Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Dil Se Dil Tak | Episode 11 | By Sidra Shah - Daily Nove

 




 

 

 

 

 


دل سے دل تک

سدرہ شاہ کے قلم سے

قسط نمبر11

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: سدرہ شاہدل سے دل تک

Text Box: قسط نمبر11 

 


۝۝۝۞۞۞۝

#_____ماضی

مجھے دو میری ڈول یہ تمھاری نہیں ہے  دو واپس  ۔

وہ سات سال کی بچی جس نے پنک فراک پہنی تھی ، سنہری خوبصورت لمبے بالوں کو کھلا ہی چھوڑا تھا ۔ سر پر خوبصورت تاج پہنے وہ ننھی سی پری لگ رہی تھی ۔ جو پُرستان سے بھٹک کر یہاں آگئی ہو ۔۔ ۔

میں پاپا کو تمھاری شکايت لگاؤں گی ۔

وہ ننھی سی بچی سرخ پھولے گالوں پر سے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی ۔۔

ہاہاہا ہاہاہا جاؤ جس کو بولنا ہے بولو میں کسی  سے نہیں ڈرتی  جس چیز پر میری نظر پڑ جاۓ وہ میری ہوتی ہے۔۔۔ سمجھی؟ ۔۔

اس کے مقابل بچی جو دس سال کی تھی ۔ آنکھوں میں بےپناہ غصہ اور نفرت لیے بولی ۔

دو مجھے میری ڈول میں نے کہا دو۔۔۔۔۔۔

وہ   اس کے ہاتھ سے اپنی فیورٹ ڈول لینے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی ۔

نہیں دوں  گی کہ دیا نا ۔۔۔۔۔۔

اور اس ننھی سی پری کو دھکا دیا ۔ اور وہ منہ کے بل گرپڑی ۔ ۔۔۔

آہہہہہہہ ۔

اس کے منہ سے دلخراش چیخ نکلی ۔۔

پری میری جان میری گڑیا یہ یہ کیا ہو گیا ۔۔

اسکی ماں جو اسکو دیکھنے آئی تھی ۔ سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ تڑپتی ہوئی اس کے پاس آکر اسکو اپنے سینے سے لگایا ۔

وہ جو زاروقطار رو رہی تھی اپنی ماں کی آغوش میں آکے چپ ہوئی ۔۔

یہ کس نے کیا گڑیا ۔۔

اس کی پیشانی کو دیکھ کر کہا ۔

جہاں ہلکی سی خراشوں سے خون رس رہا تھا ۔۔

وہ وہ آپی  نے کیا وہ میری ڈول بھی چھین کے لے گئی ۔۔

اس ننھی سی پری نے سوں سوں کرتے ہوۓ کہا ۔۔

اچھا تم آؤ میں ڈریسنگ کرتی ہوں  آؤ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھابھی دیکھیں  مجھے غلط نہ سمجھیں پر آپ کی بیٹی کی حرکتیں دن بدن خراب ہورہی ہیں آپ اس کو سمجھائیں اس پر دھیان دیں ورنہ اس طرح تو وہ بگڑ جائے گی ۔۔۔

اس نے آج دن کا سارا واقعہ دہراتے ہوئے کہا ۔۔

کیا مطلب تمھارا تم اور تمھاری بچی معصومیت کی دیوی ہو اور ہمیں تمیز نہیں۔۔۔ ہاں؟ ۔۔

وہ تو اُلٹا اپنی غلطی ماننے کی بجاۓ اس پر چڑھ دوڑی ۔۔۔

میں جاہل گنوار ہوں اور اپنی بچی کی تربیت اچھی نہیں کر رہی ۔۔

ہاےے آج یہ دن بھی دیکھ لیا اس گھر میں میری اور میری اولادوں کی یہی عزت رہ گئی بس یہی سننے  کو باقی رہ گیا تھا ۔۔

وہ اونچی اونچی آوازہ میں بین کرنے لگی ۔۔

نہ۔۔۔ نہیں بھابھی میرا وہ مطلب  نہیں تھا ۔

وہ اسکے واویلے سے گھبرا کر بولی ۔۔

ہاں میں اچھے سے جانتی ہوں تمھارے مطلب کو بھی بس رہنے دو بی بی  ۔۔۔

یہ کیا ہورہا ہے یہاں ۔۔

 

اچھا ہوا پھوپھو آپ آگئیں یہ دیکھیں  آپکی بہو مجھے کن القابات  سے نواز رہی ہے جاہل گنوار کہ رہی ہیں یہی عزت رہ گئی میری ۔۔۔

وہ پھر سے رونے لگی ۔۔۔

یہ سب کیا کہ رہی ہو طاہرہ ۔۔

عالیہ اعوان بھی حیرانی سے سب دیکھ رہی تھی

بی جان بھابھی غلط سمجھی میں نے صرف سحرش کی حرکت کے بارے میں بتایا کہ ۔۔

پھر جیسے جیسے ناعیمہ بتاتی گی عالیہ ایوان کے حواس ہی مفلوج ہونے لگے ۔ انھوں نے کبھی بھی سوچا نہیں تھا کہ سحرش ایسا بھی کر سکتی تھی

۔۔۔

بلاؤ سحرش کو ۔

عالیہ اعوان نے غصے سے طاہرہ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔

اصل میں انکو سب سے ذیاده غصہ اپنی بھتیجی طاہرہ پر آیا ۔ جو سحرش کو سمجھانے کی بجائے  ناعیمہ سے جھگڑے میں مصروف تھی ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طاہرہ عالیہ ایوان کے بھائی کی بیٹی تھی انہوں نے ہمیشہ سے ہی احمد کے لے اس کو  سوچا تھا ۔ پر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ احمد ایوان کو ناعیمہ پسند آگئی ۔۔

عالیہ ایوان نے آپنی پسند پر احمد کی پسند کو فوقیت دی

اور یہ بات طاہرہ سے برداشت نہیں ہورہی تھی ۔۔

ایسے ہی وقت گزرتا گیا

اور عالیہ کی دیورانی نے طاہرہ کو اپنے بیٹے زبیر کے لے مانگ لیا ۔۔

طاہرہ اور زبیر کی شادی ہوگی۔۔۔۔

 

 

پر طاہرہ کے دل سے یہ بھانس نکل ہی نہیں رہا تھا کہ احمد نے اسکو ٹھکرايا

اور وہ کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی ناعیمہ کو نیچا دیکھانے میں ۔

اور یہی عادت وہ سحرش میں بھی ڈال رہی تھی ۔

وہ خود ہی اپنی بچی کی دشمن بنی ہوئی تھی ۔

جو اسکو اچھا سکھانے کے بجاۓ اسکے دل میں نفرت کا زہر گھول رہی تھی ۔

وہ سحرش کی زبان درازیوں پر اس بدتمیزیوں پر منع کرنے کے بجاۓ اور شے دی رہی تھی ۔۔

اور سحرش تو بچی تھی ہمیشہ ہی اسکی ماں نے اس کے سامنے ناانصافیوں کا رونا رویا  ناعیمہ اور اسکے بچوں کے غلاف ورغلایا اور جب سحرش ان کے ساتھ بدتمیزی کرتی تو وہ خوش ہوکر اسکو گلے لگاتی اور  کہتی میری بیٹی میرا بدلہ لے گی ۔

اور سحرش کے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی  کہ اس نے اپنی ماں کا بدلہ لینا ہے۔

وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا ۔۔۔

زبیر صاحب  نے اپنا الگ گھر لے لیا ۔۔۔

طاہرہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہوتی گئی پر جو نفرت کا بیج اس نے اپنی بیٹی کے اندر بویا تھا ۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک پودے سے زہریلا درخت بن گیا ۔۔

طاہرہ تو یہ سب باتیں بھول بھال  گئی پر سحرش نا بھول سکی ۔

کہتے ہیں نہ کہ انسان کی پہلی درسگاه ماں کی گود ہوتی ہے ماں جو بچوں کو سیکھاتی ہے وہی بچہ سیکھتا ہے ۔

اور بچہ اپنی پہلی درسگاه میں سیکھائی جانے والی باتوں کو کبھی نہیں بھولتا ۔۔ بچوں  کا زہن کورے کاغذ کی مانند ہے

جو نقش آپ بناتے جائیں گے وہی پختہ ہوتا جاۓ گا

اور یہیں پر طاہرہ سے سنگین غلطی ہوئی ۔ اور یہ غلطی کس طرح ایوان فیملی پر اثر انداز ہوتی ہے یہ تو حال ہی بتائے گا ۔۔۔۔۔۔

خدارا اپنے بچوں کی ایسی تربیت نہ کریں کہ بعد میں آپکو خون کے آنسو رونا پڑے  ۔۔

۞۞۞۞۩۞۞۞۞

#___حال

آگ لگ گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگ لگ گی۔۔۔۔۔۔

دلہن کے کمرے میں آگ لگ گی ۔۔۔

پورے گھر میں لوگوں کی صدائیں گونج رہی تھیں ۔۔۔

نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔

دولہا جو نکاح کے لے اپنی دلہن کا انتظار کر رہا تھا حواس باختہ دلہن کے کمرے کی طرف دوڑا ۔۔

کمرے میں آگ کی شعاعیں باہر کی طرف بڑھ رہی تھیں تیزی سے سارا کمرہ آگ کے لپیٹ میں تھا دھواں چاروں طرف پھیل گیا تھا

مجھے جانے دو نہیں چھوڑو ۔۔

دولہا بار بار اندر جانے کی کوشش میں تھا پر گارڈز نے اسکو پکڑ رکھا تھا ۔

سنبھالو خود کو فاران ۔۔

اس کے باپ نے کہا ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسپکٹر صاحب کچھ پتا چلا ڈیتھ باڈیز کا ۔۔

صوفے پر بیٹھے بد حال ہوۓ آدمی نے بڑی امید سے پوچھا

 

نہیں آگ بہت پھیل گئی تھی اور آگ کی شدت بھی کافی زیادہ تھی تو جیسے کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ پورا کمرہ کا سامان راکھ ہو گیا تو ویسے ہی انکی باڈی بھی راکھ ہوگی ہے  ۔

انسپکٹر نے افسوسناک انکشاف کیا ۔۔

نہیں وہ مر نہیں سکتی۔۔۔ نہیں۔۔

اچانک اوپر کمرے سے چلانے اور کمرے کی چیزوں کے چٹخنے کی آوازیں آئیں۔۔

انسپکٹر صاحب بعد میں ملتے ہیں ۔۔۔

وہ انسپکٹر سے معذرت کرتا تیزی سے اوپر بڑھا ۔۔۔۔

۞۞۞۞۞۞۞

 

تم ہمارا پیچھا کس خوشی میں کر رہا ہے صبح سے ۔۔۔

وہ خطرناک گھوریوں سے اسکو دیکھتے ہوۓ بولی ۔۔۔

نہ نہی ۔۔۔

وہ لڑکھڑاتے ہوۓ لہجے میں بولا ۔۔

جیسے ہم جانتا نہیں نہ تم صبح سے فالو کر رہا ہے۔۔

گل لالئی آنکھیں سکوڑتے  ہوئے بولی ۔۔۔

وہ میں یہ آپکی فائل گر گئی تھی تو بس وہی دینے کے لیے آیا ۔۔

زین نے جلدی سے فائل آگے کی ۔۔۔۔۔

اوہ سوری ہم نے بلاوجہ تم کو ڈانٹ دیا ۔۔

گل لالئی اس کے ہاتھ سے اپنی فائل لیتے معذرت خواہ لہجے میں بولی ۔

کوئی بات نہیں مجھے بُرا نہیں لگا ۔

زین نے خوشدلی سے کہا ۔

گل لالئی تمھیں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں اور تم مزے سے یہاں کھڑی ہو یار وہاں روحی آپی نے پوری دکان سر پر اٹھا رکھی ہے  ۔

ماریہ حسب معمول نان سٹاپ آتے ہی شروع ہو گئی ۔۔

اوہ سوری آپکو دیکھا نہیں

ماریہ کی نظر جیسے ہی زین پر پڑی خجل ہوتے ہوۓ کہا

السلام علیکم

ماریہ نے سلجھے ہوئے لہجے میں کہا  ۔۔

وعلیکم السلام سسٹر ۔

زین نے خوش دلی سے کہا

کیسی ہو آپ

زین نے اس کی خیریت دریافت کی ۔۔۔

میں ٹھیک ہوں بھائی الحمدللہ  ۔۔

چلو گل لالئی روحی آپی بلا رہی ہیں

ماریہ نے زین کو جواب دینے کے ساتھ ساتھ گل لائی کو بھی کہا  ۔۔۔

ہاں چلو ۔

گل لالئی نے  تائید میں سر ہلایا اور  قدم بڑھائے ہی  تھے کہ نجانے  اسکے پاؤں میں مقید بلیک ہائی ہیل ٹوٹ گئی ۔ اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی زین نے اسکو پکڑا ۔۔۔

گل لالئی کی آنکھیں خوف سے بند تھیں ۔۔

گل لالئی نے آنکھیں آہستہ سے کھولی تو خود کو زین کی باہوں میں پایا ۔۔

زین تو اسکی سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں اپنی ہستی ہار بیٹھا ۔ اور گل لالئی کا حال بھی زین سے مختلف نہ تھا

گل لالئی تم ٹھیک ہو ۔

اس دلکش لمحے کو ماریہ کی پریشان  آوازہ نے توڑا ۔۔۔

ہ۔۔۔۔۔۔اہاں۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں وہ زین جلدی سے الگ ہوتی بولی ۔

اس کے چہرے پر حیا کی لالی آئی ۔

وہ تو زین سے نظریں بھی نہیں ملا پارہی تھی ۔ ناجانے کیا جادو تھا اسکے آنکھوں میں جو گل لالئی کو اپنے حصار میں جکڑ رہا  تھا ۔

تھینکس بھائی آپ نے گل لائی کو بچا لیا ورنہ نجانے کیا ہوتا

ایک تو محترمہ کو سکون نہیں ملتا ہیلز پہنے بنا اگر چوٹ لگ جاتی نہ تو ڈاکٹر کی بھی ساتھ شامت آتی کیونکہ انجکشن سے تو ڈر لگتا ہے نہ اسے۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو ماریہ ۔۔۔۔۔۔۔ ماریہ مزید اس کی عزت کا جنازہ نکالتی اس سے پہلے ہی گل لائی اس کو کھینچ کر لے گی

 

ماریہ ارے ارے کہتے ہوۓ رہ گئی  ۔۔۔

کہاں رہ گئے تھے تم لوگ ۔۔

روحی نے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا

روحی ماریہ اور گل لالئی شادی کی شوپنگ کرنے مال آئی تھیں ۔

کہیں نہیں آپی بس گل لالئی کی ہیل ٹوٹ گئی  اورگرنے ہی والی تھی کہ

روحی   آپی ۔۔۔۔۔ چلیں میں نے آپ  کے لئے ایک بہت خوبصورت ڈریس سلیکٹ کیا ہے

ماریہ کی بات مکمل کرنے سے پہلے ہی گل لائی روحی کو گھسیٹتے ہوئے جلدی سے لے گئی

ارے رکو مجھے تو آنے دو ماریہ نے پیچھے سے ہانک لگائی

تم تو نہ ہی آؤ تو بہتر ہے

گل لائی نے ماریہ کو دل میں ڈھیر ساری سلواتیں سناتے ہوئے بڑبڑائی۔۔۔۔

دور کہیں دو خوبصورت آنکھوں نے یہ منظر دلچسپی سے دیکھا اور آگے بڑھ گیا

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments