Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Dil Se Dil Tak Episode 13 | By Sidra Shah - Daily Novels

__ساجن میرا قلفی کمار 

___ســــــدرہ شــاہ

قسط___18 


تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔؟ 


گل لالئی کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب تھیں اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ زین یہاں آیا ہے  ۔اور زین کی حالت بھی گل لالئی سے مختلف نہیں تھی اتنی امیر لڑکیاں وہ بھی ایک معمولی سی منگنی کی رسم میں شریک تھیں اچھنبے   کی بات تھی زین کے لے ۔

وہ سفیان میرا دوست ہے ۔۔۔۔


زین کی جگہ اسد نے کہا جس پر زین نے تائید میں سر ہلایا 


کیا واقعی ۔۔۔۔؟ 


گل لالئی نے چہکتے ہوے پوچھا ۔۔۔۔


جی جی ۔۔

 

اسلام وعلیکم زین بھائی آپ یہاں کیسے۔۔۔؟  

ماریہ جو گل لالئی کے پیچھے آئی تھی زین کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھا 

سفیان اسد کا دوست ہے  اور اسد اپنے ساتھ مجھے بھی گھسیٹ لایا پر تم دونوں یہاں کیسے ۔۔۔؟ 


زین  نے سوالیہ نظریں گل لالئی کے چہرے پر گاڑتے ہوے کہا ۔

سفیان بھائی جیجو لگتے ہیں ہمارے روحی آپی بہن ہے میری 

ماریہ نے سٹیج پر بیٹھے روحی اور سفیان کو دیکھتے ہوے کہا ۔

اوہ اچھا بھابھی آپکی بہن ہے 

پر سفیان کی تو ایک ہی سالی ہے پر آپ لوگ تو امیر فیملی سے ہیں پھر یہ سب 

زین کے چہرے پر بڑی واضع الجھن تھی ۔۔۔۔


ارے یہ آپ سے کس نے کہا زین بھائی میرا تعلق تو نارمل فیملی سے ہے گل لالئی کا تعلق امیر خاندان سے ہے 

ماریہ نے حیرت سے کہا 

اس کی آنکھیں آخری حد تک پھیل کر پھٹنے کے قریب ہوگئیں 

اور اس کے منہ سے جو جملہ برآمد ہوا وہ یہ تھا 

 پر تم لوگ ساتھ آتی ہو تو لگا کہ بہنیں ہو ۔۔۔۔

زین نے کہا 

سب کا یہی حال ہوتا ہے جان کر ہم بہنیں نہیں 

ماریہ نے مسکراتیں ہوے کہا ۔۔۔!!


اور اس پر اسد کی نگاہوں کا رخ ماریہ کی طرف تھا اسد کو ماریہ کی مسکراہٹ میں اپنا دل ڈوبٹا ہوا محسوس ہوا ۔

اسد کو دنیا کی سب سے خوبصورت مسکراہٹ لگی ۔

اچھا آپ لوگ کھانا کھائیں  کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتادینا 

ماریہ نہ کہا 

چلو گل لالئی۔۔۔۔۔

 وہ جو مال والے واقعے میں گم تھی ماریہ کی آوازہ پر ہوش کی دنیا میں آئی 

اور اسکے چونکنے  پر عنابی لبوں تلے خوبصورت سی مسکراہٹ نے بسیرا کیا ۔

ہہ ہاں کیا ۔۔۔۔!!


گل لالئی نے ناسمجھی سے ماریہ کو دیکھتے ہوے کہا 

میں نے کہا چلو مہمانوں کو کھانا کھانے دو ۔

ماریہ نے کہا ۔

ہاں چلو 

گل لالئی نے جلدی سے کہا ۔

****

وہ اشتہار لیے  پڑھ رہی تھی کہ ایک نیوز پر نظریں  جم سی گئیں  ۔

ساکت  نظریں اس خبر پر ڈالے وہ بہت کچھ سوچ رہی تھی ۔

اگر ایسا ہوگا تو ہم بچ سکتے ہیں ۔

وہ ایک امید  سے کہہ رہی تھی 

لگتا ہے  مصیبتوں اور پریشانیوں نے ہمارے ہی گھر کا  راستہ دیکھ لیا ہے  ۔

خوبصورت سے لبوں پر تلخ سی مسکراہٹ ابھری 

دیکھو بچے آزمائش اور پریشانیاں بھی اللہ اپنے عزیز بندوں کو دیتا ہے کہ کیا وہ ثابت قدم رہتا ہے یا گمراہیوں کی اتھاه گہرائیوں میں گم ہو جاتا ہے یا مجھ پر یقین رکھتا ہے یا غافل ہوجاتا ہے  ۔ اور خزاں کے بعد ہی بہار آتی ہے بیٹا جی 

بے شک ہر مشکل کے بعد اسانی ہے یہ اللہ کا انسان سے وعدہ ہے  صبر اور شکر  کا دامن تھامے رکھو بس 


بابا ۔۔۔۔۔اااا

اس نے روتے ہوے پکارا ۔۔۔۔۔!!


نہیں مجھے ہمت کرنی ہے 

میں کمزور نہیں بن سکتی اور پھر ڈر کس بات کا ڈرنا تو اسے چاہے جس نے غلط کیا ہو 

اس نے نازک گلابی ہتھیلیوں سے اپنے آنسوؤں کو صاف کیا 

اللہ میں اپنے باپ کے خون کا بدلہ آپ پر چھوڑتی ہوں بے شک آپ بہتر انصاف والے کرنے والے ہیں

*****۞۝

شکیلا فون کب سے بج رہا ہے مجال ہے  جو اس کو کوئی اٹھالے سب کے سب کام چور ہوگے ہیں وہ بڑبڑاتی ہوئی ٹیلی فون کی طرف بڑھی ۔

اسلام وعلیکم میں انابیہ شاہ بات کر رہی ہوں 

فون کی دوسری طرف انابیہ شاہ نے کہا ۔

وعلیکم اسلام بہن کیسے مزاج ہیں ۔

ناعیمہ ایوان نے خوشدلی سے کہا ۔

اللہ کا کرم ہے میں بلکل ٹھیک ہوں دراصل فون میں نے کسی خاص مقصد سے کیا تھا ۔

جی جی بولیں

شاویز کی سالگره آرہی ہے  تو میں نے  پارٹی رکھی ہے 

آپ سب نے ضرور آنا ہے 

 ۔

یہ بھی بتانے کی بات تھوڑی ہے  جیسے سالک ہے ویسے ہی شاویز بھی ہمارے لے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے اور اس خاص دن پر شرکت نہ کریں یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔

ناعیمہ ایوان کے لہجے میں پیار ہی پیار تھا شاویز کے لے 

تو پھر آج رات آپ سب نے پہنچ جانا ہے 


ٹھیک ہے  کسی مدد کی ضرورت ہو تو بتادیں 

ارے نہیں سارے انتظامات ہو گئے ہیں 

چلیں  پھر ملتے ہیں رات کو اللہ حافظ 

اوکے  اللہ حافظ کہہ کر فون رکھ دیا 

*****

اتنی بھی کیا ناراضگی کہ دوست کو برتھ ڈے ویش کرنا بھی گوارا نہیں کیا ۔

شاویز  سیل فون کو بار بار چیک کر رہا تھا پر سالک کا کوئی میسج نہیں آیا ۔ 

ہنہ ۔۔۔۔غلطی پر معافی مانگنے کا موقعہ بھی نہیں دیا ۔

شاویز برا سا منہ بناتا تپ کے بولا ۔

شاویز باہر نکل چوہے ۔۔۔۔


شاویز ہڑبڑاتا باہر کو بھاگا ۔

یہ یہ کیا

شاویز بےیقینی سے دیکھتا ہوا بولا ۔

اوہ تو شاویز صاحب اپنی بل سے نکل ہی آۓ ۔

سالک طنزيہ کہتے ہوئے شاویز پر جھپٹا ۔

ارے رک میری بات تو سن ۔

شاویز سالک کے پنج کھاتا بامشکل بولا ۔

چل بول لیکن بات لمبی نہیں ہونی چاہیئے ۔۔

سالک ہمہ تن گوش ہوا ۔

میں سچ میں تجھ سے ملنے آنے والا تھا پر تیرے غصہ کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا ۔

شاویز نے منہ بناتے ہوے کہا ۔

میرا غصہ کم ہونا تیری تو میں 

سالک غصہ سے کہتا دبارہ اس پر چھتٹا کہ شاویز تیزی سے کھسک کر دور ہوا ۔۔

رک یار بس کر جا اپنی برتھ  ڈے پارٹی پر سوجا ہوا منہ لیکر کیک کاٹوں گا کیا

شاویز نے اپنی دانست میں انتہائی معقول بات کی ۔

چل جا چھوڑ دیا 

سالک کہتا اٹھ کھڑا ہوا ۔

سارا آفس سٹاف ہنق پن سے یہ سب تماشہ دیکھ رہا تھا ۔

تم سب کیا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہمارے پیارے کو دیکھ رہے ہو نظر لگانی ہیں کیا ۔

شاویز نے سب کو لتاڑا اور سالک کو اپنے کیبن کی طرف لے گیا ۔۔

سب آفس سٹاف سر جھٹکتے اپنے کام میں مصروف ہو گئے پر انکو پاگل جیسے القابات سے نوازنا نہیں بھولے ۔

تو نے سچ میں معاف کر دیا نا 

شاویز نے اپنی دل کی بات زبان پر لائی 

اسے کھٹک رہا تھا سالک کا اتنی جلدی معاف کرنا 

ہاں کر دیا کیونکہ تو بھائی ہے میرا اور کیوںہاں کر دیا کیونکہ تو بھائی ہے میرا اور کیوں نہ معاف کرتا تمھیں غلط فہمی ہوئی تھی 

تم یہ چھوڑو اور بتاؤ پارٹی کب ہے 

پھر سالک اور شاویز دیر تک باتیں کرتے رہیں اور پھر دونوں آفس آف ہونے پر گھر چل دیے 

*****

تو مس عاینہ  آپ بور تو نہیں ہورہیں ۔

عاینہ جو سب سے الگ بیٹھی سیل فون یوز کر رہی تھی ۔

شاویز کو دیکھ کر بند کر دیا ۔

آپ سب سے یوں ہی پوچھتے آرہے ہیں یا یہ خاص عنايت مجھ پر ۔

عاینہ نے بھی الٹا اس سے سوال کیا ۔

اگر میں کہوں کے میری ساری عنایتں آپکے لیے ہیں مس عاینہ  تو ۔

شاویز اسکی خوبصورت آنکھوں میں دیکھتے ہوے بولا ۔

عاینہ نے ایک نظر شاویز کو دیکھا ۔

وائٹ شلوار قميض پہنے وہ  بھر پور مردانہ وجاہت  کا شہکار تھا

بے اختیار عاینہ کا دل دھڑکا ۔

اور پھر وہ اس کی آنکھوں میں آنکھوں ڈالے گویا ہوئی ۔

پر مجھے آپکی کسی بھی عنايت کی ضرورت نہیں مسٹر شاویز شاہ ۔۔

وہ کہتی ہوئی آگے بڑھی ۔۔۔

تو مس عاینہ اکڑ دیکھا رہی ہیں

واہ آئی لائک اٹ  

شاویز بالوں میں ہاتھ پھیرتا سالک کی جانب بڑھا ** 

Post a Comment

0 Comments