Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Manqabat Episode 5 By Sidra Mohsin - Daily Novels

 

منقبت

سدرہ محسن

قسط5

عافیہ شب کے اس پہر جب وہ اس بازارِ حسن کی رعنائیوں سے دور اپنے دل کی سنتی .....  جس نے اس کے دل میں امید کی کرن جلاۓ رکھی اس زات سے کچھ راز نیاز کرتی ہے اس وقت وہ سنگھار کرتی سیٹھوں کے سامنے سج کر جانے کو تیار ہو رہی ہے تاکہ ان سے میٹھی میٹھی باتیں کر سکے.......زندگی بڑی کٹھن ہے ہر ایک کی اپنی اپنی کٹھنآئیاں ہیں کسی  کی چھوٹی کسی کی پہاڑ جیسی وسیع۔۔۔۔ لیکن کسی کی چھوٹی صرف ہمیں ہی لگتی ہے دور سے دیکھنے پر ۔۔۔در حقیقت ہر مشکل ہر پریشانی ہر انسان کے نزدیک وسیع ترین ہوتی ہے عافیہ رافیعہ جیسی تمام تر لڑکیوں کی زندگی ہمیں ایک رنگین بازار میں رنگین کپڑوں میں جو تن کے ساتھ ایسے چپکے ہوں کہ ایک ایک زاویہ دکھا رہے ہوں گجروں زیورات میں ملبوس لبوں پر قہقہے سجاۓ نظروں میں شوخی ہاتھوں کی انگلیوں سے گزرتے ہوۓ راہگیر کو اشارہ کرتی لڑکیاں خوش مزاج خوش حال معلوم ہوتی ہیں ایسا ہم سوچتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے 

                                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عافیہ سج سنور کر سیٹھوں کے سامنے جاتی ہے تو تمام تر عزت دار مرد ہرے نوٹ اس پر نچھاور کرتے 

اس کی زلفوں کے اسیر ہوۓ جاتے ہیں اس کے وجود کے مہک سے خود کو سیراب کرتے اس کے ساتھ اپنی مرضی اپنی منشاء کے مطابق وقت گزاری ہے لیے بولیاں لگاتے اس کے وجود سے اٹکھیلیاں کرتے ۔۔۔جام  پر جام پی کر مدہوش ہوۓ اپنی عزت اپنی آنا کو عافیہ کے قدموں میں نثار کرتے ہیں ۔۔۔

نائیکہ اونچی بولی والے کو اپنے من مطابق وقت گزاری کی اجازت دے دیتی ۔۔۔ ابھی ان تمام رنگینیوں کا سلسلہ جاری تھا وہ مرد جو دن کے اجالے میں اپنی پگڑیاں اونچی کرتے ان گلیوں سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتے وہ رات کی تاریکی میں ان بدنام گلیوں میں اپنا سکون تلاشتے ہیں 

انہی بولیوں  کے درمیان ایک نوجوان کی آواز آئی سب سے اونچا دام ہمارا ہے لیکن مدت بھی دام کے مطابق ہوگی

عافیہ اور رافیعہ بازار حسن کی نایاب پریاں تھیں جن کے حسن کی جھلک کی خاطر امیر زادے اپنا سب کچھ وارنے کو تیار ہوتے 

ان امیر زادوں نے بولی ان دونوں کے لیے لگائ تھی اور مدت ایک مہینہ تھی ۔۔۔لیکن نائیکہ ایسے ہی کسی کو ان کا دیدار نہ کراتی اور نہ ہی اتنی مدت کے لیے ہمراہ بھیجتی ہاں لیکن ماسوائے ان قدردان کے ۔۔۔جو ان کی منہ مانگی قیمت کے ساتھ نائیکہ کو بھی خوش کرتے تھے 

عافیہ کی دل کی دھڑکن بہت تیز تھی کیونکہ وہ اس فیصلے سے ہمیشہ ہی خوفزدہ ہوتی تھی دل میں دعا کرتی کہ نائیکہ راضی نہ ہو لیکن پہلے پہل تو نائیکہ  نا مانی ۔۔۔ مگر جب۔۔۔۔ ان امیر زادوں نے اس کی منشاء کے مطابق قیمت لگائی تو وہ راضی ہو گئ لیکن ایک روحیل کو ساتھ لے جانے کی شرط رکھی ان امیر زادوں نے یہ شرط مان لی ۔۔۔ کیونکہ وہ کسی صورت بھی عافیہ اور رافیعہ کے حسن سے خود کو سیراب کرنا چاہتے تھے

نائیکہ کے حکم سے عافیہ اور رافیعہ کو اگلے دن کی روانگی کے لیے تیار ہونا تھا ۔۔۔ عافیہ جب کمرے میں دونوں دروازوں کو پوری جان سے کھول کر داخل ہوئئ اس کی سانس نہایت تیز جیسے ناجانے کتنا غبار خود میں سماۓ کھڑی ہے لیکن جب اس کی نگاہ رافیعہ کے پر سکون چہرے کی جانب گئ تو اس نے ضبط کیا اور سنگھار میز کی جانب بڑھ گئ ۔۔۔ اس نے باری باری اپنا زیور اتارنا شروع کیا ۔۔۔مانگ ٹیکہ جھومر ہار کانٹے چوڑیاں ۔۔۔۔ یہ سب سنگھار میز پر رکھتے وقت وہ خود کو بغور آئینہ میں تکتی رہی ۔۔۔۔کہ اس کی ایک چوڑی ٹوٹ گئ اور اس کے ہاتھ پر لگ گئ ۔۔۔ اس نے سسسسسسس۔ کی اور پھر سے خود کو دیکھنے لگی دیکھتے دیکھتے اس کی سانس تیز ہونے لگی  جیسے ضبط کا باند کمزور ہو رہا ہے۔  اس کی آنکھ پر ٹھہرا آنسو اس کی آنکھ سے بہتا اس کے لال گلاب جیسے رخسار اور پھر نرم گداز سسکتے ہونٹوں کی جنبش سے لرزتا چھلک گیا 

رافیعہ نے اپنا ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرتے ہوۓ اس کی بناوٹ کو محسوس کرنا چاہا ماتھا پھر بھنویں آنکھ گال جون جوں وہ اپنے چہرے کی بناوٹ کو محسوس کرتی اسے ان سیٹھوں غلیظ مردوں کے ہاتھ ان کی بات ان کی نظر یاد آنے لگی اور جوں جوں  سب رویہ آنکھوں کے سامنے رونما ہوۓ اس کے چہرے کی بناوٹ سے اسے نفرت ہونے لگی اور اس نے اپنے ہاتھوں کی گرفت کو سخت کیا اور اپنے چہرے کو ناچتی اتنی زوردار چیخی کہ عالم سکون میں گم عافیہ کی آنکھ کھل گی ۔۔

اس نے خوف کے مارے جب آنکھ جھولی تو رافیعہ کو بے حال پایا خود کو نوچتے سسکتا ہوا پاءا

عافیہ نے فوری رافیعہ کو سینے سے لگا کر دلاسہ دینا چاہا کیونکہ وہ رافیعہ کی گھبراہٹ اور اس کو قابو کرنا جانتی تھی لیکن معصوم خوفزدہ رافیعہ اپنے آپے سے باہر تھی وہ غم خوف اور رنج کے مجھدار میں  بہ رہی تھی جہاں سے اس کی سانسیں اذیت کی تاب نہ لا سکنے پر اس کے وجود سے رخصت ہونا چاہتی تھیں 

عافیہ جان چکی تھی ماجرا تو اس نے اسی لمحے رافیعہ کو سینے سے دور کیا اس کی ٹھوڈی سے اس کے چہرے کو اپنے سامنے کیا اور پوچھا ۔۔۔

بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے ؟ کیا آنٹی نے پھر کسی امیر زادے کو ہمارا مختار کل بنا دیا ہے ؟

رافیعہ نے آنکھوں کو میچتے ہاں میں سر ہلایا تو عافیہ نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی چاند کو بے بسی سے تکتی اشکبار ہو گئ

رافیعہ نے عافیہ کو کندھوں سے پکڑا اور کہا ۔۔۔

دیکھو عافیہ تم تو بہادر ہو آنٹی سے کہو ہم نے نہیں جانا ۔۔۔۔ ان سے کہو جو ہمیں مدت کے لیے لے کر جاتے ہیں نا ہم سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک کرتے ہیں ۔۔ہمیں اپنے نفس کے سکون کا ساماں سمجھتے ہیں ہمارا خیال نہیں رکھتے ہمیں کھانا بھی نہیں دیتے ہمیں سزا بھی۔ دیتے ہیں۔۔۔وہ اذیت سے اور زیادہ رونے لگی اور آنسو صاف کرتے ہوۓ ہچکیوں سے کہنے لگی ۔۔۔ عافیہ بہت اذیت ہوتی یے ۔۔۔انہیں  بتاؤ  تمہاری بات سن لیں گی  تم کہو نا ۔۔۔

رافیعہ میری جان ۔۔۔ عافیہ نے اس کے آنسو پونچھتے ہوۓ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔۔ گہری سانس لینے کے بعد سمجھانے کے انداز میں کہا 


سنو تم جانتی ہو نا آنٹی جب فیصلہ کر لیں اور پیمنٹ لے لیں تو کسی کی نہیں سنتیں ۔۔۔ تم یہاں آؤ ۔۔عافیہ کو کھڑکی میں بھٹا کر آسمان کی جانب اشارہ کرتی عافیہ نے کہا 

جانتی ہو رافیعہ جب میں آسمان کو تکتی تکتی سو جاتی ہوں نا تو کبھی مجھے کبھی برا خیال خواب نہیں آیا ہمیشہ ایک امید کی کرن نظر آئ جو ہمیں اس بازار سے باہر لے جاۓ گی ایک عزت دار دنیا میں جہاں ہم بھی عزت دار عورتوں کی طرح زندگی گزاریں گے ہمارا بھی ایک مقام ایک رشتہ ہوگا ۔۔۔اور ایسا ہوگا بس ہم نے ہمت کرنی ہے اور صبر ۔۔۔اچھا؟

چلو اب بستر میں لیٹو تیاری میں کر لیتی ہوں صبح جانا ہے نا؟

عافیہ رافیعہ جو بستر میں لٹا کر پاس رکھی الماری کے پاس جاتی ہے اس کو کھول کر رنگین چمکدار کپڑوں کی بے تحاشہ تہوں میں چھپی کالی چادر کو نکالتی ہے اسے اوڑھ کر دیر رات تک خود کو آئینے میں تکتی خود کو عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے کی حسرت سے تکتی اشکبار ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments