Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Dil Se Dil Tak | Episode 10 | By Sidra Shah - Daily Novels

 




 

 

 

 

 


دل سے دل تک

سدرہ شاہ کے قلم سے

قسط نمبر10

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: سدرہ شاہدل سے دل تک

Text Box: قسط نمبر10 


ہیلو گل لالئ  ایم عاینہ  اور یہ میری دوست تحریم اور نتاشہ ۔۔

گل لالئ  آج اکیلے آئی تھی کالج ماریہ روحی کی منگنی کی تیاریوں میں مصروف تھی ۔ تو مجبوراً گل لالئ کو اکیلے آنا پڑا ۔

عاینہ  گل لالئ سے کافی امپریس تھی ۔ ایسے اکیلا دیکھا تو  بات کرنے چلی آئی ۔۔

گل لالئ نے ایک نظر اس خوبصورت لڑکی کو دیکھا جو اسی کی کلاس فیلو تھی ۔ اور ایک نظر اسکے بڑھے ہوۓ ہاتھ کو ۔۔

نائس ٹو میٹ یو بیوٹیفل گرل

ہاؤ سویٹ ۔۔۔

عاینہ نے بےتکلفی سے اسکے گال پر پیار سے چٹکی کاٹی ۔

آخر ہم پٹھان لوگ ہیں میٹھا تو ہوں گا ۔۔

گل لالئ نے ایک ادا سے کہا ۔

کیا ہم فرینڈز بن سکتے ہیں ۔

عاینہ نے کہا ۔۔

ماریہ کو پتا چلا  تو ہمکو ہماری داداجی کی بندوق سے اُڑا دے گا ۔۔

ارے آپ بے فکر رہیں  ماریہ بھی ہماری دوست ہی ہے۔۔

یہ تو ٹھیک ہیں پر ایک اور بات ۔۔

ہماری ڈکشنری میں دوست لفظ نہیں ۔۔

گل لالئ نے ڈرامائی انداز میں کہا ۔۔

کیا ہم دوست نہیں بن سکتے ۔۔

عاینہ نے اُمید بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔۔۔۔

انہوں ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔

گل لالئ نے نہ میں سر ہلایا ۔۔۔۔

اوکے ۔۔۔

عاینہ نے افسردگی سے کہا ۔۔۔

چلو ہم تم کو کچھ اور بناتا ہے ۔۔۔

وہ کیا ۔۔۔

عاینہ  نے بےتابی سے پوچھا ۔۔۔

آج سے تم سب ہمارا بہنیں ہو ۔۔

گل لالئ شرارتی لہجے میں بولی  ۔۔۔

واہ تمھاری منطق بہت  نرالی ہے ۔۔

عاینہ نے  کہا ۔

ہاں تو شیرنی کا بچہ ہے ہم ۔

گل لالئ نے فرضی کالر جھاڑ کر کہا ۔

تو پھر کیا خیال ہے گرلز چلیں کینٹین ۔۔۔

تحریم نے کہا ۔

ہاں ہاں چلتے ہیں ۔۔

سب نے ہاں میں ہاں ملائی ۔ اور چل دیے۔۔۔۔۔

۞۞۞۝۞۞۞

 

تو کیا سوچا آپ نے پھر کب لےکر آؤں بارات میں ۔

اس نے مقابل سے پوچھا ۔۔

بکواس بند کرو اپنی خبر دار اگر آپنی گندی زبان سے میری بیٹی کا نام بھی لیا تو  زندہ زمین میں گاڑ دوں گا ۔۔۔

مقابل نے اسکا گریبان  پکڑ کر کہا ۔

ہاہاہا ہاہاہا ہاہاہا ۔۔

اسکا قہقہہ پورے  آفس روم میں گونجا ۔۔

سسر جی اتنا بھی پھرتيلا پن اچھا نہیں ۔ کبھی کبھی یہی عادتیں صحت کے لیے مضر بن جاتی ہیں  ۔۔۔

اس نے اپنے گریبان سے اسکا ہاتھ ہٹا کر کمینگی سے ایک آنکھ دبا کر کہا ۔

بے غیرت انسان ۔۔۔

مقابل اس پر چڑھ دوڑا

نہ نہ سسر جی یہ غلطی نہ کرنا پہلے ہی مجھ سے اُلجھ کر بہت نقصان اُٹھا چکے ہیں ۔۔۔

اس نے مقابل کو دھکا دے کر دور کیا ۔

چلتا ہوں پر میں پھر آؤں گا سیدھی طرح لڑکی میرے حوالے کر دو عزت سے لینے آؤں گا ورنہ پھر بھول جائیں آپکی بیٹی کی عزت کبھی محفوظ رہے گی  مجھ کو ہلکا نہ لینا سسر جی

آرام سے ایسا نہ ہو اسکو حاصل کرنا میری ضد بن جاۓ ۔

اور ضد سے تو واقف ہی ہوں گے آپ میری۔  برباد تو ہوچکے آپ پہلے ہی اب ہاتھ ملائیں اور اچھے بچوں کی طرح میری بات مان جائیں ۔۔

وہ  اسکے گالوں کو زور سے کھینچتا ہوا نکل گیا ۔۔

اس کے جانے کے بعد وہ بےبس باپ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا ۔

کیسے دے دوں اپنی پھولوں جیسی نازک بچی کو تم جیسے درندے کے ہاتھ ۔

کیسے اپنی بیٹی کو زندان میں ڈال دوں ۔

اس نے اپنے سر کے بال نوچتے ہوئے کہا ۔

یا اللہ میری مدد فرما میری معصوم بچی کو ان وحشی لوگوں سے بچا ۔

اس نے دعا کی ۔

۝۞۞۞۞۞۝

 

بیٹا کوئی نوکری ملی ۔

نورین بیگم نے پوچھا ۔

اسد مرزا جو چاۓ پی رہا تھا ۔

ماں کی بات پر مایوسی سے نہ میں سر ہلایا ۔۔

بیٹا تم پریشان نہ ہو ۔ کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی ۔

نورین بیگم نے اسکے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسکا حوصلہ بڑھایا ۔

انشاءاللہ امی

مرزا عثمان ایک ریٹائرڈ آفیسر تھے ۔

گزارہ اچھا چل رہا تھا ۔ پر اس مہنگائی کے دور میں کب تک حالات ٹھیک رہتے ۔ اسد گریجویٹ تھا پر اس دور میں رشوت کے بغیر معمولی سی نوکری ملنا آٹے میں نمک تلاش کرنے کے برابر ہے ۔

اسد ٹاپر  ہوتے ہوۓ بھی بےروزگار تھا ۔ تو عام نمبروں سے پاس اسکے ساتھی بڑی بڑی پوسٹ پر فائز تھے ۔

یہی تو المیہ ہے  کہ یہاں ٹیلینٹ کو کوئی نہیں دیکھتا پیسوں کو دیکھا  جاتا ہے ۔ اسد جیسے کتنے ہی نوجوان ٹیلینٹ ہونے کے باوجود بےروزگار ہیں ۔ انکا سارا دن یوں ہی دفتروں کی خاک چھانتے گزر جاتا ہے ۔

اسد نے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔ قلفی بیچنے کا ۔

ایسے کئی نوجوان ہیں ۔ جو یہی کام کر رہے ہیں ۔

جن کے پاس رشوت کے پیسے نہیں وہ ایسی ہی زندگی گزار رہے ہیں .

۞۞۞۞۩۞۞۞۞

 

رُکو شاویز بات سنو تم اسطرح سے مجھے اگنور کیوں کر رہے ہو ۔

سالک شاویز سے ملنے آیا تھا انکے گھر پر شاویز اسکے ہاتھ ہی نہیں آرہا تھا ۔

شاویز بنا سالک کو جواب دیے اپنی کار کی طرف بڑھا ۔

شاویز

سالک نے اسکا بازو پکڑا ۔

سالک میرا ہاتھ چھوڑو میں کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا ۔

شاویز نے اپنے اندر اُٹھتے اشتعال کو روکتے ہوۓ کہا ۔

کیا بات ہے اپنے بھائی کو نہیں بتاؤ گے  ۔

سالک نے کہا ۔

مجھے خود کی خبر نہیں  تمھیں کیا بتاؤں  سالک

اس نے کرب سے کہا ۔

ارے کیا ہوگا ہے  میرےبھائی تو یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے  ۔

سالک نے فکرمندی سے کہا ۔

کیا فرق پڑتا ہے میرے بھائی برباد تو ہو چکا ہوں بہکنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

شاویز نے ہونٹوں پر زخمی سی مسکراہٹ سجا کر کہا ۔

کس نے برباد کیا یار تو کیا کہہ رہا ہے  مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔

دیکھ عاینہ سے غلطی ہوگئی چھوٹی سـ ۔

ٹھاہ۔۔۔۔۔۔ شاویز کے مارے تھپڑ سے سالک کے منہ میں ہی الفاظ رہ گئے ۔

وہ حیرت اور بےیقینی سے اپنے جگری دوست کو دیکھ رہا تھا ۔

غلطی اسے غلطی کہ رہا ہے گناہ کیا ہے گناہ میرا دل توڑ کر کسی اور کا دل آباد کر لیا ۔واہ میرے دوست وہ تو کہ رہا ہے غلطی ہوگی ۔

شاویز غصے سے پھنکارتے ہوے بولا ۔

دیکھ آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔ اس وقت تو غصے میں ہے تجھے میری بات سمجھ نہیں آئے گی تو چل میرے ساتھ

سالک نے اس کا بازو پکڑ کر کہا ۔۔۔۔۔۔

میں کہیں نہیں جاؤں گا جو بات کرنی ہے یہیں کرو ۔۔

تو پھر بول عاینہ نے کیا غلط کیا؟ ۔۔۔۔ بتا اس دن کیا ہوا تھا ۔

مجھے سحرش کی کال آئی تھی اس نے کوئی ضروری بات کرنی تھی تو مجھے کیفے بلایا  ۔

وہاں عاینہ  بھی اپنے دوستوں کے ساتھ آئی تھیجاری ہے۔

وہاں عاینہ  بھی اپنے دوستوں کے ساتھ آئی تھی ۔۔

پھر وہ عالیان  ٹکرایا اور مجھ سے برداشت نہیں ہوا میرا ہاتھ اُٹھ گیا ۔

اور عاینہ مجھے باتیں سناتی اسکو لے گئی ہاسپٹل ۔

تو اس میں تم کہاں برباد ہوۓ ۔

سالک بولا ۔

عاینہ اور عالیان اور۔ عاینہ کے تعلقات ہیں  ۔

شاویز نے غصے سے کہا ۔۔

شاویز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے زیادہ اونچی آوازہ میں سالک چلایا ۔

میری پہن پر گھٹیا الزام لگانے کی تمھاری ہمت کیسے ہوئی ۔

سالک کا ہاتھ شاویز کے گریبان پر تھا ۔

میں نے کوئی الزام نہیں لگایا۔ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ اسکی کتنی پرواہ تھی عاینہ کو  اور میرے شک پر تصديق کی مہر سحرش نے لگائی اس نے کہا مجھے ۔

شاویز نے چلاتے ہوۓ کہا ۔

تو یہ ہے تمھاری محبت مسٹر شاویز ۔

میری محبت پر انگلی مت اُٹھاو ۔

شاویز نے اسکو لتاڑا ۔

کیوں بُرا لگ رہا ہے جب وہ عورت عاینہ پر ایسے گھٹیا اور چیپ الزام لگا رہی تھی تب تمھاری یہ محبت کہاں تھی ہاں بولو ۔

سالک نے دھاڑ  کر کہا ۔

ارے جہاں اعتبار نہیں وہاں پیار نہیں ۔ عاینہ پر مجھے خود سے زیادہ بھروسہ ہے ۔ اور تم رہو اس غلط فہمیوں میں عاینہ جیسی لڑکی کے کردار پر تم  سحرش جیسی لڑکی کی بات پر یقین کرو گے مجھے یقین نہیں آرہا ۔

سالک یہ کہتا ہوا چلا گیا ۔

شاویز نے اسکی بات پر شرمساری سے سر جھکا لیا ۔۔

سالک کی بات شاویز کے دل پر لگی تھی ۔ عاینہ نے نہیں بلکہ اس نے گناہ کیا تھا عاینہ کے کردار پر شک کر کے  شاویز اب پچھتا   رہا تھا ۔

نہیں میں عاینہ کو نہیں کھونے دوں گا ۔ سالک اور عاینہ کو منع کر ہی رہو گا ۔

شاویز ایک عزم سے کہتا اندر کی طرف بڑھا ۔۔۔

۔

بے غیرت انسان ۔۔۔

مقابل اس پر چڑھ دوڑا

نہ نہ سسر جی یہ غلطی نہ کرنا پہلے ہی مجھ سے اُلجھ کر بہت نقصان اُٹھا چکے ہیں ۔۔۔

اس نے مقابل کو دھکا دے کر دور کیا ۔

چلتا ہوں پر میں پھر آؤں گا سیدھی طرح لڑکی میرے حوالے کر دو عزت سے لینے آؤں گا ورنہ پھر بھول جائیں آپکی بیٹی کی عزت کبھی محفوظ رہے گی  مجھ کو ہلکا نہ لینا سسر جی

آرام سے ایسا نہ ہو اسکو حاصل کرنا میری ضد بن جاۓ ۔

اور ضد سے تو واقف ہی ہوں گے آپ میری۔  برباد تو ہوچکے آپ پہلے ہی اب ہاتھ ملائیں اور اچھے بچوں کی طرح میری بات مان جائیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments