Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Mera Ishq To Mera Khuda Hai Episode 1 | By Noor E Saba - Monthly Novels

میرا عشق تو میرا خدا ہے

ازقلم: رائیٹر: نور ے صباء، (جونیجو+ کوندھر،)

قسط نمبر:1

کچھ پل ایسے بھی آتے ہیں ہماری زندگی میں کہ جس کا کبھی ہم نے تصور بھی نہ کیا ہوتا ہے پر اعتماد خوشگوار  چہرہ ہوتا ہے مگر آنکھیں؟؟ 

 ان آنکھوں میں کوئی جھانک کر دیکھیے تو معلوم ہو دنیا والے تو بہت بہادر سمجھتے ہیں بابا کی رانی کو مگر وہ تو موم جیسی ہوتی ہے ہے ہاں لڑکیاں نازک ہوتی ہیں اور جب انہیں بابا کی رانی کا لقب مل جائے تو خود کو دنیا کی رانی سمجھتی ہیں مگر بابا کی رانی جس کو لاڈ پیار  سے اپنے بابا نے پالا تھا پرورش کی تھی اس کے نخرے اٹھائے تھے دنیا کی رانی سمجھا تھا، اکثر زندگی انہیں کہ امتحان لیتی ہے ہاں ان کی دنیا بدل دی جاتی ہے وہ جی تو رہی ہوتی ہیں مگر صرف دوسروں کی خوشی کے لیے لیے کہ جب ان کے جینے کی وجہ ہی ختم ہوجائے تو بھلا وہ کیسے خوش رہ سکتی ہیں بھلا کیسے جی سکتی ہیں بھلا کیسے مسکرا سکتی ہیں...؟ 

مگر پھر اچانک کے ان کی دنیا میں روشنی آتی ہے  کہ ان کی دنیا بدل جاتی ہے ہے ہاں انہیں انکے جینے  کی وجہ معلوم ہو جاتی ہے،ہاں انہیں پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے دنیا میں آئی ہیں وہ کس مقصد کے لیے بنائی گئی ہیں اور انہیں کیا کرنا چاہیے جب وہ ٹوٹ کر بکھر گئی، کسی اجڑے ہوئے گلاب کی طرح، بہتے ہوئے دریا کی طرح، خشک ریت کی طرح، اور ٹوٹے ہوئے آئینے کی طرح،،

مگر پھر ایک مضبوط سھارا انہیں تھام لیتا ہے، 

وہ گر رہی تھی اسے سنبھال لیا جاتا ہے، اسے پکڑ لیا جاتا ہے، "ہاں " وہ روک لیتا ہے اپنے بندے کو جب وہ غلط راہ پر جاتا ہے، اور اسی سہی راہ منتخب کیئے دیتا ہے، اسے اسکے زندہ رہنے کا مقصد مل جاتا ہے، اسے اسکی جینے کا سہارا مل جاتا ہے، اور یہ وہ ذات کے جسکے قبضے میں ہے دو جہاں، 

وہ ذات کے جو ساری کائنات کا نظام ہستی چلا رہی ہے،

وہ ذات کے جو سبکو پالتی ہے،

وہ ذات جو پتھر کے نیچے چھپے چھوٹے کیڑے کو رزق پہنچاتی ہے،

وہ ذات اقدس کے جو اندھیرے میں چھپے ہمارے آنسوؤں کو دیکھ لیتی ہے،،

وہ ذات جو ہماری زندگیوں کی آندھیوں میں اجالا کرتی ہے،

وہ ذات جو بوکھے کو کھانا کھلاتی ہے،

وہ ذات جو پیاسے کو پانی پلاتی ہے،

°°°°°°°°°°°°°°°°

ارے نادانوں یہ تو وہ ذات اقدس ہے کہ جسکی تعریف لکھتے لکھتے میری زندگی میری زندگی تمام ہوجائے مگر اس ذات کی تعریف کبھی ختم نہ ہو،،

"ہاں" اسے ،اسے تھام لیا تھا پس اسے گرنے سے بچا لیا تھا اسے سنبھال لیا تھا  اسے صحیح راہ دکھا دی تھی، اور وہ اس کی ماں اس کی جنت کی دعاؤں کا نتیجہ تھا ہاں اسے اس کے رب نے اس کے اللہ نے اس کے محبوب نے اسے ستر ماؤں سے بڑھ کر چاہنے والے رب  نے اسے تھام لیا تھا  اسے بچا لیا تھا۔۔۔

|•••••••••~

یہ کہانی ایک دنیا دار صنف نازک لڑکی کی ہے۔۔

انمول جب کالج سے گھر آئی ، تو سلام کیا ، اسے کچن سے خوشبو آرہی تھی ، 

وہ ایک چلبلی ، نازک مزاج، اور بہت حساس لڑکی تھی ، معصومیت اسکے چہرے سے ٹپکتی تھی،،

وہ سیدھا کچن میں چلی گئی امی جان کیا بنا رہی ہیں؟ 

امی : بیٹا جی آپکے پسندیدہ ڈش ، اسنے اندازہ لگایا کہ بریانی یا پلاؤ ، اسکے اندازہ کے عین مطابق پلاؤ ہی بنایا گیا تھا،

امی نے پوچھا بیٹا کھانا کھاؤ گی ؟ دسترخواں لگاؤ؟ 

جی امی لگا دیں میں چینج کر کہ آتی ہوں ،،

امی نے کھانا لگایا وہ کھانے بیٹھ گئی کھانا کھانے کے درمیان اسے یاد آیا ،، ارےےےےےےےے

مینے تو عائشہ سے ملاقات کا آج وعدہ کیا تھا،، اور زور سے چلائی امی دوڑتی ہوئی آئی ، 

امی: بیٹا کیا ہوا۔۔؟

انمول: ارے امی آج مجھے اپنی سہیلی عائشہ سے ملنے جانا تھا مگر میں بھول گئی،،

امی: ارے بائولی اس میں پریشانی کی کیا بات ہے تم کھانا کھا کر تیار ہو کر چلی جانا ،

انمول: کیا امی یار ٹینشن میری تیاری کی نہیں بلکہ ابو جان سے اجازت لینے کی ہے ، 

انمول کے ابو بہت سخت مزاج کے تھے وہ اسے کہیں بھی نہیں چھوڑتے تھے کالج بھی صبح خد چھوڑ کے آتے تھے ، کیونکہ ماحول کے حساب سے انہیں بہت ڈر لگتا تھا، انہیں انمول بہت زیادہ عزیز تھی کیونکہ وہ 5 بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی، اور اسکے سب بھائی پڑھائی کے سلسلے میں بیرون ملک میں رہتے تھے، وہ ڈرتے تھے کہ انمول جیسی معصوم لڑکی دنیا والوں کے بھکاوے میں نہ آجائے ،،

انمول اداس بیٹھی تھی کہ بار بار گھر کا فون بجا جا رہا تھا نایاب بیگم یعنی انمول کی امی نے فون ریسیو کیا اور عائشہ کی غصے میں ضبط کی گئی آواز آئی  کہ آنٹی میں کب سے آپ کی صاحبزادی  کو فون کر رہی ہوں ہو اور کب سے اس کا انتظار کر رہی ہوں ہو مگر وہ ہے کہ آئی نہیں ابھی تک، 

نایاب بیگم کو احساس ہوا کہ یہ عائشہ  انتظار کر رہی ہے ہے نایاب بیگم نے انمول کا معصوم سا چہرہ دیکھا دیکھا جو کہ مرجھا گیا تھا نایاب بیگم نے سوچا  کہ وہ  انمول کے ابو سے اجازت لے لی گئی اور انمول کو اجازت دے دی،،،

انمول بہت خوش ہوئی اور کپڑے نکالے جلدی سے  فریش ہونے کو چلی گئی  نایاب بیگم نے اسے تاکید کی کہ ملاقات کے بعد جلدی واپس گھر آ جائے،

وہ فریش ہو کر آگئی اس نے سرخ رنگ کا سوٹ زیب تن کیا تھا  کالے اور لمبے گھنے بال جو کہ اسکی کمر کو چھو رہے تھے، گورا گلابی رنگ، لمبی ناک، گلابی ہونٹ، اور ہونٹ کے نیچے چھوتا سا کالا تل ،کالی کالی  آنکھیں اور ان پر لمبی لمبی گہنی پلکیں، انمول نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیا، اور آنکھوں میں کاجل لگایا ،، 

وہ سادگی پسند تھی اسے عام لڑکیوں کی طرح میک اپ وغیرہ جیسی چیزوں سے لگاؤ نہیں تھا ، مگر اللہ نے اسے قدرتی حسن بہت عمدہ دیا تھا کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ، 

نایاب بیگم نے اسکی نظر اتاری کہ دروازے پر بیل بجی اور نایاب بیگم نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔🍃

اگلی قسط 11 جولائی کو آئے گی ۔

اس قسط پر تبصرہ کرنے کے لیے آپ رائٹر صاحبہ سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔

رائٹر نور ے صباء کا موبائل نمبر 

03116658711

Post a Comment

6 Comments

  1. ماشاءاللہ بہت خوب

    ReplyDelete
  2. ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ

    ReplyDelete
  3. خوب بہت بہت۔♥️♥️♥️🌹

    ReplyDelete
  4. میرا عشق تو میرا خدا ہے۔۔❤️❤️❤️

    ReplyDelete