Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan | Episode 6 | By Gohar Arshad - Daily Novels


 



 

 

 

 


ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: گوہرارشدعشق یزداں

Text Box: قسط نمبر 06

 



مجھے دیکھتے ہی جلدی سے بولی تم آ گئے؟؟

جلدی سے آجاؤ امی انتظار کرتے کرتے تھک گئی ہیں۔کافی وقت لگا دیا تم نے؟؟

میں نے دروازے سے اندر جاتے ہوئے کہا اتنا وقت آتے جاتے لگ ہی جاتا ہے۔

ابو اور امی مجھے دیکھتے ہی کسی حد تک پرسکوں ہوئے اور بولے کہ اب وقت کم رہ گیا ہے شام ہونے والی ہے۔جلدی کرو۔۔۔۔ہم نے واپس بھی آنا ہے۔

میں نے پانی کی بوتل لے کر کھانے کے شاپر میں رکھی اور ہم سب اس پہاڑ کی چوٹی کی جانب روانہ ہو گئے۔راستہ نہ ہی زیادہ کٹھن نہ ہی زیادہ آسان تھا۔لیکن ہم نے جانا تو تھا ناں۔بہت زیادہ وقت کا سفر بہت کم لمحات میں طے کیا۔سفر پر روانہ ہوتے ہوئے ہمارے اور شفق آپی کے درمیان اک زبردست مکالمہ شروع ہو گیا۔بات ابو نے شروع کی اور پھر میں اور امی بھی ابو کے ساتھ شامل ہوگئے،انہوں نے آغاز کچھ اس طور سے کیا۔

شفق بیٹا کافی وقت سے تم ہمارے ساتھ رہ رہی ہو مگر کبھی وقت ہی نہیں ملا کہ آپ کی زندگی کے بارے میں جان سکا۔آج چونکہ ہم سب اکٹھے ہیں۔تو آپ کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں اگر آپ کو برا نہ لگے تو۔۔۔۔۔۔۔تمہارے ابو سے میرا اچھا تعلق ہے۔لیکن کبھی ان سے بھی اس بارے میں بات نہیں ہوئی۔

ابھی ابو کچھ اور کہنا ہی چاہ رہے تھے کہ امی اور میں اک زباں ہو کر بولے ہاں ہاں آج شفق ضرور بتائیں اپنی زندگی کے بارے میں؟؟

اس خوف سے کنارے ہو کر کہ ہم اس بات کا تذکرہ کسی اور سے کرے گئے۔ہم لوگ تمہارے اپنے ہیں،ہمارا یہ حق بناتا ہے کہ ہمیں اپنی پیاری بیٹی کے بارے میں سب  پتہ ہو؟

شفق آپی جو ہماری باتیں غور سے سن رہی تھی۔ان کی نظریں اک جگہ پر رک کر دور ماضی میں نکل چکی تھی۔ان کا چہرہ اک دم سے تبدیل ہونا شروع ہو گیا تھا۔ان کے الفاظ ان کا ساتھ دینے سے قاصر تھے۔بس ان کے لبوں نے اتنا کہنے کی جسارت کی؟

ماضی کے قبرستان میں سپردِ خاک خیالات،خواہشات،اور امیدوں کو نکالنے سے سوائے اذیت کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔جن راستوں کو انساں اک بار چھوڑ دے تو اس کو دوبارہ ان کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔اسی بابت میں اک شاعر نے کہا تھا۔

یاد ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

ابو مسلسل آپی کے چہرے کو دیکھے جا رہے تھے۔انھوں نے پھر کہا اگر بیٹا آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو نہ بتاؤ؟

لیکن امی کی طرف دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ بڑی حسرت سے اس کی زندگی کو جاننا چاہتی ہیں۔

آپی چلتے چلتے رک سی گئی۔ابھی تک وہ کئی کھوئی کھوئی لگ رہی تھی۔ان کے ہاتھ بار بار ان کی آنکھوں کو چھونے کے بعد اپنے اصل مقام پر جا رہے تھے۔ماتھے پر پسینہ کے ہلکے ہلکے قطرے نمودار ہورہے تھے۔ان کے الفاظ ان کی زباں کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ان کی آنکھیں اضطراب کی سی کیفیت میں مبتلا تھی۔وہ بولی۔۔۔۔نہیں نہیں ابو آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں،آپ کی کسی بات سے آج تک انکار کیا ہے؟؟؟جو آج کروں گی؟؟

میری زندگی کو نہایت اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھتی ہوں؟؟

بچپن سب کا حسیں ہوتا ہے لیکن میری بات ہی الگ ہے،میں تین بھائیوں کی اکیلی بہن تھی۔میرے ابو کی بازار میں کھلونوں کی دکان تھی۔بچپن بہت آرام دہ،وجہ یہ تھی کہ بچپن کا بڑا شوق گڑیوں سے کھیلنا ہوتا ہے،وہ میرے پاس لاتعداد تھی۔سب بھائیوں سے چھوٹی ہونے کے ناطے تمام کی محبت کا محور و مرکز میں تھی۔سکول کی بات کرے تو مجھے سکول جانے کا بہت شوق تھا،تینوں بھائی باری باری اٹھا کر مجھے سکول لے جاتے اور واپس بھی اٹھا کر ہی لاتے تھے،جہاں تک گھر پر امی کی بات ہے،تو ان کے سامنے میں اگر کسی چیز کی ضد کر دیتی تو وہ اس کو ہر حال میں پورا کرتی،نہ کر پاتی تو بہت افسردہ ہو جاتی،ابو کا سوچ کر آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے،ان کی باتیں،ان کی سانسیں میری وجہ سے ہی چلتی تھی،ہر لمحے ان کی زباں پر میرا ہی نام رہتا۔ان کی محبت کو جن الفاظ میں بیان کرو وہ الفاظ میرے پاس اس وقت موجود نہیں،ان کی محبت کا اندازہ اس واقعہ سے آپ بخوبی لگا سکتے ہیں،اک دفعہ میرے بھائیوں کو سکول سے جلدی چھٹی ہو گئی،ان کو دوسرے دوستوں کے ساتھ میری یاد نہ رہی اور گھر آ گے،میں سکول سے باہر نکلی تو سب بچے گھر کی طرف جانا شروع ہوگئے،میں اکیلی رہ گئی تو روتے ہوئے گھر کی طرف آنے لگی،سکول سے تھوڑے ہی فاصلے پر ابو کی دوکان تھی،میں دوکان پر پہنچی تو ابو نے دیکھتے ہی پوچھنے لگے بھائی کدھر ہیں تم اکیلی کیوں آئی ہو؟

میں نے بتایا کہ ان کو تھوڑا جلدی چھٹی ہوئی تو مجھے چھوڑ کر آگئے،میں اکیلے روتی رہی،ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے،مجھے گلے لگا کر مسلسل رونے لگے،ان کی یہ کیفیت دیکھے کر میں حیرت میں پڑ گئی مجھے یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی ابو ہیں،جن کی اک آواز سے پورا گھر خاموش ہو جاتا تھا۔انھوں نے گھر آ کر بہت ڈانٹا کے تم لوگ اس کو چھوڑ کر کہاں آگئے تھے؟؟

انھوں نے ابو سے معافی مانگی کہ ہمیں کھیل کود میں یاد ہی نہیں رہا۔ماں نے بھی ان کو کافی کچھ کہا اور مجھ سے پوچھنے لگی تم ٹھیک ہو،کچھ ہوا تو نہیں میری بچی کو۔۔۔۔۔؟

نہیں نہیں امی میں بلکل ٹھیک ہوں میں ابو کی دوکان پر آگئی تھی،وہاں سے ابو کے ساتھ آئی ہوں۔کبھی کبھار کو چھوڑ کر میرے گھر کا ماحول بہت خوشگوار تھا،ہر اک کے چہرے پر خوشیاں جنگل میں بکھرے ہوئے پتوں کی طرح بکھری رہتی،لڑائی جھگڑوں سے بہت دور اک پرسکون وادی میں ہم سب کا بسیرا تھا،اردگرد کے ماحول سے انجان ہماری زیست اپنے تک ہی محدود تھی،باہر بہت کم آنا جانا ہوتا تھا،میری امی بہت اچھی خاتون تھی،مگر محبت کے سخت خلاف تھی،اس کی وجہ تو بہرحال نہیں پتہ چلی،مگر ان کے نزدیک محبت کا وجود ہی نہیں تھا،یہ فقط ادکاری ہے ایسا ان کا ماننا تھا،سب سے زیادہ بچوں کو والد کا خوف ہوتا ہے،لیکن ابو کے ساتھ ہمارے رشتہ باپ سے زیادہ اک اچھے دوست کا تھا،ان کی طبعیت میں مزاح بہت حد تک تھا،ان کے سامنے غصے سے آنے والا شخص بھی ہنس پڑتا تھا،اکثر اوقات امی غصے کر جاتی،تو ابو ان کے غصے کو پلک جھپکتے ہی ختم کر دیتے،اور ان سے ایسے مزاج میں بات کرتے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا۔۔۔۔

میرے گھر سے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے میں اک عورت کا زیادہ کردار ہوتا ہے،وہ جیسا چاہے گھر ویسے ہی ماحول سے سرشار رہتا ہے۔اک بات اور بچوں کا آپ کو دیکھ کر خوف زدہ ہو جانا آپ کی بڑائی نہیں بلکہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ بچوں کا اپنے والدین کو دیکھ کر خوش ہو جانا بڑائی ہے۔ان کا آپ کو دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھنا اس بات کی علامت ہے کہ آپ سے بہترین والدین اس دنیا میں موجود نہںں،لیکن میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ اکثر والدین یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ بچے اگر ان سے خوف زدہ رہے تو یہ ان کی بہت اچھی تربیت ہے،تربیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ کا وجود ان کے لیے خوف کا باعث ہو،تربیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر بچوں کا سر ادب سے جھک جائے،آپ کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کرے،آپ سے آگے ہو کر نہ چلیں،دوسرے کے سامنے آپ کی ہاں میں ہاں ملائے۔آپ کی عزت وہ دل سے کرے نہ کہ آپ کے خوف کی وجہ سے،والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی ہر جائز خواہش کو پورا کرے۔اور ان کی تربیت میں یہ چیز شامل کر دے،کہ ہر خوشی اور غم کا آنا رب کائنات کی طرف سے ہے،وہ اپنے بندوں سے بے حد و حساب محبت کرتا ہے،اس کے نزدیک کوئی اعلیٰ و ادنی نہیں،وہ سب سے ایک جیسی محبت کرتا ہے،

ہمارے والدین کی اک خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے ہمیں بچپن سے اک چیز سیکھی کہ زندگی میں جتنے بھی نشیب و فراز آئے اپنے رب سے رجوع رکھنا۔اپنی ہر خوشی اور غم کا تذکرہ صرف اپنے رب سے کرنا۔اور میری امی اکثر مجھے کہا کرتی تھی کہ میری بچی انسان کی زندگی کے چراغ کا کوئی پتہ نہیں کب بجھ جائے،اس لیے ہر وقت اللہ کی یاد سے اپنے آپ کو معطر رکھنا۔میری بچی انسان اپنی بہت زیادہ خوشی اور بہت زیادہ غم کا ذکر اپنی کسی بہت قریبی دوست سے کرتا ہے،میں تم سے فقط اتنا کہوں گئی میری پیاری بچی! حالات کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کس موڑ پر بدل جائے،اس اپنے رب سے اتنا تعلق ضرور رکھنا کہ اس کے سامنے اپنی ہر خوشی اور غم کو بیان کر سکو۔میری پیاری بچی! مجھے پتہ ہے میری یہ باتیں تمہیں عجیب لگ رہی ہوں گی،لیکن اک وقت آئے گا یہی باتیں تمہیں کام آئیں گی۔والدین کا مطلب ہر گز اک خوفناک کردار نہیں ہوتا بلکہ والدین وہ خوب صورت سواری کی مانند ہیں،جو راستے میں آنے والی تمام مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے سوار کو منزل تک لے جاتی ہے۔والدین کی تلخی میں بھی بچوں کے لیے اصلاح اور فائدہ موجود ہوتا ہے۔

زندگی کی گاڑی اپنے ٹریک پر پوری طرح رواں دواں تھی،ادھر ادھر بل کھاتی۔۔۔۔گاڑی میں نقصان کا خدشہ تک نہ تھا۔

ہمارے بہت ہی کم رشتےدار ایسے تھے جن سے ہمارا تعلق خاصا تھا،میرے ابو کی اک خاصیت تھی کہ ان کا تعلق جس سے ہوتا اس کے لیے جان کی بازی لگا دیتے،لیکن جس سے خفا ہوجائے،عمر بھر اس نزدیک بھی نہیں جاتے تھے،وہ اکثر کہا کرتے تھےکہ

"میری زندگی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ میں غلطی کرنے والے کو جلدی جلدی معاف نہیں کر سکتا"؟

میری عمر اٹھارہ سال سے اوپر ہوئی، میرے لیے رشتوں کی قطاریں لگی ہوتی،میں نے تعلیم کو جاری رکھے ہوئے،اب بچوں کو پڑھنا بھی شروع کر دیا تھا،جیسا کہ آپ کو پہلے بتا چکی ہوں کہ مذہبی حوالہ سے امی بہت خیال رکھتی تھی کہ سب نے نماز ادا کی یا نہیں؟

سب کو مسجد میں قرآن کی تعلیم کے لیے بھجانا،اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میں پندرہ سال کی عمر میں قرآن حفظ کر چکی تھی؟

نماز باقاعدگی ادا کرتی،بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ دنیوی تعلیم دینا بھی شروع کر لیا تھا۔وقت اپنی تیز رفتاری کو جاری رکھے ہوئے تھا،بھائیوں کی ہنسی مذاق سے پورا گھر ہمیشہ گونجتا رہتا،اس سب دیکھ کر مجھے اک کہانی اکثر یاد آیا کرتی تھی،وہ کہانی آپ کو سناتی ہوں،یہ کہانی مجھے نہیں یاد کے کہاں پڑھی تھی مگر اس سے زیادہ سکون کبھی کسی کہانی کو پڑھ کر مجھے نہیں ہوا جتنا اس کو پڑھ کر اور وقت گزرانے کے ساتھ ساتھ سوچ کر ہوتا تھا۔محبت لفظ کو سن کر سوچ کر مجھے بہت عجب سا کچھ ہو جاتا۔محبت کے بارے میں جاننے کی میں ہمیشہ سے خواہش مند رہی۔محبت لفظ کو بولتے ہی لبوں کی جنبش اور دونوں کا آپس میں ملاپ بڑے گہرے مطلب کی وضاحت کرتا ہے،ان اٹھارہ سالوں کے اندر میں محبت کو جس قدر سمجھ سکی تھی،اور جہاں تک میں نے محبت کے بارے میں پڑھا اس سب میں محبت مسکرا کر اک دوسرے سے ملنا اس سے پرخلوص ہو کر باتیں کرنا اس پر بھروسہ کرنا اس کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھنے کے سوا کچھ نہ تھا۔                       

جاری ہے.....!!!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

 

Post a Comment

0 Comments