Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Meri Ghumshuda Aankhain | Episode 11 | By Syeda Alisha - Daily Novels

 



 


 

 

 

 


ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: سیّدہ علیشاہمیری گمشدہ آنکھیں

Text Box: قسط نمبر 11

 


دعائیں یوں بھی پوری ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔ وہ ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں تھی

''یہ دیکھو ! کتنا پیارا ہے ،۔۔۔۔!!

عمارہ بیگم نے ایک بے حد نفیس سے کام والے میرون رنگ کی  سنہرے کام سے مزین  انار کلی فراک عنایا کو دکھاتے ہوئے  کہا

''جی ، ممانی جان ! بہت خوب صورت ہے''

عنایا نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا

تو یہی لے لیتے ہیں پھر ، انہوں نے عنبرین بیگم کو مخاطب کیا

ہاں ہے تو بہت خوبصورت اور نکاح کا جوڑا ہونا بھی ایسا ہی چاہیے  خوب صورت مگر نفیس ۔۔۔۔۔

یہ پیک کر دو بھیا

عمارہ بیگم نے دکاندار کو جوڑا  پیک کرنے کا کہا

تمہیں اور کچھ پسند ہے تو لے لو

انہوں نے عنایا سے پوچھا

نہیں ممانی جان ، پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے ہمیں شاپنگ کرتے ہوئے ، اتنا کچھ تو لے لیا ہے

اب بس کچھ کھلا دیں  بہت بھوک لگی ہے

اس نے لاڈ بھرے انداز میں عمارہ بیگم سے کہا

لڑکیاں شادی کے بعد موٹی ہوتی ہیں مگر مجھے لگتا ہے تم نے نکاح سے پہلے ہی موٹا ہونے کی ٹھان لی ہے

عنبرین  بیگم نے عنایا کی کلاس لی

وہ اپنے نکاح کا دن مقرر ہونے کے بعد  کچھ زیادہ ہی کھانے لگی تھی , اسی لیے اسے عنبرین بیگم نے  تھوڑا سا ڈانٹا تھا جبکہ عنایا ان کی ڈانٹ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شاپنگ مال میں موجود فاسٹ فوڈ کے بنے رسٹورانٹ کی جانب چل دی

 

آپریشن کی ساری تیاری مکمل ہے ، بس کچھ دیر میں ڈاکٹر صاحب بھی آ جائیں گے ۔۔۔۔ نوری تو دل چھوٹا نہیں کرنا اور گھبرانا تو بلکل بھی نہیں

اللّٰہ سوہنے کا بڑا کرم ہے تیرے پر ورنہ لوگوں کو سالوں لگ جاتے ہیں علاج کے لئے مگر تو خوش نصیب ہے کہ آتے ہی تجھے تیری ان آنکھوں کی جگہ نئی آنکھیں مل رہی ہیں ، بس تو دل بڑا رکھ

پیشنٹ کو آپریشن تھیٹر میں لے کر جانے کا ٹائم ہو گیا ہے

ایک نرس نے اندر آ کر ان دونوں کو مطلع کیا

سانول ذرا سائیڈ پر ہو گیا

نرس نے سب سے پہلے نوری کو کوئی انجکشن لگایا اور پھر وارڈ بوائے کو مدد کے لئے بلانے چلی گئی

انجکشن کے اثر سے کچھ ہی دیر بعد نوری کو غنودگی ہونے لگی

نرس اور وارڈ بوائے  نوری سٹریچر پر ڈال آپریشن تھیٹر لے گئے

نوری کو وہاں سے جاتا دیکھ سانول بے چینی سے ٹہلنے لگا اس کے لبوں قرآنی آیات کا ورد جاری تھا

 

نوری خرد و ہوش سے مکمل بیگانہ ہو چکی تھی

آپریشن تھیٹر کی تیز روشنی اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی

جب عبدالہادی اپنے دیگر ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ آپریشن کے مکمل لباس میں وہاں موجود تھا

نوری کو اس طرح لیٹے دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہوا تھا

اسے یوں لگا جیسے اس کے پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن کسی نے اس طرح سے کھنچ دیا ہو کہ جیسے کھال پاؤں کے ناخن سے لے کر اس کے سر تک ادھیڑ دی ہو

لمحہ بھر کو اس دل وہاں سے بھاگ جانے کو کیا

مگر وہ خود پر قابو پا کر نوری کے آپریشن میں مصروف ہو گیا جراحی آلات کا استعمال کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے

یہ اس کے لیے اتنا آسان نہیں تھا مگر وہ اپنے فرائض سے بھی انجان نہیں تھا

آپریشن مکمل ہونے کے بعد اس نے نوری کی آنکھوں کو پھینکنے کی بجائے کول اینڈ ڈرائی سلیوشن میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا

وہ آنکھیں اس ساحرہ کے وجود کا حصہ تھیں

جس سے اسے محبت تھی اور اب وہی آنکھیں  اس کی محبت کا کل سرمایہ تھیں ۔۔۔۔۔ وہ کیسے ان کو ضائع کر سکتا تھا اب وہی اس کا متاعِ حیات تھیں

اور اس نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس کی آنکھوں کو اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا

 

نوری کو ہوش آ چکا تھا۔۔۔۔۔  نوری کو ہوش آتا  دیکھ سانول کی خوشی دیدنی تھی ۔۔۔۔۔ شکر ہے اللّٰہ سوہنے کا تجھے خیر سے ہوش آ گیا

اس نے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر اللّٰہ کا شکر ادا کیا ۔۔۔۔۔

اسی وقت ڈاکٹر سرجن عبدالہادی  ان کے کمرے میں ایک نرس کے ساتھ داخل ہوا

اسلام علیکم!

اس نے اندر داخل ہوتے ہی سلام کیا

سانول نوری کے بیڈ کے پاس رکھی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا

وعلیکم اسلام ڈاکٹر صاحب اس مؤدب انداز میں سلام کا جواب دیا اور تھوڑا سا پیچھے ہو کر اسے نوری کے پاس آنے کی جگہ دی

نوری کی دونوں آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی وہ کچھ دیکھ نہیں سکتی تھی مگر اس کے مخصوص پرفیوم کی خوشبو کو اس ایک گہری سانس لے کر اپنے اندر اتارا وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا چیز زیادہ دلکش ہے عبدالہادی کا دل نشین لہجہ اس کی آواز یا پھر اس کی خوشبو ۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ بھی تھا اسے اپنے دل کے تار سے بجتے ہوئے محسوس ہوئے تھے

کیا حال ہے آپ کا ؟ کیسا فیل کر رہی ہیں آپ

عبدالہادی نے اس کو نرس کی مدد سے بیٹھنے میں مدد دیتے ہوئے پوچھا

نوری کچھ نہیں بولی بس چپ رہی

اس کے اس قدر قریب آنے سے وہ بری طرح کنفیوز ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور اس کی مخصوص خوشبو بلکل اس کے ناک کے نتھنوں سے ٹکرائی ۔۔۔۔۔۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔۔۔۔۔ وہ اپنی اس حالت کو سمجھ نہیں پا رہی تھی

سس سانول ، اس نے گھبرا کر سانول کو پکارا

کیا ہوا نوری ؟ سانول فوراً اس کے پاس آ گیا اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا

مجھے یہاں سے واپس لے چل سانول ۔۔۔۔ وہ سانول کو اپنے پاس  محسوس کر کے بولی

جی ضرور چلی جائیے گا آپ واپس ۔۔۔۔۔۔ مگر آپ پٹی کھلنے تک آپ کو یہاں ہی رہنا ہو گا اینڈ ریلکس پلیز ۔۔۔۔۔۔ کچھ دن آپ کو تکلیف محسوس ہو گئی پھر آپ نارمل ہو جائیں گی

نوری کی بات سن عبدالہادی نے بے حد شفقت آمیز لہجے میں اسے سمجھایا

سسٹر آپ ان کا بلڈ پریشر اور شوگر چیک کریں اور ان پین کلر انجکشن دے دیں

اور آپ ان کو کوئی جوس وغیرہ دیں

اور پھر یہ کچھ اینٹی بائیو ٹیکس ہیں یہ کھلائیں ان سے ان کی جلدی ریکوری ہو گی

وہ نرس کو ہدایت دینے کے بعد اب سانول سے مخاطب تھا

جبکہ نوری اس کے وہاں سے جلد از جلد چلے جانے کی دعا کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے جانے کے بعد بھی کافی دیر تک اس کے پرفیوم کی مہک اس کے آس پاس رقص کرتی رہی  جبکہ نوری کا دل چاہا کہ وہ اس کی خوشبو سے جھگڑا کرے ۔۔۔۔ جب وہ خود وہاں نہیں تھا تو اپنی خوشبو کیوں اس کے پاس چھوڑ گیا تھا

نوری اسی ادھیڑ بن میں اندر ہی اندر نڈھال ہو رہی تھی

نوری تو آرام کر ،  میں تیری دوا اور کچھ پھل لے کر آتا ہوں

سانول نے نوری کی کمر سے لگا تکیہ ہٹا کر اسے لٹاتے ہوئے کہا

تو نہ جا سانول مجھے عجیب لگتا ہے تیرے بغیر

جھلی نہ ہو تو ، میں کون سا ساری عمر کے جا رہا ہوں

بس یوں گیا اور آیا ، وہ اسے لٹا کر اس کے پاس سے اٹھنے لگا تو نوری نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا

نہ جا سانول ۔۔۔۔۔ نوری نے اس کی منت کی

ہو کیا گیا ہے تجھے نوری ۔۔۔۔۔۔ تو نے سنا نہیں ڈاکٹر نے کیا کہا ہے ابھی ، تجھے دوا اور غذا کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ اور تو ہے کہ بچوں کی طرح ضد لگا کر بیٹھ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔ سمجھنے کی کوشش کر ، پاگل نہ بن  وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے نیچے نکال کر تھوڑا ڈپٹ کر بولا اور بیڈ کے ساتھ رکھی چھوٹی سی میز سے اس کی فائل اٹھا کر وہاں سے چلا گیا

وہ اس کے قدموں کی آہٹ کو وہاں سے دور جانے تک سنتی رہی ۔۔۔۔۔۔ اسے سانول کے اس رویے پر دکھ ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس کا دل شدت سے رونے کو چاہا مگر وہ رو بھی نہیں سکی اس کے آنسو بھی شاید اس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے اس کی اپنی آنکھوں کی طرح اس نے دل ہی دل میں سوچا

وہ زیادہ حساس ہو گئی تھی یا پھر اس کا کسی انجانی بغاوت پر آمادہ تھی وہ نہیں جانتی تھی

اس نے ایک گہری سانس لے کر اپنے پاس رہ جانے والی عبدالہادی کی خوشبو کو اپنے اندر اتارا تو اسے یوں لگا کہ وہ اس کے پاس ہی ہے

اس نے گھبرا کر بستر کی چادر کو زور سے اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیا

جبکہ وہاں اس کے علاوہ کوئی اور موجود ہی نہیں تھا

 

یہ دیکھیں نانو ، ایک بیش قیمت مردانہ گھڑی واچ باکس میں سے نکال کر ثریا بانو کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ چہکتے ہوئے بولی

اور یہ پرفیوم تو چیک کریں نانو ، اففف ، اتنا مزے کا ہے

اس نے پرفیوم کی بوتل کو ڈبے سے نکال کر اس کا ڈھکن ہٹا کر اپنی ناک کر قریب لا کر ایک گہری سانس لے کر کہا

ماشاءاللہ بہت اچھی ہے یہ گھڑی ، ثریا بانو نے گھڑی واچ باکس میں اسی رکھ کر کہا

اور یہ پرفیوم بی تو چیک کریں نا نانو

اس نے اتاولے پن سے پرفیوم نانو کی کلائی پر سپرے کیا

اس کو دیکھ کر انہیں بے اختیار ہی اپنا وقت یاد آیا

وہ بھی تو ایسی ہی تھیں ۔ خواب صورت ، خوش مزاج ، شوخ چنچل اور اتاولی ........ کیا دیکھ رہی ہیں آپ نانو ؟

ثریا بانو کو اپنی طرف یک ٹک دیکھتا پا کر اس سے رہا نہ گیا تو پوچھ لیا

ماضی ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے مختصر سا جواب دیا

میں سمجھی نہیں نانو ۔۔۔۔!!؟ وہ ان کی بات پر حیران ہوئی تھی

کچھ نہیں بیٹا ، تم سب چیزیں سمیٹو یہاں سے

میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ، میں تھوڑا آرام کرنا چاہتی ہوں

ارے نانو! کیا ہوا آپ کو ؟ بلڈ پریشر تو ٹھیک ہے نا آپ ؟ دوا لی تھی آپ نے ؟

اس نے فکر مندی سے ایک ساتھ بہت سارے سوال کر ڈالے اور جلدی جلدی سارا سامان شاپنگ بیگ ایسے ڈالنے لگی کہ اسے دیکھ کر ثریا بانو کے لبوں پہ ایک زخمی سی مسکراہٹ رینگ گئی

آرام سے سمیٹو چیزیں ، اور میں ٹھیک ہوں اب یہاں سے جا کر سب کو پریشان نہیں کرنا

بس ذرا سی ذہنی تھکاوٹ ہے ،آرام کرنے سے ٹھیک ہو جائے گی

انہوں نے اسے رسان سے سمجھایا

کیسی ذہنی تھکاوٹ نانو ؟ کوئی پریشانی ہے کیا؟؟

وہ وہاں سے جانے کے بجائے وہیں ان کے بیڈ پر بیٹھ گئی

کچھ باتیں کچھ پریشانیاں بلکل اپنی ہوا کرتی ہیں عنایا بیٹا

ہم چاہ کر بھی انہیں کسی سے بانٹ نہیں سکتے

بلکہ کسی خزانے کی طرح ان اپنے ہی سینے میں دفن کر کے جینا پڑتا ہے

اندر ہی اندر خود سے لڑنا پڑتا ہے ی غلطی کہاں پر ہوئی ، کس سے ہوئی ، کیوں کر ہوئی

ہمیں کس بات کی سزا ملی اور ہم نے کیوں یہ سزا عمر بھر کاٹی

مگر یہ سزا بھی عزیز ہوتی ہے کیوں کہ یہ سزا  ،سزا نہیں بلکہ محبت کا تاوان ہوتا ہے شائد

اور محبت کا تاوان تو بھرنا ہی پڑتا ہے

محبت کا تاوان نہیں ہوتا نانو اور جس محبت کا تاوان بھرنا پڑتا ہے وہ محبت تو نہیں ہوتی نا ؟!

یک طرفہ محبت کا جرم بھی بڑا ہوتا ہے اور اس کا تاوان بھی

عمر نکل جاتی ہے بھرتے بھرتے ، مگر آبلہ پائی کا سفر نہیں کٹتا

ان کے لہجے میں صدیوں کی تھکن اتر آئی تھی

اور چہرے پر کرب بھرے آثار اور آنکھوں  میں کسی یاد کی کرچیوں کی چبھن تھی

عنایا کے لئے نانو کا یہ روپ  بلکل ہی نیا تھا

وہ کسی اور ہی جہاں میں کھوئی ہوئی اپنی بے حد خوش مزاج سی نانو کی آنکھوں میں حیرت لیے تک رہی تھی

تو کیا نانا آپ سے محبت نہیں کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟ اس نے دل میں آیا سوال ان سے پوچھ ہی لیا

عنایا کی بات پر ان کے چہرے پر ایک تاریک سایہ لہرایا

لمحہ بھر کو ان کو لگا کہ کسی نے ان دل پر پاؤں رکھ دیا ہے

درد کی کی لہر ان پورے وجود میں سرائیت کر گئی

انہوں اپنی آنکھیں  کو میچ کر اس درد کو سہنے کی کوشش کی

آپ ٹھیک تو ہیں نانو ؟

جاؤ یہاں سے عنایا

انہوں نے اسے حکم صادر کیا

ان کے لہجے میں ٹوٹے کانچ کی سی کھنک تھی اور ایسا کچھ ضرور تھا کہ وہ چپ چاپ وہاں سے چلی آئی...........

آپ یہاں ؟ اس وقت ۔۔۔۔ ؟ وہ اپنی ہی دھن میں مگن ثریا بانو کے کمرے سے باہر نکل رہی تھی کہ سامنے برق رفتاری سے آتے عبدالہادی کے آہنی سینے سے زور  سے ٹکرائی

اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔۔۔۔۔ اس کی ناک بھی سرخ ہو گئی تھی

درد کی لہر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی

ہاں میں یہاں ، مگر تم کیا کر رہی تھی اس وقت اور دیکھ  کر نہیں چل پھر سکتی تم

اس نے خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا

اوہ ہیلو! سب سے پہلے تو تمہیں میری کئیر ہونی چاہئیے اور دیکھ کے تم بھی چل سکتے تھے

وہ بھی اپنا درد ورد بھول کر اس پر چڑھ دوڑی

اچھا اچھا اب زیادہ آنکھیں نہ دکھاؤ

غصے میں تمہاری یہ  ایکسڑا لارج آنکھیں اور بھی خوفناک لگتیں ہیں

اس نے عنایا پر چوٹ کی

اس کی بات وہ کچھ نہیں بولی ۔۔۔۔۔۔ بس آنکھوں میں غصہ اور حیرت لیے اس کو ایک نظر دیکھا اور لب دانتوں تلے دبا کر وہاں سے جانے کے لئے مڑی

رکو عنایا ۔۔۔۔۔۔۔ !!! اسے جاتا دی کر عبدالہادی نے اس بے ساختہ پکارا ۔۔۔

عنایا کے  بڑھتےقدم اس کی آواز پر وہیں تھم گئے

اس کے دل کی دھڑکن لمحہ بھر کو بے ترتیب ہوئی

اس نے اپنی پھولتی سانسوں کو قابو میں کرنے کے لئے اپنے لبوں کو سختی سے بھینچ لیا

وہ اپنی جگہ منجمد سی ہو کر رہ گئی

اسے لگا جیسے کسی نے اس پر سحر پھونک دیا ہے اور اس کا وجود پتھر کا بن چکا جس میں کوئی حرکت باقی نہ رہی تھی مگر دل ، دل تھا سنبھل ہی نہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ دل کی دھڑکنوں ایک حشر سا برپا تھا

وہ اسے یوں پکارے یہ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا   مگر وہ پکاری گئی تھی

کیوں اور کس لیے وہ خود بھی نہیں جانتی تھی مگر اس روم روم سماعت بن گیا تھا وہ منتظر تھی  کہ آخر وہ کیا کہنے والے تھاجاری ہے.....!!!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 

۔

Post a Comment

0 Comments