Header Ads Widget

Responsive Advertisement

La Hasil Se Hasil Tak | Episode 9 | By Fozia Kanwal - Daily Novels

 



 


 

 

 

 


لاحاصل سے حاصل تک

فوزیہ کنول کے قلم سے

قسط9

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: فوزیہ کنوللاحاصل سے حاصل تک

Text Box: قسط نمبر 09

 


" ”صبح کے سات بج رھے تھے كنول کی ٹینشن میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا

جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا وه ٹھنڈی پڑتی جا رہی تھی

دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھی

وه ان تمام باتوں پر بھی نظر دوڑا رہی تھی جو اسے پارسا نے کہی تھیں،اور سالار کی میٹھی پیار بھری باتیں بھی اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھیں

ارے اٹھ بھی جاؤ كنول

پلوشہ نے اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا

اسکی نظر جونہی گھڑی کی سوئیوں پر پڑی وه اچھل کر بستر سے اٹھ کھڑی هوگٸ۔

ھاۓ اللّه اتنا ٹائم کیسے هو گیا؟ وہ خیرت بھرے لہجے میں بولی

نجا نے کس کے خیالوں میں مگن هو جو وقت گزر نے کا احساس تک نہ ہوا پلوشہ نے شرارت سے چھیڑا

میں تو کسی کے خیالوں میں نہیں ڈوبی اور تمہیں تو کوئی اور کام نہیں ہے،جب دیکھو چلی آتی هو میری نیند خراب کرنے نہ خود سوتی ہو نہ دوسروں کو چین سے سونے دیتی ہو

بھٹکی ہوئی آتمہ

كنول نے عجیب عجیب منہ بناتے ہوئے پلوشہ کو خوب سنادیں

اور بڑبڑاتی ہوئی واش روم میں گُھس گئی

پلوشہ وہی بیٹھے بیٹھے  اپنے دانشمندانہ لیکچر جھاڑتی رہی۔

كنول کیا تمہیں پیپروں کی ذرا بھی فکر نہیں؟

کیا تم جانتی نہیں ہو کہ دو دن بعد ہمارا پیپر ہے ذرا بھی تیاری کی تم نے؟

بس سارا وقت سونے میں گزار دیتی ہو

جس دن پیپر ہوگا پھر لگاتی رہنا رٹے

پلوشہ نان سٹاپ بولے چلی جا رہی تھی

كنول نے جیسے ہی واش روم کا دروازہ کھولا تو پلوشہ کو کینہ توز نظروں سے دیکھا، تو پھر اسکی نظر اسکے ہاتھ میں پکڑی کیمسٹری کی کتاب پر پڑی  تو اسکا جی چاہا کہ دنیا کی ساری کتابوں کو آگ لگا دے۔

پلوشہ رٹا لگانے میں مصروف تھی دونوں کمرے سے باہر نکلی تو امی کی سوالیہ نظریں كنول پر تھیں“ كنول میں کچھ دنوں سے محسوس کر رہی ہوں کہ تم پڑھاٸی پر کچھ خاص دھیان نہیں دےرہی ہو

آسیہ بیگم نے کڑی نگاہوں سے صا حبزادی کو تاڑتے ہوئے کہا

زیادہ نہ سہی ہر روز دو تین سوال ہی پڑھ لیا کرو

آسیہ بیگم مزید غصے سے بولی

ماما آپ تو جانتی ہیں مجھ سے خالی پیٹ کوئی کام نہیں ہوتا پہلے کھانے کو تو کچھ دے دیں

وه ڈیٹھائی سے بولی

میں کیا کروں اس لڑکی کا۔۔۔۔؟

آسیہ بیگم نے اپنے ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا

تم دنیا کی بھوکی ترین لڑکی ہو کنول

پلوشہ نے چھیڑتے ہوۓ کہا

اچھا تمہارا کیا خیال ہے اب کھاؤں بھی ناں؟

وه احتجاج میں بولی

بھٸ ہماری بیٹی کو کیوں ڈانٹا جا رہا ہے؟

بابا نے آکر كنول کی طرف داری کی اور اسکی ہمتیں بڑھا دی

پوچھیں اپنی لاڈلی سے ذرا

کل پیپر ہے اور کتنا پڑھ لیا ہے اس نے؟

آسیہ بیگم نے کھا جانے والی نظروں سے كنول کو دیکھا

کیوں بیٹا؟

مجھے سب کچھ تو یاد ہے بابا

اماں ایسے ہی مجھ پر غصہ کرتی رہتی ہیں

اور ایک یہ پلوشہ ہے اماں کے کان  بھرنے آ جاتی ہے

خود کو کیوں ہلکان کر رہی ہو؟

پلوشہ نے آگے بڑھ کر كنول سے کتاب چھینتے ہوۓ کہا

ٹھہرو ذرا تم پلوشہ کی بچی

خود کو بڑا لائق فائق سمجھتی ہو ناں

کالج پہنچتے ہی پلو شہ تو دوستوں سے لگی ملنے مگر كنول اہم سوالوں پر نظر ڈال رہی تھی

وه حیران تھی کہ لڑکیاں اتنی بےفكری سے اِدھر اُدھر پھر رہی تھیں اور ہنسی مذاق میں مشغول تھیں۔

ان کو فکر کیوں نہیں ہے؟

جبکہ كنول جیسی لڑکیوں کے تو پیپر کے دوران پسینے چھوٹ جاتے ہیں وه خود دیکھ چکی تھی کہ کیسے اسکی کزن پلوشہ بےفکریہ سے پھر رہی تھی

اور وه کیسے پیپروں کو اپنے سر پر سوار کر کے بیٹھی تھی“ وه اپنی سوچوں پر خود ہی ہنس دی۔

امتحانی حال میں موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا

اگر سوئی بھی گرتی تو اسکی آواز سنائی دیتی تھی

تھوڑی دیر بعد سب کمرہ امتحان میں چلے گئے اور سب کو سوالنامہ دیا گیا كنول نے سوالنامہ دیکھا تو اطمینان بھری سانس خارج کی کیونکہ اس کو سارا پیپر اچھی طرح آتا تھا

جبکہ وه لڑکیاں جو باہر بڑے اطمینان سے گھوم رہی تھیں انکے ماتھے پر پریشانی سے پسینے کے قطرے صاف دکھاٸی دے رہے تھے

اپنی پچھلی سیٹ پہ بیٹھی پلوشہ کا حال تو  وه بغیر بتاۓ سمجھ گئی تھی

اسلیے اس نے اپنا پیپر تھوڑا سا اسکی طرف کر دیا۔

تھوڑا آہستہ لکھو کنول۔۔۔۔

پلوشہ ہولے سے بولی۔۔۔۔

مگر وہاں تو خاموشی کی وجہ سے آواز خوب گونجی

كنول کا تو مانو دل حلق تک آن پہنچا

اتنے میں سپرینڈینٹ کی گرج دار  آواز گونجی

کون بولی؟

وه اِدھر اُدھر مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی

اب اگر کسی لڑکی کی آواز آئی تو میں شیٹ لے کرسینٹر سے باہر نکال دوں گی

میم نے غصے سے کہا تو ساری لڑکیاں سہم گئیں

مگر پھر بھی پلوشہ نے چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی، جس پر میم کو بہت غصہ آیا

کیونکہ وہاں تو گردن ٹیڑھی کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی

میم نے پلوشہ کو بار بار ادھر ادھر دیکھنے کی وجہ سے زبردست قسم کی جھاڑ پلاٸی

اور اس کی سیٹ بھی بدل دی

پلو شہ دل ہی دل میں نگران کو کوسنے لگی

کیونکہ اسکی وجہ سے وه اب پیپر دیکھنے سے محروم ہو گئی تھی

خیر آدھا پیپر  تو وه حل کر چکی تھی کچھ اسے خود بھی آتا تھا

کیسا ہوا پیپر پلوشہ كنول نے پیار سے پوچھا

آدھا تو تم نے کروا دیا تھا

ایک سوال چھوڑ دیا باقی جیسے تیسے کر دیا وه ڈھٹائی سے بولتی گئی

وه دونوں گھر پہنچی تو سالار گھر پر انکا منتظر تھا

كنول سالار کو دیکھتے ہی شرما کر کمرے میں چلی گئی

ارے بھئی آگۓ محاذِ جنگ سے؟

سالار نے شرارت بھرے لہجے میں کہا

کونسی لِسٹ میں نام آنے والا ہے شہید، غازی یا فاتحین کی؟

پلوشہ،كنول اور سالار آپس میں کزن تھے اور بچپن ہی سے ایک دوسرے سے چونچیں لڑاتے رہتے تھے

اب بھی حسب توقع جنگ جاری تھی،مگر كنول صرف

تاسف سے سالار کو دیکھ رہی تھی

پلوشہ کا منہ پھول چکا تھا

اور سالار تیسرا حملہ کرنے ہی والا تھا  کہ پلوشہ جھپٹ پڑی

سالار کے بچے تمہیں کیا ہے؟

ہم غازی بنیں یا شہید ۔؟

ارے مجھے کچھ کیوں نہیں اگر تم شہید ہو گئی تو میں اتنی پیاری کزن کہاں سے ڈھونڈتا پھرونگا ؟

سالار نے زور دار قہقہہ لگایا

سالار کے بچے میں تمہارا سر پھوڑ دونگی

میں تو ابھی خود بچہ ہوں کون سے بچے کی بات کر رہی ہو؟

وه مصنوعی  حیرت سے بولا

تم “ تم غصے سے اسکا منہ لال ٹماٹر  کا سا ہورہا تھا اور اسکی آواز نہیں نکل رہی تھی

اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی کیمسٹری کی کتاب اسکو دے ماری

اور خود اندر آگئی۔

اُف ظالم لڑکی سالار کی آواز نے دور تک اسکا پیچھا کیا“ ارے كنول تم کہاں چھپ گئی ؟

سالار کی نگاہیں مسلسل كنول کی کھوج میں تھی

 

تم پر مرنے لگے ہیں

پہلے سے زیادہ۔۔۔۔۔۔

جینے لگے ہیں۔۔۔۔

نگاہوں میں تیری

اترنے لگے ہیں۔۔۔۔

تم پر مرنے لگے ہیں

 

وه کمرے کا ایک دروازہ بند کیۓ

ہلکی آواز میں میوزک لگاۓ، ساتھ میز پر  پاپ کارن کا پیالہ رکھے،صوفے پر بڑے آرام سے لیٹی ہوٸی  تھی۔

شائد وه کسی کے قدموں کی آہٹ کی منتظر تھی۔

جاری ہے.....!!!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

 

Post a Comment

0 Comments