Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Manqabat | Episode 3 & 4 | By Sidra Mohsin - Daily Novels

 


 


 

 

 


ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

Text Box: سدرہ محسنمنقبت

Text Box: قسط نمبر 03 


وقت #رات

عافیہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وارڈ میں داخل ہوتی ہے ابرار رافیہ کا ہاتھ تھامے نم دید لیے اس کی جانب حسرت سے دیکھ رہا تھا کیونکہ رافیہ آج بہت خوش تھی ابرار کے اسرار کرنے پر بھی اس نے خوشی کی وجہ نہیں بتائ تھی شاید وہ جانتی تھی کہ وہ ماں بننے والی ہے لیکن عافیہ کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتی تھیں خون کا رشتہ نہیں تھا مگر ایک دوسرے کو بہن سمجھتی تھیں

کچھ رشتے بے نام. ہوتے ہوۓ بھی اپنوں سے زیادہ قریب ہوتےہیں

رافیہ محبت لٹانا جانتی تھی اس کے نزدیک رشتے سب سے زیادہ اہم تھے ہر شے ہر کام سے زیادہ بلکہ خود اس کی اپنی زات سے زیادہ... اس نے ابرار کے گھر کو جنت بنایا تھا عافیہ بھی ابرار کی بیوی تھی لیکن وہ اپنے آپ کو منوانے کا جذبہ دل میں سماۓ اپنی تگ و دو میں رہتی تھی نٹ کھٹ سی عافیہ اپنی ضد منوانے لاڈ اٹھوانے خوب جانتی تھی اور رافیہ اپنی سادگی سے دلوں میں اپنا مقام بنانا خوب جانتی تھی

رافیہ کو اس حال میں دیکھ عافیہ اور ابرار دونوں ہی  غم میں مبتلا تھے اک ایسا غم جو ان کو بے روح مجسم بناۓ صرف رافیہ کی یاد میں لے جاتا تھا

رافیہ کے بیڈ پر بیٹھی عافیہ نے ابرار کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور رافیہ کی حالت دیکھ اور اس انجان خوشی کے مل جانے پر ایسے رنج میں مبتلا ہوجانے کے بعد آنسو جیسے قطار در قطار بہ جاتے اس کو رافیہ کی باتیں یاد کراوتے

وہ بے بسی سے بس دیکھ سکتی تھی خوشی تو در پر موجود تھی لیکن داخلے کی منظوری دل نے نہیں دی  دل تو دکھ کے شکنجے میں یوں جکڑا ہوا تھا کہ آزاد ہونا بھی چاہے تو ہو نہیں سکتا تھا

عافیہ ابرار کو گھر جانے کا کہتی ہے کہ وہ کچھ دیر آرام کر لے لیکن ابرار اس کی بات نہیں مانتا وہ رافیہ کے پاس ٹھہرنا چاہتا تھا تو وہ عافیہ کو گھر جانے کا کہتا ہے کیونکہ وہ اتنا لمبا سفر کرنے کے بعد ہسپتال پہنچتی یے عافیہ کے ضد کے باوجود اس کو گھر بھیج دیتا ہے

اور خود اس کے قریب رکھے صوفہ سے ٹیک لگاۓ رافیہ کو تکتا ماضی کی جھلکیوں میں گم. ہو جاتا ہے

........................................................................

 

عافیہ گھر کا دروازہ کھولتی ہے اسے رافیہ کی مہکتی آواز سنائ دیتی ہے وہ ڈرائنگ روم کی جانب جاتی ہے کبھی ٹی وی لاؤنج کی طرف لیکن جب وہ کچن کی طرف بڑھتی یے تو ٹوٹا شیشہ بکھری چیزیں دیکھ کر بہت پریشان ہوتی ہے وہ ہاجرہ بی جو کہ نئ کام والی ماسی یوتی ہیں ان سے دریافت کرتی ہے تمام تر معاملہ  تو وہ تمام تر قصہ بیان کر دیتی ہیں جو ان کی سماعت اور نظر سے گزرا تھا

عافیہ پہلے پہل خاموشی سے ان کی ایک ایک بات سنتی ہیں اور اپنے شدید غصے کو قابو کرتی پانی کا گلاس پر اپنی گرفت بے حد مضبوط کر لیتی ہے اتبی کہ وہ اس کے ہاتھ میں ہی ٹوٹ جاتا ہے

ہاجرہ بی چیخ مار دیتی ہیں کہ بی بی جی یہ کیا اپ نے تو خود کو ہی زخمی کر لیا

عافیہ اپنے زخم کو دیکھتی درد و الم سے پُر لہجے میں کہتی ہے کہ

ہاجرہ بی نہ یہ زخم نہ یہ درد اس تکلیف کا مقابلہ کر سکتا ہے ھو رافیہ نے سہی کاش! یہ دنیا اتنی ظالم نہ یوتی کہ انسان کو ماضی کے قفس میں قید کرنے کے بعد  سانس لینے پر بھی پابندی لگا دیتی اور اپنی بڑائ پیش کرتی کہ دیکھو کیا تھی یہ انسان اس قابل؟ جتنا حق دیا ہے ہم نے اسے

پھر ایک گہری آہ بھرتی درد سے لبریز مسکان دینے کے بعد وہاں سے چلی گئ اہنے کمرے کی جانب برھتے ہوۓ اسے ماضی کی جھلکیاں یوں سماعت سے گزرتی محسوس ہوئیں جیسے وہ لوٹ چکی واپس انہی دنوں میں....

جب ان کی شناخت ایسی نہ تھی ان کا پہننا اوڑھنا ان کا سجنا سنورنا ان کے بات کا انداز ان کا مقام ان کی ہنسی ان کی مسکان لب و لہجہ نظر اختیار کچھ بھی آج جیسا نہ تھا

اور جونہی اپنے کمرے کادروازہ کھولتی ہے تو دوسری جانب خیالاتِ ماضی کی دوسری جانب قدم رکھتی ہے جب وہ کم سن خوبصورت لڑکیاں جنہوں نے اپنے بچپن سے ہوشمندی تک ہر اس بازار حسن کے ہر نصاب میں پڑھا کہ چاہے علم کے زیور سے آراستہ ہو جائے زات لیکن پائل کی جھنکار ناز و ادا دلکشی اور تال پر تھڑکتے قدم ہی ان کی شناخت کو وہ مقام بخش سکتے ہیں جو ان کو چادر میں لپٹی اپنا بچاؤ کرتی عورت کے کردار سے حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ مرد عورت کی ایک جھلک پر اس کی پائل کی جھنکار اور اس کے خوبصورت مجسم پر دیوانہ وار نوٹ لٹاتا کچھ لمحوں کی محبت میں اپنا ہوش گواتا اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے گھر میں موجود اس عورت سے جو اس کا گھر والدین بچے سنبھالنے کی غرض سے لائ گئ ہوتی ہے اس سے یہ رومانوی انداز گفتگو کہاں زیب دیتا ہے اس کا تو اعلیٰ مقام ہوتا ہے اس سے تو عزت کا رشتہ انسیت کا تعلق ہوتا ہے

اور اس بازار حسن میں موجود ہر عورت کو وہ مرد شہوت کی نظر سے دیکھتا اپنی حسرروں کی تسکین کے باعث اپنا سب کچھ لٹانے کوتیار ہوتا ہے

اس بازار کے در پر داخلے سے قبل اپنی عزت شرافت سمجھ حدود سب جوتوں سمیت دہلیز کے ایک کونے پر رکھ کرننگےپاؤں برہنہ الفاظ اور پوشیدہ غلیظ سوچ کے ساتھ داخل ہوتا ہے

اس محلِ حسن کی دنیا کی دلکشی اسے ہر غم ہر زوچ تکلیف فکر سے آزاد کرتی سکون کی وادیوں میں لے جاتی ہے اور عافیہ رافیہ اس سکون کی وادی کی شہزادیاں تھیں جن کی ایک جھلک کو ہر مرد بے تاب رہتا اور نائیکہ ان کے دیدار و وقت کی اچھی رقم وصول کرتی

 

وقت رات

رافیہ کھڑکی سے ٹیک لگاۓ آسمان کو تک رہی ہے گویا رب کو ڈھونڈ رہی ہے

عافیہ سنگھار میز کے سامنے بیٹھی اپنے سنگھار سے لبریز وجود کو سادگی کی چادر میں لپیٹتے ہوۓ رافیہ سے استفسار کرتی ہے

رافیہ میری جان یہ آکاش کو کیا تکتی ہو ہر رات خاموش کالی چادر جیسے آکاش سے اندھیرے کے سوا کبھی کچھ پایا ہے تم نے؟

رافیہ شششششش کہتی انگلی کے اشارے سے خاموش رہنے کا کہتی ہے پھر عافیہ کو اپنے پاس بلا لیتی ہے

عافیہ آرام سے چلتی تجسس میں اس کے پاس آتی ہے

اور کان کے پاس َسرگوشی کرتی ہے

کیا ہے پگلی؟ مجھے تو کچھ سنائ نہیں دیتا

رافیہ اس کا چہرہ آسمان کی جانب اٹھاتی ہے

اور دور ایک چمکتے ستارے کی جانب اشارہ کرتی ہے

عافیہ اپنے بھنویں اچکاۓ کچھ سوچنے اور غور سے دیکھنے کے بعد پوچھے بنا رہ ہی نہیں پاتی

رافیہ یہ تو ایک. ستارہ ہے اور یہ روز کبھی یہاں تو کبھی کہیں چمکتا ہوگا اس میں اتنا خاص کیا ہے

رافیہ اس کی جانب مڑتی ہے اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ عافیہ پریشان. ہو جاتی ہے

دیکھو عافیہ

اس پوری کالی چادر پر ایک ہی ستارہ اپنی دھن میں مست خودکو جگمگاتا اس بات سے بے خبر ہے کہ. کوئ اسے حسرت سے تک رہا ہے اسے پانے کی چاہ میں تڑپ رہا ہے اس تک پہنچنے کی جستجومیں روز نت نئ سکیم تیار کرتا ہے

لیکن یہ تو پہنچ سے دور ہے

رافیہ ہمیں وہی چیزیں کیوں پُر کشش لگتی ہیں جن کا  ہماری دسترس میں آنا ناممکن ہے

عافیہ!......

رب بڑا رحیم ہے وہ ہمارے دل میں بستا ہے جانتی ہو وہ جب بھی ہمارے قلب و ذہن میں کوئ چاہ کوئ امید کوئ جذبہء سکون جو اس تک لے جاۓ..... ایسے کسی بھی جذبے کو پنپنے کی خاطر ہم میں  خیال کی صورت نقش کرتا ہے نا.... تو سمجھ لو وہ تمہیں اس تک لے جاۓ گا

رافیہ اسے تکتی اس کے رخسار پر ہاتھ رکھتی بڑی نازو سے اسے کہتی ہے

کہ تو تو بڑی دانا باتیں کرتی ہے ہر شب اسی پہر جب درندوں کے پنجے ہمارے وجود کی چیڑ پھاڑ کر کے اس کوٹھی سے باعزت دنیا میں اپنے کردار سے مطمئن ہوتے قدم رکھتے ہیں تاکہ پھر سے پھر شب کے لیے خود کو تیار کر لیں اور یہ ہمارے بےجان بے حس وجود  جو ان کے چھونے  سے پہلے ہی ان کے چھو لینے کی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں  اور پھر ان کے چھو لینے کے بعد تار تار ہوجاتے ہیں وہ ہمارے وجود کو نہیں روح کو زخمی کرتے ہیں اپنے سکون کی خاطر  ہم سے کھیلتے ہیں

اور تو میری جان.....

ہر شب اس زہر آلود حقیقت کو تھوک دیتی ہے اور پھر چاند کو تکتی اس کے بنانے والے سے رہائ طلب کرتی نئ نگور کونپل بنے خوشبو سے سیراب کرنے کھِل کر گلاب بننے کی امید کو خود میں جگا لیتی ہے... تبھی تو تیری آنکھیں روشن ہیں گہری ہیں تمکنت تیرے چہرے کی کسی چاندنی سے کم ہے کیا؟

رافیہ عافیہ کا ہاتھ تھامتی اس کو کچھ کہنے ہی لگتی ہے کہ دروازے پر دستک ہوتی ہے

وہ کھڑکی سے ہٹتی اپنا آپ سمیٹتی دروازہ کھولتی ہے تو سامنے  تیل لگاۓ چپٹے بال آنکھوں میں کاجل بھرا پان چباتے ہوۓ روحیل  اپنی چادر کو کندھے پر ٹھیک کرتا ایک ہاتھ چوکھٹ پر رکھتا نشے میں مدہوش کھڑا

تھا

عافیہ نے اسے دیکھ چہرا دوسری جانب کر لیا اور پوچھنے لگی کہ بتا اب کیا ہے رات تو گزر چکی کمائ ہو چکی اب کیا لینے آیا ہے

روحیل عافیہ کا چہرہ دبوچتا  اپنی طرف کرتا ہے اور پھنکارتے ہوۓ زہر اگلنے لگتا ہے

تُو تو وہ چڑیا ہے جو دن رات بس کمانے کا کام کرتی ہے تجھے رات کے دن میں اور دن کے رات میں بدلنے سےکیا سروکار

تجھے  تو امیر سیٹھوں کے سامنے  اپنا جادو دکھانا ہے اور تو تو جانتی ہے کہ ان عزت دار  سیٹھ..     ان. کی. تو رات کے اندھیرے میں دنیا جگمگاتی ہے

بائ نے بلایا ہے زرا سج کر آجا آج رات تیری قدردانوں کے ہمراہ گزرے گی

روحیل. اس کے چہرے پر گرفت ہلکہ کرتا اس کے بال سنوارتا اس پر غلیظ نگاہ ڈالتا کہتا ہے....

چل اب منہ تو سنوار لے اور  اوۓ شہزادی زرا مسکرا دے.... کبھی ہماری طرف بھی دیکھ لیا کر.... رافیہ اس کا ہاتھ جھٹکتی کمرےمیں جانے کے لی٦مڑتی ہےتو وہ اس کےبازو کو موڑ کر اس کی کمر پر رکھتا ہے اور وہ تکلیف سے سسکتی ہے تو وہ کہتا ہے ..... اپنی حد میں رہا کر شہزادی مجھے جانتی نہیں ہے کیا؟ تجھے سیٹھوں کی بجاۓ نوچ کھا جانے والوں کے سامنے پھینک دوں گا..... اور سُن  یہ جو تیری زبان قینچی بنی رہتی ہے نا....

کٹ گئ تو درد تجھے ہی ہوگا کچھ چاہ کر بھی کہ نہیں پاۓ گی اور ہمارا کیا ہے؟   ہم تو ٹھہرے کمانے والے..... تیری زبان کے بغیر بھی تجھ سے کما لیں گے تو زیادہ

چٹر پٹر نہ کر تیار ہو سیٹھ انتظار کر رہا ہے

 

جب اذیت آخری حد سے گزر جاۓ تو ہر احساس.. حتیٰ کہ غم بھی اپنی شدت اپنی موجودگی کھو بیٹھتا ہے! جب ہر کوشش ناکام ہو جاۓ تو پھر فرق پڑنا کم اور خوف اپنی جگہ سے سرکنے لگتا ہے...

! یا تو نڈر بنا دیتا یے یا تو بے رنگ و روح ایک مجسم

 

عافیہ اور رافیہ بھی بے روح مجسم تھیں دل لبھائ کے لیے لوگ اس مجسم سے دل لگی کرتے اور چلے جاتے ہر شب یہ خودکو زندہ کرنے کی کوشش کرتیں اورہرصبح آنکھیں کھولتیں تو خودکو مردہ  زندان میں پاتیں

جاری ہے.....!!!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

 

Post a Comment

0 Comments