Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Dil Se Dil Tak | Episode 12 | By Sidra Shah - Daily Novels





 

 

 

 


ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 


دل سے دل تک

 


۔۔۔۔۔۔۔۔*******

آپ لوگوں کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ۔۔۔۔۔۔

آپ لوگ جتنا جلدی ہوسکے کسی محفوظ مقام منتقل ہوجائیں ورنہ آپ تو جانتی ہی ہیں کہ ان لوگوں کو اگر بھانک بھی لگ گئی تو آپ لوگ نہیں بچیں گے میں بےبس ہوں ۔۔۔۔"

بی بی جی ورنہ صاحب کے تو ان گنت احسانات ہیں مجھ پر کہ اُتار بھی نہ سکوں میں غریب آپکی بس اتنی ہی مدد کرسکتا تھا ۔۔

اس آدمی نہ آپنی آستین سے آنسو پونچھ کر کہا ۔۔۔

اور سامنے بیٹھا وجود سر ہلاتا ایک اور امتحان کے لے خود کو تیار کر رہا تھا ۔ قسمت نے کیا کھیل کھیلا تھا ۔ سائبان اور گھر کی چھت دونوں ہی چھن گئی تھیں ۔

اور پے درپے آزمائشوں کا سلسلہ

اس کی خوبصورت آنکھوں سے ایک آنسو اس کے ہاتھ پر جا گرا ۔

اور وہ دیر تلک اس کو دیکھتی یادوں کے پنوں میں گم ہو گئی ۔۔۔

****۝ۜۜؕؕؕؕ****

 

وہ کروٹوں پر کروٹیں بدل رہی تھی پر نیند تھی کہ آنکھوں سے کوسوں دور۔۔۔۔ زچ ہوتی وہ اُٹھ بیٹھی

یہ کیسی بےچینی ہے یہ نیند کی دیوی ہم پر مہربان کوئی نہیں ہوتا ۔

اور ایک بار پھر اسکی سوچ میں وہ یونانی دیوتا بڑے حق سے براجمان ہوگیا اور اسکو سوچتی اسکے لبوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ در  آئی اور اپنے چہرے کو ہاتھوں میں چھپا کر سر نفی میں ہلانے لگی ۔

یہ کیسی فیلنگ ہے اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا جو زور سے دھک دھک کر رہا تھا

کیا مجھے پیار ہو گیا ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔

اور دل کی دھڑکنوں نے اسکو مثبت جواب دے دیا ۔

وہ بیڈ سے اُٹھی اور گول گول گھومنے لگی ۔

اوففف یہ خواب سا ہے

تھک ہار کر وہ بیڈ پر دھپ کرتی گری

ساجن میرا قلفی کمار

اس کی  گنگناہٹ پر بارش زور سے برسی

گلاس وال پر بارش کی بوندوں کو دیکھتی وہ اس کی طرف بڑھی اور بالکونی میں آئی جہاں بارش تیزی سے اسکو بھگو رہی تھی ۔

زین وہ زیرِ لب بڑبڑائی

زہ تہ سارا مینہ کوم

******

سوۓ نہیں ابھی تک

اسد کوفی کا کپ زین کو تھماتا بولا جو خیالوں کی دنیا میں گم تھا

اچانک اسے کوفی تھمانے پر گھبرا کے دو قدم پیچھے ہوا ۔

ارے تم تو ایسے گھبرا رہے ہو جیسے تمھاری چوری پکڑی گئی ہو ۔

اسد مصنوعی حیرت سے کہتا اس کو مسکرانے پر مجبور کر گیا

نہیں تم جو یوں  بھوتنی کی طرح نازل ہو گئے تو اس معصوم سے دل نے تو سہم ہی جانا ہے

زین ایک اس  کی گھوریوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوے بولا

اوے شرم کر مجھ جیسا گھبرو جوان تمھیں کس اینگل سے بھوتنی لگتا ہے

اسد کی آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں اس کی بات پر ۔۔۔۔

 

ہر اینگل سے لگتے ہو ۔۔۔۔۔

زین آنکھ دباتے ہوۓ اسد کو سلگا گیا

اور اسکی بات پر تو اسد نے تپ کر دانت پیسے ۔

تمھیں تو میں

خراح خراح ………………ح…ر…ا…ح

سفیان کے خراٹوں نے  پورے کمرے کو ہلا کر رکھ دیا اور ادھر

اسد اور زین کا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا کمرے میں

مستقبل کی بھابھی کا اللہ ہی حافظ ہے میں بتارہا ہوں بھائی ہونے والی بھابھی کی سماعت صرف چند دنوں کی مہمان ہے  پھر انھوں نے سفیان کے اس میوزک پر بہرا ہی ہونا ہے ۔

ایک بار پھر قہقہوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ۔۔۔۔۔

بھائی بھابھی کی فکر بعد میں یہاں اپنی ۔۔۔۔ جان میرا مطلب ہے کہ سماعتوں کے لالے پڑھے ہیں

زین نے دہائی دی ۔

ایک راستہ ہے  اس خوفناک  میوزک سے بچنے کا

چلو آؤ۔۔۔۔۔۔۔

 

زین نے ہاتھوں سے اور اسد نے پیروں سے سفیان کو پکڑ کر   لان کی طرف بڑھے

سفیان کو گھاس پر لیٹاکر دونوں نودوگیارہ ہوگئے ۔۔۔۔۔

 

 

سفیان نے اپنے سب دوستوں کو  پارٹی دی تھی منگنی ہونے کی  خوشی میں جس میں اسد نے زین کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹ لایا  زبردستی ۔   سب تو چلے گئے پر اسد اور زین کو سفیان نے روک دیا

اور سفیان نے اپنے میوزک کو اور بھی تیز کر گیا

اور درخت پر بیٹھی چڑیلوں نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ دیا

اب کیا کریں  سفیان کے خراٹے تھے ہی اتنے خطرناک کہ چڑیلوں نے بھی اس سے پناہ مانگی۔ ۔

۝*۝****

لڑکیو جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ ٹائم کم ہے   ۔

شہناز بیگم جلدی کا شور مچارہی تھیں پر مجال ہے جو گل لالئی اور ماریہ کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو وہ اپنی ہی تیاریوں میں مگن تھیں ۔

لڑکیو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہناز بیگم نے غصے سے کہا ۔

جی جی

دونوں نے یک زبان بولا

جلدی کرو دونوں تم لوگوں کے شوہر نے نہیں آنا جو یوں سج دھجنے  میں ٹائم لگا رہی ہو

شہناز بیگم نے دونوں کو جھاڑ پلائی

آنٹی کیا پتہ آۓ بھی

گل لالئی نے شیشے میں سے شہناز کو دیکھتے اپنے سر پر خوبصورت ساتاج سجایا ۔۔۔۔۔

 

وائٹ اور پنک نگوں والا جو اسکے ہلکے براؤن بالوں پر بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔

ہہہہ؛::::::؛ّّّ""

شہناز بیگم نے آنکھیں دیکھائیں

آنٹیییی ۔

گل لالئی ہلکا سا منمنائی

اچھا جلدی آو باہر ہزاروں کام پڑے ہیں میری اکیلی جان کو میں کیا کیا دیکھتی رہوں

شہناز بیگم بڑبڑاتی روم سے نکلی ۔

پرفیکٹ ۔

دونوں نے  آئینہ کے سامنے اپنے جھلملاتے عکس کو دیکھ کر کہا ۔

گل لالئی اور ماریہ نے ہمیشہ کی طرح میچنگ کی تھی ۔  دونوں نے پنک فراک جو انکے پیروں تک جھول رہا تھا ۔

سر پر تاج سجاے وہ رئیل میں شہزادیاں لگ رہی تھیں ۔

چلو ۔

دونوں نہ قدم باہر کی طرف بڑھاۓ ۔

آخرکار وہ دن آہی گیا تھا جس کا بےصبری سے انتظار تھا ۔

روحی کی منگنی کا دن ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سارے گھر کی  پھولوں اور لائٹوں سے سجاوٹ کی گئی تھی

لان میں  سب مہمان بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔

سامنے سٹیج پر جھولا رکھا گیا تھا جو گلاب کے پھولوں سے سجا سب کی نگاہوں کا مرکزہ تھا جہاں دولہا دولہن   کو بٹھایا گیا تھا ۔

بیچ میں پردہ لگا تھا ۔۔

یہ پلین بھی گل لالئی اور ماریہ کا تھا ۔ جب تک منہ مانگی  قیمت وصول نہ  کر لیتے دلہا سے تب تک یہ پردہ نہیں ہٹے گا ۔

بہت بحث کے بعد ہی دلہا میاں نے گھٹنے ٹیکے پہلے تو سب ہی اس عجیب وغریب سی رسم کو سن کر حیران تھے البتہ دلہا تو حیران پریشان سا دونوں سالیوں کو دیکھ رہا تھا ۔ پر گل لالئی اور ماریہ نے منا کر ہی دم لیا ۔

روحی  آسمانی رنگ کی مکسی میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ سفیان بھی بلیک ڈنر سوٹ میں بہت اچھا لگ رہا تھا شہناز بیگم نے انگوٹھی ان دونوں کی طرف

بڑھائی۔روحی نے  شرماتے ہوئے  سفیان کے ہاتھ میں رنگ پہنا دی ۔ اور سفیان نے بھی بڑی چاہ سے اپنے نام کی انگوٹھی اس کی مخروطی انگلیوں  میں پہنا دی ۔۔۔

مبارک ہو بہن۔۔۔۔۔۔

شہناز نے روحی کی ساس کو گلے لگا کر کہا ۔

مبارکباد کے بعد کھانے کا دور چلا ۔

گل لالئی اور ماریہ ایک کونے کی ٹیبل پر بیٹھی کھانے سے بھرپور انصاف کرتی باتوں میں مگن تھی ۔۔۔

آہاںنن اوففف سسس

کیا ہوا ماریہ گل لالئی کی حالت کو دیکھ کر کہا ۔

جو منہ  پر ہاتھ رکھے سی سی کر رہی تھی ۔۔۔

پہ ۔۔ پانی ۔

گل لالئی بمشکل بولی ۔

اور نگاہیں ادھر ادھر بھٹکانے لگی پانی کی تلاش میں ۔ اور ایک ٹیبل پر پانی کی بوتل پر  نظر پڑتے اسکی طرف دوڑی ۔

وہ جو پانی کی طرف ہاتھ بڑھا رہا تھا اس سے پہلے ہی کوئی آندھی طوفان کی طرح آیا اور پانی کی بوتل اس کے ہاتھ سے کھنچ کر لبوں سے لگالی ۔

وہ اس قیامت خیز حسن کو دیکھتا کھڑا ہوا اور بنا پلک جھپکاۓ اس اپسرا کو دیکھ رہا تھا ۔

سوری وہ ۔

جب مقابل پر نظر پڑھی تو الفاظ منہ میں رہ گئے ۔

اور آنکھیں پھاڑے اس کو دیکھ رہی تھی

*******۝۝۞۞۞۞۞

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments