Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Talash E Bahaar | Second Last Episode 11 | By Qurat Ul Ain - Daily Novels

 



 


 

 

 

 

 


تلاش بہار

قرات العین قیصرانی کے قلم سے

سیکنڈلاسٹ

قسط نمبر 11

اردو  ورچوئل پبلشرز

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: قرات العین قیصرانی

تلاش بہار

Text Box: قسط نمبر 11

 


وہ ہنس رہا تھا اپنے حال پہ جیسے کوئ پاگل ہنستا ہے جیسے اسے یقین نہیں آرہا تھا وہ حقیقت ہے اس نے سنا تھا کہ غم برداشت کے قابل ہوجاۓ تو کلیجے پھٹ جایا کرتے ہیں مگر وہ آج محسوس کر رہا تھا اگر خوشی اوقات سے زیادہ ملے تو دل بند ہوجاتے ہیں وہ اس وقت ڈیپریشن کی انتہا پہ کھڑا تھا

 

اپنے عکس سے باتیں کرتے اسے اک عرصہ ہوا تھا اسے لگا جیسے کوئ بچہ ماں سے واپس مل گیا ہو جیسے سمندر کی موجوں میں موجود پانی کا وہ سکوت اک لمحے کے لیے چھن کرکے ٹوٹا ہو-

 

جیسے کسی نے شیشے کی گلاس کو زمین پہ پٹکا ہو اور اس کے اوپر چل کر اپنا آپ بہایا ہو جیسے قصے کہانیوں میں ہوتا ہے جیسے ٹی وی ڈراموں میں رانی راجا کو پانے کے لیے,رانی راجا  کو پانے کے لیے کبھی آگ کو گلزار کہہ رہا ہوتا ہے کبھی عزت نفس کی دھجیاں اڑا کر سر راہ اپنی مستی میں قلندر بنا پھرتا ہے

 

وہ بھی پہچاننے کی کوشش میں تھا کون ہے وہ, کس کا عکس ہے, کہاں تھا اتنے سالوں سے کبھی ملاقات کیوں نا ہوئ اس سے, دیکھا دیکھا سا لگتا ہے پھر انجان کیوں بن رہا ہے, ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے جیسے یہ باتیں کر رہا ہو مجھ, لیکن اس کی آواز میرے کانوں میں سیسہ کیوں ڈال رہی ہے, مجھے سرور کیوں نہیں دے رہی؟

 

اچانک اس نے اپنا سکوت توڑا

اور وہ بول پڑا.... اور بولا بھی تو کیا ؟؟؟

 

"کون ہو تم ؟"

 

نیچے پڑی تیزاب کی بوتل کو ٹھا کر کے اس نے سامنے والے شیشے کو دے مارا پھر سے چھن چھن چھن کی آوزیں آئین تھی پھر کسی کا دل ٹوٹا تھا پھر کسی کی عزت نفس پہ ہاتھ مارا گیا پھر کوئ اندر سے لہو لہان ہوا تھا زندگی ہولے سے مسکرای چڑیا کے قہقہے بھیڑیوں کے آوازوں میں بدلنے لگی موت پیاسی نظر آی جیسے اس کے انتظار میں ہو جیسے صدیوں سے وہ اس کی تلاش میں تھا اور اب کامیاب ہوگیا-

 

درختوں سے پرندے اڑنے لگے تھے شاید اب ان کا یہاں گزارا نہیں ہو پانا تھا یا شاید وہ تھک گۓ تھے اس بوڑھے جوان سے جو اپنے آپ سے باتیں کرتا تھا جو روانی میں بولتا تو بولتا چلا جاتا وہ تھک چکے تھے اس کی ہنسی کا بار اٹھاتے اٹھاتے ..اب بس.... برداشت کی حدیں یہاں تمام ہوئ-

 

درخت کی شاخوں سے ٹہنیوں نے جدائ کا راگ الاپنا شروع کردیا جیسے کہ رہی ہوں بند کرو اپنی بکواس بند کرو اپنا یہ ناٹک, کب تک ہنسی کا لبادہ اوڑھے خود سے منافقت کرتے رہو گے,کب جانوروں کی طرح رہنا سیکھو گے, انسان بننے کی ضرورت نہیں ہے تمھیں, بس کردو اب, بہت ہوگیا, بہت کر لی اپنی, اب کچھ ہماری سنو, کچھ اپنی کہو, ہمیں بھی بولنے کا موقع دو, ہم بے جان ہیں تو کیا ہوا, تم کچھ بھی بکتے رہو گے اور ہم جھیل لے گے نہیں میاں بس, اب تم بچے نہیں رہے بوڑھے جوان ہوگۓ ہو, بوڑھے جوان, خود کو سمجھنا بند کرو, دنیا کو اس حال میں قبول کرو جیسی وہ ہے خدا کی قسم کوئ گلہ شکوہ نہیں رہے گا کہ تمھاری وجہ سے ایسا ہے ویسا ہے

 

 

*******

 

انسان جتنا مرضی بھاگ لے اپنے آپ سے اپنی حقیقت سے,اپنے آس پاس سے کہیں نا کہیں,کبھی نا کبھی اس کی ملاقات انہی راستوں انہی جگہوں سے ہوہی جاتی ہے وہ منزلیں, وہ آزمائشیں, وہ تکلیفیں,وہ درد,وہ انسان, اس کی  یادیں, وہ زندہ انسان کو دفن کردینے والی حقیقت, وہ لاحاصل خواہشیں, وہ بچھڑی راہیں,وہ انجان مسافتیں, وہ سرور دینے والی ہوائیں,وہ آنکھوں سے بہتی ندیاں, وہ ذہن کے گوشے آگ لگا دینے والی  چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں,وہ برسات میں بادلوں کے قہقہے,وہ جل تھل زمین پہ اداسی کی شامیں, وہ رونقیں,وہ بے معنی قندیلیں, وہ آوارہ گرد آلود کند ذہنیں,  سب سے کہیں نا کہیں ٹاکرا ضرور ہوتا ہے اور یہ ٹاکرا بے معنی نہیں ہوتا ہے بامعنی ہوتا ہے اک آس چھپی ہوتی ہے اک دلیل,اک آوارگی, اک غم, اک فنا کردینے والی حقیقتیں .....

 

"میں انکاری ہوں ان لوگوں سے جو کہتے ہیں ہم لوگوں کا درد سمجھ سکتے ہیں -سمجھنا تو دور میں تو کہتی ہوں تم لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے ہم پہ کیا بیتی کیا بتاوں کیا سناوں کچھ ہے ہی نہیں بتانے کو کچھ ہے ہی نہیں سنانے کو ....پہلے کہنا چاہتی تھا سنانا چاہتی تھی مگر پھر پھر وہ آیا اور سب ختم ہوا یہاں..... "

 

"میری کہانی شروع ہونے سے پہلے اپنے اختتام کو پہنچی.... بہاروں نے میرا ساتھ نا چھوڑا.... خزاں آج بھی میرے تلاش میں ہے مگر مجھے اک ایسے جزیرے کی تلاش ہے جہاں کوئ نا ہو وہ ٹاپو سنسان ہو وہ نگری خاموش ہو اور معلوم ہے وہ نگری وہ جزیرہ وہ سنسان ٹاپو کیا ہے میرا دل.. ہاں میرا دل" ....

 

وہ روتی جارہی تھی بے ڈھنگا حلیہ کبھی دوپٹہ سے آنسو پونچھتی تو کبھی ناک صاف کرتی -

 

اس سنسان راستے پہ کوئ نا تھا مگر وہ جارہی تھی وہ راستہ خطر ناک تھا وہ جانتی تھی مگر وہ پھر بھی رکی نہیں وہ چلتی گئ دور کہیں اک بھیڑیا ہنستا نظر آیا-

 

 

*******

 

تم سو رہے ہو غفلت کی چادر اوڑھے اگر تم آج نا اٹھے تو ساری زندگی سوتے رہو گے -اٹھو یہ سونے کا وقت نہیں ہے- خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ یہ بیداری کا وقت ہے- ابھی سونے کے لیے کچھ وقت باقی ہے -سکون سے سو لینا لیکن ابھی جاگو جاگو, سورج کی کرنوں سے پہلے ایسا نا ہو, تمھارے آس پاس کا اندھیرا تمھارا سب کچھ چھین کر لے جاۓ اور تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ' اٹھو یہ سونے کا وقت نہیں ہے اٹھو منزل کی تلاش میں اٹھو اور اٹھ کے دیکھو کس قدر ڈوبے ہوۓ ہو.اٹھو اور دیکھو مجبوریوں نے کتنی بیڑیاں پہنا رکھی ہیں تمھارے پیروں میں, اٹھو اور دیکھو یہ رات کی خاموشی یہ سنسان راہیں کیا پیغام دینا چاہ رہی ہے اٹھو اور دیکھو تمھیں جس شے کی تلاش تھی اس کا راستہ مل گیا ہے تمھیں -

 

اس کے کانوں میں سرگوشیاں جاری تھی وہ ہڑبڑا کر اٹھا بلب آن کی ادھر ادھر دیکھا کوئ نہیں تھا کمرے میں سواے خاموشی کے

صرف گھڑی کی ٹک ٹک کی آوازیں تھی -

 

وہ اٹھا اب وہ واشروم کی طرف جا رہا تھا وضو کرتے ہی اس نے واپس کمرے کی راہ لی - جاۓ نماز بچھاتے اس نے ایک بار پھر گھڑی کی طرف دیکھا- جس پہ سوا دو بج رہے تھے -

 

صبح کاذب شروع ہوچکی تھی -

تہجد پڑھتے ہی وہ  گھر سے باہر نکل آیا -

ان کے گھر کے سامنے مین روڈ تھا - روڈ پہ چلتے چلتے اسے احساس ہی نا ہوا وہ گھر سے کتنی دور آگیا ہے -

 

وہ سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی وہ اسے دیکھ تو نہیں سکتا تھا مگر وہ صرف اسے محسوس کرسکتا تھا -

اس نے کبھی اسے اکیلا نا چھوڑا -

 

زندگی کے ہر موڑ پہ وہ ڈٹ کر اس ساتھ کھڑی رہی مگر وہ آج تک پہچان ہی نا پایا اسے وہ کون تھی -

کبھی وہ اندھیرا بن کر اس سے باتیں کرتی تو کبھی جگنو بن کر اسے راہ دیکھاتی -

 

کبھی چاند سے اسے تشبیہ دیتی تو کبھی سراب پکارتی -

کیا وہ اسے جو سمجھ رہا تھا وہ وہی تھی -

وہ اس کے بارے میں سوچے جا رہا تھا آخر وہ ہے کون ؟

وہ ابھی بھی اس روڈ سے واپس گھر کی طرف جا رہا تھا جب وہ کسی ناگہانی آفت کی طرح آٹپکی اس کے الفاظ میں ایک عجیب سا سحر ایک عجیب سی کشش ہوتی تھی جو دن با دن اسے خود میں جکڑتی جارہی تھی وہ پہلے پہل تو اس بات کو عام لیتا تھا اس پہ کوئ توجہ نا دیتا مگر جب سے اس نے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا اس کی سوچ نے اسے اس نامعلوم شخصیت کے بارے میں سوچنے پہ مجبور کردیا -

 

مگر صرف ایک حد تک وہ اب بھی ویسے ہی تھا مگر تھوڑی سی توجہ اس کے باتوں پہ بھی دے دیتا کچھ باتیں اسے اچھی لگتی تو کچھ اتنی کڑوی کہ وہ وہاں سے فرار کا راستہ ڈھونڈھنے لگ جاتا وہ پھر اس سے بول رہی تھی -

وہ کانوں میں انگلیاں دیے بھاگ رہا تھا مگر اس کی آواز اتنی سریلی تھی یا شاید کچھ خاص تھا اس آواز میں وہ اسے ویسے ہی سنائ دے رہی تھی-

 

"آگۓ تم!!! مجھے تمھارا ہی انتظار تھا دیکھو کتنا حسین موسم ہے نا یخ ٹھنڈی ہوائیں.... سردی کا بڑھتا زور.منہ سے نکلتا دھواں. کبھی محسوس کیا ہے اس سردی کو. جو رشتوں میں بڑھ جائیں تو خون سفید کردیتا ہے. رشتوں کو انمول سے بے مول کردیتا ہے -نہیں کیا نا محسوس -معلوم تھا مجھے تم کر ہی نہیں سکتے اتنے مصروف جو رہتے ہو بچپن سے دیکھتی آرہی ہوں تمھیں گھر سے سکول. سکول سے مدرسہ.مدرسہ سے ٹیوشن پھر گھر تھوڑا سا کھیلا سوۓ اٹھے واپس وہی روٹین. تم انسان پک نہیں جاتے ایک ہی روٹین سے بار بار وہی کام کرتے کرتے. آخر کس کے انتظار میں رہتے ہو تم لوگ. وقت کے! ارے پاگل وقت کو برباد کر کے اس کا اتنا انتظار!!واہ کیا بات ہے بھئ  یہی کام رہ گیا ہے کچھ پڑھ لیا تو سوچ لیا وقت ضائع ہونے سے بچ گیا کوئ کام کرلیا تو وقت کی بچت پہ یہ بڑے بڑے فتوے دے ڈالے. یہی ہے نا تمھاری زندگی بور نہیں ہو جاتے تم ایک ہی روٹین سے روز روز وہی دن وہی راتیں وہی لوگ ایک سا سماں. کوئ آجاۓ کوئ چھوڑ کر چلا جاۓ تمھاری روٹین ویسی کی ویسی رہتی ہے "

 

"بتاؤ کیوں؟"وہ سوال کر رہی تھی مگر وہ چپ چاپ اسے سنے جارہا تھا

کچھ دیر بعد گھر آیا اب وہ نماز پڑھ رہا تھا

 

اسے یاد آیا آج اسے انٹر ویو کے لیے اسلام آباد جانا ہے

پھر اسے یاد آیا وہ گھڑی جو کھو گئ تھی وہ میں نے بھائ کو دی تھی کہ ہ کھوی نہیں تھی

اور فلانی چیز فلانی چیز

 

...وہ کہنے کو تو نماز پڑھ رہا تھا مگر اس کا دھیان کہیں اور تھا

جاۓ نماز پہ تو صرف مٹی کا وہ پتلا کھڑا تھا اس کی روح تو کب کا ساتھ چھوڑ چکی -

ضمیر مر گیا تھا -

 

اللہ کی بارگاہ میں جاتے ہی اسے شیطان نے بہکایا -

شیطان ہر جگہ ہر شکل میں پایا جاتا ہے-

 

وہ بھول گیا وہ کہاں کھڑا ہے -

کس کے پاس کھڑا ہے -

وہ کیا کر رہا تھا اللہ کے ساتھ سودے بازی -

 

ہاں شاید یہی نام تھا اس کے تعلق کا. بڑے فخر سے وہ دوسروں کو بتاتا میں پانچ وقت کا نمازی ہوں -

کونسی نماز,کہاں کی نماز , وہ کب اللہ سے ہم کلام ہوا -

ہاں روز وہ ہوتا تھا لیکن دل سے نہیں.

 

یہ اس کی خام خیالی تھی کہ وہ رب کے حضور کھڑا ہوتا ہے -

وہ تو اپنی کھوی ہوئ چیزیں ڈھونڈنے کے لیے اللہ کو یاد کرتا تھا -

آج سوچتے سوچتے اسے یاد آیا وہ تو اب بھی غافل ہے اللہ سے وہ نماز تو پڑھتا ہے مگر اللہ سے ملاقات نہیں کرتا کیونکہ وہ غفلت کی نید اوڑھے خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے   انھی الفاظ کو اپنے ذہن میں  جوڑتا وہ اٹھ کھڑا ہوا جو ہوگیا سو ہوگیا  وہ دوبارہ نماز پڑھنے کے لیے جاۓ نماز پہ کھڑا ہوگیا-

 

جب اسے سکون کی دو سانسیں نصیب ہوئ تو اسے لگا جیسے دو دریا آپس میں مل گۓ ہوں جیسے ندی کنارے کسی کو ڈوبتے ڈوبتے بچالیا گیا ہو جیسے گھپ اندھیرے سے کوئ رہبر کسی کو نکال کر سیدھی راہ پہ لے آیا ہو جیسے چاند نے اپنی چاندنی کی چمک تیز کردی ہو جیسے مرجھاے پھول کھل اٹھے ہوں جیسے اسے نئی زندگی ملی ہو ایسی زندگی جس کی وہ چاہت کرتا آیا ہو -

 

سوچتے سوچتے وہ کچھ لمحے وہیں جاۓ نماز پہ لیٹا رہا -

وہ ادھر ہی جاۓ نماز پہ سوگیا -

سورج کی ننھی ننھی کرنوں نے اس کی نید میں خلل ڈالا-

وہ اٹھ کر گھڑی دیکھنے لگا ابھی تو کافی وقت ہے اسلام آباد جانے میں

 

پھر اسے جیسے کچھ ییاد آیا -

کون سا اسلام آباد کہاں کا اسلام آباد

میں کہاں ہوں اس نے ادھر ادھر دیکھا جیسے اسے یقین نا آرہا ہو وہ وہی ہے

 

یہ سب کیا ہورہا ہے میرے ساتھ

میری بچی افرا کدھر ہے وہ خود سے بڑبڑایا -

میری بہن سدرہ وہ کہاں ہے وہ پھر اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا -

 

اچانک کمرے میں کسی کے قدموں کی چاپ سنای دی وہ کوئ عورت تھی موٹی سی آنکھوں پہ نظر کا چشمہ لگاۓ دوپٹہ کو نفاست سے اوڑھے درمیانے قد کی خاتون تھوڑی موٹی سانولی سی چہرے پہ ایک دلکش مسکراہٹ  لیے وہ اس کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی -

 

ملک کونین کے اندر کچھ ٹوٹا تھا چھن کرکے دور دور تک جنگلوں میں اس چھنک کی آواز گئ تھی جیسے کسی کانچ کے گلاس پہ کسی نے زمین پہ پٹک دیا ہو جیسے کسی کے عمر بھر کی کمائ ڈاکوں نے لوٹ لی ہو جیسے کوئ رہ گزر  اپنے قافلے سے جدا ہوگیا ہو قافلہ کی سمت میں دراڑیں آگئ ہوں اور وہ ویران صحرا میں شدت پیاس سے پل پل مر رہا ہو خود کو اذیت دینے کے سوا اس کے پاس اور تھا ہی کیا فقط چند یادیں کچھ جھوٹی باتیں کئ من گھڑت قصے -

اس کا دماغ سن ہونے لگا جیسے اس نے بجلی کی ننگی تار کو ہاتھ لگا دیا ہو

 

کیسی طبعیت ہے آپ کی؟؟مدھم سی آواز سامنے کھڑی عورت کی جانب سے آئ جو اس کے کانوں کے پار جاتے ہی دل کی ٹیسیں بڑھا گئ -

 

میں نے پوچھا ہے کچھ کونین کیسی طبیعت ہے آپ کی ؟

وہ ہکا بکا اسے دیکھتا رہا -

رات کو کافی زیادہ طبیعت بگڑ گئ تھی آپ آئینہ سے باتیں کر رہے تھے-

 

میرے ہاتھ میں کچھ تھا کیا اس وقت؟عجیب و غریب سوال کیا گیا

نہیں کچھ نہیں تھا پانی کی بوتل تھی بس جو منگوای تھی آپ نے -

خاتون ہولے سے مسکرای -

 

تم ہنس کیوں رہی ہو میرا مزاق اڑا رہی ہو کیا -

ملک کونین نے سہم کر پوچھا جیسے اس کے ہنسنے سے اسے اتنی تکلیف ہورہی ہو جیسے ایک ماں اپنے بچے سے بچھڑی ہو-آزمائش ہے

 

جاری ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments