Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Talash E Bahaar | Episode 10 | By Qurat Ul Ain - Daily Novels

 



 


 

 

 

 

 


تلاش بہار

قرات العین قیصرانی کے قلم سے

قسط نمبر 10

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: قرات العین قیصرانی

تلاش بہار

Text Box: قسط نمبر 10

 


حال

اب وہ بوتل کو اپنے اوپر انڈیلنے ہی لگا تھا افرا کی آواز اس کے کانوں میں گونجی

پھر اس کے باپ کی آوازیں

ملک کونین مرد بنو مرد

حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا سیکھو

زندگی پھولوں کا سیج نہیں ہوتی

وہ پاگل ہونے کو تھا

ہری تتلی تھی میں ہری تتلی جسے تم جیسا سفاک شخص اپنی ظلمت کی چکی میں پیس کر گلال سے نہلا گیا مجھے  بستر مرگ پہ لا کر مجھ سے معافی مانگنے والا ددیکھو آج کہاں پہنچ گیا ہے اس کی آوازیں پھر سے ملک کونین کو اپنے آس پاس محسوس ہوئ

میں نے نہیں مارا تمھیں

بوتل کو سایڈ پہ رکھتا وہ شیشے میں اس کے عکس سے باتیں کرنے لگا

میں تو دل و جان سے چاہتا تھا تمھیں میں کیسے مار سکتا ہوں تمھیں تم تو جان تھی میری میں نے نہیں مارا تمھیں تم نے خود کو کبھی میری بیوی قبول ہی نہیں کیا تھا تم کوئ ونی نہیں تھی تم کوئ بچی نہیں تھی پھر کیوں کیا تم نے ایسا کیوں کرن

ملک کونین نے آہستہ سے شیشے پہ ہاتھ پھیرا وہ جیسے اس انتظار میں تھی وہ اس کی طرف بڑھے گا اور وہ رفو چکر ہوجاۓ گی وہ گم ہوگئ تھی وہاں سے تیزاب کی بوتل زمین پہ ویسی کی ویسی پڑی ہوئ تھی

**

ماضی

 

"وقت تیزی سے گزرتا گیا زندگی کی رونقیں پہلے کی نسبت مانند لگنے لگی.....پہلے سبھی سادگی پسند ہوا کرتے تھے سادے لوگ سادہ باتیں پھر انسان نے ترقی کی..... پھر  نقل مکانی کی... شہر چھوڑے حتی کہ ملک بھی....سب کچھ بدل گیا.... مگر نا بدلی تو سوچ اس کا غرور اس کی انا...پہلے سادہ سے لوگ ہوا کرتے تھے سادہ سی باتیں کیا کرتے تھے غرور تکبر کا نام و نشاں نہیں تھا پھر اولاد آدم نے ترقی کے چند زینے پار کیے پھر اس میں غرور آگیا.... پھر وہ سب بھول گیا کون اپنا کون پرایا....پھر وہ وہاں"

انھوں نے ہاتھ کا اشارہ چاند کی طرف کیا...

"وہاں پہنچ گیا....لیکن یہ صرف مادی ترقی تھی....وہ لوگوں کو اب بھی ویسا ہی دیکھتا ہے سنتا استعمال کرتا ہے جیسا اسے پسند ہے کوئ اس سے آگے بڑھنے لگۓ  تو اس کا وہ چھوٹا سا ذہن آگ بگولہ ہو جاتا ہے پھر وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو ایک انسان سوچنا بھی نہیں چاہتا جو انسان دیکھنے تک گوارا نہیں کرتا......اولاد آدم  نے تباہی کی طرف پہلا قدم بڑھا دیا ہے.... خونی رشتے سفید ہو گۓ.... زندگی کو تلخیوں نے آن گھیرا ہے کسی کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے چند لمحے بھی نہیں ہے.....ڈرامہ دیکھ لیں گے.... گانا سن لے گے..... میڈیا کا استعمال کر لیں گے مگر اپنوں کے لیے وقت نہیں ہے....دیار غیر میں اپنا مقام بنانے چلے ہیں....بے داغ زندگیاں سنپولہ بن کے نگل جاتے ہیں کچھ لوگ. ...یہ انسان ہے بیٹا انسان !!!! یہ ایسا ہی کرتا آیا ہے اسے روح کی پروہ نہیں اسے تو اپنے فانی جسم کی نمد و نمائش کی فکر ہے رب کے زکر سے نا آشنا اسلام کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتا ہے اسے موقع ملے تو یہ رب سے بھی سودہ بازی کرنے لگتا ہے..... ہاں یہ وہی انسان ہے شاید وہی!!!"...

انھوں نے افسردگی سے کھڑے ہوتے کہا بیری کے پیڑ کے چند پتے توڑتے وہ واپس اس کی طرف مڑے

"جسے فرشتوں نےسجدہ کیا تھا اس کی مقدر میں اس پیڑ کے پتے کی طرح گرنا لکھا ہے کبھی خشک  ہو کے تو کبھی ٹوٹ کے اور بعض دفعہ بس نظروں سے.... یہی ہے اس کی حقیقت ہے ....یہی ہے اس کی حقیقت ہے"....

پیڑ کے پاس سے اپنی لاٹھی اٹھاتے وہ پیڑ کے پیچھے چلے گۓ..... وہ اب بھی ان کی طرف دیکھ رہی تھی انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا وہ سیدھے چلتے گۓ یہ بھی اس کے لیے ایک سبق تھا پہلا وہ جو وہ اسے بتا کے گۓ تھے اور دوسرا وہ جو وہ اب اسے خاموشی سے سمجھاتے جا رہے تھے...وہ سبق یہ ہے کہ اولاد آدم نے پیچھے مڑنا نہیں سیکھا

"جو ہوگیا سو ہو گیا.....وقت ہے مہلت بھی ہے تم بھی ہو دنیا بھی ہے لوگ بھی ہیں کر لو توبہ مانگ لو معافی......... ابھی سور نہیں پھونکا گیا.....لیکن جب سور پھونکا جاۓ گا ایک منٹ ایک سیکنڈ کی مہلت بھی نا ملے گی....پھر نفسا نفسا کا وہ دردناک عالم.... ہاۓ وہ لوگ اپنی خطاوں پہ دوسرے کو الزام دیں گے پھر وہ بہانے بنایں گے اس دن سواے اللہ کے کوئ کام نا آۓ گا

دنیا کے اے مسافر

منزل تیری قبر ہے"

اس کے لبوں پہ ہلکی سی مسکان آی... نم آنکھوں سے بہتا وہ چشمہ رک گیا اب وہ آگے بڑھ رہی تھی ان کی مخالف سمت میں.....اس کی سوچ کا دائرہ یہاں سے شروع ہوا......اب اس کے لبوں کی جنبش نا رکنے والی ہوگئ وہ پڑھتی جارہی تھی وہی کلام بار بار.... آنسوں کا نا تھمنے والا ریلا بھی اس کا ساتھ دے رہا تھا دل رو رہا تھا بس اس کی پہنچ یہی تک محدود تھی وہ صرف رو سکتی تھی پرانے زخموں کو کریدنا تو اس نے سیکھا ہی نہیں..... پتھر دل موم بن گیا تھا ذہن پہ,دل پہ پڑے پردے کھلنے لگے اسے رونے میں لطف آنے لگا پھر وہ چلتے چلتے رکی.... وہ اب فصلوں سے دور ریت کے اس ویران ٹیلے پہ رک گئ جہاں سے اس کی کہانی شروع ہوئ تھی جہاں سے اس کی حیوان بننا سیکھا تھا جہاں رک کر اس نے کسی معصوم کو آگ کے شعلوں کی نظر کردیا تھا.... وہ ادھر ہی اس ریت کو تکتی رہی پھر وہیں بیٹھ گئ اسے آخر وہیں بیٹھنا تھا...

"یہ میرا ٹھاکانا ہے وہ صحیح کہتا ہے میں کھا گئ اس کی بہن کی خوشیاں..... میں بشرا بنت ملک سکندر اپنی جان سے پیاری سہیلی کو انھی ہاتھوں سے اجاڑ گئ.......آہ یہ ہاتھ"...... ویرانے میں اس کی چیخے گونجنے لگی وہ ہاتھوں سے پاگلوں کی طرح  ریت کھودنے لگی پھر ریت کو ہاتھوں سے دور پھینکتی وہ اپنے دونوں  ہاتھ اپنے چہرے پہ رگڑنے لگی اس کا چہرا اس کا بدن ریت اور مٹی کے غبار سے بدرنگ لگنے لگا وہ نیم پاگل ہوگئ....اسے ایک دن یہی ہونا تھا اسی مقام کے لیے بنای گئ تھی وہ اب وہ مقام اسے حاصل ہو گیا.....زندگی نے اس کی شامیں پھر سے ادسی سے بھر دی.....اس کا سب کچھ اب غم تھا..... اس کی زندگی "غ" سے شروع ہوکر "م" پہ جا کے رک جاتی.....کبھی "س" سے شروع "ز" کو ساتھی بناے "ا" پہ تھم جاتی بس یہی بچا تھا اس کے پاس....اب سے کسی چیز کے پانے کی جستجو نا تھی..... اس نے اپنے منزل کا تعین کر لیا.... وقت کی زنجیروں میں اس کے پیر وہیں لڑکھڑاتے اپنا آشیانہ کر بیٹھے.....

"آہ بشرا آہ "

اپنے آپ کو تھپڑوں سے مارتی وہ پھر آنسوں کے قافلے کو رواں کر چکی تھی اک پل اسے لگا اس کا دل غم سے پھٹ جاۓ گا مگر اسے فکر کہاں تھی اسے تو تلافی چاہیے تھی جو ناممکن تھی.....

***

حال

مزمل تم کہاں چلے گۓ تھے تمھیں معلوم ہے کتنا ڈھونڈا میں نے تمھیں تم یہاں یوں اچانک کیسے سب خیر ہے کیا بات ہے یہ افرا کی اندر کی آواز تھی

وہ واپس لوٹ آیا تھا سدرہ بیگم کی دعائیں قبول ہوگی مگر اس کے پیچھے ایک عورت کھڑی تھی

اور اس عورت کے ساتھ ایک بچہ تھا

وہ سمجھ گئ کہانی ختم ہوگئ ہے یہی تک تھی اس کی کہانی سب ختم

***

آہستہ آہستہ افرا کے کانوں میں اس کی آوازیں گونجنے لگی

میں مذاق کررہا تھا تم سے تم سنجیدہ ہوگئ میں تو ٹایم پاس کررہا تھا میری منگنی میری خالہ کی بیٹی سے طے ہوگئ تھی تم لڑکیاں کتنی بے وقوف ہوتی ہو کوئ  تم لوگوں کو تھوڑا سا وقت دے اپنے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں تم لوگ اس کے ساتھ جنت کے خواب ددیکھنے لگ جاتی ہے کتنی بے وقوف ہو نا تم میری شرط لگی تھی یسرا سے کہ میں تمھیں اپنے عشق میں گرفتار کروں گا اور پھر چھوڑ دوں گا اور دیکھوں تم خود کو کتنا ذہین سمجھتی تھی ہوگی پاگل کہا تھا نا میں نے تمھیں کتنی دفعہ میں مذاق کر رہا ہوں اور تم سنجیدہ ہورہی ہوں دو دن باتیں کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں مجھے تم سے عشق ہوگیا ہے افرا میڈم وہ سب میرے پلین میں شامل تھا  ایک جال تھا جو تمھاری طرف پھینکا گیا اور معلوم ہے تمھیں ارم شان یسرا یہ سب مہرہ تھے میرے پلین کے مہرہ مبارک ہو افرا کونین تم جیتی بازی ہار گئ

وہ لڑکی جو مزمل کے پیچھے کھڑی تھی وہ یسرا تھی

اس کا مطلب ارم مری نہیں وہ زندہ تھی وہ سب ڈرامہ تھا مزمل کا ایکسیڈنٹ اور وہ میری گاڑی سے ٹکرانا اور پھر میری مدد کرنا  یہ سب

افرا وہیں بیٹھتی چلی گئ

یہ مرد ذات تھا چار بہنوں کا بھائ کسی کی بہن کو دھوکا دیتے ہوۓ اسے یہ معلوم ہی نہیں ہوا وہ خود اپنے لیے گھڑا کھود رہا ہے

افرا تو اپنے خوابوں کے خزاں سے بچنے کے لیے تلاش بہار کی تلاش میں تھی مگر یہاں تو سب الٹا ہوگیا

تو مقافات ایسے ہونی تھی

کبھی کبھی دل کا ٹوٹ جانا زندہ انسان کے مرنے سے زیادہ تکلیف دیتا ہے

یہ وہ حالت ہے جس میں انسان نا مرتا ہے نا جیتا ہے صرف موت کی دعائیں کرتا ہے مگر کس کے لیے اس کے لیے جو کبھی اس کا ہے ہی نہیں

وہ مزمل جو کتنے وعدے کرتا تھا وہ سب جھوٹ نکلے ایک عورت کی آنکھیں مرد کو پہچاننے سے کیسے دھوکہ کھا گئ

مزمل اسے وہیں چھوڑ کر چلا گیا

وہ اب بھی وہیں بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی

آج افرا کی آنکھ سے آنسوں نہیں نکلے وہ مردہ ہوگئ تھی یا کردی گئ اسے سمجھ نہیں آیا کونسے گناہوں کی سزا ہے یا پھر کوئ آزمائش ہے

 

جاری ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments