Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Talash E Bahaar | Episode 8 | By Qurat Ul Ain - Daily Novels

 



 


 

 

 

 

 


تلاش بہار

قرات العین قیصرانی کے قلم سے

قسط نمبر 8

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: قرات العین قیصرانی

تلاش بہار

Text Box: قسط نمبر 08

 

 


"چلو جلدی آؤ"

کرن بشرا کی کھڑکی پہ کھڑی تھی وہ اپنے وعدے کے مطابق وقت پہ آگی تھی مگر بشرا نے پھوڑ پن کا اعلی مظاہرے کا نمونہ پیش کرتے ہوۓ مسکرانا ہی ضروری سمجھا لیکن وہ زیادہ دیر چپ بھی نہیں رہ سکتی تھی

"تم یہاں کس طرح آئ "

بشرا آنکھیں نے ہڑبڑا کر کرن سے پوچھا

"چلو اب میں گھر میں کسی کو بتا کر نہیں آئ "

کرن نے آہستہ آواز میں کہا

"روکو میں منہ ہاتھ دھو لوں"

بشرا بستر سے باہر نکلی

"خبردار پھوڑ لڑکی جو ایک منٹ بھی ضائع کیا تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا

چپل پہنو اور چلو تم کونسا کسی کی شادی پہ جارہی ہو جو منہ ہاتھ دھونے ہیں"

اپنے منہ پہ ہاتھ رکھتی کرن کھی کھی کرنے لگی

"اچھا اچھا زیادہ کھی کھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے چلو اب" بشرا نے کہا تو کرن نے ہونٹوں پہ انگلی رکھی

آجاؤ کرن نے ایک ٹانگ کھڑی سے نیچلے دیوار پہ رکھا

"کیا مطلب ہم یہاں سے جائیں گۓ؟"

بشرا یہ سوچ کہ ہی سہم گئ

"جی!! یہی صحیح ...اب چلو زیادہ وقت ضائع نا کرو کسی نے دیکھ لیا تو؟"

کرن نے کہا اور کھڑی سے غائب ہوگئ

"یہاں سے"  یہ لڑکی پاگل تو نہیں ہوگئ بشرا کہتی کھڑی کے پاس آئ نیچے زمین کی طرف وہ کرن کو دیکھنے لگی

"اشش!! ادھر"

کرن نے ہلکی سی آواز دی تو بشرا نے گردن موڑ کر کھڑکی کے ساتھ والی دیوار پہ کیا

کرن دونوں ہاتھوں کو الٹی سمت میں دیوار سے لگاۓ آہستہ آہستہ آگے ہوتی جارہی تھی

"پاگل ہوگئ ہو کرن واپس آؤ یہ کیا بے وقوفی ہے تم نیچے گر گئ تو"

بشرا نے سہمے سہمے لہجے میں کہا تو کرن نے مسکراتی اس سے دور جا چکی تھی اب اس نے بھی اپنا پیر کھڑکی پہ رکھا لیکن ایک ڈر سے واپس کمرے میں رکھ دیا

"جو ڈر گیا وہ" بشرا نے اپنے آپ کو سمجھایا

مرگیا سمجھو دل میں کہتی وہ کھڑی پہ قدم رکھ گئ

اب اس کی پیٹھ دیوار کی طرف تھی اور دونوں ہاتھوں کو دیوار کے ساتھ پھیلا رکھا تھا

"شکر پہنچ گۓ" اب وہ دیوار کے پاس کھڑے تھے

پھر کرن آگے آگے دیوار پہ کھڑی ہوکر چلتی گئ

ایک قدم آگے رکھتی ایک پیچھے وہ بڑھتی جارہی تھی

ان دونوں کے چہرے پہ مسکان تھی

وہ دونوں دیوار پہ چلتی جا رہی تھی ان کا قد چار چار فٹ تھا

گیارہ سال کی وہ بچیاں تھی

کہنے کو لڑکیاں تھی کام سارے لڑکوں والے تھے

وہ گیٹ پہ پہنچ چکی.... کرن  گیٹ کے ذریعے زمین پہ جا پہنچی

بشرا بس اس کی حرکتیں دیکھتی رہی

باندری بشرا مسکراتی گیٹ کو پکڑے اسی طریقے سے نیچے چلی آئ وہ تو شکر چوکیدار چاچا سو رہے تھے اس ورنہ دونوں پکڑے جاتے

"آزادی" بشرا دونوں ہاتھوں کو پھیلاے آگے بڑھتی گئ

"آزادی!!" وہ مسکراتی اچھلتی آگے جا رہی تھی کرن اس کے پیچھے پیچھے

دونوں نے گاؤں کی روایتی لڑکیوں کی طرح اپنے قد سے بڑے دوپٹے اوڑھ رکھے تھے

 

*****

 

"کیا ہوا تھا افرا ؟" وہ اس کے قدموں کی طرف بیٹھی اس سے پوچھ رہی تھی

"وہ لڑکی ارم تھی میری دوست- میں نے اس سے چھوٹا سا مذاق کرنا چاہا تھا مگر شانی نے سب بگاڑ دیا -میں بے گناہ ہوں مما میرا کوئ قصور نہیں - میں نے کچھ نہیں کیا "

وہ اپنی ماں کی طرف دیکھتی اپنی صفائ بیان کرنے لگی

"مجھے سب سچ سچ بتاؤ وہاں ہوا کیا تھا" انھوں نے رعب سے پوچھا تو افرا ڈر گئ

"وہ جو پولیس آئ تھی ان کو میں نے بلوایا تھا میری فرینڈ ارم کا شانی نے" اس سے آگے وہ دوبارہ رونے لگی

"وہ مرگئ ہے اب افرا..... تمھیں معلوم بھی ہے تمھارے ایک چھوٹے سے مذاق نے ایک لڑکی کی زندگی اجاڑ دی اس کی جان چلی گئ قاتل بن گئ تم قاتل جانتی ہو تم کتنا بڑا جرم کیا تم نے" وہ ٹہل ٹہل کے رعب سے بول رہی تھی اب افرا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی وہ وہیں کھڑی تھی

"جانتی ہو یہ سب تمھاری قسمت میں تھا تمھارے باپ کے ماضی کا عکس تم پہ پڑ گیا ہے اور یہ عکس سر چڑھ کر بولنے لگا ہے اب..... تمھارے باپ نے اس ہری تتلی کو گلال میں نہلایا تھا اور اب تمھاری باری ہے تمھاری

تم بھی تڑپو گی اسی طرح.....جیسے وہ تڑپی تھی..... بغیر کسی غلطی کے..... جانتی ہو اس کی عمر کیا تھی گیارہ سال پانچ ماہ چھے دن..... بچی تھی وہ بچی.... تمھارے باپ نے زندگی اجاڑ دی

حبشیوں جیسا سلوک کیا گیا اس کے ساتھ جانتی ہو نا ایک غلام کے ساتھ زمانہ جاہلیت میں کس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا تھا

قصور کیا تھا اس کا صرف یہ کہ وہ اپنی دوست کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اکیلی واپس آئ اور اسے قاتل سمجھ کر قربانی کی بھنیٹ چڑھا دیا گیا

جو قصور اس کا تھا وہی تمھارا ہے اور جو اس کے ساتھ ہوا تھا وہی تمھارے ساتھ ہوگا

وہ آگیا ہے طریقہ واردات الگ ہے اس دفعہ کھیل اب بھی وہی ہت کہانی پھر شروع ہورہی ہے افرا کونین"

"مما میں کہ رہی ہوں آپ سے میں نے کچھ نہیں کیا "

افرا روتی اس کے گود میں سر رکھ گئ

سدرہ اچانک اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آئ

اس کی آنکھوں میں نمی جبکہ چہرے پہ مسکان تھی

"یا اللہ تیری لاٹھی بے آواز ہے بے شک بے شک" سدرہ نے دل میں کہا اور افرا کے بال سہلانے لگی

 

****

 

"سدرہ بنت ......."

مولوی صاحب رک گۓ

"کیا ہوا مولوی صاحب" ملک کونین نے پوچھا

"بیٹی کے والد کا نام کیا ہے ؟" مولوی صاحب نے نگاہ اوپر ملک کونین کی طرف اٹھائ

"ملک سکندر حیات" ملک سکندر حیات نے مونچھوں کو تاؤ دیتے کہا

"چلیں نکاح شروع کریں" ملک کونین نے کہا تو مولوی صاحب نے نکاح فارم پہ لڑکی کے والد کی جگہ ملک سکندر حیات کا نام لکھا

"سدرہ بنت ملک سکندر حیات کیا آپ کو ملک عدنان ولد عفان کے ساتھ اپنا نکاح دس مربع زمین سکہ رائج الوقت طے پایا قبول ہے "

سبھی کی نظریں گھونگھٹ کیے سدرہ پہ گئ

وہاں اب خاموشی کا راج تھا

"سدرہ بچے کچھ پوچھا ہے مولوی صاحب نے جواب دو " مسفرہ بیگم نے سدرہ کا بازو ہلایا

مولوی صاحب ملک سکندر حیات کے سوتیلے بھائ تھے

مولوی صاحب نے دوبارہ پوچھا

اب کے یوں لگا جیسے کسی نے غلط سنا ہو

نہیں "" سدرہ اٹھ کھڑی ہوئ گھونگھٹ کا دوپٹہ اتار کے ملک سکندر حیات کے قدموں میں پھنکا اور وہاں سے بھاگتی چلی گئ

اب اس کے سر پہ اپنا دوپٹہ تھا جو اس نے  اچھی طرح سے اوڑھ رکھا تھا

 

****

 

ادھر بات ملک عدنان تک پہنچی تو وہ آگ بگولہ ہوکر تائ کے پاس گیا

"یہ کیا تھا تائ کیا اتنی بے عزتی  اگر یہی کرنا تھا تو پہلے انکار کر دیتے جو منہ پہ تمانچہ مارنے کی کیا ضرورت تھی پورا پنڈ آیا ہوا ہے شادی پہ اورمہارنی صاحبہ کو میں قبول نہیں

کہاں ہے وہ" غصے سے چلاتا وہ تائ مسفرہ کے اشارے پہ اوپر سیڑھیاں عبور کرتا اب سدرہ کے دروازے کے سامنے تھا

دروازے کو زور سے دھیکلتا وہ اندر آیا

"یہ سب کیا ہے؟" وہ اب اس کے سامنے کھڑا تھا

آنکھوں میں سرخی لیے وہ اپنی چوڑیاں توڑ چکی تھی اس کے ہاتھ پہ لگے زخم اس بات کی چغلی کھا رہے تھے

ماتھے پہ سجایا گول ٹکا زمین پہ پڑا تھا

گلے سے شاید ہار کو بے دردی سے کھنیچا گیا تھا

"یہ کیا حالت بنا لی تم نے اپنی" ملک عدنان آگے بڑھا

"میرے پاس مت آنا اللہ کی قسم اگر ہاتھ بھی لگایا تو اسی گلدان سے اپنا سر پھوڑ دوں گی

میں نے کہا دور , دور رہو مجھ سے" سدرہ اس پہ پھنکاری تھی

"وہ تم تھی جو میرے پاس آنا چاہتی تھی مجھ سے محبت کے دعوے کرتی نا تھکتی تھی وہ میں نہیں تھا سدرہ ملک عمیییررررر".... نام لیتے لیتے وہ رکا

"رک کیوں گۓ بولوں نا.... بولوں نا تمھاری بھائ کی بیوہ ہوں اب  شرم آتی ہے یہ کہتے ہوۓ ہاں تب تو شرم نا آئ جب مجھ سے حقیقت چھپائ تھی  اور مجھے آگے بڑھنے سے نا روکا تب تو شرم نا آئ جب نکاح کے لیے سج دھج کے مسجد میں بیٹھ گۓ اب اپنے بھائ کا نام لیتے شرم آرہی ہے معلوم تھا نا تمھیں یہ سب -پھر بھی چھپایا میں بیاہنے سے پہلے بیوہ کردی گئ تب تو تمھیں غصہ نا آیا؟ اب یہ رعب کس کو دیکھا رہے ہو ہاں ؟ بھائ کو قبر میں اتارتے ہی سب بھول گۓ"

"بیوہ سے شادی کرنا کون سا گناہ ہے سدرہ ملک" عدنان نے افسردگی سے کہا

"ہے گناہ جب اس بیوہ کو علم نا ہو وہ کب کنواری سے بیوہ کردی گئ تب ہے گناہ سمجھے تم میں سدرہ ملک عمیر زندگی بھر اسی نام کے سہارے زندہ رہوں گی تڑپو گے تم سب پچھتاو گے جب تم لوگوں کے سامنے حقیقت آۓ گی

تمھیں کیا لگتا ہے عمیر مرا تھا ہاں اور تم لوگوں نے اسے اللہ سائیں کی مرضی سمجھ کر قبول کر لیا نہیں ملک عدنان وہ مرا نہیں تھا مارا گیا تھا مارا جیتے جی اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جانتے ہو کیوں؟دولت!دولت کی خاطر

سدرہ""" ملک عدنان نے دوبارہ اس سے پوچھا جو حق دق کھڑی اسے دیکھ رہی تھی

تصور ہی تصور میں وہ سب کچھ اسے بتا چکی تھی

"چلے جاو عدی یہاں سے میرے پاس تمھارے کسی سوال کا جواب نہیں ہے" اپنے آنسو پونچھتی وہ بیڈ پہ آکے بیٹھ گئ

 

****

 

"چل بشرا واپسی" ندی کے کنارے بیٹھی وہ دونوں تازہ ہوا لے رہی تھی جب طلوع ہوتے سورج کی ہلکی سی کرنیں کرن پہ پڑی تو وہ پریشان ہوگئ

"میں نہیں جا رہی" بشرا باضد ہوئ

"کیا مطلب تم نہیں جارہی بشرا"

کرن کے ماتھے پہ کچھ بل نمودار ہوئ

"مجھے وہاں جانا وہاں" بشرا نے ہاتھ کا اشارہ کیا

"پاگل ہو گئ ہو اس ویرانے میں جا کر تم کیا کرو گی" کرن اسے ہوش میں لانے لگئ

"وہ وہاں کوئ رہتا ہے کوئ خاص مجھ جانا ہے اس سے ملنے میں جانا چاہتی ہوں وہاں اور تم نہیں روکو گی مجھے"

"مجھ لگ رہا ہے نا تمھیں سمجھ وہ جگہ وہاں کے لوگ سنا ہے ہم سے بہت مختلف ہیں "

بشرا بولتی کہیں کھو سی گئ

"اور یہ بھی سنا ہوگا وہاں جو گیا وہ کبھی واپس نہیں آیا اور تم بھی وہاں جا کر اپنی موت کو دعوت دینا چاہتی ہو تو سو بسم اللہ لیکن اس سے پہلے تمھیں گھر جانا پڑے گا کیونکہ تم یہاں میرے ساتھ آئ ہو میری سر پرستی میں سو تمھیں صحیح سلامت لے کر جانا میرا کام ہے خدا کے واسطے واپس چلو "

کرن اسے سمجھانے لگی

بشرا اٹھی وہ سامنے کی جانب چلتی جا رہی تھی کرن ندی کے کنارے بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی آہستہ بشرا کو پانی نے اپنے لپیٹ میں لینا شروع کیا

وہ جیسے جیسے آگے جارہی تھی پانی کا بہاو اور تہز ہوتا جارہا تھا جب کہ ندی کی گہرائ میں اور اضافہ ہورہا تھا

"یہ کیا بچپنا ہے بشرا میں کہ رہی ہوں واپس پلٹو" جب کرن نے دیکھا وہ واپس نہیں آرہی تو وہ اسے اللہ رسول کے واسطے دینے لگی

"خدا کے لیے بشرا لوٹ آو تم نا لوٹی تو میں بے قصور ماری جاوں لوٹ آو لوٹ آو" کرن وہیں بیٹھی بیھٹی اسے روتی آنکھوں سے پکارنے لگی

وہ آواز نکالنا چاہ رہی تھی مگر کوئ فائدہ نہیں سب بے سود اس کی آواز گلے میں اندر ہی کہیں دب گی  بے بسی کی انتہا تھی جہاں سے وہ گزر رہی تھی

"بشرا رک جاو اس بستی کے لوگ یہاں کے لوگوں سے زیادہ ظالم ہیں نا جاؤ ابھی بھی وقت ہے رکو لوٹ آو ایسا نا ہو بعد میں پچھتاو اور دیر ہوجاۓ "

کرن نے اپنا سب سے بڑا اور طاقت ور ہتھ کنڈا اپنایا

مگر بشرا رکی نہیں اچانک اس کا سر بھی پانی میں گم ہو گیا اور کرن بس تماشہ دیکھتی رہ گئ

بشرا بشرا"""" کرن بھاگتی اس کے پاس آی مگر اب دیر ہوچکی تھی پانی سر سے اوپر جاچکا تھا زندگی کی ڈور تھم گئ سب ختم

"بشرا خدا کے واسطے نکل آؤ تمھیں معلوم ہے یہاں ناک کے بدلے ناک کان کے بدلے کان ہاتھ کے بدلے ہاتھ لڑکے کے بدلے لڑکا اور لڑکی کے بدلے لڑکی لی جاتی ہے تم واپس نا گئ تو میں دربدر ہوجاوں گی میں نے تو تمھیں قتل نہیں کیا پھر میرا کیا قصور تم نے کہا تھا ہم صرف گھومنے جارہیں ہیں تم دغا باز نلکی تمھیں تو واقعی آزادی چاہیے تھی ان غلاموں سے مگر تم یوں مجھے دھوکہ دے کر ایسا کرو گی مجھے نہیں تھا معلوم

اب کون بچاۓ گا مجھے کون مجھے وہ لوگ بدلے میں دیں دیں گے لیکن میرا قصور کیا ہے صرف اتنا کہ میں نے تمھاری بات مان کر تمھاری خواہش پوری کی تم سنگدل تھی بشرا سنگدل "

اپنے ہاتھوں کو زمین پہ مارتی وہ وہیں رونے لگی

وقت نے اس پہ مہربان ہونا چاہا مگر وقت کے پنے اچانک الٹ دیۓ گۓ ایک داستان ابھی رقم ہونی تھی ایسی جس میں ایک ہری تتلی کو گلال سے نہلایا جانا تھا اس کی تابناک قسمت ہولناک ہونی والی تھی اسے آنے والے وقت سے ڈر لگنے لگا کیا وقت آگیا تھا اللہ سے ڈرنے کی بجاۓ اس کی مخلوق سے انسان ڈرنے لگے قیامت سے پہلے قیامت کا منظر دیکھائ دینے لگا

کرن واپس لوٹی تو خبر ہوئ سدرہ آپی نے نکاح میں انکار کردیا

سب لوگ پرشان حال بیٹھے تھے

عدنان  نے خود کو کمرے میں  بند کر رکھا تھا

سب کی حالت حال و بے حال تھی

جاری ہے۔

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments