Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Talash E Bahaar | Episode 9 | By Qurat Ul Ain - Daily Novels

 



 


 

 

 

 

 


تلاش بہار

قرات العین قیصرانی کے قلم سے

قسط نمبر 9

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: قرات العین قیصرانی

تلاش بہار

Text Box: قسط نمبر 09

 


زندگی کی لڑکھڑاہٹ میں کمی کی بجاۓ روانگی آگئ چرند پرند اس کے دکھ میں برابر کے شریک ہوگۓ اس چھوٹی سی بچی کو چھوٹی سی غلطی کا اتنا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کے ساتھ کبھی ایسا بھی کچھ ہوگا

اب اسے کنگن پہناے گۓ کسی نے کان میں سرگوشی کی اب تمھاری مرضی ختم یہی ہاتھ جن کو کنگنوں میں مقید کردیا گیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ تم پہ اب تمھاری مرضی نہیں رہی اب تم,تمھارا وجود سب پرایا ہوگیا ہے اسے لگا وہ بھاگ رہی ہے کبھی ادھر تو کبھی ادھر وہ اس بھنور میں پھنس گئ تھی جس کی کبھی اس نے خواہش کی تھی اور آج اس کی خواہش پوری ہوگئ تو وہ رونے لگی خوشی سے نہیں غم سے-

کیونکہ اس کی خواہش یہ تو تھی ہی نہیں یہ تو وہ زبردستی کا کھونٹا تھا وہ گلے کی ہڈی تھی جسے نا وہ اگل سکتی اور نا ہی نگل سکنے کی سکت رکھتی تھی -

لوگ اس کے آنسوں کو ماں باپ کی جدائ کے لیے استعمال کر رہے تھے مگر وہ واقعی اس جدائ کی خاطر نہیں رو رہی تھی

وہ تو اس قید سے ڈر رہی تھی جس میں وہ ہمیشہ کے لیے بندھنے جارہی تھی

اب اس کو نتھلی پہنای جا رہی تھی وہی جو ہر جانور کو ڈالی جاتی ہے لگام جس سے وہ قابو میں رہتا ہے اسے بھی کسی جانور کی طرح آخرکار وہ لگام ڈال دی گئ -

اب اس کے گلے میں رسا باندھا جارہا تھا مجبوریوں کا, مان کا, عزت کا, پیار کا, محبت کا, بھروسے کا جس کو مرتے دم تک ایسے ہی گلے میں سجا کر رکھنا تھا -

پھر اسے انگوٹھیاں پہنای گیں- بے بسی کا یہ حال تھا کہ اس کی انگلیوں کو بھی بیڑیاں پہنای جانے لگیں-

اب  اس کے پیروں کی باری تھی- سج سجا کے وہ قربانی کے لیے تیار کھڑی تھی -کچھ دیر بعد اللہ کی رضا کے ساتھ اسے اس  کے ساتھ باندھ دیا جانا تھا -

پھر وہ روز اسے نوچنے کا حق رکھتا تھا -اسے صرف حق یاد تھے فرض تو وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا-اب تو صرف حقوق کی یہ بڑی بڑی تقریریں تھی جو وہ اٹھتے بیٹھتے اسے سناتا

اسے لگا وہ اس کی ملکیت ہے تو وہ کچھ بھی کرنے کا اختیار رکھتا ہے - پھر وہ اس کی بیماری میں اس پہ ہاتھ اٹھانے لگا -آہستہ آہستہ وہ کمزور ہوتی گئ-اور یہ کمزوری اس کے لیے جان لیوا بنتی گئ -

اسے سمجھ نہیں آیا وہ یہاں کسی فرض کو نبھانے کے لیے لائ گئ ہے یا ایک ایسے قرض کا بدلہ دینے جس کی ابتدا اور انتہا اذیت, ظلم,بربریت,اور پھر وہ ابدی نید ہے جس کے بعد ساری تکالیف کا خاتمہ ہوجاتا ہے-

اسے شروع سے اللہ میاں کی گائے کہتے تھے سب- آج اس نے یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ واقعی اللہ میاں کی گائے ہیں-پھر وہ گائے چارہ نا ملنے روز روز کے حقوق پورے کرنے کے چکر میں ایک دن ایک بوڑھی کپکپاتی ہاتھوں میں زچگی کے دوران دم توڑ گئ

قربانی دی جاچکی تھی -اس کی بھی ایک بچی ہوئ وہ روز دعا کرتی یا اللہ مجھے بیٹی نا دے اور معاشرہ خوشی سے کہتا مرد شان ہے عورت کی اسی لیے وہ بیٹا مانگتی ہے

وہ کھانا بناتے بناتے رکی اچانک  وہ ماضی سے باہر آی

"کرن میری پیاری" سدرہ نے سرد آہ بھری جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا وہ سنانے اور بتانے کے قابل نہیں

"ملک کونین اللہ تم سے اس کا حساب ضرور لے گا ضرور لے گا اور میں اسی انتظار میں ہوں

تم لوگوں نے کتنی زندگیاں تباہ کی پہلے عمیر پھر بشرا پھر کرن اور وہ شازو

تم لوگ اللہ کی لاٹھی کو بھول گۓ جب وقت دہراۓ گا خود کو تو تم بھی رو پڑو گے اور وہ وقت نزدیک ہے میں آج اپنی آنکھوں سے دیکھ کے آرہی ہوں

اسے بھی اسی کرب کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے میں گزری تھی جس سے کرن گزری تھی

وہ آگیا ہے اپنا بدلہ لینے میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ہے وہی شعلہ برستی آنکھیں وہ رات کی سیاہی میں چھپا غم وہ سب بہا کے لے جاۓ گا اپنے ساتھ سب کچھ حتی کہ ایک سوئ بھی اور سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے

یہ انجام ہے ملک کونین تمھارا یہی انجام ہے تم نے جو کیا وہ تمھاری بیٹی بوۓ گی بغیر قصور کے مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گی تم اپنی سزا خود بھگتو گے خود! تم انسانیت کے نام پہ دھبہ ہو یاد ہے نا کیا کیا تھا کرن کے ساتھ اس ہری تتلی کے ساتھ گلال میں نہلایا تھا گلال میں- پہلے ہی دن اسے جانوروں کے ڈربے میں بند کردینا پھر بات بہ بات کوسنا مارنا چھت سے دھکا دے دینا کبھی اس کی ٹانگ ٹوٹی ہوتی تو کبھی ہاتھ سب یاد ہے کیسے میں اسے امیدیں دلا کر اسے سہارا دیتی "

سدرہ جو خود سے بڑبڑا رہی تھی اب اس کی بڑبڑاہٹ ختم ہوئ وہ روٹی بنا چکی اب وہ اپنے کمرے میں جارہی تھی

"افرا میری بچی" وہ کمرے میں گئ تو افرا سہم کے بیٹھی تھی کیا ہوا ہوں کیوں بیٹھی ہو بچے سب ٹھیک ہے

"مما بابا کو بلوا لیں وہ ارم میرے خواب میں آی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی وہ اپنا بدلہ لے گی مگر میں نے تو کچھ نہیں کیا مزاق تھا اس میں شانی کی نیت بگڑ گئ تو میرا کیا قصور"

وہ سدرہ کے گود میں رو رہی تھی اسے امید تھی وہ اسے بچالے گی ہر قیمت پہ ہر حالت میں ہر جگہ کیونکہ وہ اس کی ماں ہے اور ممتا تو چٹانوں سے ٹکرانے کی طاقت رکھتی ہے

مگر وہ تو اس کی ماں تھی ہی نہیں اس میں وہ جذبہ تھا ہی نہیں کہ وہ افرا کو اپنی بیٹی سمجھتی وہ تو صرف اسے اپنے بدلہ کا سامان سمجھ رہی تھی ایسا بدلہ جو ناصرف ملک ,افرا, سکندر حیات, مزمل بلکہ اسے بھی لے ڈوبتا

ابھی وہ سوئ مشکلوں سے تھی اس کا فون بجا وہ ڈر کے اٹھ بیٹھی  اسے فون کی آواز سے وحشت محسوس ہونے لگی بار بار اس کے سامنے ایک ہی چہرہ آتا اور وہ ارم کا تھا

افرا بچالو مجھے افرا افرا !! اسے اب ہر طرف ارم کی آوازیں آرہی تھی  وہ اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھی رونے لگی

فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی فون کو اٹھا کے اس نے اچھے سے دیکھا کون ہے جیسے اسے کسی کے فون کی امید تھی

نمبر جانہ پہچانہ سا تھا فون اٹھانے کی بجاۓ وہ فون کاٹ گئ اپنے لحاظ سے تو وہ کاٹ چکی تھی مگر فون اٹھالیا گیا تھا

کئ ماضی کے پنے کھلنے کو بے تاب بیٹھے تھے

***

تین مہینے بعد

"افرا باہر آؤ دیکھو کون آیا ہے تم سے ملنے" ملک کونین کی آواز پہ افرا سیڑھیوں سے ہوتی نیچے آی

"مزمل تم" افرا خوشی خوشی آگے بڑھی

"تم کب آۓ بتایا کیوں نہیں اپنے آنے کا آؤ بیٹھو" شرٹ صحیح کرتی وہ اسے سامنے صوفے پہ بیٹھنے کا کہ گئ

"اور بتاؤ سب کیسے ہیں ؟"  اتنے دن کہاں غائب تھے کچھ اتا پتا ہی نہیں تھا تمھارا نا کال اٹھا رہے تھے نا افرا بولتی گئ اور وہ ہنسی چھپاۓ سنتا گیا

"بس بس بس اب یہ چپ ہوگی تو میں کچھ کہوں گا نا انکل " مزمل نے کونین صاحب کی طرف دیکھا

"افرا اسے بھی بولنے کا موقع دو" کونین صاحب نے اخبار سے توجہ ہٹاتے کہا پھر دوبارہ اخبار میں گم ہوگۓ

"اچھا تم اوپر چلو میں تمھیں اپنا کمرا دیکھاتی ہوں اتنا پیارا سجایا ہے میں نے ہر شے گلابی گلابی کردی تمھیں پسند ہے نا گلاب کا پھول لیکن پتا ہے اس بارے میں بابا کو نہیں پتا انھیں فوبیا ہے گلاب سے سرخ گلاب سے اس لیے وہ کسی بھی رنگ کے گلال کو نا مجھے ہاتھ لگانے دیتے ہیں نا ہی لینے" افرا ہاتھ ہلاتی اس سے بولتی جارہی تھی جبکہ مزمل گھر دیکھ رہا تھا

"تم سن رہے ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں" افرا مڑی

دونوں کی ٹکر ہوتے ہوتے بچی

"او"" یہ مزمل کی آواز تھی جس نے ہاتھ اٹھاۓ ہوۓ تھے جیسے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو

"تم نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ انھیں گلال سے فوبیا کیوں ہے ایسا کیا ہوا تھا کیونکہ تم جانتی ہو یہ اکیسوی صدی ہے یہاں اس طرح کی باتوں کے پیچھے ہر شخص لوجک ڈھونڈتا ہے ایسا ہے تو کیوں کس وجہ سے کیا ہوا تھا ؟ کب ہوا تھا ؟ وغیرہ وغیرہ "

"یا میرے اللہ اتنا کون سوچتا ہے اپنی اتنی پروبلمز ہوتی ہے اب دوسروں کے بارے میں یہ سوچنے لگ گۓ تو وقت تو گیا ہاتھ سے "

"ہی از ناٹ دوسرا افرا وہ تمھارے ابو ہیں "

"یاد ہے مجھے میرے ابو ہیں ایسے ہوتے ہیں ابو یاد ہے تمھیں جس دن وہ ارم والا واقع پیش آیا تھا جناب اعلی نے صرف ایک فون کرکے پوچھا تھا سب ٹھیک ہے اور پھر پورے تین دن بعد آۓ تمھیں پتا ہے ایک دن میں کتنے گھنٹے ہوتے ہیں نہیں تمھیں کیسے پتا ہوگا تم ڈاکٹر ہو ہر وقت بس دوایوں سے ہی پالا پڑتا ہوگا تمھارا "

"اچھا جی تو اور کیا کیا نہیں پتا ڈاکٹروں کو" مزمل نے آی برو اچکا کے کہا

افرا ہنستی پھر اگلے کمرے کی جانب چل پڑی

"یہی کہ کون انھیں چاہتا ہے کون ان سے نفرت کرتا ہے کون ان کا بے صبری سے انتظار کرتی ہے وغیرہ وغیرہ "

"یہ وغیرہ وغیرہ  میں کیا کیا دستیاب ہے" مزمل نے ہنستے پوچھا

"یہ تو وغیرہ وغیرہ جانے مجھ کیا" معلوم افرا بھی ہنستے آگے چل پڑی

"سو یہ ہے میرا روم دیکھو کتنا پیارا ہے نا" افرا گول گھومتے ہوۓ کہ رہی تھی

بہت مزمل نے کہا

"تمھیں ڈر نہیں لگتا گلال سے افرا" مزمل نے کہا تو افرا کے گھومتے پیر رکے

"تمھیں کیا لگتا ہے فوبیا کے پیچھے کیا وجہ ہوگی تمھارے بابا کی کبھی سوچا ہے تم نے"

وہ اس کے باپ کے خلاف پہلا بیچ بوچکا شک کا بیچ تجسس کا بیچ بدگمانی کا جو آہستہ آہستہ اسے کھاجانے والا تھا

"اچھا چھوڑو یہ سب اور بتاؤ کل چلیں ندی کنارے " مزمل نے رخ تبدیل کیا جو بیج وہ بونا چاہتا تھا وہ تو بو دیااب اسے نتیجے کا انتظار تھا

******

"میں نے کچھ نہیں کیا تایا جی میں نے نہیں مارا بشرا کو وہ خود مرگئ میں اللہ کی قسم اٹھاتی ہوں میں نے ایسا کچھ نہیں کیا " وہ تایا کے پیروں میں بیٹھی گڑگڑا رہی تھی

"خدا کے لیے مجھے آزاد جینے دیں مجھے میرے اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے میں غلام نہیں ہوں آپ کا خون ہوں کچھ تو رحم کریں آپ کی بھتیجی ہوں وہ سکندر حیات ہی کیا جو سنگدل نا ہو جس میں کم ظرفی نا ہو اپنے اصولوں کا کھرا لیکن عورت کے معاملے میں کچھ زیادہ سخت اور اب تو بات اس کی بیٹی کی تھی اس کے جگر کے ٹکڑے کی

عدنان بھائ دیکھیں نا آپ کی بہن کو کیا فیصلہ سنایا ہے جرگہ نے بھائ کچھ تو بولیں کچھ تو کہیں "

امی امی "" وہ بھاگتی ماں کےپاس پہنچی

"میں بے قصور ہوں میں نے کچھ نہیں کیا خدا کے واسطہ مجھے بچا لیں آپ کو تو معلوم ہے ونیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے معلوم ہے نا آپ کو پھر بول کیوں نہیں رہی آپ ؟ "

"بابا آپ کہیں کچھ آپ نے تو وعدہ کیا تھا میں کبھی اپنی بیٹی کے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دوں گا وہ جو مانگے گی وہ دوں گا میں آج آپ سے آپ کے شفقت کا مظاہرہ مانگتی ہوں میں آپ سے آپ کی انسانیت مانگتی ہوں بچا لیں انسانیت کو بچالیں "

 

******

 

"کیسے ہو مزمل بیٹا؟" سدرہ کے فون کرتے ہی فون اٹھا لیا گیا

"آپ کون ؟" وہ انجان بننے کی ایکٹنگ کرنے لگا

"اپنا کام کرو جتنا جلدی ہو سکے لیکن اگر میری بچی کو نقصان پہنچا تو یاد رکھنا پھر بدلوں میں  نسلیں جلیں گی "

سدرہ نے کہا اور سکون سے کرسی گھسیٹتی اس پہ بیٹھ گئ

"کیا کہنا چاہ رہی ہیں آپ میں سمجھا نہیں "

"سمجھ تو مجھے آگئ ہے ملک شہیر تمھارا کام بدلہ لینا ہے صرف ظالم سے جو مظلوم ہیں ان کا تم سے کوئ واسطہ نہیں "

"آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں کھل کے بات کریں" ماتھے پہ آۓ پسینے کو صاف کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا

"افرا کے آگے پیچھے کیوں گھوم رہے ہو تم"

"دوست ہوں اس کا"

دوٹوک جواب دیا گیا

"ٹھیک ہے پھر یہ دوستی یہی ختم آیندہ نا یہاں آنے کی کوشش کرنا نا اس سے ملنے کی مجھے خود اپنا بدلہ لینا آتا ہے"

*****

ماضی

"جاؤ یہاں سے یہ اتنا بن ٹھن کے کیوں بیٹھی ہو تمھیں کیا لگتا ہے میں نے ناز نخرے اٹھانے کے لیے تم سے شادی کی ہے ونی ہوئ لڑکی ہو ونی جانتی ہو نا کیا سلوک ہوتاہے ونیوں کے ساتھ جاؤ اب یہاں سے "

"میں کہاں جاوں گی" کرن جس نے اپنے قد سے بڑی فراک پہن رکھی تھی روتی ہوئ اس کے سامنے کھڑی ہوی

"جہاں مرضی جاؤ مگر مجھے تم یہاں نظر نا آؤ

خون کھولتا ہے میرا جب جب تمھیں اپنے سامنے زندہ دیکھتا ہوں کتنی تڑپی ہوگی میری بہن جب تم نے اسے دھکا دیا ہوگا اسے ندی میں

سسکیوں میں پکارا ہوگا اس نے "

"ہاں اب تو سارے بدلے رہتے ہیں کرن بیگم سارے جتنی تکلیف میری بہن کی روح کو ہوئ تھی اس سے دگنا میں تمھیں دوں گا "

"دفع ہوجاؤ اب یہاں سے واپس نظر نا آؤ مجھے یہاں تم "

حقارت سے کہتا وہ واپس اپنے بیڈ پہ آیا

کرن وہاں سے جاچکی تھی

ابھی وہ مشکلوں سے سوئ تھی کہ ڈراینگ روم کا دروازہ بجا

وہ اٹھ کھڑی ہوئ نید میں جھولتی وہ دروازہ کھول گئ

"تمھاری ہمت کیسے ہوئ یہاں سونے کی نکلو یہاں سے "

سامنے مسسفرہ بیگم کھڑی تھی

چچی کرن نے بھری آنکھوں سے انھیں دیکھا

"کیسی چچی کہاں کی چچی جب میری بچی کو مارا تھا تب تو یاد نا آئ تھی میں اب جب حساب چکانے کی باری آئ ہے تو چچی یاد آگئ

ساہی لے جا اسے اوقات یاد دلا اس کو" نفرت سے کہتی وہ واپس چلی گئ

"چل یہاں سے" ساہی کرن کا بازو پکڑے اسے اپنے ساتھ لے جانے لگی

"کہاں لے کر جارہی ہو مجھے  چھوڑو مجھے آہ میرا ہاتھ درد ہورہا ہے چھوڑو "

سامنے جاتے ہی وہ اسے کمرے میں بند کرچکی تھی

اب کرن تھی اور اس کی چیخیں وہی چیخیں جن کی گونج مہینے میں ایک دفع اس حویلی میں ضرور گونجتی تھی وہی جگہ جہاں ہزاروں شازو کی چیخیں دفن تھی اب ایک نئی شازو ان کا اپنا خون وہاں دفن ہونے جارہی تھی

اچانک دروازہ کھلا اور اسے اندھیرے سے کوئ باہر لے گیا

*****

 

* ہر مسکراتا چہرہ اپنے اندر ایک داستان چھپاۓ ہوۓ ہوتا ہے

* دور کی چیزیں قریب دیکھای دینے کا مطلب یہ نہیں وہ چھونے سے پاس آجآئیں گی

* جدید دور میں ہر اداس دکھنے والا انسان

صرف اپنے تخلیاتی دنیا میں خوش ہے

* زمانہ آپ سے ہے نا کہ آپ زمانہ سے

* خون کے رشتوں اور احساس میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو میں بیچ کا رستہ اختیار کروں گی

* زمانہ تب بھی ٹوکے گا جب چپ رہو گے اور تب بھی جب حق بولنا سیکھو گے

*سچ اس وقت سچ ہے جب تک اسے تسلیم نا کیا جاۓ اور تسلیم کے بعد وللہ سب ویسا ہی رہتا ہے جیسا ہوتا ہے

*انسان سے امیدیں کیسی فانی تھا فانی ہے فانی رہے گا

*زندگی کی کڑواہٹ کو ہضم کرنا ہی دستور زمانہ ہے

*زندگی وہاں خودکشی کرتی ہے جہاں آپ کی ماں آپ کے سامنے روتی ہے

بشرا وہاں بیٹھی سب سن رہی تھی وہ زندہ تھی صحیح سلامت وہ کیسے بچی کون اسے بچا کے لایا اس بات کو ماضی نے ایک سنہری جال میں بند کردیا اس کی نئی زندگی شروع ہوچکی تھی خود غرضی کی ہر وہ شے جو حد سے بڑھ جاۓ انسان کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے پھر چاہے اندر سے ہو یا باہر اس کی بو دور دور تک جاتی ہے اور یہ بو عام بو سے بہت مختلف ہوتی ہے جو اپنے ساتھ غم کی شام کی گہرائ میں غوطہ زن ہوکر سیاہی کے پردے پہ رقص کرتی ہے وہ شام جو نظروں سے اوجھل ہو کر جھلمل کرتے ستاروں کے بیچ و بیچ اپنے آب و تاب کے ساتھ ہزراوں زندگی نگل لے

کہاں گئ وہ باتیں جو تو کیا کرتی تھی بشرا کہاں گئ وہ دوستی وہ رشتے وہ ناطے کرنی جلدی تو بدل گئ کتنی جلدی تجھے معلوم ہے تجھے صرف جاننے کا شوق ہے ایک تجسس ہے جو تیرے اندر ہی اندر لاوے کی طرح پکتا ہے اور پھر پھر جب حقیقتیں تجھ پہ آشکار ہوتی ہیں تو تو ترک تعلق کرلیتی ہے کنارہ کشی کتنی تکلیف دیتی ہے اس میں کتنے دل ٹوٹتے ہیں جا پوچھ اس سے جس کو روتا چھوڑ آئ تھی تو کون ہوتی ہے کسی کے جزبات سے کھلواڑ کرنے والی کس نے تجھے یہ حق دیا ہے سوچ بشرا سوچ یہ سب کیا وہی ہے جو تو نے سوچا تھا یہ سب جو تیرا خواب تھا کیا سب وہی ہے کیا یہی حقیقت ہے تیری کیا اسی شے کا انتظار تھو تجھے سوچ نا تو سوچتی کیوں نہیں بابا ابھی بھی بول رہے تھے مگر بشرا تو اپنے اندر کی آواز کو بیدار کر رہی تھی اس آواز جو کسی کونے میں وہ دفن کر آئ تھی اسے اب دوبارہ زندگی دینا چاہتی تھی وہ نہیں سن رہی تھی بابا نے کیا کہا اسے اب سمجھ آرہا تھا سب ایک جیسے ہوتے ہیں سب کے سب  بس یہ نظر کا دھوکا ہوتا ہے کبھی کبھی جو نظر آتا ہے وہ سچ نہیں ہوتا جو دکھتا ہے وہ سراب بھی تو ہوسکتا ہے اچانک اس کے سر میں درد کی ہلکی سی ایک ٹیس اٹھی وہ اپنا سر اپنے ہاتھوں کی میں پکڑ کر اٹھنے لگی مگر درد کی شدت میں اضافہ ہوگیا وہ ابھی کھڑی بھی مشکلوں سے ہوئ تھی کہ اس کو چکر آگۓ اسے لگا یہ اس کا سر نہیں ہے اس کے سر میں کسی نے فٹ بال فٹ کردی ہے جو اس کے زمین پہ اٹھنے سے بدحواسوں کی طرح ناچنے گانے لگتی ہے اور یہ بہت تکلیف دہ شے ہے

***

 

تمھیں معلوم ہے افرا جب تم پہلی دفعہ مجھ سے ملی تھی تو کتنا ڈرتی تھی ایسے جیسے میں کوئ دیو ہوں جو تمھیں کہیں دور اٹھا کے لے جاوں گا اور تم کسی پرستان کی شہزادی

مزمل نے گھاس پہ ہاتھ چلاتے اس کی طرف دیکھا

ہاں تو تمھیں شک ہے اس بات پہ دیو جی

افرا ہنسی

مزمل کی شکل دیکھنے والی تھی

وہ ایک لمحے کے لیے اس کی ہنسی میں ڈوب گیا

کیسے وہ خوش رہ لیتی ہے اتنا کیسے وہ برداشت کرے گی جب اسے معلوم ہوگا کہ اس کی ماں کو اس کے اپنے ہی باپ نے مار ڈالا

وہ اس سب کے ساتھ کیا واپس زندگی کی طرف لوٹ آۓ گی یا دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے اسے کسی مزمل کا انتظار رہے گا

وہ سوچوں میں گم تھا افرا نے بھی بات نا کرنی ضروری سمجھی

وہ دونوں وہاں ہوتے ہوۓ بھی وہاں نہیں تھے دونوں ہی اپنی اپنی تخلیاتی دنیا میں بہت دور نکل چکے تھے ان دیکھے ررستوں پہ وہ رستے جو تکلیف کے سوا کچھ نا دیتے تھے وہ اس درخت کو ڈھونڈنے لگے جو سایہ نا دیتی ہو ان کی تلاش اس تلاب کی تھی جس میں پانی نا ہو ان کی تلاش اس بہار کی تھی جس میں پھول نا ہوں جس میں خوشی نا ہوں کیونکہ خوشی انھیں ایک دوسرے سے جدا کردیتی تھی اور غم انھیں ملانے کا ذریعہ بنتی تھی اور وہ دونوں غم کے سہارے زندہ تھے جب تک غم آن کے اندر باہر ادھر ادھر آس پاس زندہ تھا وہ بھی زندہ تھے انھوں نے کبھی سوچا ہی نہیں وہ تو مرنے کے لیے زندہ ہیں

زندگی تو کوسوں دور پرے ان سے اختلاف کر کے بیٹھی تھی ساری کوشش بے کار ہوگی

 

****

سدرہ زمین پہ بیٹھے چاک سے کچھ لکھ رہی تھی سفید چاک سے سفید فرش پہ لکھنا یعنی پانی سے پانی کو دھونا جیسے تھا

اسے آج تک معلوم نا ہوسکا وہ کیا واقعی اس بدلے کے لیے زندہ ہے کرن تو معصوم تھی ہی مگر اس کی اپنی معصومیت وہ کہاں گئ کرن کا بدلہ تو رب نے لینا تھا پھر اس کی معصومیت کا بدلہ کون لے گا وہ تو خود ہی قاتل بن بیٹھی تھی اپنی خوشیوں کی اپنے آپ کی اپنے ضمیر کی اپنے اندر بستی اس ہستی کی وہ جو اتنے سالوں سے خواب بساے خجواب ڈھونڈنے میں مگن تھی اسے تو معلوم ہی آج ہوا جواب تو اس کے اندر موجود ہے

عمیر جیسا بھی تھا جو بھی تھا وہ اس کی زندگی کا وہ سبق تھا جسے پڑھے بغیر اس نے اپنی زندگی کی ککتاب بند کردی اگر اس سبق کو غلطی سے کوئ پھاڑ کر لے گیا اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا وہ باقی کتاب ایسے ہی چھوڑ دے

میں آج بھی اسی گرداب کے گرد گھوم رہی ہوں جس کے گرد بیس سال پہلے تھی اسی گرداب کے چکر کاٹتے کاٹتے مجھے اس کی عادت ہوگئ ہے وہ عادت جیسے کوئ جانور پالے اور اسے اس سے پیار ہوجاۓ  سنا ہے پیار کو بھولنا آسان ہوتا ہے مگر عادیتیں کو چھوڑنا ناممکنات میں سے ہے بات یہ نہیں مجھے عمیر کی عادت تھی مجھے تو ہہمیشہ سے غمگین ہونے کی عادت تھی اور میں وہ انسان ہوں جسے کوئ دو بول پیار کے بول دے وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح جس کو لولی پاپ دیکھا کر لوگ بہکا لے جاتے ہیں اس کے پیچھے چلی جاتی ہوں میں کون سے بدلے کون سے آگ کی بات کر رہی ہوں جو کبھی کسی میں تھا ہی نہیں میں ایسے شخص سے بدلہ لینے کی کوشش کر رہی ہوں جو اس دنیا میں ہے ہی نہیں جو کب کا مر کھپ چکا تو پھر میں عمیر کے قبر کی مٹی کو پلو سے کیوں باندھے کھڑی ہوں انسان تو فانی ہے اور فانی چیزوں سے کونسی محبت کیسی محبت کیسی چاہت جو زندہ ہے وہ زندہ ہے مگر وہ بھی تو موت کے انتظار میں زندہ ہے لوگ آتے ہیں آپ کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پپھر ایسے لاتعلق بن جاتے ہیں جیسے ہم ان کے لیے کچھ تھے ہی نہیں کیوں سدرہ کیوں تجسس ختم ہوتے ہی تعلق منہ پہ کیوں ماردیا جاتا ہے میں سمجھتی تھی میں ایسی نہیں مگر میں بھی ایسی ہی ہوں سب کی جیسی سب اندر سے ایک جیسے ہوتے ہیں بس کسی کو پتا نہیں ہوتا کون کیسا ہے جیسے ہی پتا چلتا ہے وہ کنارہ کشی کر کے نئے کی تلاش ,پھر نئے کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں انھیں لگتا ہے ان کی زندگی میں خزاں ہے اور وہ تلاش بہار کے چکروں میں ہے مگر انھیں تو معلوم ہی نہیں بہار اور خزاں تو ان کے اندر موجود ہے ایک شے کو انھوں نے اتنا سوار کرلیا ہے کہ انھیں دوسری شے وہ جو قریب پڑی ہے دکھ ہی نہیں رہی

وہ سوچتے سوچتے وہیں سو گئ

****

جاری ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments