Header Ads Widget

Responsive Advertisement

La Hasil Se Hasil Tak | Episode 8 | By Fozia Kanwal - Daily Novels

 



 


 

 

 

 


لاحاصل سے حاصل تک

فوزیہ کنول کے قلم سے

قسط8

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: فوزیہ کنوللاحاصل سے حاصل تک

Text Box: قسط نمبر 08

 


"وه پارسا کی باتوں کو مکمل فراموش کر چکی تھی“ سالار اسکی دھڑکنوں کا پہلا ارتعاش تھا اور نادان ہونے کے باوجود وه خود کو بڑا میچور سمجھ رہی تھی“  پارسا اسکی واحد دوست تھی جو اسے ہراچھے برے کام میں سپورٹ کرتی تھی

اور ان دونوں کے دور ہونے کی واحد وجہ سالار تھا

وہ اداس بھی تھی کہ پارسا جیسی باوفا مخلص دوست کھو دی،

اور خوش بھی تھی کہ اب اس کے سامنے سالار کی  برائی کرنے والا کوٸی نہیں

اور سالار کی تصویر تو جیسے اس کے دل میں اک دعا کی طرح آویزاں ہوگئی تھی

اک ایسی تشبیہہ بن گئی تھی،جس کے سہارے وه ایک سراپا تراشنےلگی تھی

اس کے نقوش میں اپنی پر چھایاں تلاشنے لگی تھی

مگر اس کے گھر میں سے کوئی بھی سالار کا نام لینا پسند نہ کرتا تھا

وہ پھر بھی اس کے اہم ہونے کا احساس دلانے کی ناکام کوشش کرتی رہتی

کھلی آنکھوں سے بھی اس کے خواب دیکھتی رہتی“  مگر جیسے ہی خوابوں کی دنیا سے باہر آتی تو ارد گرد ریشتوں کا ہجوم دکھایٸ دیتا،جہاں اسے اپنے اور سالار کے ملنے کے کوئی تاثرات نظر نہ آتے۔

رات کے 9 بجے  دروازے کی گھنٹی بجی

گھنٹی بھی ایسی کہ گویا کویٸ ڈور بیل پر ہاتھ رکھ کر بھول گیا ہو۔

نجا نے کون کمبخت ہے؟

ابا جان غصے میں بڑبڑ اتے ہوئےمین گیٹ کی طرف گۓ۔

سالار بیٹا تم اس وقت سب خیریت تو ہے ناں؟

ابا نے سوالیہ انداز میں پوچھا

جی انکل وه اماں نے دودھ بھیجا ہے اور کہا ہے کے رات یہیں ٹھہر جاؤں صبح واپس آٶں۔

جی بیٹا آٶ

جیسے ہی سالار کی آواز كنول کےکانوں میں پڑی تو اس کے دل کی تو جیسے ساری کلیاں کِھل اٹھیں

تمام خواہشیں گھمبیر لمحوں میں ڈھلنے لگی

وه جلدی سے کھڑکی میں آکر اپنے محبوب کےخوبصورت چہرے کا نظارہ کرنے لگی

اتنے میں سالار کمرے میں داخل ہوا

کیسی ہو سویٹ کزن۔۔۔۔؟

اس نے بڑی اپناٸیت سے کہا

جی میں ٹھیک

اس نے مختصر سا جواب دیا

كنول میں نے تم سے کچھ کہا تھا مگر تم نے ابھی تک مجھے اس کا جواب نہیں دیا، آج میرا یہاں رکنے کا مقصد یہی ہے تم سے جواب لے کر جانا مگر میری تم پر کسی قسم کی کوٸی زور زبردستی نہیں ہے ،جو فیصلہ تمہارا ہوگا مجھے دل سے قبول ہوگا میں تمہارے جذبات کی تمہاری سوچوں کی قدر کرتا ہوں اور تمہارے فیصلے کا مان رکھوں گا

سالار کی میٹھی اور دلفریب باتیں تو جیسے كنول کے دل میں اترتی جارہی تھیں

اسکی خوبصورت سرمئی آنکھیں پھیل سی گئی

دل مچل سا گیا

سالار کا دل چاہا کہ اپنا دل کھول کر اسکے سامنے رکھ دے، مگر وه دل کا اتنا بھی غلام نہ تھا کہ جو دل نے کہا اس نے مان لیا،اس نے آنکھوں آنکھوں میں بتا دیا کہ وه کس حد تک اسکی محبت کی اسیر ہو چکی ہے

دونوں نے اشاروں ہی اشاروں میں دل کی تمام باتیں کہ ڈالی

سالار مجھ سے وعدہ کرو کبھی مجھے چھوڑ کر نہیں جاوگے۔

كنول تم میری پہلی اور آخری محبت ہو میں تمہیں کبھی چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا

یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے تم نے ۔؟

كنول نے سالار کے بکھرے بالوں  میں ہاتھ مار کر مزید بکھیر دیا

اور اپنا چہرہ تو دیکھو ذرا

لگتا ہے صبح سے آٸینہ نہیں دیکھا

آئینہ تو میرے سامنے ہے ابھی دیکھ لیتا ہوں

اس نے كنول کی گہری سر مئی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

تو كنول شرما کر باہر کی جانب چل دی

جیسے ہی اس نے آگے کی طرف قدم بڑھایا ایک خوبرو شخص کے ساۓ نے اسے چونکا دیا

اس نے آگے بڑھ کر اس کی نازک کلائی مضبوطی سے تھام لی

وه اس لمحے ایسا کھویا جو نہ کہنا تھا وه بھی کہہ دیا

میری کلائی چھوڑیں پلیز

اسکی نازک کلائی ابھی بھی اسکی مضبوط گرفت میں تھی۔

وه جذبات کی رو میں بہتا چلا جا رہا تھا

میرا ہاتھ چھوڑیں كنول نے ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا

اگر نہ چھوڑوں تو۔۔۔؟

میرا مطلب تمہارا ہاتھ میلا ہو رہا ہے کیا۔۔؟

وه دل کے شوخ رنگوں کو چھپا نہ سکا

مسكراتی كنول کو بھی شرارت سوجهی

یہی میلا ہاتھ تم پہ صاف نہ کر لوں۔۔۔؟

کیا خیال ہے

كنول جلدی سے ہاتھ چھڑا کر باہر نکل آئی

وه ابھی اس کے قریب ہونے کے سحر سے باہر نہ نکل پایا تھا

یار میں تو کہتا ہوں تم بھی نہا کر فریش ہو جاؤ گرمی بہت ہے فرحان نے آکر سالار کو خیالوں کی دنیا سے کھینچ کر باہر نکالا

اب وه اسے ان گزر جانے والے لمحات کی لطا فتوں کی داستان کیسے سناتا جو اسے مسرور کر گۓ تھے

وه ابھی تک اپنے ہاتھ میں اسکی کلایٸ اور چہرے پر اسکا لمس محسوس کر رہا تھا

عجیب تھے یہ دونوں بھی بچپن کے دوست بھی، تھے لڑتے جھگڑتے بھی تھےاور اجنبی بھی تھے۔

اگلی صبح اسنے گھر چلے جانا تھا

كنول ساری رات سو نہ سکی

صبح وه اضطراب میں ٹہل رہی تھی کہ اچانک کسی کی  آواز نے اس کی خا موشی میں خلل ڈالا

اسے پتہ تب چلا جب اس نے کے سر پر آکر کہا کیا بات ہے كنول میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا مگر تم کمرے سے باہر نہیں نکلی

تم جانتےہو سالار میں ایسی باتوں کی عادی نہیں ہوں“ اور تم بابا کی طبیعت سے تو واقف ہو۔

کیسی سخت طبیعت کے مالک ہیں وه

بولو کیا کمی ہے مجھ میں ۔؟

اللّه تعالیٰ نے شہزادوں جیسی شکل دی ہے مجھے

اچھے مرتبے سے نوازا ہے

ایسا داماد چراغ لے کر بھی ڈهونڈو گے تو نہیں ملے گا

سالار غرور بھرے لہجے میں باتیں کرنے لگا

كنول کو سالار کی باتیں زیادہ اچھی نہیں لگ رہی تھی مگر پھر بھی وه سنے جارہی تھی

اس کا دل کسی انجانے خدشے سے بری طرح دھڑک رہا تھا

كنول کھوۓ کھوۓانداز میں کمرے سے باہر نکل گئی“  سالار گھر جانے کے لیے تیار ہونے لگا

*********

گھر آکر بھی اسکا دل نہیں لگ رہا تھا وه کھویا کھویا سا رہا

كنول کا معصوم چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے رقص کر رہا تھا

اس پر عجیب سی کیفیت طاری تھی

وه اس کے ہاتھ کا سحر خیز لمس محسوس کر رہا تھا“ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ اسے اس طرح کا افلاطونی عشق هو سکتا ہے

وه شدت سے اسکی طلب کرنے لگا تھا

اسکی تو آئیڈیالوجی ہی بدل کر رہ گٸ تھی

کبھی وه دوسروں کا مذاق اڑایا کرتا تھا اور خود پرسکون انداز میں زندگی گزارتا تھا

اس کی زندگی میں كنول جیسی حسینہ کی آمد کیا ہوئی اس کی تو سوچ ہی بدل گئی

آج  وہ مبتلائے عشق ہو کر اس کی عدم موجودگی میں یہ اعتراف کر رہا تھا کہ واقعی عشق انسان کی زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے

اللہ میں اس لڑکی کے بغیر جی نہیں پاؤں گا

اے پروردگار اسے میرے نصیب میں لکھ دے

میں اسے اتنا چاہتا ہوں کہ، بس چاہتا ہوں وہ مجھے ملے کوئی اور اسے نہ دیکھے

ساری رات اس نے ایسے سوچتے سوچتے گزار دی“  خوابوں کا جہاں آباد کرتے کرتے اس کی سوچوں کے سنگ کروٹیں بدلتے بدلتے رات گزر گئی، اور اذانِ فجر ہونے لگی تو وہ پہلی ہی آواز پر اٹھ گیا، اٹھ کر وُضو کیا نماز پڑھی اس نے شدت سے جو دعا مانگی وہ کنول کا زندگی بھر کا ساتھ تھا

كنول نہ جانے کب اب تم سے ملاقات ہوگی؟

نہ جانے میرے اس بے پناہ عشق کی تمہیں خبر  ہے بھی کہ نہیں۔۔۔؟

نجانے میرے مجنوں ہونے سے تم واقف بھی ہو یا نہیں۔۔؟

لیکن میں بھی تمہیں کبھی نہیں بتاؤں گا

اگر میری محبت اور میرے جذبات میں  سچائی اور صداقت ہوئی تو خود بخود ہی تمہیں خبر ہو جاۓ گی اور تم میرے پاس دوڑی چلی آؤ گی

وه اس کے خوش کُن خیالوں میں کھویا نہ جانے کب سو گیا۔

جاری ہے.....!!!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

 

Post a Comment

0 Comments