  کیل بہت زیادہ نوکیلی تھی جو اس کے سر  میں لگی  اور ایک دم سے اس  کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا  چھا  گیا  اس کو چکر آنے لگے اور وہ تیورا کر گرنے لگیں وہ زمین پر گرتی اس سے پہلے  اس کو اپنی باہوں میں سنبھالا مگر جب تک وہ اپنے ہوش حواس سے بیگانہ ہو چکی تھی ۔ مومن  نے  جب اس کو سہارا دینے کے لیے اس  کے سر پر ہاتھ رکھا  تو  اس کو کچھ گیلاگیلا  محسوس   ہوا  ۔    جب اس  نے روشنی  میں اپنا ہاتھ  دیکھا  تو   وہ خود کلامی کرنے لگا کہ

"یہ تو خون ہے  کیا  لگا  ہے  اس کے  سر  میں  اور یہ بے ہوش  کیوں  ھوگی   اب  کیا  کروں "  ?

اور  پھر اس  نے دعا  کا اسٹالر  اتارا  اور  اس کے سر پر   بنا سوچے سمجھے اس کے اسٹا لر کو زخم پر پٹی  کی طور پرباندھ دیا ۔ جب کر فارغ ہوا تو اس وقت دعا  مکمل  بے  ہوش چکی تھی اب وہ وہ پوری طرح  مومن کے رحم و کرم پر تھی۔

 

جب مومن اس کی پٹی  کررہا  تھا دعا  نہایت آواز  میں  بولی  رہی تھی

" یا اللہ  ہماری  عزت  کی حفاظت  کرنا "

 

اب  مومن  اس  کو بے ہوش دیکھ کر دل  میں  سوچ رہا تھا کیسی لڑکی ہے جس کو اپنی زندگی سے زیادہ  اپنی عزت  کی پرواہ  ہے

 

رات  تھی کہ گزرنے کا نام  نہیں لے  رہی تھی ایک امتحان  تھا   مومن نےاپنی نظریں  دعا  ک پاکیزہ  چہرے  سے بامشکل ہٹاٸی  تھی   ۔ وہ  شدت سے  جلدی صبح  ہونے کی دعا کرنے لگا

جاری ہے.....!!!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


۔

Post a Comment

0 Comments