Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan | Episode 7 | By Gohar Arshad - Daily Novels

ناول:عشقِ یزداں

گوہرارشد

قسط:7

محبت کے بارے میں مزید کچھ بیان کرنے سے پہلے میں واپس اس کہانی کی طرف آتی ہوں،جس نے مجھے ہمیشہ پرسکون کیے رکھا۔وہی کہانی جو بھائیوں کو ہنستے کھلتے دیکھ کر مجھے یاد آیا کرتی تھی۔کہانی کچھ یوں ہے۔ایک دفعہ دور بیاباں جنگل کے اندر چھوٹی سی جھونپڑی میں دو میاں بیوی اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں۔جنگل جہاں خوفناک درندوں سے بھرا ہوتا ہے،وہی قدرت کے حسیں مناظر،گہری آبشاروں،گھنے سبز درختوں،ہر طرح کے خوب روح پرندوں سے لیس ہوتا ہے۔ان کی جھونپڑی کے اردگرد  گھنے درخت اور بیلیں ہوتی ہیں،درختوں میں کچھ پھلدار اور کچھ فقط سایہ مہیا کرتے ہیں۔اوپر نیلا آسماں مضبوط چھت کی مانند قائم نظر آتا ہے۔کسی بھی انساں یا جانور کا ان کو ڈھونڈنا ناممکن سا لگتا ہے،ان کے کھانے پینے کا سارا سامان ان گھنے درختوں کے اندر موجود ہوتا ہے۔دونوں بھائیوں کو ماں باپ کی خاصی توجہ حاصل ہوتی ہے،ان دونوں کا پسندیدہ مشغلہ پرندوں کے ساتھ کھیلنا،ان کو اڑانا۔۔۔۔۔ یہ جاننے کے باوجود کے وہ واپس آجائے گئے،ان کے پیچھے پیچھے بھاگنا،آپس میں ہنسی خوشی باتیں کرنا،ناراض ہونا جیسا انھوں نے سیکھا ہی نہ ہو؟؟

ماں باپ کی محبت دونوں کے لیے برابر تھی،ان کی خوشی کا سماں تب ہوتا جب پرندے صبح کے وقت ان کو اپنی خوبصورت آواز میں نعمے سناتے۔رات کو دونوں اپنے امی سے لپٹ کر سو جاتے،اپنی ماں کی آغوش میں لوریاں انہیں کسی الگ جہاں میں ہونے کا پتہ دیتی تھی۔ان کی عمر تقریباً 5 سال تھی،دونوں اپنے ماں باپ کے جڑواں بچے تھے،ان سب کی زندگی پھولوں کی سیج پہ سوئے ہوئے اس بادشاہ کی مانند تھی،جس نے اپنے تمام تر سپنوں کو حقیقت کا رنگ و روپ دکھا دیا ہو،والدین کے ہاں رب سے رضا کی بڑی ٹھوس وجہ یہ تھی،کہ اس سنسان جنگل کے اندر ان کو وقت پر رزاق مل رہا تھا،اس کے علاوہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو اولاد کی نعمت سے نوازا تھا۔ان کے نزدیک فقط اچھائی کا تصوّر تھا،ان کی زندگی اک ہی سمت میں بہتی چلی جا رہی تھی۔اک دن یوں ہوا کہ ماں نے معمول کے مطابق کھانے کا انتظام جو وہ کرتی تھی،کیا لیکن ان سب میں سے کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری شام یا آخری رات ہے۔ان کو اس جنگل میں رہتے ہوئے کافی عرصہ بیت چکا تھا،لیکن پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا،لیکن اس رات؟؟؟؟

سب اپنے اپنے بستر پر گہری نیند کی آغوش میں تھے،اک بڑے ناگ نے ان کی چلتی دھڑکنوں کو روک دیا،وہ میاں بیوی کو ڈھستے ہوئے پہلے اک بھائی اور پھر دوسرے بھائی پر حملہ آوار ہوا،اور سب کو ابدی نیند سلا کر واپس لوٹ گیا۔ان کو سسکیوں آہ زاری کا موقع ہی نہیں ملا،اور نہ کسی دوسرے کو علم ہوا کہ دوسرے کے ساتھ کیا ہوا ہے؟؟

سب خواب نیم شب میں مالک حقیقی سے جا ملے۔ابھی آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس کہانی کو سن کر یہ سوچ کر افسوس ہونا چاہیے،مجھے سکون کیوں محسوس ہوتا تھا؟؟

اس کی وجہ یہ تھی کہ "میں اکثر یہ سوچتی تھی کہ کتنے خوش نصیب تھے چاروں کے اک ہی وقت کے اندر سارے اس دار فانی سے بقا کی طرف کوچ کر گئے"۔میری زندگی اک مخصوص دائرہ میں بڑی کامیابی سے گھوم رہی تھی،بازار میں آنا جانا بہت کم ہوتا تھا۔اک دن ابو اچانک گھر آئے تو بہت خوش۔۔؟؟؟ان کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بات کیسے کریں؟؟میں گھر کے اک کونے میں بیٹھی،کوئی کتاب پڑھ رہی تھی،ان کے چہرے سے مسکراہٹ بہت واضح دکھائی دے رہی تھی۔ان کے دونوں ہاتھوں میں شاپر تھے،ان کے جوش وخروش بتا رہا تھا کہ کوئی بڑا محاذ فتح کرکے آئے ہیں۔شاپر اک طرف رکھتے ہوئے بولے سب جلدی سے ادھر آؤ،آج میں بہت خوش ہوں؟؟سب بھاگ کر ان کے پاس آئے۔انھوں نے بات شروع کی،پتہ ہے آج رات کو میرے دوست کے بیٹے کی شادی شروع ہورہی ہے مجھ آ ج ہی شادی کا کارڈ ملا۔اس کے بیٹے کی شادی میں ہم سب کو جانا ہے،میں سامان لے آیا ہوں جو شادی پر ان کو دینا ہے،سب کے لیے کپڑے بھی لائے ہیں دیکھ لو سب،؟؟

ابھی تین ہوئے ہیں،شام سات بجے تک ہم نے جانا ہے سب تیاری کر لو۔میں تو خوشی کے مارے جیسے پاگل ہوئی جارہی تھی۔کہ پتہ نہیں ابو نے کیسے کپڑے لائے ہوں گے؟؟

دوڑ کر گئی،شاپر اٹھا کر دیکھا تو کپڑوں کا سوٹ مجھے بہت پسند آیا،ابو کو میری پسند کا غالباََ انداز تھا ہی ؟؟؟

وہ اکثر اوقات میرے کپڑے خود ہی لے آیا کرتے تھے۔

اور خاص بات یہ بھی ہے کہ میری اور ابو کی پسند کافی ملتی ہے۔شام کا وقت قریب آنا شروع ہوا توسب نے اپنی اپنی تیاری میں مشغول ہو گئے۔میں نے بھی جلدی سے تیاری مکمل کی،خیر عورتوں کی جلدی تیاری کا تو آپ کو پتہ ہی ہو گا؟؟ ہم سب تیار ہو کر گھر کے باہر آئے تو ابو نے گاڑی والے کو پہلے سے کال کی ہوئی تھی۔وہ وہی پر موجود باہر ہمارے انتظار میں تھا۔ہم سب گاڑی میں سوار ہو گئے،گاڑی کو تیز چلنے کے لیے ابو نے ڈائیور سے کہا تو اس کی گاڑی کافی تیز رفتار میں چلائی اور بیس منٹ کا فاصلہ دس میں طہ کیا۔ابو کو موسیقی سے خاصی رغبت تو نہیں تھی لیکن سفر پر موسیقی کو کسی حد تک تفریح کا ساماں سمجھتے تھے۔گاڑی والے نے سفر کا مزہ دوبالا کر دیا اک تو گاڑی کی رفتار تیز اور دوسرا دکھی گیت۔۔۔۔۔۔کیا بات ہے۔،؟؟سڑک بہت کشادہ اردگرد درختوں سے ڈھکی ہوئی صاف نظر آرہی تھی۔کہیں کہیں پلوں سے گذارتے وقت گاڑی کس حد تک خوف کا احساس دلاتی تھی۔شادی والے  گھر کے قریب پہنچے تو دور سے ہی ہر طرف روشنیاں دکھائی دی،دور دور ڈھول کی دھن سنائی دی۔پورا ماحول بڑا دلکش اور دل کو سکوں بخش رہا تھا۔

اندھیرا مکمل چھا چکا تھا لیکن کثرت کے ساتھ لائٹس کی وجہ سے اندھیرے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔درختوں سے پرندوں کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھی۔میں موسیقی میں اتنی مگن تھی کہ ان سب کو یہ لگا کہ شاید میں سو گئی ہوں انھوں نے مجھے ہلا کر کہا گھر آگیا شادی کا جلدی سے آو۔وہ سب مجھے کچھ کہہ کر تھوڑا آگے چلیں اور ان کو میری یاد تک نہ رہی،ان کے استقبال کے لیے ابو کا دوست باہر آیا ہوا تھا،اس کے علاوہ بھی وہاں بہت سے لوگ موجود تھے،جن کے ساتھ سلام دعا میں سب ایسا مگن ہوئے کہ بہت دیر تک ان کو میرا ہوش تک نہ رہا،اسی تناظر میں گاڑی کا ڈرائیور گاڑی لاک کر گیا اس کے سامنے

گاڑی سے نکل کر میں نے دروازہ بند ضرور کیا لیکن مجھے اس کا احساس تک نہ ہوا کہ میری قمیض یہاں پھنس جائے گی۔میں دوسری طرح ڈھول  دیکھنے میں مصروف ہوئی تو میں نے سوچا گاڑی سے باہر ہوں بس اندر ہی چلنا ہے لیکن اس سب کا مجھے اندازہ نہیں تھا؟؟

گاڑی کا ڈرائیور یہ سمجھ کر کے سب نکل گئے وہ دور کہیں چلا گیا۔گھر والے سارے اندر کی طرف چلنا شروع ہوئے تو میں نے کوشیش کی کہ کسی کو آواز دوں لیکن وہ سب بہت دور تھے۔میری قمیض بری طرح پھنس چکی تھی۔میں نے بارہا کوشیش کی لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا۔کچھ ٹائم وہاں کھڑی رہی لیکن کس نے مدد نہ کی،اس درمیانی وقت میں دو تین لڑکیوں گزاری لیکن کسی نے توجہ نہ دی،اب مجھے رونا آرہا تھا کروں تو کیا کروں؟؟ نہ بیٹھ سکتی ہوں؟؟

 نہ کہیں جا سکتی ہوں؟؟؟۔گاڑی کا ڈرائیور کیا پتہ کتنے وقت لگا کر واپس آئے؟؟؟

،اسی کشمکش میں دور سے اک سترہ اٹھارہ سال کا اک لڑکا اپنی طرف آتا نظر آیا،جو ہلکا زرد رنگ کا بوٹ،آنکھوں پر سیاہ چشمہ،سر پر کالے رنگ کی ٹوپی،سفید شاٹ کے ساتھ نیلی جینز میں ملبوس تھا۔میں اس کو مسلسل دیکھے جارہی تھی،اس نے اک بار بھی نظر اٹھا کر میری طرف نہیں دیکھا۔وہ جلدی سے آیا اور گاڑی کے ساتھ پتہ نہیں اس نے کیا کیا؟؟اگلے دو منٹ میں میری قمیض باہر نکل چکی تھی۔وہ قمیض کو باہر نکلتے وقت بھی سامنے دیکھتا رہا اور پھر اتنا کہہ کر روانہ ہو گیا۔

"اب آپ جا سکتی ہیں محترمہ"؟؟؟

اس سے پہلے کے میں کوئی بات کرتی وہ جا چکا تھا.اور بھی گاڑیاں آتی لوگوں اندر کی طرح تیزی سے جارہے تھے۔میں بھی جلدی سے اندر کی طرف چل دی۔اندر کی دنیا ہی کچھ اور تھی؟ہر طرف عورتوں کے عجیب وغریب لباس،ان کے میک اپ سے بھرپور منہ،دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دوسروں کی شکل ان کے کپڑوں کی تعریفیں،اف اللہ!مجھے باذات خود میک اپ اور اس طرح کی فالتو چیزوں سے بہت چڑ ہے،اور آدھے سے زیادہ شادی میں یہی کچھ باتیں چل رہی ہوتی ہیں۔میری نگاہوں کا محور ومرکز نہ جانے کیوں وہ اجنبی بن گیا تھا؟؟

چونکہ لڑکے کی شادی تھی تو ڈھول و رقص زور شور سے جاری تھا۔لڑکے الگ جگہوں پر موجود تھے۔ڈھولوں کو سننے کے لیے میں اک اور لڑکی کو لے کر مکان کی چھت پر آگئی،مکان کی چھت سے ہو کر دوسری طرف کے تمام مناظر بخوبی دیکھے جا سکتے تھے۔میں اور وہ دوسری لڑکی جو میری تھوڑا بہت جاننے والی تھی اک کونے میں بیٹھ گے۔

اس کی عادتیں مجھے کچھ خاص پسند نہ تھی،وہ ہمارے ہی ساتھ والے محلہ میں رہتی تھی لیکں اس پر خوبصورت نظر آنے کا جنون سوار تھا،میں تو اکثر کہا کرتی ہوں کہ اپنی شکلوں کو مت بگاڑوں رب نے جتنا خوبصورت پیدا کر دیا ہے کافی ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں۔مصنوئی طور پر آپ کچھ وقت کے لیے خوبصورت نظر آ جاوں گے لیکن اس کے نتائج آپ کو ساری زندگی سامنے رکھنے ہوں گے اور ان کا سامنا کرنا ہو گا۔مجھے اکثر لڑکیاں کہتی ہوتی تھی عورت اگر خوبصورت نہ ہو تو کوئی اس کو پسند نہیں کرتا اس لیے خوبصورت خود کو بنانا بہت ضروری ہے۔

تو میں ان سے اکثر یہ سوال کرتی تھی کہ اگر خوبصورتی ہی سب کچھ ہوتی تو خدا کسی کو کم اور کسی کو زیادہ خوبصورت پیدا نہ کرتا،اصل چیز سیرت ہے 

صورت کا بعض لوگ سمجھتے ہیں لیکں ایسا نہیں ہے حقیقت بالکل اس کے متضاد ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان فطرتا حسن پرست ہے لیکن حسن جہاں کل نہیں۔

وہ کیا سبھی میری بات سے اختلاف رکھتے ہیں اور یہ ان کا حق بھی ہے لیکن ہمیں اور ہمارے معاشرے کے ہر اک فرد کو سمجھانا چاہیے کہ عورت کی خوبصورتی ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔میری اور اس کی باتیں ابھی شروع ہو ہی رہی تھی کہ میری امی آگئی انھوں نے آتے ہی کہا تم لوگ یہاں کیا کررہے ہو؟؟؟

جلدی نیچے چلوں۔۔۔اور یہ بتاوں تم نے شفق کھانا کھایا کہ نہیں ہم نے واپس بھی چلنا ہے؟؟؟؟

میں نے کہا امی تھوڑا سانس لے لے اتنے جلدی اتنے سوال اف؟؟؟؟؟

میں نے ابھی کھانا نہیں کھایا آپ چلیں میں اور یہ آتی ہیں دس منٹ تک اتنا کہہ کر ان کو نیچے بھیجا،آسماں پر تاروں کا جھرمٹ اپنے اپنے سفر پر تھا،کبھی اک روشن ہوتا تو کبھی دوسرا،چاند اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ آسماں کے آدھے سے زیادہ حصے پر قبضہ کیے ہوۓ تھا۔اس کی چمک اتنی تھی کہ کافی دور تک صاف صاف چیزیں نظر آرہی تھی۔اور شاید چاند بھی ہر شام کسی کو ڈھونڈنے نکلتا ہے ہر سحر کو مایوس لوڑ جاتا ہے کہ آنا والا وقت اس کے حق میں بہتر فیصلہ کرے گا۔اور یہ نظام کائنات یوں ہی رواں دواں ہے

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments