Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Peer Zadi | Episode 13 | By Waheed Sultan - Daily Novels

 



 


 

 

 

 

 


پیرزادی

وحید سلطان کے قلم سے

قسط13

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: وحید سلطان کے قلم سے

پیرزادی

Text Box: قسط نمبر 13

 


نعت خوانی کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد بہت سی خواتین نے نور بنت نذیر سے گزارش کی کہ وہ دوبارہ مائیک کے سامنے آئے اور اجتماعی دعا کا آغاز کرے۔

نور بنت نذیر نے بسم اللہ شریف اور درود پاک پڑھنے کے بعد دعا کا آغاز کیا۔ جیسے جیسے دعا کا سلسلہ بڑھ رہا تھا تو نور کی آواز پرسوز ہوتی جا رہی تھی۔ اس کے لہجے میں عاجزی و انکساری عیاں ہوتی چلی گئی۔ دعا کا ہر جملہ بولے جانے پر اجتماعی طور پر آمین کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ دعا کے ساتھ ساتھ اسپیکرز میں سسکیوں کی آواز بھی گونجنے لگی تھی۔ چند ہی لمحوں میں محفل میں موجود اکثر خواتین نور بنت نذیر کی طرح سسک سسک کر آمین کی صدا بلند کرنے لگی تھیں۔

اے حاجت روا ، اے مشکل کشا ، اے دعاؤں کو سننے والے ، اے رب العزت ، اے ساری کائنات کے شہنشاہ ، اے بادشاہوں کے بادشاہ ، اے پیغمبروں کے مالک ، اے بچیاں اور بچے دینے والے حاجت روا ، اے ساری مخلوق کے پالنے والے ، اے زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والے ، اے آسمانوں اور زمین کے مالک ، اے پہاڑوں اور سمندروں کے مالک ، اے انسان اور جنات کے معبود ، اے عرش عظیم کے مالک ، اے فرشتوں کے معبود ، اے عزت اور ذلت کے مالک ، اے شفا دینے والے ، اے اللہ کریم ہم تیری گنہگار بندیاں ہم خطا کار بندیاں ہم تیری عاجز بندیاں تیری پاکی بیان کرتی ہیں تیرے آگے دعاؤں کے لیے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں تو ہماری خطاؤں کو معاف فرما۔ یااللہ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما۔

اے اللہ

ہمارے من کی گندگیوں کو دور فرما۔

اے اللہ

ہمارے دلوں کو وسوسوں سے پاک فرما اور ہمارے سینوں کو نور سے منور فرما۔

اے اللہ

ہمیں ذلت سے محفوظ فرما

علت سے محفوظ فرما

قلت سے محفوظ فرما۔

یااللہ

نیکی کی توفیق عطا فرما اور پرہیزگاری والی زندگی عطا فرما۔

اے بے کسوں کے دستگیر رب

اے ٹوٹے دلوں کو تسلی دینے والے پروردگار

اے خالی جھولیوں کو بھرنے والے خدا

اے اللہ

دعا کے لیے ہمارے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو اپنی رحمت سے بھرپور فرما۔

اے میرے مولا

ہماری عاجزی قبول فرما اور ہمیں اپنی رضا عطا فرما۔

اے میرے رب کریم

جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا بننے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں سنتوں سے بھری ہوئی زندگی عطا فرما۔

اے اللہ

ہمیں نیک لوگوں میں شامل فرما

اے پروردگار عالم

ہمیں در در کے دھکے کھانے سے محفوظ فرما

ہمیں اپنے در دور نہ فرمانا

ہمیں اپنے در سے مانگنے کی توفیق عطا فرما

اے اللہ

ہمیں ہمیشہ اپنے در سے عطا فرما

یااللہ

ہمارے پاس کوئی دوسرا در نہیں

ہمیں ہمیشہ اپنے در سے عطا فرما۔

یااللہ پاک

ہمیں اپنے مقررین میں شامل فرما

اے رب عظیم

ہمارے اوپر رحمت کی نظر فرما

اللہ کریم

اک رحمت کی نظر ہم پر بھی ڈال دیجیے

یااللہ پاک

ہم آپکی رحمت کے طلبگار ہیں

ہمیں آپ کا فضل چاہیے

یااللہ پاک

تو ہم پر رحم فرما۔

اے اللہ

ہم آپ کے کرم کے طلبگار ہیں

ہم آپ کے رحم کے طلبگار ہیں۔

اے عرش عظیم کے رب

رحم فرما دیجیے کرم فرما دیجیے

یااللہ

ہمیں قبر کے عذاب سے محفوظ فرما

حشر کے عذاب سے محفوظ فرما

پل صراط سے گزرنا آسان فرما

اے میرا مولا

قبر کے عذاب سے محفوظ فرما

حشر کے حساب سے محفوظ فرما

اے اللہ

تمام مومنین و مسلمین کے حال پر اپنا رحم فرما

تمام مومنین و مسلمین بیماروں کو شفائے کاملہ عطا فرما

مصیب زدوں کو مصیبتوں سے نجات عطا فرما

بے کسوں کی مدد فرما

قرضداروں کو قرض سے نجات عطا فرما

بے اولادوں کو نیک و صالح اولاد عطا فرما

بے اولادوں کو اولاد نرینہ عطا فرما

اے اللہ

بے اولادوں کو اولاد کی نعمت عطا فرما

تنگدستوں کے حال پر رحم فرما

تنگدستوں کو رزق کی دولت سے مالا مال فرما

غمزدوں کو غم سے نجات عطا فرما

اے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول کرنے والے رب! ہماری دعاؤں کو قبول فرما

اے حضرت ذکریا علیہ السلام کی دعا قبول کرنے والے رب! ہماری دعاؤں کو قبول فرما

اے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول کرنے والے رب! ہماری دعاؤں کو قبول فرما

اے حضرت یونس علیہ السلام کی دعا قبول کرنے والے رب! ہماری دعاؤں کو قبول فرما

اے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول کرنے والے رب! ہماری دعاؤں کو قبول فرما

اے حضرت یعقوب  علیہ السلام کی دعا قبول کرنے والے رب! ہماری دعاؤں کو قبول فرما

اے سمیع الدعاء اے آسمانوں اور زمین کے مالک اے تمام جہانوں کے رب ہماری دعاؤں کو قبول فرما ۔ ۔ ۔ ۔ آمین ثم آمین

☆☆☆☆

گلفام مغل کو ہوش آ چکا تھا اور اس وقت وارڈ روم میں اس کے پاس اس کا بھتیجا سالار مغل موجود تھا جبکہ گلفام مغل کا دوست شرافت شرفی وارڈ روم کے باہر موجود تھا ۔ شرافت شرفی کافی بے چین نظر آ رہا تھا اور وہ پچھلے پندرہ منٹوں سے مسلسل چہل قدمی کر رہا تھا جیسے اسے کسی کا شدت سے انتظار ہو۔

مشال سیما بھی قطب کے ہمراہ اسپتال پہنچ چکی تھی اور اب وہ اسی وارڈ روم کی جانب جا رہی تھی جس میں گلفام مغل بیڈ پر موجود تھا۔ مشال سیما کو دیکھ کر شرافت شرفی کے بے چینی ختم ہو گئی جیسے اس کا انتظار ختم ہو چکا ہو اور اس نے آگے بڑھ کر مشال کا راستہ روکا۔

۔"اے لڑکی! تم گلفام صاحب سے نہ ہی ملو تو اچھا ہے۔ ۔ ۔ ۔"شرافت شرفی مشال سیما سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا تو مشال نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جبکہ قطب نے مشال اور گلفام کے دوست شرافت ، دونوں کو الجھی نگاہوں سے دیکھا۔

۔"میں گلفام کا دوست ہوں اور مجھ سے زیادہ گلفام کو کوئی نہیں جانتا اور سمجھتا ۔ ۔ ۔ ۔"شرافت شرفی نے ایک بار پھر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

۔"آپ پہلیاں کیوں بجھا رہے ہیں جو بھی بات ہے صاف لفظوں میں بول دیں۔"مشال سیما شرافت کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں بولی۔

۔"تمہیں دیکھ کر گلفام کو شدید صدمہ ہوتا ہے اس لیے تم گلفام کو نہ ہی ملو تو بہتر ہے۔"شرافت نے تیز تیز بولتے ہوئے انگلی کے اشارے سے تنبیہ کرنے والے انداز میں کہا۔

۔"یہ ۔ ۔ ۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ، کیسا صدمہ؟ ، گلفام صاحب کے صدمے کا مجھ سے کیا تعلق؟"مشال نے ایک ہی بار کئی سوال داغے تھے جبکہ شرافت نے قطب کو معنی خیز نگاہوں سے دیکھا تو مشال سیما نے قطب کو جانے کے لیے کہا اور اسے بولا کہ وہ گاڑی میں اس کا انتظار کرے۔ قطب مشال سیما کی گاڑی کی چابی لے کر وہاں سے چلی گئی۔

۔"اگر تمہیں اپنے سوالوں کے جوابات چاہیے تو آج مجھے ہانڈی حویلی ریستوران میں ڈنر پر ملو۔"قطب کے جانے کے بعد شرافت نے کہا اور مشال سیما کی جانب سے مثبت جواب ملنے پر شرافت کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک نمودار ہو گئی جسے مشال سیما بالکل بھی نہ سمجھ سکی اور واپس مڑ گئی۔ جس لمحے مشال سیما واپس مڑ رہی تھی اسی لمحے سالار مغل بھی وارڈ روم سے باہر آیا تھا۔ اسے یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ اس کے چچا گلفام کا دوست شرافت کسی نوجوان لڑکی سے گفتگو کر رہا تھا مگر وہ مشال سیما کا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا۔

☆☆☆☆

مشال سیما اسپتال واپس لوٹ آئی تھی اور اب وہ گلفام کے بنگلے پر اپنے کمرے میں موجود تھی۔ وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ، ٹانگیں دراز کیے اور بازو سینے پر لپیٹے بیٹھی تھی جب قطب پیزا اور کولڈ ڈرنک لے آئی تھی مگر مشال سیما نے پیزا کھانے سے انکار کر دیا۔

۔"مشال پرسکون ہو جاؤ اور کھانا کھاؤ۔"قطب بیڈ کے ایک کارنر میں بیٹھتے ہوئے بولی اور اس نے پیزا بیڈ پر رکھنے کے بعد ایک لیٹر والی کولڈ ڈرنک کی بوتل فرش پر رکھ دی۔

۔"میں تب تک پرسکون نہیں ہو سکتی جب تک مجھے میرے سوالوں کے جواب نہیں مل جاتے۔"مشال قطب کی جانب دیکھے بنا  ہی تیز تیز لہجے میں بولی۔

۔"میرے پاس بہت اچھا آئیڈیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔"قطب مسکراتے ہوئے بولی اور اس نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

۔"بولو ، کونسا آئیڈیا ہے؟"مشال سپاٹ لہجے میں بولی۔

۔"پہلے تم پرسکون ہو جاؤ پھر آئیڈیا شیئر کروں گی۔"قطب کے کہنے پر مشال سیما اسکی جانب متوجہ ہوئی اور پھر قطب کے مقابل دو زانو ہو کر بیٹھ گئی۔ اب وہ دونوں ایکدوسرے کے سامنے بیٹھی تھیں اور ان کے درمیان خوبصورت سی ٹرے میں پیزا پڑا تھا۔

۔"گلفام صاحب کے دوست شرافت سے آج ملاقات نہ کرو اور اسے انتظار کرنے دو ، اگر وہ فون کرے تو اسے نظرانداز کرو۔"قطب نے مشال کو مشورہ دیتے ہوئے کہا۔

۔"قطب! میں جلد از جلد جاننا چاہتی ہوں کہ مجھے دیکھ کر آخر گلفام صاحب کو صدمہ کیوں ہوتا ہے اور اس صدمے کا مجھ سے کیا تعلق ہے؟"مشال قطب کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔

۔"تم شرافت  کو ملاقات کے لیے کل کا وقت دو۔"قطب اپنی بات مکمل کرتے ہوئے بولی۔ مشال سیما مزید کچھ کہنا چاہتی تھی مگر قطب نے نئی بات شروع کر دی۔

۔"آج تم دانیال سے ملاقات کرو اور سالار مغل کو اغوا کرنے میں میری مدد کرو۔"اس سے پہلے کہ مشال سیما مزید کچھ بولتی قطب نے تحکمانہ انداز میں کہا تھا۔

۔"دانیال سے ملاقات کہاں ہو گی؟"مشال سیما نے پوچھا جبکہ قطب نے اس کی جانب پیزا کا ایک کٹ پیس بڑھا دیا تھا۔

۔"جہاں میں رہتی ہوں اگر وہاں ملاقات ہو گی تو مجھے اپنا کام کرنے میں آسانی رہے گی۔"قطب کولڈ ڈرنک کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔

۔"ویسے تم سالار مغل کو اغوا کیسے کرو گی؟"مشال نے پوچھا تو قطب کولڈ ڈرنک گلاس میں انڈیلتے ہوئے رکی اور اس نے مشال سیما کی جانب دیکھا۔

۔"وہ سب تم مجھ پر چھوڑ دو تم بس مزے سے پیزا کھاؤ۔"قطب مسکراتے ہوئے بولی اور پھر کولڈ ڈرنک سے بھرے گلاس اپنے اور مشال سیما کے سامنے رکھنے کے بعد قطب خود بھی پیزا کھانے میں مشغول ہو گئی۔

☆☆☆☆

سالار مغل کسی ضروری کام کے لیے چلا گیا تھا جبکہ اسپتال میں گلفام مغل کے پاس اب اس کا دوست شرافت شرفی اور گلفام مغل کی ملازمہ تھی جبکہ گلفام مغل اب گہری نیند سو رہا تھا۔ موبائل فون کی اسکرین پر کچھ پیغامات ڈسپلے ہوئے تو شرافت نے اشارے سے ملازمہ کو گلفام مغل کا خیال رکھنے کی تاکید کی اور پھر اپنے فون سے میسیجز ڈیلیٹ کرتے ہوئے وہ وارڈ روم سے نکل گیا۔ اسپتال کے ایک کوریڈور میں شرافت کی ملاقات اعجاز احمد خالطی سے ہوئی جو پہلے سے ہی شرافت کا منتظر تھا۔ اعجاز احمد خالطی سے رسمی گفتگو کے بعد شرافت نے اس سے دریافت کیا کہ آیا اعجاز نے اپنا کام مکمل کر لیا یا نہیں تو اعجاز نے ایک پیپر شرافت کی جانب بڑھا دیا۔ شرافت نے اعجاز احمد خالطی کو تنبیہ کی کہ آئندہ وہ کبھی مشال سیما سے نہیں ملے گا تو اعجاز احمد خالطی اثبات میں سر ہلاتا ہوا چلا گیا۔

۔"مطلب فارس مشال سیما کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔"اعجاز احمد خالطی نے شرافت کو جو پیپر دیا تھا اس پر لکھی عبارت پڑھنے کے بعد شرافت نے سوچا اور پھر اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی۔

☆☆☆☆

زینت النسا بیگم اپنے کمرے میں صوفے سے ٹیک لگائے فرشی قالین پر براجمان تھیں۔ وہ آنکھیں بند کیے تسبیح پھیر رہی تھی اور ذکر و فکر میں مشغول تھی۔ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو زینت النسا بیگم نے تسبیح دائیں ہاتھ میں تھامی اور آنکھیں کھولے بغیر ہی بائیں ہاتھ سے اپنا عصا تلاش کیا۔ عصا پاس ہی پڑا تھا۔ تھوڑی کوشش کرنے سے عصا مل گیا۔ زینت النسا بیگم نے بائیں ہاتھ سے چھڑی پکڑی اور فرش پر دے ماری۔ دو سے تین بار چھڑی فرش سے ٹکڑائی تو کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی اور مودبانہ انداز میں کھڑی ہو گئی۔ جیسے ہی تسبیح مکمل ہوئی تو آنے والی عورت نے زینت النسا بیگم کو بتایا کہ نور بنت نذیر آئی ہے اور وہ زینت النسا بیگم سے ملاقات کرنا چاہتی ہے۔ عورت کی بات سن کر زینت النسا بیگم نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اس عورت کی جانب متوجہ ہوئی جو ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔

۔"پیر نذیر سائیں میرے شوہر منصور سائیں کا سب سے قریبی اور بہترین دوست تھا اور نور پیر نذیر سائیں کی لاڈلی بیٹی ہے، میں چاہتی ہوں جس شایان شان سے میرے سرتاج منصور سائیں اپنے دوست کا استقبال کیا کرتے تھے اسی شان اور اسی انداز میں پیر نذیر سائیں کی بیٹی نور کا استقبال کیا جائے۔"زینت النسا بیگم نے تحکمانہ لہجے میں کہا تو جس عورت نے نور بنت نذیر کی آمد کی خبر دی تھی وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی چلی گئی جبکہ زینت النسا بیگم دوبارہ تسبیح پھیرنے لگی تھی۔ نور بنت نذیر کو منصوری حویلی کے داخلی گیٹ پر چند منٹوں کے لیے روکا گیا تھا اور اس دوران منصوری حویلی کے مکین نور کے استقبال کی تیاری میں مصروف تھے۔

داخلی گیٹ سے زینت النسا بیگم کے کمرے تک مختلف رنگوں سے مزین بہترین قالین بچھا ہوا تھا۔ قالین کی نفاست نور بنت نذیر کی نگاہوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ نور کی حیرت میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب اس پر پھول نچھاور کیے گئے۔

زینت النسا بیگم اپنے کمرے میں چھڑی کے سہارے کھڑی تھی۔ اس نے نور بنت نذیر کو خوش آمدید کہا جبکہ نور نے زینت النسا بیگم کی دست بوسی کی۔ زینت النسا بیگم نے نور کو صوفے پر بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔

رسمی گفتگو کے بعد نور زینت النسا بیگم کو بتا رہی تھی کہ وہ بچپن میں جب اپنے بابا کے ساتھ منصوری حویلی میں آیا کرتی تھی تو اس کے بابا کا اسی طرح شاندار اور پرتپاک انداز میں استقبال ہوتا تھا اور آج کے استقبال نے ایک بار پھر اسے اپنے بابا کی یاد دلا دی تھی۔ بابا کی یاد آتے ہی نور بنت نذیر کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے تھے۔ اسی دوران ایک لڑکی کمرے میں آئی اور اس نے وہ لذیذ حلوہ پیش کیا جو نور کے بابا پیر نذیر سائیں کا پسندیدہ حلوہ تھا اور نور کے بابا یہ حلوہ بہت شوق سے تناول کیا کرتے تھے۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نور بھی اب حلوہ کھا رہی تھی جبکہ اسکی آنکھوں سے اب بھی آنسو بہہ رہے تھے۔

۔"بیٹی! اب بتاؤ ، ہماری یاد کیسے آ گئی؟"زینت النسا بیگم کے سوال نے نور کو دوبارہ اسکی جانب متوجہ کیا تو آنسو صاف کرنے کے بعد نور نے زینت النسا بیگم کو بتایا کہ وہ کس وجہ سے ان کے پاس آئی ہے۔

نور نے بتایا کہ وہ کسی گاؤں میں نعت خوانی اور وعظ و نصیحت کی محفل میں شرکت کے لیے گئی تھی وہاں پر کسی عورت نے اسے مشورہ دیا کہ اسے اب اپنے بابا کی طرح روحانیت کے سفر کا آغاز کرنا چاہیے۔ نور نے مزید بتایا کہ اس نے اس سلسلے میں سبین پھوپھو سے بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں روحانیت کی منزل پانا چاہتی ہوں تو آپ سے رہنمائی حاصل کروں۔

۔"بیٹی! میں بالکل تمہاری رہنمائی کروں گی لیکن روحانی سفر کا آغاز کرنے سے پہلے تمہیں اپنے اندر اپنے بابا جیسی صفات پیدا کرنا ہوں گی۔"زینت النسا بیگم صوفے سے اپنی تسبیح اٹھاتے ہوئے بولی۔

۔"اگر بابا جیسی صفات سے آپکی مراد دینی علم اور عمل ہے تو دینی علم میرے پاس بہت ہے اور میں دینی علم پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کر رہی ہوں۔"نور نے کہا تو اسکی بات سن کر زینت النسا بیگم نے چونکنے والے انداز میں نور کی جانب دیکھا۔

۔"بیٹی! اگر تم درست کہہ رہی ہو تو پھر تم اب تک اپنے شوہر کو راضی کیوں نہیں کر سکی؟"زینت النسا بیگم کے سوال نے نور کو لاجواب کر دیا تھا۔

۔"ہمارا مذہب شوہر کو مجازی خدا کا درجہ دیتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ پہلے  اپنے شوہر کو راضی کرو ، صرف اسی صورت  میں تمہیں روحانی فیض حاصل ہو سکے گا۔"زینت النسا بیگم کا لہجہ یکسر بدل گیا تھا اور اسکی پیشانی کی لکیریں نمایاں ہو گئیں تھیں۔

☆☆☆☆

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments