Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Peer Zadi | Episode 14 | By Waheed Sultan - Daily Novels

 


 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

 

 

 


 

پیرزادی

 

شہر کے پوش ایریا میں چھوٹے درجے کا یہ انتہائی خوبصورت فلیٹ تھا جس کے مین گیٹ کے سامنے سالار مغل کا دوست دانیال کھڑا تھا۔ مین گیٹ کے ساتھ ملحقہ چھوٹا دروازہ کھلا تو دانیال فورا اندر داخل ہو گیا۔ قطب نے چھوٹا دروازہ بند کیا اور دانیال کا راستہ روک لیا۔

۔"اب کیا چاہتی ہو؟"دانیال نے اپنے دائیں اور بائیں جانب پودوں کی کیاریوں اور گلدانوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

۔"مشال سیما چاہتی ہے کہ ملاقات کے دوران تمہارا فون تمہارے پاس نہیں ہونا چاہیے۔"قطب نے کہا اور اپنی ہتھیلی اسکی جانب بڑھا دی۔ دانیال نے ایک نظر قطب کے چہرے کو دیکھا اور پھر اپنا موبائل فون اسکی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ اب وہ راہداری کی دائیں جانب پھولدار پودوں کی جانب بڑھا۔

۔"مشال سیما نے خود مجھے ملاقات کے لیے بلایا ہے تو ایک پھول بطور تحفہ تو بنتا ہے نا۔"دانیال گلاب کا پھول توڑتے ہوئے بولا تو قطب کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔

اپارٹمنٹ کے مدخل(مین اینٹرنس) سے گزرنے کے بعد دانیال ایک کوریڈور میں داخل ہوا اور پھر کوریڈور کے آخری سرے پر بائیں جانب کی راہداری کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ دائیں جانب والی راہداری سے گزرتا ہوا اس کمرے میں جا پہنچا جہاں پر مشال سیما اسکی منتظر تھی۔

قطب اب بھی باغیچے کے درمیان میں موجود تھی۔ قطب نے دانیال کے فون سے سالار مغل کا نمبر ڈائل کیا۔ سالار مغل نے فون اسکرین پر دانیال کا نمبر دیکھا تو اس نے فورا کال اٹینڈ کی مگر فون پر قطب کی آواز سن کر وہ ششدر رہ گیا اور اسکی حیرت میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب قطب نے اسے بتایا کہ اس کا دوست دانیال مشال سیما سے ملاقات کر رہا ہے اور ملاقات کے دوران دانیال مشال سیما کو دوستی کے لیے پرپوز کرے گا۔ قطب نے سالار کو مزید اس جگہ کا پتہ بھی بتا دیا جہاں پر مشال سیما اور دانیال کی ملاقات طے تھی اور پھر کال منقطع کر دی۔ قطب کو یقین تھا کہ سالار مغل اپنے دوست کو مشال سیما کے ساتھ ملاقات کرتے ضرور دیکھنا چاہے گا اور جب وہ یہاں آئے گا تب وہ سالار مغل کو اغوا کرنے والے منصوبے پر عمل کرے گی۔ وہ من ہی من میں خوش ہو رہی تھی کہ آج جب سالار مغل اسکی گرفت میں ہو گا تو وہ اس سے اپنے سارے بدلے لے گی اور اپنا حساب چکتا کرے گی۔

☆☆☆☆

بند کمرے میں دانیال اور مشال سیما کی ملاقات جاری تھی۔ دانیال مشال سیما کو دوستی کے لیے پرپوز کرنے ہی والا تھا کہ مشال سیما پہلے ہی اس پر واضح کر چکی تھی کہ وہ سالار مغل کا دوست ہے اور سالار مغل کے ساتھ مشال سیما کی نو گیارہ چل رہی ہے اس لیے وہ دانیال کے ساتھ کسی قسم کا تعلق قائم نہیں کر سکتی۔ دانیال اب منت سماجت کرنے لگا تھا۔ اس نے مشال سیما کو یہ پیشکش بھی کی کہ اگر وہ اس کا دوستی کا پرپوزل قبول کر لے تو وہ سالار مغل سے دوستی ختم کر دے گا مگر مشال سیما نے دو ٹوک انداز میں اس کی پیشکش ٹھکرا دی اور کمرے سے چلی گئی۔ مشال سیما کے جانے بعد قطب کمرے میں آ گئی تھی۔ جیسے ہی قطب نے دروازہ اندر سے لاک کیا تو مشال سیما دروازے کے باہر کھڑی ہو گئی۔ وہ دروازے کے ساتھ کان لگا کر دانیال اور قطب کی باتیں سننے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ کافی حد تک دونوں کی گفتگو سننے میں کامیاب رہی۔ جیسے ہی اسے لاک کھلنے کی آواز سنائی دی تو مشال سیما تیز تیز قدموں سے کوریڈور کی طرف بڑھ گئی اور جب تک دانیال اور قطب ایک ساتھ کمرے سے نکلے تھے تب تک وہ مدخل میں پہنچ چکی تھی۔ اس نے ابھی تک جو کچھ سنا تھا وہ پر اس پر حیران اور ششدر تھی کہ دانیال آیا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے گزر گیا۔ اگلے ہی لمحے قطب آئی اور مشال کو کلائی سے پکڑ کر اسی کمرے میں لے گئی جہاں پر کچھ دیر پہلے دانیال سے اسکی ملاقات ہوئی تھی۔ قطب نے مشال سے پوچھا کہ دانیال اس کے کان میں کیا کہہ کر گیا ہے تو مشال نے جوابا قطب کو بتایا کہ دانیال اسے دھمکی دے کر گیا ہے۔ مشال کی بات سن کر قطب نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو مشال نے اسے بتایا کہ دانیال نے سرگوشیانہ انداز میں مجھے یہ دھمکی دی ہے کہ اسکی دوستی والی پیشکش ٹھکرانے پر مجھے بہت پچھتانا پڑے گا۔

۔"مطلب سالار کے بعد اب دانیال بھی تمہارا دشمن بن گیا تو اب تمہیں سیلف ڈیفنس ٹریننگ کی ضرورت ہے۔"قطب اسکی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔

۔"مطلب؟"مشال سیما نے قطب کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

۔"میں تمہیں سیلف ڈیفنس کی ٹریننگ دوں گی۔"قطب نے کہا۔

۔"دانیال نے تمہیں جو طعنہ دیا کہ تم بہت بڑی چور ہو اس کا کیا مطلب ہے قطب!"مشال سیما قطب کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے بولی۔

۔"کیا تم میری اور دانیال کی باتیں سن رہی تھی؟"مشال سیما کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے قطب نے کرخت مگر دھیمے لہجے میں سوال داغا تو مشال سیما نے اثبات میں سر ہلایا جس پر قطب حیرت زدہ ہو گئی۔

۔"تم نے اسے دوبارہ دوستی کے لیے پرپوز کیا مگر اس نے یہ کہہ کر تمہارا پرپوزل ٹھکرا دیا کہ تم چور ہو ، کیا وہ درست کہہ رہا تھا؟"مشال سیما نے کہا تو قطب اسے صوفے کے پاس لے گئی اور اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔

۔"تم میری دوست ہو اور تم سے کچھ نہیں چھپاؤں گی لیکن فی الحال ایک پرانی لمبی داستان کی بجائے ہمیں ایک اور موضوع پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔"قطب نے تحمل آمیز انداز میں کہا اور مشال سیما کی توجہ کسی دوسرے موضوع پر مبذول کروانے کی کوشش کی۔

۔"تم دانیال کو اغوا کرنا چاہتی تھی تو پھر اسے کیوں جانے دیا؟"مشال سیما نے قطب سے پوچھا۔

۔"جب کسی کی جانب دل مائل ہو جاتا ہے تو پھر انسان چاہ کر بھی اس کے ساتھ برا نہیں کر سکتا۔"قطب افسردہ ہوتے ہوئے بولی۔

۔"تو کیا سالار مغل اغوا ہو گیا؟"مشال سیما نے نیا سوال داغا تو قطب نے نفی میں سر ہلایا۔

۔"میں نے شرافت صاحب سے ملاقات کر کے اپنے سوالات کے جوابات لینے تھے مگر تمہارے کہنے پر میں نے وہ ملاقات موخر کی ۔ ۔ ۔ ۔"مشال سیما نے تیکھے لہجے میں کہا اور بات ادھوری چھوڑ دی۔

۔"شرافت کو آج کا دن انتظار کرنے دو۔"قطب نے جوابا کہا۔

۔"تم کر کیا رہی ہو؟"مشال سیما تپ کر بولی۔

۔"مشال! پرسکون ہو جاؤ اور میری بات غور سے سنو۔"قطب نے مشال سیما کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو مشال سیما نے گہری سانس لی اور پھر دوبارہ قطب کی جانب متوجہ ہوئی۔

۔"دانیال جب تم سے ملاقات کے لیے آ رہا تھا تو میں نے اس سے اسکا فون لے لیا تھا اور پھر اسی کے نمبر سے سالار مغل کو فون کر کے بتایا کہ اس کا دوست دانیال تم سے ملاقات کے لیے آیا ہے ، پھر میں نے اسے یہاں اس کوٹھی کا پتہ بھی بتایا تاکہ وہ تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھنے کے لیے یہاں آئے گا اور میں اسے اغوا کر کے کسی کمرے میں بند کر دوں گی لیکن جیسا میں نے سوچا تھا ویسا نہ ہو سکا ، سالار مغل یہاں آیا ہی نہیں اور یوں میرا سارا منصوبہ ناکام ہو گیا۔"قطب نے تیز تیز بولتے ہوئے ساری تفصیل بتا دی۔

۔"اب تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟"مشال سیما نے پوچھا۔

۔"میں سالار مغل کو اچھی طرح جانتی ہوں ، وہ غلطی ضرور کرے گا ، اب وہ دانیال کو اپنے پاس بلائے گا اور دونوں کے درمیان جھگڑا ہو گا اور اسی جھگڑے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں سالار مغل کو اغوا کر کے یہاں اسی کوٹھی میں لے آؤں گی۔"قطب نے مشال سیما کو اپنے نئے پلان کے بارے میں بتایا۔

۔"تم بہت عجیب ہو ، کیسے یہ سب سوچ لیتی ہو؟"مشال سیما نے ایک سوال داغا۔

۔"میں ایسی ہی ہوں لیکن مجھے خوشی ہے مجھے تم جیسی انمول دوست مل گئی۔"قطب مسکراتے ہوئے مشال سیما سے مخاطب ہوئی۔

۔"اچھا تو اس فلیٹ کے بارے میں کیا کہو گی جس میں اس وقت ہم موجود ہیں۔"مشال سیما نے اطراف میں نظریں گھماتے ہوئے پوچھا۔

۔"یہ فلیٹ میرے کسی رشتہ دار کی ملکیت ہے ، وہ اپنی فیملی کے ہمراہ کینیڈا میں مکین ہیں اور سال بھر میں صرف ایک ماہ کے لیے ہی اپنی فیملی کے ہمراہ آتے ہیں ، میں نے اپنے طور پر اس فلیٹ کا نام قطبی ہاؤس رکھا ہوا ہے اور جب سے میرے پاپا نے مجھے عاق کیا ہے تب سے میں نے یہاں پر اپنی رہائش رکھی ہے۔"قطب مشال سیما کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فلیٹ کے بارے میں ساری تفصیل بتا چکی تھی۔

۔"تمہیں تمہارے پاپا نے عاق کیوں کیا تھا؟"مشال سیما نے پوچھا۔

۔"میرے خیال میں سالار مغل اور دانیال کا جھگڑا شروع ہو چکا ہو گا اور موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مجھے تمہاری اور تمہاری گاڑی کی ضرورت پڑے گی۔"قطب مشال سیما کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے بولی اور پھر سر کو جنبش دے کر وہاں سے جانے کے لیے اشارہ کیا تو مشال سیما اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئی۔

☆☆☆☆

قطب مشال سیما کو کسی گاؤں کے اسی مکان میں لے گئی جہاں پچھلی بار سالار مغل اور مشال سیما کا جھگڑا ہوا تھا۔ قطب کا اندازہ درست تھا۔ سالار مغل اور دانیال دونوں دست و گریباں تھے۔ قطب کے ہاتھ میں پستئی رنگ کے دو رومال تھے جن پر وہ پہلے ہی کلوروفام لگا چکی تھی۔ اس نے ایک رومال مشال سیما کی جانب بڑھایا اور پھر وہ دونوں محتاط انداز میں اندر داخل ہوئیں۔ جب سالار مغل اور دانیال کو ان دونوں کی آمد کا احساس ہوا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اگلے چند لمحوں کے دوران سالار مغل اور دانیال بے ہوش ہو چکے تھے۔ مشال سیما کو ایک بار پھر حیرت ہوئی جب قطب سالار مغل کو تو ساتھ لے کر جا رہی تھی مگر دانیال کو ایک بار پھر وہ اسے چھوڑ کر جا رہی تھی اور اس بار پھر مشال نے سوال پوچھا کہ کیا وہ دانیال کو اغوا نہیں کرے گی تو جواب میں قطب نے نفی میں سر ہلا دیا۔

☆☆☆☆

آج جمعرات کا دن تھا ۔ نور بنت نذیر مسند پر براجمان تھی جبکہ فرش پر بچھے قالین پر چند عورتیں اور دو بچیاں براجمان تھیں۔ نور نے بسم اللہ شریف سے آغاز کیا اور پھر رطب اللسان بولتے ہوئے دعا کی اہمیت و فضیلت بیان کرنا شروع کر دی۔

دعا اللہ رب العزت سے مناجات کرنے ، اس کی قربت حاصل کرنے ، اس کے فضل و کرم کا مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت حاصل کرنے کا نہایت آسان اور مجرب ذریعہ ہے۔

دعا نبی کریم حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت ، اللہ کے پسندیدہ بندوں کی بہترین عادت اور اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت و سعادت ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیزدعا سے بزرگ تر نہیں۔ دعا مسلمانوں  کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کا نورہے۔ دعا مصیبت وبلا کو اترنے نہیں  دیتی۔دن رات اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا دشمن سے نجات اور رزق وسیع ہونے کا ذریعہ ہے۔ دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ (اپنے علم و قدرت سے) دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔

جو بلا اتر چکی اور جو نہیں  اتری ،دعا ان سے نفع دیتی ہے۔ دعا عبادت کا مغز ہے۔ دعا رحمت کی چابی ہے۔ دعا قضا کو ٹال دیتی ہے۔ دعا اللہ تعالیٰ کے لشکروں  میں  سے ایک لشکر ہے۔ دعا بلا کو ٹال دیتی ہے۔ جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ جب بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ لَبَّیْکَ عَبْدِیْ فرماتا ہے۔دعا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  قدر و منزلت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔

چند مفسرین نے دعا قبول ہونے کی چندشرائط ذکر فرمائی ہیں  ،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے،

دعا مانگنے میں  اخلاص ہو۔ دعا مانگتے وقت دل دعاکے علاوہ کسی اور چیزکی طرف مشغول نہ ہو۔ جو دعا مانگی وہ کسی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہو جو شرعی طور پر ممنوع ہو۔ دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو۔ اگر دعا کی قبولیت ظاہر نہ ہو تووہ شکایت نہ کرے کہ میں  نے دعا مانگی لیکن وہ قبول نہ ہوئی۔

جب ان شرطوں  کو پورا کرتے ہوئے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول ہوتی ہے اور یاد رہے کہ جو دعا تمام شرائط و آداب کی جامع ہو تو اس کے قبول ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں  ہے کہ جو مانگا وہ مل جائے بلکہ اس کی قبولیت کی اور صورتیں  بھی ہو سکتی ہیں  مثلاً اُس دعاکے مطابق گناہ معاف کر دئیے جائیں  یا آخرت میں  اس کے لئے ثواب ذخیرہ کر دیا جائے ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ بندہ اپنے رب سے جو بھی دعا مانگتا ہے ا س کی دعا قبول ہوتی ہے، (اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یا تو اس کی مانگی ہوئی مراد دنیا ہی میں  اس کو جلد دے دی جاتی ہے ،یا آخرت میں  اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا دعا کے مطابق اس کے گناہوں  کا کفارہ کردیا جاتا ہے اور اس میں  شرط یہ ہے کہ وہ دعا گناہ یا رشتہ داری توڑنے کے بارے میں  نہ ہو اور (اس کی قبولیت میں ) جلدی نہ مچائے ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:وہ جلدی کیسے مچائے گا ؟ارشاد فرمایا: ’’اس کا یہ کہنا کہ میں  نے دعا مانگی لیکن قبول ہی نہ ہوئی (یہ کہنا ہی جلدی مچانا ہے)۔( ترمذی، احادیث شتّی، ۱۳۵-باب، ۵/۳۴۷، الحدیث: ۳۶۱۸)

 

اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنی رحمت سے بندوں  کی دعائیں  قبول فرماتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں  کہ بعض اوقات ہماری مانگی ہوئی دعائیں  قبول نہیں  ہوتیں  ،اس کے کچھ اَسباب ہوتے ہیں  جنہیں  بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ نقی علی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :

اے عزیز!اگر دعا قبول نہ ہو تو (تجھے چاہئے کہ) اسے اپنا قصور سمجھے ،خدائے تعالیٰ کی شکایت نہ کرے (کیوں ) کہ اس کی عطا میں  نقصان (یعنی کوئی کمی) نہیں ، تیری دعا میں  نقصان (یعنی کمی) ہے۔ اے عزیز!دعا چند سبب سے رد ہوتی ہے:

پہلا سبب:کسی شرط یا ادب کا فوت ہونا اور یہ تیرا قصور ہے ،اپنی خطا پر نادم نہ ہونا اور خدا کی شکایت کرنا نِری بے حیائی ہے ۔

دوسرا سبب: گناہوں سے تَلَوُّث (یعنی گناہوں  میں  مبتلا رہنا)۔

تیسرا سبب:اِسْتِغنائے مولیٰ۔وہ حاکم ہے محکوم نہیں ،غالب ہے مغلوب نہیں  ،مالک ہے تابع نہیں  ،اگر (اس نے) تیری دعا قبول نہ فرمائی (تو) تجھے ناخوشی اور غصے، شکایت اور شکوے کی مجال کب ہے ،جب خاصوں  کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب چاہتے ہیں  عطا کرتے ہیں  ،جب چاہتے منع فرماتے ہیں  تو تُو کس شمار میں  ہے کہ اپنی مراد (ملنے ہی) پر اِصرار کرتا ہے ۔

چوتھا سبب:حکمت ِ الٰہی ہے کہ کبھی تو براہِ نادانی کوئی چیز اس سے طلب کرتا ہے اور وہ براہِ مہربانی تیری دعا کو اس سبب سے کہ تیرے حق میں  مُضِر (یعنی نقصان دِہ) ہے، رد فرماتا ہے (اور اسے قبول نہیں  فرماتا)، مثلاً:تو جویائے سِیم و زَر (یعنی مال و دولت کا طلبگار) ہے اور اس میں  تیرے ایمان کا خطر (یعنی ایمان ضائع ہوجانے کا ڈر) ہے یا تو خواہانِ تندرستی وعافیت (یعنی ان چیزوں  کا سوال کرتا) ہے اور وہ علمِ خدا میں  مُوجبِ نقصانِ عاقبت (یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ تیرے اُخروی نقصان کا باعث) ہے، ایسا رد ،قبول سے بہتر (یعنی ایسی دعا کو قبول کئے جانے کی بجائے رد کر دیناہی بہتر ہے)۔

پانچواں  سبب:کبھی دعا کے بدلے ثوابِ آخرت دینا منظور ہوتا ہے، تو حُطامِ دنیا (یعنی دنیا کاساز وسامان) طلب کرتا ہے اور پروردگار نفائسِ آخرت (یعنی آخرت کی عمدہ اور نفیس چیزیں ) تیرے لیے ذخیرہ فرماتا ہے، یہ جائے شکر (یعنی شکر کا مقام) ہے نہ (کہ) مقامِ شکایت۔

دعا کی اہمیت و فضیلت بیان کرنے کے بعد نور بنت نذیر نے جن الفاظ میں مختصر دعا مانگی وہ کچھ یوں تھے۔

اے مالکِ 'کن فیکون ، اے الّلہ

بیشک 'تو ہی ہر شۓ پر قادر ہے ۔

ہمیں عطاء فرما ;

شِفاء و سلامتی , حلال و 'کشادہ رِزق ، صبر و اِستقامت , اولادِ صالح اور والدین و اساتذہ کی خدمت و اِطاعت کی توفیق ۔

ہماری مدد فرما

" اطيع الله و اطيع الّرسول " پر عمل پیرا ہونے میں ۔

نازل فرما

رحمتیں و برکتیں ہمارے گھر ، روزگار اور کاروبار میں ۔

خاتمہ فرما

ہماری تمام تکالیف ، پریشانیوں اور 'مشکلات کا اور

'معاف فرما دے

ہماری تمام کوتاہیوں اور 'گناہوں کو ۔

آمین

یا ربِّ ذوالجلال !

اللہ تعالیٰ ہمیں  کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

☆☆☆☆

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے۔ سورة المومن کی آیت نمبر ساٹھ میں اللہ عز و جل نے دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے

ترجمہ:اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں  تمہاری دعا قبول کروں  گا۔

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :یہ بات ضروری طور پر معلوم ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے ہی نفع پہنچے گا اس لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں  مشغول ہونا انتہائی اہم کام ہے اور چونکہ عبادات کی اَقسام میں  دعا ایک بہترین قِسم ہے ا س لئے یہاں  بندوں  کو دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۹/۵۲۷)

اس آیت میں  لفظ ’’اُدْعُوْنِیْۤ ‘‘ کے بارے میں  مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دعا کرنا ہے۔اس صورت میں  آیت کے معنی ہوں  گے کہ اے لوگو! تم مجھ سے دعا کرو میں  اسے قبول کروں  گا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد’’ عبادت کرنا ‘‘ ہے ،اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ تم میری عبادت کرومیں  تمہیں  ثواب دوں  گا۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۹/۵۲۷، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۳۹۵، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۱۰۶۳، ملتقطاً)

 

 

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا مانگنی چاہئے ،کثیر اَحادیث میں  بھی دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے،یہاں  ان میں  سے دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’دعا ان مصیبتوں  میں  نفع دیتی ہے جو نازل ہو گئیں  اور جو ابھی نازل نہیں  ہوئیں  ان میں  بھی فائدہ دیتی ہے ،تو اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔( مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء ینفع ممّا نزل وممّا لم ینزل، ۲/۱۶۳، الحدیث: ۱۸۵۸)

(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو آدمی اللہ تعالیٰ سے سوال نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۲-باب منہ، ۵/۲۴۴، الحدیث: ۳۳۸۴)

☆☆☆☆

جاری ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہماری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ناولز کے تمام جملہ و حقوق بمعہ مصنف / مصنفہ محفوظ ہیں ۔ انہیں ادارے یا مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہ کیا جائے ۔ ایسا کرنے پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ ہمیں پہلی اردو ورچوئل لائبریری کے لیے لکھاریوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ ہماری لائبریری میں اپنا ناول ، ناولٹ ، ناولہ ، افسانہ ، کالم ، مضمون ، شاعری قسط وار یا مکمل شائع کروانا چاہتے ہیں تو اردو میں ٹائپ کر کے مندرجہ ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بھیج دیجیے ۔

UrduVirtualLibraryPK@gmail.com

+923114976245

ان شاءاللہ آپ کی تحریر ایک ہفتے کے اندر اندر ویب سائٹ پر شائع کردی جائے گی ۔ کسی بھی قسم کی تفصیلات کے لیے اوپر دیے گیے ذرائع پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

شکریہ

ادارہ : اردو ورچوئل لائبریری

۔

 

Post a Comment

0 Comments