Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Main Ishq Hoon | Episode 8 | By Salman - Daily Novels

 



 


 

 

 

 

 


میں عشق ہوں

سلمان کے قلم سے

قسط8

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 

 

 

 

 

 

باب اول

عشق بے کنارا

قسط8

 

 

 

 

 


 

میں عشق ہوں

 


" ارے منصور تم ایسا کیوں سوچتے ہو ؟؟

تمہیں کیوں لگتا ہے کہ زلیخا قصوروار ہے ۔۔

ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جو تمہیں دکھائی دے رہا ہے وہ حقیقت نہ ہو "

منصور سالار اپنے دوست ریان کے ساتھ اصطبل میں تھا اور وہ دونوں گھوڑوں کو دیکھ رہے تھے ۔

اچانک انہیں اصطبل کے سامنے والی طرف سے کوئی نقاب پوش بھاگتا ہوا دکھائی دیا جسے دیکھتے ہی دونوں حیرت زدہ رہ گئے ۔

" نقاب پوش ۔۔"

منصور کی زبان سے نکلا

" لو آگئی تمہاری زلیخا۔ " ریان ہنسا

پھر وہ دونوں تلواریں ہاتھ میں لیے اس نقاب پوش کے پیچھے دوڑنے لگے۔  نقاب پوش آگے آگے دوڑ رہا تھا اور وہ دونوں اس کے پیچھے ۔ دوڑتے ہوئے وہ سب اصطبل سے باہر آگئے تھے ۔ نقاب پوش نہیں جانتا تھا کوئئ اس کا پیچھا کررہا تھا لیکن جونہی وہ لوگ وہاں سے نکلے نقاب پوش نے ان کے پیروں کی آواز سن لی تھی ۔ اس نے چہرہ موڑ کر پیچھے دیکھا اور ان دونوں کو سامنے پا کر دوڑنے لگا ۔

" اس نے ہمیں دیکھ لیا منصور " ریان نے منصور کو دیکھا

" کیا فرق پڑتا ہے ؟ آج یہ میرے ہاتھ سے بچ نہیں پائے گی !" منصور نے بڑے عزم سے کہا اور اپنی رفتار بڑھا لی اور جلد ہی ان دونوں نے اس نقاب پوش کو آلیا ۔

نقاب پوش نے اپنی تلوار نکالی اور بھاگنے کے لیے تلوار سے ان دونوں پر وار کیا اور پھر دوڑنے لگا

" تم نے دیکھا ریان ۔۔ وہ صرف بھاگنا چاہتی ہے لڑنا نہیں "

منصور اور ریان نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا

" ہوں " ریان نے اثبات میں سر ہلایا

" مگر ہم اسے بھاگنے نہیں دیں گے آج "

منصور مسکرایا پھر وہ دونوں دوبارہ اس نقاب پوش تک پہنچ گئے ۔

نقاب ہوش نے مڑ کر پھر تلوار سے ان دونوں پر وار کیا مگر اس بار وہ دونوں تیار بیٹھے تھے ۔ منصور نے اس کے اس وار کو نہ صرف روکا بلکہ اس کی تلوار بھی دور جاگری

" یہ تو کوئی کچا کھلاڑی ہے ۔۔ ذرا سی ضرب بھی نہیں سہہ سکا " منصور اور ریان مسکرائے

" اس کا نقاب اتارو "

منصور کے کہنے پر ریان زمین پر گرے نقاب ہوش پر جھکا اور اس کا نقاب اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن اگلے ہی لمحے اس نقاب پوش نے بڑی ہی پھرتی سے ایک خنجر سے ریان پر حملہ کردیا ۔

****

 

گل سلطان اور مریم سلطان پورے محل میں گردش کررہی تھیں ۔ کبھی ادھر کبھی ادھر چاروں طرف بھاگتی پھر رہی تھیں اور ملازموں سے محل کی صفائی ستھرائی کرا رہی تھیں ۔ کیونکہ آج محل میں یحییٰ سلطان کی بہن صلیحہ سلطان آرہی تھیں ۔ اور انہی کے استقبال میں پورے محل میں سجاوٹ ہورہی تھی ۔

صلیحہ سلطان زکریا سلطان اور یحییٰ سلطان کی چھوٹی بہن ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی لاڈلی بھی تھیں ۔ ان کی شادی بغداد کے گورنر مہران سے طہ پائی تھی اور پھر شادی کے بعد وہ وہیں چلی گئیں ۔ صلیحہ سلطان کا ایک بیٹا بھی تھا جس کا نام حماز تھا ۔

" ہاں مچھلی بھی ابال لو اور مرغے کا گوشت بھی "

گل سلطان باورچی خانے میں باورچیوں کی کارکردگی دیکھنے آئی تھیں اور مختلف کڑاہیوں اور دیگچیوں میں پکے ہوئے پکوانوں پر نظر ثانی کررہی تھیں ۔

" دیکھو اس میں چینی کم ہے اور یہ لسی کچی رہ گئی ہے ۔۔ مجھے کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع نہ ملے "

گل  سلطان مختلف پکوان چکھنے کے ساتھ ساتھ باورچیوں کو ہدایت دینے لگیں ۔

پھر اچانک انہیں کچھ یاد آیا ۔

" اوہ خدا ! یہ زلیخا سلطان ابھی تک تیار نہیں ہوئیں ۔ کب سدھرے گی یہ لڑکی ؟"

وہ بولیں اور باورچی خانے سے نکل گئیں ۔

*****

 

" لو اب خون رک جائے گا '

طبیب نے پٹی باندھی اور منصور اور ریان کی طرف دیکھا جو اس کے سامنے ہی بیٹھے تھے ۔ ریان کو خنجر لگا تھا تو منصور اسے جلد از جلد طبیب کے پاس لے آیا تھا ۔

" یہ خون نکلا کیسے سالار صاحب ؟"

طبیب نے بڑے ادب سے پوچھا

" ارے بابا جی ! کوئی تھا جسے اپنی جان پیاری نہیں تھی ۔ منصور سالار سے الجھ پڑا "

ریان نے اپنے زخم پر بندھی ہوئی پٹی کی طرف دیکھا

" بچ گیا یا بھاگ گیا ؟" طبیب نے نشتر ایک طرف رکھا

" ویسے تو میں اسے کچھی نہ چھوڑتا لیکن میرے جگری دوست کو چوٹ لگ گئی تھی ۔ بھاگ گیا " منصور مسکرایا

" سالار صاحب طبیب ہو یا سالار دل کو مضبوط رکھنا پڑتا ہے ۔ اگر طبیب کا دل کمزور ہو جائے تو زخم کیسے کاٹے گا ؟ سالار صاحب اپنے احساسات کو اپنے مقصد کی آڑ میں مت آنے دیں "

" آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن ہم اسے پکڑ لیں گے وہ صرف بھاگنا چاہتا تھا اپنا خنجر بھی چھوڑ گیا "

منصور مسکرایا

" چلو ریان چلتے ہیں ۔ گھر میں سب انتظار کررہے ہوں گے "

پھر منصور نے ریان کی طرف دیکھا

" سالار صاحب میری بات پر غور ضرور کیجیے گا ۔ ہمیں جنگ لڑنی تو نہیں آتی لیکن زندگی کا تجربہ آپ سے زیادہ ہے "

منصور کی طرف نظراندازی پر طبیب دوبارہ گویا ہوا ۔

" سالار صاحب دل کو مضبوط رکھ کر نشتر چلاتے ہیں ہم ۔ احساسات کی سننے لگیں تو مریضوں کا علاج ہی نہیں کر پائیں گے ۔ "

" جی بابا جی "

منصور نے نظروں سے اثبات میں اشارہ کیا اور پھر ریان کے ساتھ وہاں سے باہر نکل گیا ۔

*****

 

" لو پانی پیو "

رخشی کب سے اپنی اس کوٹھری میں بیٹھی رو رہی تھی ۔ رو رو کر ہلکان ہوچکی تھی ۔ ایک دن ہوچکا تھا اس کے باپ کی موت کو لیکن اس کا دکھ کم نہیں ہورہا تھا اور یہ دکھ کم ہو بھی کیسے سکتا تھا ۔ اس سے بڑا دکھ یہ تھا کہ وہ اس دنیا میں بالکل اکیلی رہ گئی تھی ۔ نہ کوئی رشتے دار نہ ماں باپ ۔ ہاں ایک اجنبی تھا اس کے ساتھ جس نے مدد کی تھی اس کی اس کے باپ کو آخری رسومات دینے میں اور جلانے میں ۔ وہ لوگ یہی کرتے تھے ۔ مرے ہوؤں کو جلا دیتے تھے ۔ یہ ان کی مذہبی رسومات میں سے تھا ۔

وہ اجنبی اس کے لیے پانی لیکر آیا تھا اور پیالہ اس کے سامنے رکھ دیا ۔

" پانی پی لو اس سے تمہیں ٹھنڈک کا احساس ہوگا "

اجنبی نے رخشی کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر تشویش افسوس اور اداسی کے تاثرات نمایاں تھے ۔ وہ اپنے علم کے سفر پر نکلا ہوا تھا اور اسی سفر میں وہ سستانے کے لیے ایک مندر میں رکا اور وہیں اس کی ملاقات رخشی سے ہوئی تھی جب رخشی کا باپ مر رہا تھا اور رخشی کے پاس کوئی سہارا نہیں تھا ۔ اس نے رخشی کی مدد کی تھی اس کے باپ کی بعد از مرگ رسومات کو پورا کرنے میں ۔ وہ جانا چاہتا تھا اپنی اس منزل کی طرف جس کے لیے وہ نکلا ہوا تھا لیکن وہ رخشی کو اس حال میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا ۔ اسی لیے اس نے ایک رات وہیں گزاری تھی ۔

" لو پانی لو میں جانتا ہوں تم تکلیف میں ہو لیکن تمہیں خود کو سنبھالنا ہوگا "

اس نے رخشی کی طرف دیکھ کر کہا مگر رخشی اس کے جواب میں صرف روئے جا رہی تھی ۔ جب رخشی اس کی باتوں سے نہ سنبھلی تو وہ ناامید ہوکر کوٹھری سے باہر نکل گیا ۔

******

 

منصور اور ریان مطب سے نکلے اور شاہی محل کی جانب روانہ ہوگئے ۔ مطب محل سے کچھ ہی فاصلے پر تھا ۔ محل میں شاہی مطب تھی تھا لیکن ریان شاہی خاندان سے نہیں تھا اسی لیے یحییٰ سلطان کو اس کے شاہی مطب سے علاج پر اعتراض ہوتا اسی لیے منصور اسے دوسرے مطب لے آیا تھا ۔ محل اور مطب کا درمیانی راستہ ایک کھلا میدان تھا جس پر سے گزر کر ان کو محل پہنچنا تھا ۔ کھلے میدان سے گزرتے ہوئے ریان نے منصور سے پوچھا ۔

" منصور اب کیا کریں گے ہم ؟؟

یعنی اب تو پراسراریت بھی بڑھ گئی ہے ۔

کیسے اس نقاب پوش کو تلاش کریں گے ؟"

" مجھے لگتا ہے جس نقاب پوش نے سلطان پر حملہ کیا اور جس کا ہم سے مقابلہ ہوا وہ دونوں الگ ہیں ۔ ''

منصور نے چلتے ہوئے کہا

" کیسے ؟؟ یعنی تم یہ سب کیسے کہہ سکتے ہو ؟"

" جس نقاب پوش نے سلطان پر حملہ کیا وہ کافی تربیت یافتہ تھا اور جس نے تم پر حملہ کیا وہ تو کافی کاہل اور سست لگ رہا تھا "

منصور نے وجہ بتائی

" ہاں اور ایک بات میں نے یہ محسوس کیا تھا کہ وہ شخص ہمیں خاص طور پر تمہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا ۔ اسی لیے اس نے مجھ پر چھوٹا سا وار کیا "

ریان کی اس بات پر منصور چونک گیا

" ہاں وہ صرف بھاگنا چاہتا تھا جیسے کوئی خبر کسی کے پاس لیکر جارہا ہو "

" ہاں تم بتاؤ محل میں کچھ نیا ہوا ہے کیا جس کی خبر پہنچائی جائے ۔ ریاستی معاملات میں یا پھر گھریلو "

" ہاں ہوا تو ہے صرف اتنا کہ صلیحہ پھوپھی آرہی ہیں اور کچھ بھی نہیں " منصور نے بے زاری سے کہا

" صلیحہ پھوپھی کی آمد سے اس نقاب پوش کا کیا تعلق ہو سکتا ہے ؟ اور اگر وہ وہی ہے جس نے سلطان پر حملہ کیا تھا تو پھر اس نے اب ہم پر حملہ کیوں نہیں کیا ؟"

ریان کے سوالوں پر منصور بھی فکرمند ہوگیا

" ہمیں جلد از جلد اس نقاب پوش کا پتا کرنا ہی پڑے گا "

" لیکن یہ سب کیسے کریں گے ہم منصور ؟"

" ہم اس خنجر سر پتا چلائیں گے وہ آدمی کون تھا ؟"

منصور مسکرایا اور اس نقاب پوش کا جنجر اپنی قمیض کی جیب سے نکالا

" میں ایک خنجر بنانے والے کو جانتا ہوں ۔ ہمارے علاقے میں سب سے اچھے خنجر وہی بناتا ہے اور ممکن ہے یہ خنجر اسی نے ہی بنایا ہو "

" کیا وہ ہمیں بتا دے گا ؟"

ریان نے سوالیہ نظروں سے منصور کو دیکھا

" دیکھو خدا کرے بتا ہی دے ورنہ ۔۔ "

منصور کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ریان بول پڑا

" ورنہ کیا تم اسے تکلیف دے کر اگلواؤ گے ؟"

ریان نے حیرت سے منصور کو دیکھا

" نہیں ہم ایسا نہیں کرسکتے کسی بھی انسان کو تکلیف نہیں دے سکتے  ''

منصور نے اس کی آنکھوں میں دیکھا

" منصور ہم یہ حق کے لیے کریں گے "

" کیا حق کے لیے کسی کو تکلیف دیں گے ؟"

منصور کے لہجے میں سختی آگئی

" دیکھو منصور طبیب نے کیا کہا تھا ۔۔

اگر طبیب بھی یہی کہے کہ وہ کسی کا زخم نہیں اتارے گا یا کسی کے جسم کی تشریح نہیں کرے گا یا جراحی کرتے ہوئے خود تکلیف محسوس کرے گا یہ سوچ کر کہ اسے تکلیف ہوگی تو میرے بھائی کیا یہ ٹھیک ہوگا ؟"

ریان رکا تو منصور بھی رک گیا

" تو پھر کیا کرنا چاہیے ہمیں ؟"

منصور نے سوالیہ نگاہوں سے اسے گھورا

" ہمیں اسے سزا دینی پڑی تو سزا دے کر بھی اگلوائیں گے "

ریان نے اپنی رائے دی

" ٹھیک ہے کوشش کریں گے وہ ویسے ہی مان جائے "

منصور نے کہا اور آگے بڑھ گیا پھر ریان بھی اس کے پیچھے چلنے لگا ۔۔

جاری ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments