Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Peer Zadi Episode 15 By Waheed Sultan - Daily Novels

 ناول:پیر زادی 

مصنف:وحید سلطان

قسط 15

مشال سیما گلفام مغل کے دوست شرافت شرفی سے ملاقات کرنے کے بعد وہ قطب سے ملاقات کے لیے اسی فلیٹ میں آ چکی تھی جس فلیٹ میں قطب رہتی تھی اور اس فلیٹ کو قطب نے قطبی ہاؤس کا نام دے رکھا تھا۔ قطب مشال کو لاؤنج میں لے گئی اور وہاں صوفے پر بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔

۔"کیا تمہیں شرافت سے تمہارے سوالوں کے جواب میں مل گئے؟"قطب نے متجسس لہجے میں پوچھا تو مشال سیما نے ہاں میں جواب دیا۔

۔"اب مجھے تم سے اپنے سوالوں کے جواب لینے ہیں۔"مشال سیما نے قطب سے کہا تو قطب نے کہا کہ وہ اس کے ہر سوال کا جواب دے گی لیکن پہلے وہ جاننا چاہتی ہے کہ شرافت نے مشال سیما کے سوالوں کے کیا جوابات دئیے۔

۔"انہوں نے بتایا کہ گلفام صاحب میری ماں فہمیدہ کا سابقہ شوہر ہے اور وہ میری صورت و شکل میں میری ماں کو تصور کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی مجھے دیکھتے ہیں تو وہ میری ماں کے تصورات میں گم ہو جاتے ہیں اور پھر جب انہیں میری ماں کی بے وفائی یاد آتی ہے تو انہیں گہرا صدمہ ہوتا ہے۔"مشال سیما نے قطب کو بتایا۔

۔"مطلب وہ تمہارے اندر تمہاری ماں کو تلاش کرتے ہیں؟"قطب استفہامیہ انداز میں بولی تو مشال نے اثبات میں سر ہلایا۔

۔"اب مجھے سمجھ آئی کہ جب بھی وہ مجھے کوئی قیمتی تحفہ دیتے تھے تو دراصل وہ تصوراتی دنیا میں گم ہو کر وہ تحفہ مجھے نہیں بلکہ اپنی بے وفا بیوی کو دیتے تھے وہ نامراد اور بے وفا بیوی جو میرے بابا جیسے جعلی پیر کے عشق میں ۔ ۔ ۔ ۔"مشال سیما نے قطب کو بتایا اور آخری جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

۔"ویسے حیرت کی بات ہے ، کوئی شخص بے وفائی کرنے والی عورت سے جنونیت کی حد تک محبت کرتا ہو۔"قطب متحیر لہجے میں بولی۔

۔"میری ماں نے ایک رحمدل اور صاحب علم کی بجائے ایک ظالم اور جاہل انسان کا انتخاب کیا جو کہ بہت بڑی حماقت تھی۔"مشال سیما افسردہ لہجے میں بولی۔

۔"میں نے سنا ہے کہ گلفام صاحب کا دوست شرافت شرفی اگلی ملاقات میں تمہیں گلفام کی ڈائری دے گا۔"قطب نے کہا تو مشال سیما نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا کہ اس نے یہ بات کس سے سنی؟

۔"تم چھپ کر میری دانیال کی باتیں سن سکتی ہو تو کیا میں تمہاری اور شرافت شرفی کی گفتگو نہ سنتی؟"قطب نے استفہامیہ انداز میں بولتے ہوئے شکوہ سا کیا جس پر مشال سیما نے منہ بنا لیا۔

۔"دراصل میں تمہارے گفتگو سننے کے لیے وہاں نہیں گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔"قطب نے کہا اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا تو مشال سیما اس سے پوچھنے ہی والی تھی کہ وہ وہاں کیوں گئی تھی جہاں مشال سیما شرافت شرفی سے ملاقات کے لیے گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ مشال سیما قطب سے کوئی سوال پوچھتی تو مشال سیما کا فون بج اٹھا۔ فون اسکرین پر نور بنت نذیر کا نام نمودار تھا۔ فون پر مختصر گفتگو کے بعد مشال نے کال منقطع کی اور قطب کو بتایا کہ نور لاہور آ رہی ہے۔ مشال سیما ساری باتیں بھول کر نور کے استقبال کی تیاری کرنے لگی۔

☆☆☆☆

مشال سیما نور بنت نذیر کو اسی فلیٹ ہاؤس میں لے آئی تھی جہاں پر قطب رہائش پذیر تھی۔ دونوں کے مابین رسمی گفتگو جاری تھی جبکہ قطب کھانا لانے کے سلسلے میں بازار چلی گئی تھی۔

۔"تم کچھ پریشان لگ رہی ہو ، تمہارا چہرہ کیوں اترا ہوا ہے؟"رسمی گفتگو کے بعد نور بنت نذیر نے مشال سیما سے پوچھا تو مشال سیما نے اسے بتایا کہ وہ آج گلفام مغل کے دوست شرافت شرفی سے ملاقات کر کے آئی ہوں اور اس نے ایسے راز بتائے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کس پر بھروسہ کروں اور کس پر نہ کروں۔

۔"گلفام صاحب میری والدہ کا سابقہ شوہر ہے اور والدہ کو مجھ میں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے ، شرافت شرفی کا کہنا ہے کہ مجھے دیکھ کر گلفام صاحب کو شدید صدمہ ہوتا ہے اور مجھے گلفام صاحب کے سامنے جانے سے گریز کرنا چاہیے۔"مشال سیما نے نور کو بتایا۔

۔"اور کیا کچھ بتایا شرافت شرفی نے؟"نور بنت نذیر نے پوچھا۔

۔"اس نے وہ راز بھی بتا دیا کہ جب میرے والدین مجھے یونیورسٹی بھیجنے کے لیے آمادہ نہ تھے مگر گلفام صاحب نے نہ صرف انہیں میرے ایڈمیشن کے لیے قائل کیا بلکہ انہیں اس بات پر رضامند بھی کیا کہ میں ہاسٹل کی بجائے گلفام صاحب کے بنگلے میں رہائش رکھوں گی۔"مشال سیما نے بتایا تو نور نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

۔"میرے بابا نے فیروزہ خالہ کے شوہر کو قتل کیا تھا اور گلفام صاحب اس قتل کے چشم دیدہ گواہ تھے اور اسی پوائنٹ پر گلفام صاحب میرے بابا کو بلیک میل کر کے اپنی ہر بات منوا لیتے ہیں۔"مشال سیما نے بتایا تو نور لمحہ بھر کے لیے حیران ہوئی اور پھر مشال سیما سے ایک اور سوال پوچھا کہ شرافت شرفی نے اور بھی کوئی بات بتائی ہے تو نور کے سوال پر مشال سیما نے اثبات میں سر ہلایا۔

۔"مجھے اب بابا سے شدید نفرت ہو رہی ہے ، بابا بہت ہی ظالم انسان ہیں۔ ۔ ۔ ۔"مشال سیما نے کہا اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا تو نور مشال کے چہرے کا سرخ رنگ اور اس کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ شرافت نے مشال سیما کو جو تیسری بات بتائی ہے وہ فارس کے متعلق تھی۔

۔"بابا نے بجلی کے جھٹکوں اور نشے کے انجیکشنز کے ذریعے فارس کو پاگل کر دیا تھا اور فارس کی یادداشت کھو گئی تھی۔"مشال سیما نے بتایا اور پھر اس نے رونا شروع کر دیا تھا۔ نور نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی مگر وہ زیادہ شدت کے ساتھ رونے لگی تھی۔

☆☆☆☆

نور بنت نذیر اپنے شوہر امان علی سے ملاقات کے لیے جا چکی تھی اور مشال سیما افسردہ حالت میں صوفے پر بیٹھی تھی جب قطب نے اسے اشارہ کیا کہ میرے ساتھ آؤ اور سالار مغل کی خبر لیں۔ مشال سیما اٹھی اور قطب کے ہمراہ اس کمرے میں چلی گئی جہاں پر سالار مغل کو اغوا کرنے کے بعد اسے مضبوط رسی کے ذریعے ایک پلر کے ساتھ باندھا گیا تھا۔ جیسے ہی مشال سیما اور قطب کمرے میں داخل ہوئیں تو سالار نے انہیں شعلہ بار نظروں سے دیکھا اور اس کے یوں دیکھنے پر وہ دونوں کھکھلا کر ہنس پڑی تھیں اور اگلے چند لمحوں تک وہ دونوں ہنستی چلی گئیں۔

۔"تم دونوں نے دانیال کو اغوا نہ کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔"سالار کرخت لہجے میں بولا تو ان دونوں کی ہنسی رک گئی اور انہوں نے ششدر نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔

۔"بھلے ہی میں اپنی مما سے ناراض ہوں لیکن میری مما ہفتے میں ایک دو بار مجھے دیکھنے ضرور آتی ہیں۔"سالار مغل نے کہا تو مشال سیما نے قطب کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

۔"یہ کس بارے میں بات کر رہا ہے؟"مشال سیما نے قطب سے پوچھا۔

۔"اب جبکہ میں یہاں ہوں اور میری مما مجھے دیکھنے کے لیے آئیں گی اور میں انہیں کہیں نہیں ملوں گا تو وہ میرے بارے میں جاننے کے لیے دانیال سے رابطہ کریں گی۔"سالار مغل نے کہا تو اس کی بات سن کر قطب پریشان ہو گئی جبکہ مشال سیما الجھے انداز میں قطب کو دیکھ رہی تھی۔

۔"میں فون پر دانیال کو دھمکی دے چکی ہوں اور وہ کسی کو کچھ نہیں بتائے گا۔"قطب نے سالار مغل سے کہا۔

۔کیا دھمکی دی تم نے اسے؟"سالار مغل چلا کر بولا تھا اور مشال سیما اب اس کے روبرو کھڑی ہو گئی۔ رسیوں کی بندش سے خود کو آزاد کروانے لیے سالار نے خوب زور لگایا مگر وہ کسمسا کر رہ گیا جبکہ مشال سیما ایک آئیبرو اوپر تک کھینچے اسے دیکھ رہی تھی اور سالار مغل کو یوں بے بس اور لاچار دیکھ کر قطب کو بہت خوشی ہو رہی تھی۔

۔"دانیال نہ بھی بتائے کسی کو پھر بھی میری مما میرا سراغ لگا ہی لیں گی اور اس کے بعد تم دونوں کا انجام بہت برا ہو گا۔"سالار دھمکی خیز لہجے میں بولا۔

۔"تمہاری کرتوتوں کے سبب سدرہ فرہین کا تعلیمی کیرئیر ختم ہو گیا اور نکاح کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ بیرون ملک چلی گئی۔"مشال سیما کرخت مگر دھیمے لہجے میں بولی۔ مشال کی بات سن کر سالار کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے سر پر کوئی بم پھوڑا گیا ہو۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو۔

۔"تم جھوٹ بول رہی ہو۔"سالار تڑپ کر بولا۔

۔"سدرہ جانے سے پہلے رکھا چوہدری پبلیکیشن کے آفس میں میرے نام ایک خط چھوڑ گئی تھی تم چاہو تو ثبوت کے طور پر وہ خط پڑھ سکتے ہو۔"مشال سیما نے سالار مغل سے کہا تو وہ بے اختیار رو پڑا۔

۔"تمہیں جتنی اذیت اور تکلیف زیادہ ہو گی مجھے اسی قدر زیادہ خوشی ہو گی۔"قطب نے مشتعل انداز میں کہا اور پھر آگے بڑھ کر سالار مغل کو تھپڑ رسید کر دیا۔

☆☆☆☆

۔"تمہاری محبت کی اسیر ہو چکی ہوں اور میری چاہتیں اور میری خوشیاں تمہارے خیال اور تمہاری توجہ کی منتظر ہیں۔ میں جس مان سے تمہارے پاس آئی ہوں اے میرے ہمنوا میرا وہ مان رکھ لو تا کہ میں اپنی زندگی کی نئی منزل کی جانب گامزن ہو سکوں۔"نور بنت نذیر اپنے شوہر امان علی سے مخاطب تھی جبکہ وہ ٹکٹکی باندھے نور کو مسحورکن نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

۔"میں زینت النسا صاحبہ کی رہنمائی میں روحانی سفر کا آغاز کرنا چاہتی ہوں اور اس کے لیے شوہر کا راضی نامہ پہلی شرط ہے۔"نور نے امان علی کو بتایا تو وہ نور کے سحر حسن سے باہر آیا اور اس نے پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہی تھی۔ نور نے اپنی بات دوبارہ دہرائی اور زینت النسا صاحبہ کا پیغام امان علی کے گوش گزار کیا۔

۔"ہمارا مذہب شوہر کو مجازی خدا کا درجہ دیتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ پہلے  اپنے شوہر کو راضی کرو ، صرف اسی صورت  میں تمہیں روحانی فیض حاصل ہو سکے گا۔"

۔"زینت النسا صاحبہ ایک برگزیدہ خاتون ہیں اور میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں اور ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم روحانی فیض بھی حاصل کرو۔ ۔ ۔ ۔"امان علی نے کہا اور اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔

۔"مطلب تم میرے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو؟"نور بنت نذیر نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا تو امان علی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

☆☆☆☆

میرے ہمنوا میرے ساتھ چل

میرا درد سن میرا مان رکھ 

تیری  محبتوں کی اسیر ہوں 

میری چاہتوں کا خیال رکھ 

میرے راستے ہیں کٹھن بہت 

میری منزلیں ہیں اداس تم بن  

میری زیست کی جو ہیں تلخیاں 

 آ تیرے رو برو میں کروں  بیان

 مجھے وقت دے میری بات سن 

جو راستے ہیں اجنبی 

میں تنہا ہوں وہاں کھڑی

میری تنہائی کا خیال رکھ 

میرے ہمنوا میرے ساتھ چل

شاعرہ:اک شام سلونی (جیا مغل )

☆☆☆☆

مشال سیما سالار مغل کے لیے کھانا لائی تھی اور اب وہ اس کے ہاتھ کھولنے ہی والی تھی کہ قطب وہاں آ گئی اور اس نے اسے منع کر دیا کہ سالار کو مت کھولو۔

۔"اگر اس بیچارے کے ہاتھ نہ کھولوں تو پھر یہ کھانا کیسے کھائے گا اور اگر کھانا نہیں کھائے گا تو یہ بھوکا ہی بے ہوش ہو جائے اور پھر اسے علاج کے لیے بھی لے جانا پڑے گا۔"مشال سیما مسکراتے ہوئے فیک انداز میں سالار کے لیے ہمدردی جتا رہی تھی جبکہ سالار مغل ان دونوں کو پھاڑ کھانے والی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔

۔"تم اسے خود کھانا کھلا دو۔"قطب نے مشال سیما سے کہا تو مشال نے قطب کی جانب دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے سالار کی جانب بڑھ رہی تھی کہ سالار غڑاتے ہوئے بولا اور اس نے مشال سیما کے ہاتھوں کھانا کھانے سے انکار کر دیا تو قطب نے مشال سے کھانے کی ٹرے لے لی اور پھر سالار مغل کے چہرے پر کھانا پھینک کر وہاں سے چلی گئی۔

۔"مجھے تمہاری حالت پر ترس آ رہا ہے۔"مشال سیما نے سرگوشیانہ انداز میں کہا اور مسکراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی جبکہ سالار مغل اب غصیلے انداز میں بار بار سر جھٹک رہا تھا۔ بار بار سر جھٹکنے کی وجہ سے اس کا چہرہ کافی حد تک صاف ہو چکا تھا لیکن اس کی ناک پر اب بھی تھوڑا کیچپ لگا تھا۔

☆☆☆☆

اعجاز احمد خالطی گلفام صاحب کے بنگلے سے باہر آ رہا تھا کہ گلفام کا دوست شرافت اچانک اس کے سامنے آ گیا اور اسے دیکھتے ہی اعجاز احمد خالطی خوفزدہ ہو گیا جبکہ شرافت نے اسے گریبان سے پکڑ کر خوب زور سے جھنجھورا۔

۔"کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ اب تم مشال سیما سے نہیں ملو گے؟"شرافت نے اعجاز کو جھنجھورتے ہوئے پوچھا۔

۔"اب دوبارہ اس سے ملنے کی کوشش نہیں کروں گا ویسے بھی وہ یہاں موجود نہیں ہے۔"اعجاز نے کہا تو شرافت نے اسے دھکیلا اور وہ دیوار کے ساتھ ٹکڑاتے ٹکڑاتے بچا۔

شرافت جب بنگلے میں داخل ہوا تو اعجاز دوبارہ مین گیٹ سے ملحقہ چھوٹے دروازے کے ذریعے بنگلے میں داخل ہو گیا اور جب مدخل سے گزر کر شرافت اندر چلا گیا تو اعجاز محتاط انداز میں مدخل تک پہنچ گیا جبکہ شرافت کو اب معلوم ہی نہیں تھا کہ اعجاز احمد خالطی اس کا تعاقب کر رہا ہے۔

☆☆☆☆

جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments