Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Zindagi Kay Khail By Sehar Naseer

 



 


 

 

 

 

 


زندگی کے کھیل

سحر نصیر کے قلم سے

اردو ورچوئل پبلشرز

اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

زندگی کے کھیل

ازقلم: سحر نصیر

کبھی کبھی ہمارے اپنے پسندیدہ لوگ ہی

ہمیں چیخ چیخ کر رونے پر مجبور کر دیتے ہیں

سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا جب وہ محوحیرت لڑکی دریا کے کنارے آ کر بے جان حالت میں چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔وہاں اس وقت خاموشی تھی بس پرندوں کی ہلکی پھلکی آوازیں خاموشی کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی وہ لڑکی ٹھنڈی ریت پر کھڑی تھی جہاں پانی کی لہرے وقفے وقفے سے اس کے پاؤں پر بوسہ دے رہی تھی۔ وہ ہمیشہ اسی وقت دریا کے کنارے آتی تھی جب کوئی وہاں موجود نہیں ہوتا تھا اور اسی طرح رو رو کر دل کو سکون دیتی تھی۔وہ پرکشش نقوش والی سفید رنگ کی مالک،بالکل سیدھے سیاہ رنگ کے بال،پانچ فٹ دو انچ قد،نیلی موٹی موٹی آنکھیں،گڑیا کی طرح کا پتلا ناک اور چھوٹے چھوٹے گلابی ہونٹ تھے۔اس خوبصورت لڑکی کا نام عائشہ تھا جو بھی اس کو دیکھتا پھر بس دیکھتا ہی رہتا تھا۔

اب اس بانکپن کی مالک لڑکی کو دریا کے کنارے آئے چار گھنٹے بیت چکے تھے وہ اپنے کرب کے وقت سے جنگ کر چکی تھی اب شام ہونے والی تھی پر اس کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔سورج غروب ہو رہا تھا پرندے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے کہ اچانک عائشہ کھڑی ہوئی اور غروب آفتاب کو دیکھا کر بولی اے مہتاب و آفتاب کے مالک،اے ان لہروں کے مالک،اے دن اور رات کے مالک،اے ابرباراں کے مالک،اے چٹیل کے مالک،اے مٹکتی ہوا کے مالک،اے پہاڑوں کے مالک مجھے صبر دے میں ٹوٹ رہی ہوں میں ہار رہی ہوں اے اللہ میں نے ہمیشہ تجھ سے مدد مانگی ہے مجھے ہمت دے میرے جان کے مالک۔

آخر کار خود کو مضبوط کرتے ہوئے واپس گھر کی طرف چلتی ہے۔عائشہ ہمیشہ سے اصول پسند تھی وہ اصولوں کی پاسداری کرتی تھی۔اس پارسا لڑکی پر آئے دن کوئی نہ کوئی الزام لگایا جاتا تھا کہ تم نے گھر سے یہ چیز چوری کی وہ چیز چوری کی حالانکہ وہ سارے گھر کا کام کرتی تھی۔عائشہ پڑھتی بھی تھی نوکری بھی کرتی تھی پر آج وہ مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی کیونکہ آج اس کی کزن نے اس پر اپنے بھائی کے ساتھ حرام تعلقات رکھنے کا الزام لگایا تھا۔میں جانتی ہوں کہ اک عورت بہت صبر کرتی ہے ہر چیز پر الزام کو برداشت کرتی ہے پر اپنے کردار پر لگے داغ کو وہ چاہ کر بھی برداشت نہیں کر سکتی آج عائشہ کا صبر بھی جواب دے گیا تھا۔وہ اپنے بستر پر لیٹے اپنے اللہ سے ہم کلام تھی آج وہ اپنے اللہ سے اپنی قسمت لکھنے کا شکوہ کر رہی تھی شکایت کر رہی تھی۔اللہ سے کہہ رہی تھی کیوں اللہ جی آپ نے میرے ماں باپ کو اپنے پاس بلا لیا اور مجھے اس سنگدل لوگوں کے پاس تنہا بے سہارا چھوڑا دیا کیوں؟.

یہ کہتے کہتے وہ رکی اور اپنے ہونٹوں کو آپس میں موند لیا اور بولی یااللہ! مجھے معاف کر دے مجھے تیری رحمت پر پورا یقین ہے۔مجھے یقین ہے کہ تو میرا انصاف کرئے گا اور سچ سب کے سامنے آئے گا۔جو اللہ پر کامل یقین رکھتے ہے نہ اللہ ان کا ہمیشہ ساتھ دیتے ہے۔عائشہ اپنی چچی کے گھر رہتی تھی جن کے دو بچے تھے لڑکے کا نام حیدر اور لڑکی کا نام حمنہ تھا۔حیدر اچھا لڑکا تھا وہ ہر موقعے پر عائشہ کا ساتھ دیتا تھا پر حمنہ کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی تھی۔وہ سازش کرتی تھی پر ہر بار ناکام ہوتی تھی اس بار تو اس نے حد کر دی تھی دنیا مکافات عمل ہے۔جیسا کروں گے ویسا بھرو گے آخر کار آج عائشہ کے صبر کا اللہ نے اس کو انعام دینا تھا۔

حمنہ کے بہت سے لڑکوں کے ساتھ حرام تعلقات قائم تھے کہتے ہیں نہ کہ انسان جیسا خود ہوتا ہے ویسا ہی دوسرے کو سمجھتا ہے۔ آج دلکش نقوش،سفید طلعت کا مالک،مہر جیسی روشن آنکھیں جن کا رنگ بالکل سیاہ تھا اور کشش اس قدر تھی کہ کوئی اک لمحے کے لیے اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھا سکتا تھا،چھ فٹ دو انچ قد بالکل عائشہ کی طرح کے سیاہ بال پر لمبے نہیں تھے بڑی نفاست سے سیٹ کیے ہوئے تھے۔

عمر خان کی خوبصورتی اس کی شناسائی کے لیے کافی تھی ماشاءاللہ اس قدر مضبوطی شخصیات کا مالک بقول حیدر کی ماں کے حمنہ کا رشتہ دیکھنے آ رہا تھا۔ جب حمنہ نے اس شاندار چہرے کے مالک انسان کو دیکھا تو اس پر دل ہار بیٹھی تھی پر عمر پر حمنہ کے کیے گے میک اپ کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا وہ تو دراصل عائشہ کی سادگی پر دل ہار کر اس گھر رشتہ لے کے آیا تھا۔اس نے عائشہ کو اپنے دفتر میں دیکھا تھا اور دیکھتے ہی اسے عائشہ سے  محبت ہو گی تھی۔وہ اس پاک کردار کی مالک لڑکی کو مکمل طور پر جانتا تھا جس دن عائشہ دریا کے کنارے چیخ چیخ کر رو رہی تھی عمر وہاں موجود بے بسی کے عالم میں اسے دیکھا رہا تھا وہ لمحہ اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا وہ اب بس عائشہ کو سکون دینا چاہتا تھا۔وہ جانتا تھا اگر وہ اس وقت وہاں اس کو خاموش کرواتا تو وہ سکون میں نہ آتی اس لیے وہ خاموش تماشائی بنا اس کو روتے دیکھتا رہا اور خود اس سے زیادہ روتا رہا وہ جانتا تھا کہ عائشہ کبھی بھی کسی نامحرم سے اپنے دل کا حال بیان نہیں کرئے گی۔

اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مہ جبین لڑکی سے نکاح کرے کا اور اس کو زندگی کی ہر خوشی دے گا۔تو بس آج وہ اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے پہنچا چکا تھا۔عمر کی والدہ بھی عائشہ کو دیکھ کر اپنے بیٹے کی پسند کو داد دے رہی تھی۔

انہوں نے جب عائشہ چائے لے کر آئے تب ہی اس کو پسند کر لیا تھا اور اس کا رشتہ مانگا تھا۔اس کے چچا عائشہ سے بہت محبت کرتے تھے اس لیے انہوں نے رشتے کے لیے ہاں کر دی تھی۔

ختم شدا

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments