Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Dil Se Dil Tak Episode 14 | By Sidra Shah - Daily Novels

 ساجن میرا قلفی کمار 

ســـــــدرہ شـــــاہ 

قسط____19 


****


کال کی آوازہ تاریک کمرے میں 


گونج رہی تھی ۔۔۔


بیڈ پر لیٹا وجود  ہڑبڑاتا اُٹھا 


ہیلو ۔۔۔

نیند میں ڈوبی آوازہ ابھری 


کیا  کیسے ٹھیک ہے  میں آبھی نکلتا ہوں ۔۔۔

وہ حیرت و پریشانی کے ابتدائی  


جھٹکے سے نکل کر سنبھلتے 


ہوۓ بولا ۔۔۔۔" 


فون رکھ کر وہ گاڑی کی چابی لئے 


باہر کو بھاگا ۔۔


سارا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا  


اس کی قدموں کی آوازہ پورے 


گھر میں گونج رہی تھی ۔


جلدی سے وہ آپنی گاڑی کی 


بڑھا اور گاڑی زن سے بھگا لی گیا ۔


ہیلو شاویز  ہاں خیریت نہیں ہے 

ایک ہاتھ سے ڈرائورنگ کرتا ہوا دوسرے ہاتھ سے سیل فون بامشکل سنبھالتا ہوا بولا 

 


کراچی والی برانچ میں آگ لگ گی 

نہیں نقصان کا نہیں پتا 

نہیں میں سنبھال لوں گا ۔


تم ایسا کرو گھر میں سب کو بتاؤ

میں اتنی جلدی میں تھا کہ بنا بتاے آگیا ۔


سالک دیکھوں میں بھی چلتا ہوں 

شاویز نے منت بھرے لہجے میں کہا 


نہیں شاویز تم یہی رک کر سب 


کا دھیان رکھو 


ٹھیک ہے  

شاویز کو پتا تھا سالک اب نہیں مانے گا اس لئے بحث  ترک کرتے اسکی بات مان لی ۔

***


اتنی سی آگ سے سالک کا کوئی نقصان نہیں ہونے والا ۔

وہ پاٹ دار آوازہ میں بولی ۔

بے بی جسٹ ریلکس 


سالک کا کھیل تمام سمجھو 


تم شانت ہو جاؤ 

وہ بڑے پیار سے بولا ۔۔۔۔"


کیسے شانت ہو جاؤ کیسے 


وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر چیخی


بچپن سے اس آگ میں جل رہی 


ہوں آخر اور کتنا انتظار کرو میں 


مجھے پوری احمد فیملی کو برباد ہوتا دیکھنا ہے ۔۔۔۔۔ Dam it


وہ آپنی نفرت میں یہ تک بھول 


 گی تھی کہ اس کا کیا راشتہ ہے  ان سے نفرت و انتقام 


کی آگ میں وہ گناہ اور ثواب کا 


فرق تک بھول گی تھی۔۔۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔№


پتا نہیں انسان یہ کیوں نہیں سوچتا کہ جتنا بُرا وہ دوسروں کہ ساتھ کرتا ہے  کیا وہ بھی اتنا برداشت کر پاۓ گا کیوں کہ 

دنیا آخیرت کی کھیتی ہے جو فصل وہ بوتا ہے وہی کانٹی پڑھتی ہے  ۔۔۔۔


سنا ہے تمھاری دلہن مر گی 


بہت افسوس ہوا جان کر 


آخر میں افسوس کا اظہار کرنے 


کے لیے اس نے چہ چہ چہ کی 


آوازہ بھی نکالی ۔۔" 


فاران کے چہرے پر سبکی کا 


احساس تھا پر اس نے کمال 


مہارت سے آپنے تاثرات چھپاۓ 


وہ میری دلہن نہیں تھی سونے 


کی چڑیاں تھی میرے چچا نے 


ساری جائداد اس کے نام کی تھی ۔


آربوں کی مالکن تھی چچا کی اُوپر 


کی ٹکٹ تو ہم نے کاٹ دی 


پر اس نے خودکشی کیوں کی یہ 


بات سمجھ سے باہر ہے پر ہمیں 


جو چاہیئے تھا مل گا 


وہ بڑے آرام سے کہہ رہا تھا ۔


تو پھر یوں مجنوں کی اولاد


بنے کیوں گھوم رہے تھے ۔


سحرش نے بپھارے ہوے لہجے 


میں کہا ۔۔۔۔۔"


ڈارلنگ۔۔۔۔"  وہ سب ناٹک تھا تاکہ 


پولیس کو ہم پر شک نہ ہو 


آوہہہہ آئی سی ۔۔۔۔۔۔۔۔

سحرش بات سمجھتے ہوۓ بولی 


ادھر آو میری جان شادی تو تم 


ہی سے کرو گا ۔


فاران اس کو ہوس بھری نگاہیں اس پر گاڑتے ہوے بولا ۔


نہیں میں جارہی ہوں گھر 


سحرش اس کی نظروں کا 


مطلب سمجھتے ہوۓ کوفت سے 


بولتی چلی گی ۔


ایک بار ہاتھ آجاؤ پھر دیکھتا 


ہوں کیسے بچتی ہو مجھ سے 


فاران نفرت اور حقارت لہجے میں سموئے بولا ۔۔

***


مام آگر آپکی طبیعت پر گراں نہ 


گزرے تو ایک  بات کروں  ۔


عاینہ نے آپنی بات کہہ کر صوفے


میں ڈھے جانے والے اندازہ میں بیٹھی ۔


اللہ خیر کرے اتنا شیری لہجہ 


ناعیمہ ایوان نے مسکراہٹ دباتے ہوے کہا ۔


م مام م


عاینہ منمنائی ۔۔۔


اچھا اچھا بولو میری جان  ۔۔


مجھے امریکہ جانا ہے ماموں کے پاس ۔۔

عاینہ نے ناعیمہ ایوان کے سر پر بمب پھوڑا  ۔۔۔

عاینہ  شاید تم بھول رہی ہو کہ تمھارے کہنے پر ہی ہم یہاں مری آۓ ہیں اور تمھیں آب امریکہ جانے کے چسکے سوجھ رہے ہیں 

ناعیمہ ایوان تھوڑا غصے سے بولی 


ہاں تو مجھے کیا پتا تھا کہ یہ لنگور بھی ہمارے ساتھ آۓ گا ۔

عاینہ نے ہلکی سی آوازہ میں کہا ۔۔

اگر شاویز یہ سن لیتا تو صدمے 


سے ہی مرجاتا کہ عاینہ نے اسے 


لنگور کہا ۔


کیا کہہ رہی ہو ۔

ناعیمہ نے ناسمجھنے والے انداز 


میں پوچھا ۔


کچھ نہیں مام میں  کہہ رہی تھی کہ 


ماموں کی یاد آرہی ہے اور یہاں 


میرا دل نہیں لگ رہا بس میں جارہی ہوں ۔

عاینہ نے ضدی پن سے کہا ۔

ناعیمہ ایوان نے اس کے حتمی اندازہ پر کچھ کہنے کا ارادہ ترک کر دیا ۔

کب جارہی ہو فلائٹ بک کر لی ۔

ناعیمہ ایوان نے تصدیق طلب اندازہ میں پوچھا۔۔۔

کل کی بکنگ کرواتی ہوں 

پر تمھیں اتنی جلدی کیا ہے جانے کی ۔

ناعمیہ ایوان نے جانچتی  ہوئی نظروں سے پوچھا ۔۔۔۔" 


وووہ۔۔۔۔۔۔  ماموں کی یاد ہی اتنی آرہی ہت کہ اُڑ کر چلی جاؤ ۔۔

اس نے آپنی دانست میں انتہائی معقول جواب دیا ۔

اچھا ٹھیک ہے بھئی  جیسے تمھاری مرضی میں بی جان کو دوا دے آؤ ٹائم ہو گا ان کی دوا کا ۔

یہ کہتی وہ بی جان کے کمرے کی طرف بڑھی ۔

اور عاینہ نے سوکھ کا سانس لیا


شکر ہے  اس لنگور سے جان چھوٹی 

جب دیکھو  پیچھے پڑھا رہتا تھا ۔

پر اس کا دل کیوں اداس سا تھا 


اس سے دور جانے سے ایک عجیب سے بےچینی ہورہی تھی ۔

پہلے اسے شاویز ہرگز بُرا نہیں لگتا تھا پر جب سے اس نے سحرش اور شاویز کو ساتھ 

کیفیٹیریا میں دیکھا دل میں بال آگیا ۔۔۔

اور سالک کے جانے کے بعد شاویز نے ساری ذمداری لی تھی ان کی ہر روز آتا عاینہ سے بات کرنے کی کوشش کرتا پر عاینہ شاویز سے اور چیڑ جاتی عاینہ نے مری جانے کا کہہ تو سب مان گے پر مصیبت یہ تھی کہ شاویز بھی ساتھ آگیا ان کے 

اب عاینہ نے اس سے فرار حاصل کرنے کے لے امریکہ جانے کی کئی۔

***

صاحب جی کھانا لگا دوں ۔

نہیں مظفر چاچا کھانے کا موڈ نہیں کوفی بنا دے پلیز  

جی ٹھیک ہے  

یہ کہ کر وہ چلا گیا 

بہت نقصان ہوا تھا پوری بلڈنگ جل گی تھی سالک اس بندے کی کھوج لگارہا تھا پر کوئی خاطرمخواں کامیابی حاصل 


نہیں ہوئی ۔ 


پتا نہیں میں تمھیں یاد بھی


 ہوگا کہ نہیں 

پر دیکھ لو مس پاورفل گرل میں نے ایک دن بھی قضا نہیں تمھاری یاد کا ۔

وہ خیالوں کی دنیا میں گم آپنی پاورفل گرل سے مخاطب تھا ۔پھر اس نے ایک سرد آہ ہوا کہ سپرد کی اور لیپ ٹاپ کھول کر کام میں مگن ہو گیا ۔

Post a Comment

1 Comments

  1. aesa lag rha hai k kisi 2 saal ke bache ne novel likha hai..

    ReplyDelete