Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Peer Zadi | Episode 12 | By Waheed Sultan - Daily Novels

 



 


 

 

 

 

 


پیرزادی

وحید سلطان کے قلم سے

قسط12

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: وحید سلطان کے قلم سے

پیرزادی

Text Box: قسط نمبر 12

 


۔"چچی جان! آپ کے لیے ایک بری خبر لائی ہوں۔"نور بنت نذیر مسکراتے ہوئے بولی تو پیر ابدالی کی بیوی فہمیدہ نے پیر ابدالی کا ہاتھ اپنے بالوں سے الگ کیا اور کرسی سے اٹھنے کے بعد نور کے روبرو کھڑی ہو گئی۔

۔"کونسی بری خبر؟"اپنی بائیں آئیبرو اوپر تک کھینچتے ہوئے رعب بھرے لہجے میں فہمیدہ نے پوچھا۔

۔"آپ کی صاحبزادی مشال سیما ۔ ۔ ۔ ۔"نور نے کہا اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

۔"کیا ہوا میری بیٹی کو؟"فہمیدہ نے شاکڈ ہوتے ہوئے پوچھا تو نور بنت نذیر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوتی چلی گئی۔

۔"آپکی صاحبزادی مشال سیما کا فون آیا تھا وہ بتا رہی تھی کہ آپ کے سابقہ شوہر گلفام مغل کو ہارٹ اٹیک آیا ہے۔"نور اپنی بات مکمل کرتے ہوئے بولی۔

۔"چچی جان! کیا آپ اپنے سابقہ شوہر کی عیادت کے لیے نہیں جائیں گی؟"نور بنت نذیر نے طنزیہ لہجے میں پوچھا تو فہمیدہ اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے پیر ابدالی کی جانب متوجہ ہوئی۔

۔"پیر صاحب! آپکی بھتیجی کو میرے سابقہ شوہر کے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟فہمیدہ نے پیر ابدالی سے تیکھے لہجے میں پوچھا تو پیر ابدالی نے نور بنت نذیر کی جانب دیکھا اور پھر نور کو ماضی کا وہ منظر یاد آ گیا تھا جب وہ چھپ کر پیر ابدالی اور اسکی بیوی فہمیدہ کی باتیں سن رہی تھی۔

اسے وہ منظر یاد آ گیا تھا جب انتہائی گھبراہٹ اور پریشانی کی حالت میں پیر ابدالی اپنی بیوی فہمیدہ کے پاس آیا تھا تو اس نے گھبراہٹ اور پریشانی کی وجہ دریافت کی تھی۔ پیر ابدالی نے جواب دیتے ہوئے اپنی بیوی کو بتایا تھا کہ آپ کے سابقہ شوہر گلفام مغل سے ملاقات کر کے آیا ہوں۔ پیر ابدالی کی بات سن کر اسکی بیوی بھی چونک گئی تھی اور اس نے پیر ابدالی کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تھا۔ پیر ابدالی نے اسے بتایا تھا کہ اس نے اپنی بیٹی مشال سیما کو یونیورسٹی کی تعلیم سے منع کیا تھا لیکن گلفام مغل نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے مشال کو یونیورسٹی نہ بھیجا تو وہ فارس والا معاملہ مع ثبوتوں کے پولیس کے پاس لے جائے گا۔

۔"پیر صاحب! اسے میرے سابقہ شوہر کے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟"پیر ابدالی کی بیوی فہمیدہ چلاتے ہوئے بولی تھی اور اسکی چیخ سن کر نور بنت نذیر کے منظر کو بھول کر دوبارہ پیر ابدالی کی جانب متوجہ ہوئی۔

۔"میری نظروں سے دور ہو جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔"پیر ابدالی کپکپاتی آواز کے ساتھ غصیلے لہجے میں بولا تو نور بنت نذیر طنزیہ انداز میں مسکرائی اور پھر وہاں سے چلی گئی۔

۔"فہمیدہ! تم گلفام کی عیادت کے لیے نہیں جاؤ گی نا۔"نور بنت نذیر کے جانے کے بعد پیر ابدالی ایک بچے کی طرح رو دینے والے انداز میں بولا۔

۔"پیر صاحب! میں کہیں نہیں جا رہی۔"فہمیدہ پیر ابدالی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تو پیر ابدالی نے اسے ہگ کر لیا اور ساتھ ہی پیر ابدالی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے تھے۔

☆☆☆☆

اسپتال سے واپسی پر مشال سیما مشکل سے دو گھنٹے ہی سو پائی تھی کہ اس کا فون بج اٹھا تھا۔ مشال سیما نے آنکھیں مسلتے ہوئے ایک نگاہ فون اسکرین پر ڈالی ۔ اسکرین پر قطب کا نام مع فون نمبر جگمگا رہا تھا۔ مشال نے کال ریجیکٹ کی اور کروٹ بدل کر آنکھیں میچ لیں ۔ ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کہ فون کی بیل دوبارہ بجنے لگی۔

۔"قطب کی بچی! تم نے اسی وقت فون کرنا ہوتا ہے جب میں سو رہی ہوتی ہوں۔"فون اسکرین کو دیکھتے ہوئے مشال سیما خمار آلود لہجے میں بڑبڑائی اور دوبارہ کال ری جیکٹ کر دی۔

۔"قطب کی بچی! تم بہت ضدی ہو تو آج تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میں بھی بہت ضدی ہوں ، نیند تو میری خراب ہو ہی گئی ہے لیکن اب میں تمہاری کال رسیو نہیں کروں گی۔"تیسری بار فون کی گھنٹی بجنے پر وہ دانت پیستے ہوئے خود کلامی والے انداز میں بولی اور تیسری بار کال ریجیکٹ کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔ اب وہ دوبارہ سونے کی کوشش کر رہی تھی کہ چند منٹوں بعد اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہونے لگی تھی۔

۔"مین گیٹ تو لاک تھا اور میں اس بنگلے میں اکیلی ہی ہوں تو پھر دستک کون دے رہا ہے؟"مشال نے سیما بیڈ سے اٹھتے ہوئے سوچا اور پھر دروازے کی جانب قدم بڑھا دئیے۔ اس نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا تو اس کی آنکھوں سے نیند کا خمار غائب ہو گیا اور اسکی آنکھوں میں حیرت کے آثار نمودار ہو گئے۔ اس کے سامنے قطب کھڑی تھی۔

۔"مین گیٹ اور مدخل کا دروازہ تو لاک تھا تو پھر تم اندر کیسے آئی ہو؟"مشال سیما نے متحیر لہجے میں قطب سے پوچھا۔

۔"مین گیٹ بند تھا لیکن مدخل کا دروازہ تو کھلا تھا۔"قطب نے مشال سیما کو بتایا۔

۔"ہاں ہو سکتا ہے میں نے مدخل کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہو لیکن مین گیٹ بند تھا تو پھر تم اندر کیسے آئی ہو؟"مشال سیما نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا۔

۔"دیوار پھلانگ کر آئی ہوں۔"قطب نے مختصر جواب دیا تو مشال سیما کی حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔

۔"لیکن دیواروں پر تو کرنٹ والی تار کی باڑ لگی ہوئی ہے نا؟"مشال استفہامیہ انداز میں بولی۔

۔"تم میرا انٹرویو ہی کرتی رہو گی یا میری پریشانی کی وجہ بھی پوچھو گی؟"قطب نے مشال کے سوال کا جواب سوال سے دیا تو مشال سیما اسے اپنے کمرے میں لے گئی۔ قطب اپنی بات شروع کرنے ہی لگی تھی کہ مشال سیما کا فون بج اٹھا۔ اس نے کال اٹینڈ کی اور مختصر سی گفتگو کے بعد اس نے کال منقطع کی اور قطب کی جانب متوجہ ہوئی۔

۔"کل رات گلفام صاحب کو ہارٹ اٹیک آیا تھا ، شکر ہے خدا پاک کا ، اب انکی حالت خطرے سے باہر ہے۔"وہ پرمسرت لہجے میں قطب کو بتا رہی تھی۔

۔"تمہاری پریشانی میں بعد میں سنوں گی پہلے اپنی پریشانی ختم ہونے پر شکرانے کے نوافل تو ادا کر لوں۔"مشال سیما نے کہا اور پھر وضو خانے کی جانب چلی گئی جبکہ قطب اداس اور افسردہ حالت میں مشال کے بیڈ پر بیٹھی رہ گئی۔

☆☆☆☆

مشال سیما گاڑی میں سوار ہو کر اسپتال کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔ مشال سیما ڈرائیونگ سیٹ پر جبکہ قطب فرنٹ سائیڈ سیٹ پر براجمان تھی۔

۔"تم نے گلفام صاحب پر ایسا کونسا جادو کیا تھا جو انہوں نے اتنی شاندار گاڑی تمہیں گفٹ کر دی۔"قطب گاڑی کے ڈیش بورڈ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی تو مشال سیما نے گاڑی سڑک کنارے روکی اور قطب کو ناگوار نگاہوں سے دیکھا تو قطب سمجھ گئی تھی کہ مشال اس کی بات کا برا محسوس کر گئی ہے۔

۔"تمہارا مسئلہ کیا ہے؟"مشال سیما نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔

۔"میں نے تو مذاق مذاق میں پوچھا لیکن اگر تمہیں میرا سوال ناگوار گزرا ہو تو معذرت چاہتی ہوں۔"قطب گزارشانہ انداز میں بولی۔

۔"اپنا مسئلہ بتاؤ ، کیوں آئی تھی میرے پاس؟"مشال سیما کے لہجے کی تلخی اور نگاہوں کی ناگواری میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔

۔"میں نے دانیال کو دوستی کی پیشکش کی تھی لیکن اس نے یہ کہتے ہوئے میری پیشکش ٹھکرا دی کہ وہ تمہارے ساتھ دوستی میں انٹرسٹڈ ہے۔ ۔ ۔ ۔"قطب نے کہا اور اس کی بات ادھوری رہ گئی۔

۔"وہ مجھ سے دوستی کیوں کرنا چاہتا ہے؟"مشال قطب کی بات کاٹتے ہوئے بولی تھی۔

۔"وہ تمہیں پسند کرنے لگا ہے۔"قطب نے کہا تو مشال کے چہرے کی تلخی حیرت میں بدل گئی۔

۔"اور تم دانیال کو پسند کرتی ہو نا؟"مشال استفہامیہ انداز میں بولی تو قطب نے اثبات میں سر ہلایا۔

۔"اگر تم دانیال کو اغوا کرنے میں میری مدد کرو گی تو میں سالار مغل کو اغوا کر کے تمہارے قدموں میں پھینک دوں گی۔"قطب اب اصل مدعے پر آ گئی تھی۔

۔"سالار مغل کو اغوا کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔"مشال سیما دو ٹوک انداز میں بولی تھی جبکہ اس کی بات سن کر قطب چونک گئی۔

۔"کیا مطلب؟ کیوں ارادہ نہیں ہے؟"قطب نے پوچھا۔

۔"سالار مغل گلفام صاحب کا بھتیجا ہے اس لیے میں اب اسے اختلافات ختم کرنا چاہتی ہوں۔"مشال کا جواب سن کر قطب تذبذب میں مبتلا ہو گئی۔

۔"سالار نے جو تمہاری دوست سدرہ فرہین کو اغوا کیا تھا تو کیا تم سدرہ کا انتقام نہیں لو گی؟"قطب نے مشال کو سالار کے خلاف ورغلانے کی کوشش میں ایسا سوال داغا جو مشال سیما کو الجھن میں مبتلا کر گیا۔ اس نے نگاہوں کا رخ گاڑی اسکرین کی جانب کیا اور گاڑی چلا دی۔

۔"کیا تم مجھے اور سدرہ کو دوست نہیں مانتی؟"اس بار قطب کے لہجے میں تلخی نمایاں تھی۔

۔"اگر تم مجھے اور سدرہ کو دوست مانتی ہو تو پھر تم سالار سے ہمارا انتقام ضرور لو گی۔"قطب نے کرخت مگر دھیمے لہجے میں کہا تو مشال سیما نے گاڑی روڈ پر چڑھانے کے بعد الجھی نگاہوں سے قطب کی جانب دیکھا اور پھر گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔

☆☆☆☆

شہر کے ایک چھوٹے گاؤں میں خواتین کی محفل نعت و وعظ کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں عورتوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی تھی۔ منقعدہ محفل ھذا میں نور بنت نذیر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔ محفل کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا گیا اور اس کے بعد نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد نعت خوانی کا سلسلہ روک کر انتظامیہ کی جانب سے نور بنت نذیر کو وعظ و نصیحت کے لیے مدعو کیا گیا۔ نور نے وعظ کا آغاز حمد و ثنا اور درود شریف سے کیا اور پھر حاضرین کو بتایا کہ اولیاء اللہ کا ایک ہی نصب العین رہا ہے کہ بندوں کو خدا کے قریب لایا جائے۔ بندے اور خدا کے تعلق مضبوط کیا جائے۔

۔"میرے بابا پیر نذیر سائیں بھی اپنی حیات مبارکہ میں اولیاء اللہ کے عظیم نصب العین کے لیے کوشاں رہے ، بندے اور خدا کے تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہے ، آج میں بھی خدا کی بندیوں کو اسکی جانب متوجہ کرنے اور انہیں خدا کے قریب کرنے کی کوشش کروں گی۔"نور بنت نذیر ہاتھ میں مائیک پکڑے رطب اللسان انداز میں بول رہی تھی۔

۔"بندے کو خدا کی جانب متوجہ کرنے اور خدا کے قریب لانے والی چیز دعا ہے اور دعا ہی بندے کا تعلق رب سے جوڑتی ہے اور اس تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔"نور بنت نذیر نے کہا اور پھر دعا کی اہمیت اور فضیلت بیان کرنا شروع کر دی۔

بے شک اللہ اپنے بندوں کے بہت قریب ہے۔ جب کوئی بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے اور صدق دل سے اللہ کو پکارتا ہے تو اللہ رب العزت اپنے بندے کی پکار کا جواب ضرور دیتا ہے۔ جو لوگ اللہ کا حکم مانتے ہیں تو اللہ ان کی پکار اور فریاد ضرور سنتا ہے۔

بے شک اللہ رب العزت دعاؤں کا سننے والا ہے۔ ہمیں دنیاوی ، دینی اور آخروی معاملات کے سلسلے میں اللہ کی جانب رجوع کرنا چاہیے۔ صرف اللہ ہی ہماری مدد کرنے والا اور ہماری مشکلات کو آسان کرنے والا ہے۔

چھوٹی مشکل ہو یا بڑی مشکل ہو ، اولاد کا مسئلہ ہو یا صحت کا  ، گھریلو ناچاقیاں ہوں یا جن جادو یا نظر بد کا مسئلہ ہو ، کسی بھی جسمانی تکلیف ہو یا مالی پریشانی ہو ہمیں ہر صورت ، ہر حال میں اللہ کی جانب رجوع کرنا ہے کیونکہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی فریاد سنتا ہے اور ان کی پکار کا جواب دیتا ہے اور اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ دعا کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ جس وقت بھی اللہ کا بندہ دعا مانگے تو اللہ اس کی دعا ، طلب اور فریاد سنتا ہے چاہے وہ دن کا وقت ہو یا پھر رات کا وقت کیونکہ اللہ کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ۔ وہ حی اور قیوم ہے یعنی اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ زندہ رہنے والی ذات بھی اسی کی ہے۔

نماز کے بعد دعا قبول ہوتی ہے اور اسی طرح تلاوت قرآن کے بعد بھی دعا مانگنی چاہیے۔ سجدے کی حالت میں انسان  اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے اس لیے جب انسان سجدے کی حالت میں دعا مانگتا ہے تو دعا کی قبولیت کے چانسز بھی بڑھ جاتے ہیں۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان جب بھی کوئی نیک کام کرے تو اس کے بعد دعا مانگے۔ مثال کے طور پر صدقہ کرنے کے بعد دعا مانگنی چاہیے اور جب بھی درود شریف پڑھا جائے تو اس کے بعد دعا مانگیں۔ دراصل درود شریف خود ایک مکمل دعا ہے اگر آپ درود شریف کثرت سے پڑھتے رہیں تو درود شریف کی برکت سے آپ کی دعائیں قبول ہونے کے چانسز بڑھ جائیں گے۔ مختصر یہ کہ اللہ نے نیکی کے کاموں میں برکت رکھی ہے لہذا اس برکت کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ نیک کام کرے اور نیک کاموں کے بعد دعا مانگنے کی عادت بنا لے۔

یہ حقیقت ہے کہ جب بندہ دعا مانگتا ہے تو اسکی دعا قبول ہوتی ہے چاہے وہ نیک ہو یا گنہگار ہو مگر اللہ تعالی اسکی دعا سنتا ہے۔ انسان کی دعا جب قبول ہوتی ہے تو اسے وہی چیز مل جاتی ہے جو اس نے مانگی ہو جبکہ دوسری صورت میں اسکی دعا آخرت کے لیے محفوظ ہو جاتی ہے۔ قیامت کے دن انسان یہ ضرور چاہے گا کہ کاش دنیا میں اسکی کوئی بھی دعا قبول نہ ہوتی اور ساری دعائیں نیکیوں کی شکل میں میزان کو بھاری کرنے والی بن جاتیں۔

دعا کے لیے خشوع و خضوع اور خلوص کا ہونا بہت ضروری ہے یعنی دعا جتنے زیادہ خشوع و خضوع اور خلوص کے ساتھ مانگی جائے گی تو دعا اتنی ہی تیزی کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں پہنچتی ہے۔

دعاؤں کی قبولیت میں تاخیر ہمارے خلوص کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی کمی ہمارے اندر ہی ہوتی ہے۔ ہمیں دعا مانگنے کا ڈھنگ نہیں آتا ، ہمیں مانگنا نہیں آتا ، ہم پورا یقین سے نہیں مانگتے اور ہمارے اندر خلوص نہیں ہوتا لہذا ہماری دعا قبولیت کے درجے کو پہنچ نہیں پاتی۔

.

حضرت ذکریا علیہ السلام نے کہا تھا۔

۔"اے میرے رب! تجھ سے دعا مانگ کر میں کبھی نامراد ہوا ہی نہیں میری تو ساری دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

آسمانوں اور زمین کے درمیان جتنی بھی مخلوقات ہیں وہ سب اللہ کے سوالی ہیں یعنی آسمانوں  میں  رہنے والے فرشتے ہوں  یا زمین پر بسنے والے جن ، انسان یا اور کوئی مخلوق ،الغرض کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں  بلکہ سب کے سب اس کے فضل کے     محتاج ہیں  اور زبانِ حال اورقال سے اسی کی بارگاہ کے سوالی ہیں  ۔اس میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کی طرف اشارہ ہے کہ ہر مخلوق چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں  نہ ہو، وہ اپنی ضروریّات کو ازخود پورا کرنے سے عاجز ہے اور اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔

دعاؤں کی قبولیت کا انحصار کامل یقین اور خلوص پر ہے۔ جب یقین کامل سے دعا مانگی جائے تو ناممکن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یعنی ہمارا رب ناممکن کو ممکن بنا دینے والا ہے۔ ہم میں سے اکثر و بیشتر کو یہ بات معلوم ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جب اللہ کو پکارا تو اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول کر لی۔

ہمیں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان جب بھی وسوسہ ڈالے کہ تمہاری دعا قبول نہیں ہو گی یا تمہاری دعا نہیں سنی جائے گی تو فورا سوچا کریں کہ نوح علیہ السلام کی دعا تو اللہ نے قبول کر لی تھی پس وہ میری دعا بھی ضرور قبول کرے گا۔

حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ کو پکارا تھا یعنی حضرت یونس علیہ السلام نے اندھیروں اللہ کو یوں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے یقینا میں ظلم کرنے والوں میں سے ہو گیا ہوں۔ اللہ نے حضرت یونس علیہ السلام کی دعا قبول کی اور انہیں غم سے نجات دی۔ اگر ہم بھی مصیبت اور غم کے وقت اللہ کو پکاریں گے اور خلوص دل سے دعا مانگیں گے تو یقینا اللہ کریم ہماری دعا بھی سنے گا اور ہمیں بھی وہ مصیبت اور غم سے نجات عطا فرمائے گا۔

نور بنت نذیر وعظ و نصیحت پر مشتمل اپنا بیان مکمل کر چکی تھی اور محفل میں نعت خوانی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔

☆☆☆☆

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments