Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Hasratain Episode 3 | By Aneela Anwar - Daily Novels

 حسرتیں

انیلہ انور

قسط3


نمرہ کے دادا امبرین کے پاس جا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں 


امبرین انکی طرف دیکھتی ہے ۔اور اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں ۔


اسکی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ہر سوال کا جواب دے رہا ہوتا ہے۔


اور  ہر آنسو  اللہ سے شکوہ کرنے کے لیے بھی تیار ہوتا ہے پر وہ شکوہ نہیں کرتی۔


نمرہ کے دادا اپنے سینے میں چھپے پہاڑ جیسے غم کو چھپاتے ہوئے امبرین کو حوصلہ دیتے ہیں


کہ  بیٹی اپنے دل کو بڑا کرو اور پھر نمرہ کے دادا احمد کی لاش اور امبرین دونوں کو ایمبولینس میں گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں 


ادھر نمرہ کی دادی بتاتی ہے کہ دادا تمہارے بابا اور ماما کو لے کر گھر آ رہے  ہیں  نمرہ  کے ماتھے پر کچھ سکوں کے آثار نظر آتے ہیں مگر کہیں نہ کہیں اس کا دل بے چین و بے سکوں ہوتا ہے جیسے بغیر پانی کے مچلھی کی تڑپتی ہے ۔اسے کسی بھی قسم کی خوشی محسوس نہیں ہوتی۔نہ ہی یہ خبر سننے کے بعد اسکے دل کو قرار آتا۔


ابھی اسی کشمکش میں وہ الجھی ہوتی ہے کہ دروازے پر گھنٹی کی آواز سنائی دیتی۔


نمرہ کے دادا امبرین کو سہارا دیتے ہوئے  گھر میں داخل ہوتے ہیں اور اسے لے جا کر لکڑی کی کرسی پر بٹھا دیتے ہیں 


نمرہ کی دادی ایمبولینس کی آواز سن کر گھبرا جاتی ہیں ۔اور بھاگتے ہوئے دروازے پر جا پہنچتی ہیں 


پہلے تو یہ منظر دیکھ کر ان کا دل و دماغ نے ساتھ چھوڑ جاتا ہے کہ آج سے پہلے گھر میں کبھی ایمبولینس کو دیکھا نہیں۔پھر آج ایسا کیا ہو گیا   نمرہ کے دادا ایمبولینس کے ساتھ آئے ہیں ۔


نمرہ بھی آواز سنتے  ہی اچانک دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے کمرے سے باہر آتے ہیں اور 


اپنی ماما کو دیکھتے ہی پوچھتی ہے۔


"ماما آپکو کیا ہوا۔"روتے روتے امبرین کی آواز اس کا ساتھ نہ دیتی نمرہ اب اٹھتی ہے اور بھاگ کر اپنے دادا سے پوچھتی ہے۔


"بابا کہاں ہے؟ وہ کیوں نہیں آئے؟


ایمبولینس سے احمد کا لاشہ باہر لایا جاتا ہے  دیکھنے والے اس منظر کو قبول کرنے سے انکار کر  رہے ہوتے ہیں  گھر والوں کی آنکھیں سرخی مائل ہو جاتی ہیں اور روکنا بھی چاہیں تو وہ لوگ آنسوؤں کی قطاریں   نہیں روک سکتے 


لاش کو اندر لایا جاتا ہے۔


نمرہ کی دادی یہ دیکھتے ہی زمین پر گر جاتی ہیں اور بیہوش ہو جاتی ہیں 


اولاد کا دکھ تمام دکھوں پر سبقت رکھتا ہے۔


ماں کبھی یہ منظر دیکھنے کے لیے کبھی بھی خود کو تیار نہیں کرتی۔اولاد ہمیشہ اسکی تمام تر اثاثہ ہوا کرتی ہے۔


نمرہ جو یہ دیکھ کر زارو قطار رونے لگتی ہے 


اور کہتی ہے بابا آنکھیں تو کھولیے۔


آپ کو کیا ہوا بابا۔اسکی آواز بھر آتی ہے۔


گھر میں قیامت کا سما طاری ہو جاتا ہے وہ گھر جو کبھی خوشیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا اس سانحہ نے اسکو قیامت میں تبدیل کر دیا


جیسے کسی محل میں اچانک سے آگ لگ جائے اور بجھانے کے لیے پانی تک میسر نہ۔ہو۔


چاروں اطراف سے رونے کی آوازیں آ رہی ہوتی ہیں  ۔نمرہ روتے روتے  بابا بابا پکارتی ہے اور ماتھے کو بوسہ دیتی ہے۔


کہتی ہے بابا آپ ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ کیوں اپنی اس پھول جیسی بچی کو اکیلا چھوڑ دیا؟ آپ تو کہا کرتے تھے میں تمہارا ساتھی ہوں ہر مشکل میں۔


اٹھیے نہ دیکھیے میں مشکل میں ہوں۔آپ میری بات کیوں نہیں سن رہے؟


سب پر غم کا پہاڑ ٹوٹ کر گر جاتا۔جس سے نکلنے کے لیے انہیں خود ہی صبر سے کام لینا ہوتا ہے مگر وقت درکار ہوتا ہے کسی بھی غم کو بھلانے کے لیے 


اس سانحہ کے بعد کچھ وقت گزرتا ہے۔


نمرہ دن بہ دن خاموش ہوتی چلی جاتی ہے۔لبوں کو سی لیا تھا اس نے۔


آنکھیں اشکوں سے خشک ہو چکی تھی۔رونا چاہے تو آنسو ساتھ نہ دیتے۔آنکھیں ہر وقت بھوجل رہتی۔۔نہ گھر میں سکون۔نا کسی جگہ سکون۔اسکی سب سے پیاری چیز اسے اکیلا چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔کوئی بات کرتا تو بس سر ہلاتی۔نہ جواب دیتی نہ کوئی سوال کرتی۔


امبرین جو  خود  بستر پر یہ سانحہ برداشت کر رہی تھی  ۔مگر وہ نمرہ کا سوچ کر وہ خود کو گرنے نہیں دیتی۔مگر پہاڑ جیسا غم  نمرہ اپنے چھوٹے سے دل میں سمائے ہوئے سب منظر دیکھتی اور اپنے اندر دباتی چلی جاتی


جو باتیں ہم کہ نہیں سکتے۔وہ باتیں ہمیں اند ر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں ۔ہمارے اندر کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہیں 


 امبرین خود  کو دلاسہ دیتی اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ سب کا غم دور کرنے لیے کوشش کرتی۔مگر اپنے آنسو ظاہر نہیں ہونے دیتی۔


کہتے وقت مرہم ہوا کرتا ہے۔امبرین اسی وقت کا سہارا لیتے ہوئے تمام حالات وقت ہر  چھوڑ دیتی۔


ایک رات نمرہ جسے اپنے پھول بہت پسند ہوا کرتے تھے۔جنہیں وہ سیراب کرتے ہوئے مسکرایا کرتی تھی آج دیکھ کر رو رہی ہوتی ہے کہ امبرین دیکھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتی ہے اور نمرہ کے پاس بیٹھ جاتی ہے ۔


اپنی ماما کو دیکھتے ہی وہ جلدی اپنے آنسو صاف کرنے لگتی ہے


اور انکی گود میں سر رکھ لیتی ہے۔


امبرین اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولتی ہے۔


"کیا ہوا میری معصوم بیٹی۔کیوں یہ آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوتی ہیں ؟


کچھ نہیں ہوا امی جی" نمرہ جواب دیتی ہیں 


 جب آواز دینے والے  ہمیشہ کے لیے خاموش ہو  جائیں تو زندگی بدل جایا کرتی ہے۔


امبرین بولتی ہے بیٹا اسی کا نام تو زندگی ہے۔یہ تو آزمائش ہوا کرتی ہے کہ ہم رنج میں مبتلا ہو یا خوشی میں ۔اپنے رب کی رضا میں راضی رہنا ہوتا ہے۔ جو اسکی رضا میں راضی ہو جاتا ہے اللہ پاک اسے انعام سے نوازتا ہے اور جو اسکی رضا میں راضی نہیں ہوتا۔اللہ پاک اسے تھکا دیتا ہے ۔ہوتا پھر بھی وہی ہے جو اللہ کی رضا ہوتی ہے۔نمرہ یہ سن کر سکون کی سانس لیتی ہے اور انکی آنکھیں صاف کر لیتی ہے

Post a Comment

0 Comments