Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Afat Ki Mari Episode 8 | By Amir Sohail - Daily Novels

ناول۔۔۔۔آفت کی ماری

قسط نمبر۔۔۔۔08

ناول نگار۔۔۔عامر سہیل

اب نمرہ روز بروز کمزور ہوتی چلی جا رہی تھی اور دل ہی دل میں کڑھتی رہتی، کیونکہ اس پہ اختر کی حقیقت عیاں ہو چکی تھی اور اب اس کا دل اختر سے بالکل اچاٹ ہو چکا تھا، نمرہ سارا دن پریشان رہتی اور حرمان و پریشان رہنے کی وجہ سے شگفتہ بہت فکر مند تھی اور اسے یہ ڈر کھائے جا رہا تھا کہ کہیں یہ کوئی زہر وغیرہ نہ کھا لے، شگفتہ اب نمرہ پہ نظر رکھتی تھی اور اس کی تاک میں رہتی تھی، ایک دن صبح صبح شگفتہ نمرہ کے کمرے میں داخل ہوئی، دیکھا کہ نمرہ سو رہی ہے۔۔۔

شگفتہ ۔۔۔۔نمرہ اب طبعیت کیسی ہے تمہاری؟ کیوں پورا دن سوئی سوئی رہتی ہو اور کچھ کام بھی نہیں کرتی، کام چور کہیں کی، چلو اٹھو ذرا چائے تو بنا دو مجھے، میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے، مجھے نہیں کرنا آج کام ،تم تو شہزادی بن کے سو جاتی ہو، مجھے اب سکول بھی جانا ہے، اور روز مجھے سکول سے دیر ہو جاتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ تمہاری وجہ سے مجھے سکول بھی چھوڑنا پڑے گا، دادی اماں بھی کہہ رہی تھی کہ اب ان کے پاس خرچہ نہیں ہوتا، اب نہیں ناز اٹھائے جاتے میں کیا کروں؟ اصل میں شگفتہ کی کوشش تھی کہ شاید نمرہ اس کی اس ہلکی سی کوشش سے تھوڑا سا ہنس دے، اس چھوٹی سی سعی سے ہو سکتا ہے کہ اس کا دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے، مگر جب اس سب سے بھی نمرہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو شگفتہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ دبے پاؤں واپس جانے ہی والی تھی کہ اس کے دل میں خیال آیا کہ نمرہ تو بولی ہی نہیں، آخر میری بات پر یہ ہوں، ہاں تو کرتی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، تو شگفتہ کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نا میں اسے دیکھ لوں، قریب جا کر اس نے نمرہ کی کلائی کو چھوا تو اسے یہ احساس ہوا کہ نمرہ تو تیز بخار میں تپ رہی ہے، اس کے تو اوسان خطا ہو گئے، وہ دوڑی دوڑی دادی اماں کے پاس گئی، کہ دادی اماں ہی تو سب کچھ تھیں ان دونوں کے واسطے، دادی اماں نے اسے ڈاکٹر کو کال کرنے کا اور اختر کو کال کرنے کا کہا، اختر کے نام سے جیسے اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اس کی آنکھیں پھر بھر آئیں، فوری بولی کہ اماں اختر بھاڑ میں جائے مجھے تو نہیں کرنی کال اسے، اماں اس کے اس جواب سے جیسے چونکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شبنی نے دوسرے دن سے اپنی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا، شبنی کے دل میں اختر کو پا لینے کی خواہش مچل رہی تھی اور اس خواہش کو پایہ تکمیل کو پہنچانے کیلئے کسی حد تک بھی جانا چاہتی تھی، وہ صبح تیار ہوئی اور نمرہ جس ہسپتال میں بخار کی وجہ سے داخل تھی، وہاں پہنچی، نمرہ سے کہنے لگی کہ آپ کیسی ہیں؟ نمرہ نے جواب دیا کہ میں ٹھیک ہوں، مگر معذرت میں نے آپ کو پہچانا نہیں، آپ کون ہیں محترمہ؟ شبنی نے کہا کہ میں رابعہ ہوں، آپ کی ایک ہمدرد ہوں، میں آپ کو ذاتی طور پر جانتی ہوں اور آپ کی اچھائیوں کی وجہ سے آپ کی عیادت کرنے چلی آئی، میں آپ کے محلے کی ہی ہوں، اور مجھے محلے کی ایک عورت نے بتایا کہ نمرہ بیمار ہے تو مجھ سے نہیں رہا گیا، میں آپ کے محلے کی ہوں، یہ لو پھول اور یہ فروٹ، مگر میں آپ کو جانتی نہیں ہوں، کبھی آپ کو محلے میں نہیں دیکھا، میری بیماری کا محلے میں کیا معلوم؟ نمرہ نے حیرت کے عالم میں دیکھا اور استفسار کیا، شبنی نے کہا کہ دیکھیں میں آپ کی ہمدرد ہوں اور آپ کی عیادت کو آ گئی، آپ بجائے اس کے کہ میرا شکریہ ادا کریں یا مجھ سے چائے پانی پوچھیں، آپ الٹا میرا انٹرویو دینے بیٹھ گئیں، نمرہ نے شگفتہ سے کہا کہ تم اسے جانتی ہو؟ یہ رابعہ کون ہے؟ میں نے تو آج تک اس رابعہ کو نہیں دیکھا، نہیں خبر یہ لڑکی کون ہے؟ مجھ سے کیا چاہتی ہے؟ مجھے کیوں ملنے آئی؟ اور مجھ سے اسے کیا کام ہے ؟اسی اثنا۶ میں اختر ہسپتال میں داخل ہوا، شبنی نے فوری پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ اگر کوئی آپ کا رشتہ دار ہے تو اسے اجازت لے کر آنا چاہیے تھا، مگر ان صاحب نے اس بات کو ضروری نہیں سمجھا، نمرہ بولی کہ کیسی محلے دار ہو کہ میرے شوہر کو نہیں جانتی ہو، یہ میرے شوہر ہیں اختر، شبنی نے فوری پینترا بدلا اور بولی کہ ارے جب میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا تو یہ تو مرد حضرت ہیں، اسے میں کیسے دیکھ سکتی؟ نمرہ نے اختر سے کہا کہ آپ اس لڑکی کو جانتے ہیں؟ اختر نے جواب دیا کہ نہیں، میں نے تو اسے آج اور ابھی دیکھا، نہیں معلوم کیا بلا ہے؟ او مسٹر، میں بلا نہیں انسان ہوں اور عورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے زبان کو ذرا سنبھالنا چاہیے، اب آپ مجھے نہیں جو جانتے تو اس طرح کی زبان استعمال کریں گے؟ نمرہ نے اختر کو چپ کرایا اور کہا کہ جاؤ اس لڑکی کیلئے کچھ کھانے ،پینے کا لے آؤ، ہم جانیں نہ جانیں یہ ہے تو ہماری محلے دار اور اس وجہ سے ہمارا حق بنتا ہے کہ اس سے اچھا سلوک روا رکھیں اور اس کی عزت بجا لائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیٹھ طفیل کی تو پانچوں گھی میں تھیں، وہ آتا مہرو سے ملتا اور تھوڑے بہت پیسے لے کر چلا جاتا، مہرو نے بھی اس کو شیشے میں خوب اتارا، اور ایک دن موقع پا کر اس کی اور اپنی ویڈیو بنا لی، اب طفیل اس کے ہاتھ میں  آ گیا، اب اس نے ہمسائے کے لڑکے واسطے سیٹھ طفیل کو استعمال کرنے کا سوچ لیا، اس نے سیٹھ طفیل کو کہا کہ میں تمہیں ملتی بھی رہوں گی، تمہیں پیسے بھی برابر ملتے رہیں گے، بس تم نے کرنا یہ ہے کہ مجھے میرے ہمسائے کی پل پل کی خبر پہنچانی ہے اور ساتھ ہی میری امی کو ہمارے بارے میں اور اس لڑکے کے بارے میں کچھ نہیں بتانا، سیٹھ طفیل کی تو لاٹری لگی ہوئی تھی وہ بھلا کیوں انکار کرتا، اس نے فوری حامی بھر لی اور کہا کہ مہرو تمہارا کام ہوتا رہے گا، میں تم سے محبت بڑی کرتا ہوں مگر اب تم نے مجھے اس خوف کے سائے کا مکین کر لیا ہے اور بلیک میلنگ پہ اتر آئی ہو، اس لیے اب تمہارا حکم تو ناچار مجھے ماننا ہی پڑے گا، مہرو نے سیٹھ طفیل کو کہا کہ یہ لو پیسے اور کل دو اچھے سے مہنگے موبائل لے آؤ، مہرو جی دو موبائل کیوں؟ مہرو نے کہا کہ طفیل جی، ایک میرے واسطے اور ایک میرے ہمسائے جبار واسطے، سیٹھ طفیل فوری بولا کہ جناب پہلے تو آپ کی زیست میں ہم آئے، اس لیے پہلے ہمیں تحفہ بعد میں دوسرے کو، مہرو بولی کہ میں کچھ سمجھی نہیں؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ طفیل بولا کہ مجھے بھی ایک عدد موبائل چاہیے بڑی سکرین والا، تا کہ میں بھی تمہاری شکل دیکھ لیا کروں ویڈیو کال کر کے، مہرو نے طفیل کی طرف پیسے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سیٹھ طفیل اپنی کمینگی پہ اتر آئے ہو نا، تم مردوں کو یہی بیماری بہت ہوتی ہے کہ تمہیں ایک بار دل جو دے دو تو تم اس سے ہوس کا پہلو ڈھونڈنے لگتے ہو اور چاہتے ہو کہ طمع و حرص بھی اسی محبوب سے پوری ہو، اور محبت و کاروبار بھی ساتھ چلے، یہ لو اب تو جاؤ، مہرو کی امی نے آواز لگائی مہرو گئی تو امی نے کہا کہ فلاں جگہ سے پیسے کم ہیں، کدھر گئے؟ مہرو نے چالاکی سے جواب دیا کہ وہ تو میں کھا گئی، کیا کروں آپ تو گھر نہیں ہوتیں مگر مجھے بھوک بہت ستاتی ہے اور مجھ سے رہا نہیں جاتا، امی نے کہا چل کوئی بات نہیں، ایک تو ہی تو ہے ہماری کھانے والی اور ہے ہی کون ہمارا، جتنی رقم چاہیے لے لیا کر، بغیر پوچھے یا بتائے، مہرو نے مسکا لگاتے ہوئے کہا کہ امی چائے لے آؤں آپ کے واسطے۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments