محبت سانحہ ٹھہری
ناول نگار وجیہہ جاوید
آخری قسط
زوبیہ آئینے کے سامنے کھڑی ہے ساحر کی تمام باتیں اس کے دماغ میں گونج رہی ہیں وہ زور زور سے چیختی ہے
ہاں میں اسی قابل ہوں میں ایسی ہی ذلت کے لائق تھی وہ اپنے کمرے کی چیزیں توڑنے لگ جاتی ہے اور بیہوش ہوکر گر جاتی ہے
زوبیہ کے گھر والے دعوت سے واپس آ جاتے ہیں زوبیہ کی ماں زوبیہ کو آواز دیتی ہے کوئی جواب نہ پا کر وہ ذوبیہ کے کمرے کی طرف جاتی ہیں
خیر ہو زوبیہ جواب کیوں نہیں دے رہی
کمرے کی حالت دیکھ کر وہ چیخنے لگ جاتی ہیں آصف صاحب کمرے میں آتے ہیں اور تشویش کے عالم میں ذوبیہ کا بازو پکڑ تے ہیں نبض چل رہی ہے زوبیہ کو کچھ نہیں ہوا وہ ٹھیک ہو جائے گی وہ آمنہ کو حوصلہ دیتے ہیں ۔
میری بیٹی کو کیا ہوا ہے ڈاکٹر صاحب؟؟
ابتدائی طور پر تو یہی لگ رہا ہے کہ اسے شدید صدمہ پہنچا ہے اب اس کی نوعیت کا اندازہ آپ کو ہونا چاہیے اس کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ہے زوبیہ کی ماں یہ بات سن کر سکتے میں چلی جاتی ہے
After few days...
زوبیہ کو ہوش آ جاتی ہے وہ اپنی ماں کو بلاتی ہے اس کی ماں اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتی ہے ماما اسی قابل ہوں کے مجھے اسی طرح ذلیل کیا جائے میں محبت کے قابل نہیں تھی۔ اس نے ترس کھا کر بھی مجھ سے محبت نہ کی۔
نہیں بیٹا ایسی بات نہیں تم بہت اچھی ہو زوبیہ کی ماں روتے ہوئے سے کہتی ہے ۔
نہیں ماما اتنی اچھی ہوتی تو آج دلہن بن کے اس کے گھر بیٹھی ہوتی ۔میں ایک بدکردار لڑکی ہو ں جس کی خالص محبت کی بھی کسی کی زندگی میں کوئی ویلیو نہیں ہاں میں بدکردار ہوں
کوڑے کو اپنی اوقات کی جگہ پر ہی رہنا چاہیے وہ کبھی کسی کے گھر کو عزت نہیں دے سکتا میں وہی کوڑا ہو ں ایک ٹشو پیپر جس کو استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے ۔
زوبیہ کی ماں اس کی تمام باتیں سن کر پھوٹ کر رونے لگتی ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ساحر ایک لڑکی کو فیک اکاؤنٹ سے فرینڈ ریکویسٹ بھیجتا ہے اس کے چہرے پر وہی شیطانی مسکراہٹ ہے ۔
Aftr few years
زوبیہ کی ڈائری سے ایک ورق
کیا تم نے انگلیوں کی پوروں سے کبھی کسی کو تکیوں پر کہانیاں بْنتے دیکھا ہے میں بْنتی ہوں اپنے اور تمہارے ساتھ گزارے گئے ایک ایک لمحے کی کہانی تمہارے کیے گئے ہر جھوٹے وعدے کو پھر سے ازبر کرتی ہوں ۔۔۔۔۔
"میری جان تم ہی تو میری زندگی کا حاصل ہو"
یہ آخری جملہ لکھتے لکھتے میں اپنی انگلیاں زخمی کر بیٹھتی ہوں اور پھر اسی تکیے میں سر دے کے پہروں چیختی رہتی ہوں۔ ۔۔ میرے سر سے وحشتوں کا غبار ہٹنا شروع ہو جاتا ہے میں ہلکی ہو جاتی ہوں۔ ۔۔ مگر اس کیفیت کے بعد میرا چہرہ نہ جانے کتنے دنوں تک ان تلخ یادوں کی سیاہی سے پھیکا پڑا رہتا ہے۔۔۔۔
خوش فہمیوں کے وہ تمام عطرجو تمہارے ساتھ گزارے کے سالوں کے دوران میں بھر بھر کے خود پر انڈیلتی آئی تھی مجھے لگتا ہے انہوں نے میرے میرے دماغ کو ماوُف کیا تھا۔ ۔۔وہ خالی شیشیاں میری بے بسی پر قہقہے لگاتی ہیں اور میں پھر اندھے کنویں میں جا گرتی ہوں۔۔۔۔
میں نے کئی ماہ پہلے تمہیں دانستہ طور پر اپنی دعاؤں سے نکال دیا ہے سوچو تو یہ کتنے خسارے کی بات ہے۔۔۔تم میری باتوں پر ہنس رہے ہو مزید ہنسو تمہاری ہنسی تمہیں دیوانہ بنا دے گی ۔۔۔یہ بے چارگی کی ہنسی میں بھی کئی سالوں ہنستی آئی ہوں یہ یہ قہقہے روح میں کیسے ابلے ڈالتے تمہیں مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ بس سمجھ لو میں اپنے حصے کی سزا کاٹ چکی ہوں اب تمہاری باری ہے۔۔۔۔
تم ہی تو مجھے کہتے تھے محبتوں میں دوریاں بے وفائیاں محبتوں کو گہرا کر دیتی ہیں یہ سب محبت کے لوازمات ہمیں تمہاری باتوں پرمیں تب بھی حیرت زدہ تھی اور اب بھی ششدہ ہوں ۔۔۔۔
اب اس محبت کے گہرے رنگوں سے میں تمہارے وجود کو بھیگتا دیکھنا چاہتی ہوں اور تم بھیگ رہے ہو ۔۔۔پریشان مت ہو یہ رنگ سوکھ کر اور چڑھے گا تم اپنی جان بچاتے پھرو گے اس رنگ سے
"یہ محبتوں کے نہیں وحشتوں اور ویرانیوں کے رنگ ہیں"
یہ بات تم مجھے سمجھا رہے ہو؟؟! تم نے بھی نہ مجھے بالکل ہی نادان سمجھ لیاہے۔۔۔ اتنی سمجھ تو ہے مجھ میں کہ یہ مکافات عمل ہے ۔۔۔۔یہ بات مجھے مت سمجھاؤ میں ان عذابوں سے گزر کے کندن بن گئی ہوں اور اب تمہیں بنتا دیکھو ں گی یہ محبت کے لوازمات تمھاری جھولی میں بھر بھر کی آئیں گے محبتوں میں حاصل ہونے والے تمام خساروں سے اب لطف اٹھاؤ میں بھی ویسے ہی تمہیں جلتے انگاروں پر رقص کرتا دیکھنا چاہتی ہوں جن پر تم مجھے میری محبت و خلوص کو منہ پر مار کے۔۔۔ میرے غرور کو چھین کر گئے تھے۔۔۔ دیکھو میں مری نہیں ہوں سہہ گئی ہوں مگر میرا سہنا تمہارا کتنا نقصان کر گیا تم ساری زندگی محبتوں کے خسارے کو پورا نہ کر سکو گے۔۔۔کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ یکطرفہ محبت کرنے کا ظرف خدا کے سوا کسی کے پاس نہیں میں اس خدائی صفت کی مالک عورت نہیں ہو ں۔ ۔۔اب تمہارے کیے گئے محبت کے جھوٹے دعوُوں اور وعدوں کو سوچتی ہو تو خود پر ہنس پڑتی ہوں نہ جانے کیوں لڑکیاں کچی عمر میں اس قدر نادان ہوتی ہیں ۔۔۔۔
0 Comments