Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Afat Ki Mari Episode 9 By Amir Sohail - Daily Novels

 ناول۔۔۔آفت کی ماری

ناول نگار۔۔۔عامر سہیل

قسط نمبر۔۔۔09

شگفتہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اماں جی کے کہنے پر اختر کو کال کی، اختر نے اسے بتایا کہ وہ دفتر میں میٹنگ کے سلسلے میں بہت مصروف ہے آدھے گھنٹے کے بعد آئے گا، شگفتہ کو پیچھے سے کسی عورت کے بولنے کی آواز بھی سنائی ،شگفتہ نے استفسار کیا کہ یہ آواز کس کی ہے؟ آپ تو میٹنگ میں ہیں، اختر بہت چالاک تھا فوراً جواب دیا کہ یہ تو میٹنگ کی وجہ سے ہے، اب میٹنگ میں تو مرد و زن موجود ہوتے ہیں سالی صاحبہ، مگر آپ اتنی تحقیقات کیوں کر رہی ہیں؟ کہیں آپ بھی مجھ پر مرنے تو نہیں لگیں؟ شگفتہ کو اختر کے اس گھٹیا جواب پر بہت غصہ آیا، اس نے جواب دیا کہ نہیں میں نے سمجھا کہ آپ شاید اپنی بہن کو بھی میٹنگ میں ساتھ لے کر گئے ہیں، تبھی پوچھا کہ پہلے تو کبھی آپ اسے ساتھ نہیں لے گئے، اختر کو اندازہ ہو گیا کہ اس نے غلط انسان کو پرکھنا چاہا اور استعمال کرنا چاہا، اس نے منہ ہی میں بڑ بڑایا کہ یہ نہیں ہاتھ آنے والی، یہ مرغی بڑی سیانی ہے، آدھے گھنٹے کے بعد اختر گھر پہنچا، نمرہ کو بخار اس قدر شدید تھا کہ اسے اپنا ہوش نہ تھا ،اختر نے شگفتہ اور نمرہ کو اپنی کار میں بٹھایا اور ہسپتال کی جانب لے چلا، راستے میں اختر کی نظر نمرہ سے زیادہ شگفتہ پر رہی، اس کے ذہن میں شاید یہ خیال تھا کہ وہ شگفتہ کو اپنی محبت کے جال میں پھانس لے گا، شگفتہ ابھی تازہ تازہ جوان ہو رہی تھی رنگ کی گوری تھی اور قد بھی درمیانہ تھا، ساتھ ہی خوبصورت تھی جس کی وجہ سے انسان اس کی جانب بہت جلد توجہ کرتے تھے، اختر کو بھی وہ اچانک اچھی لگنے لگی، اختر نے من ہی من میں اس سے پیار کی پینگیں بڑھانے جا تہیہ کر لیا، اب اختر نے نمرہ سے زیادہ شگفتہ کو اہمیت دینا شروع کی، وہ نمرہ واسطے پھل لاتا تو ساتھ شگفتہ واسطے بھی لاتا شگفتہ کو اختر ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اس لیے وہ اس سے بولتی بھی نہیں تھی، مگر اختر تھا کہ ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا، آخر ایک دن اس نے اختر کی بابت نمرہ اور دادی کو بتایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختر نے ایک فرمانبردار خاوند کی طرح نمرہ کی کہی پر فوری عمل کیا اور بازار سے چائے اور بسکٹ لے آیا، اختر نے کہا کہ رابعہ جی آپ کے والد کا کیا نام ہے؟ تو شبنی نے جواب دیا کہ میرے ابو کا نام ناظم علی ہے اور وہ محنت مزودری کے سلسلے میں شہر سے باہر ہوتے ہیں، گھر میں ہم دو ماں بیٹی اکیلے ہوتے ہیں، اختر نے کہا کہ ناظم علی کو بالکل میں جانتا ہوں، اچھے انسان ہیں، میرے ساتھ ہی کام کر چکے ہیں ایک عمارت بنانے کے سلسلے میں، اختر نے اگلا سوال کیا کہ رابعہ جی آپ کس چیز پہ آئی ہیں؟ شبنی نے جواب دیا کہ ہم غریب لوگ ہیں جی، ہمارے پاس بھلا کہاں سے آئیں سواریاں اور سواری پہ سوار ہونے کے واسطے کرایہ، ہم تو بس پیدل ہی ادھر ادھر قریب چلے جاتے ہیں ورنہ ہمارا ہے ہی کون؟ آپ کو تو معلوم ہے کہ غریب کا سوائے ذاتِ خدا کے علاوہ کوئی حامی و مددگار نہیں ہوتا، ابو بس اتنا ہی کما پاتے ہیں کہ گھر کا گزر بسر ہو سکے ایسے میں ہم بھلا کہاں سے سواریاں لیتے پھریں اور گاڑیوں پہ سوسر ہوتے پھریں، امی کچھ سیپ نکالتی ہیں اور میں بھی تھوڑا بہت نکال لیتی ہوں، اختر نے کہا کہ آپ کی داستان بہت دکھ بھری ہے، واقعی میں آج کے دور میں غربت سے بڑی کوئی سزا نہیں ہے، مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ غریب کیلئے زندگی گزارنا اجیرن ہو گیا ہے، غریب کو تو اب یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ گھر کے گزر اوقات آخر کو کیسے چلائے، گھر کا رینٹ الگ، بچوں کی فیس الگ، راشن کا جھنجھٹ الگ، بجلی کا بل الگ، گھر کا سودا سلف الگ اور گھر میں اور برادری میں دکھ سکھ الگ، یہ سبھی روگ ہیں جو غریب کو اندر ہی اندر سے کھائے جا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ غریب اپنی جان دے دیتا ہے اور زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے، خیر یہ مہنگائی اور غربت تو ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے، میں آپ کو اپنے گھر چھوڑ دیتا ہوں، شبنی نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا، اختر نے گاڑی نکالی، شبنی کو اس میں بٹھا کر چل دیا، جونہی ہسپتال سے باہر نکلے تو شبنی نے قہقہ لگاتے ہوئے اختر سے کہا کہ سناؤ کیسی رہی میری اداکاری؟ اختر نے بھی زور دار قہقہ لگایا اور بولا کہ صد فیصد، اسی خوشی میں تمہارا آج کا کھانا میری طرف سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہرو کو اب ہمسائے سے انتہا کی الفت ہو چکی تھی اور اب اس کو دیکھا بنا مہرو کا دن نہ گزرتا، سیٹھ طفیل نے مہرو کے اس نئے یار کو موبائل لے کر دے دیا اور جو باقی پیسے بچے وہ خود ہی ہڑپ کر گیا، ایک دن مہرو جب چھت پر گئی تو اس نے ہمسائے کو اشارے کیے کہ میرے گھر آؤ، وہ اشارے وہاں سے گزرتے ہوئے اختر کے دوست ڈینگی نے دیکھ لیا، ڈینگی نے اپنا موبائل نکالا اور ان دونوں کے اشاروں کی ویڈیو بنا لی، اگلے دن جب مہرو اپنی ایک سہیلی سے مل کر آ رہی تھی تو راستے میں اسے ڈینگی ملا، ڈینگی نے فوری کہا کہ آج کل تو ہمسائیوں سے بڑی محبت بھری باتیں ہو رہی ہوتی ہیں، بڑے اشارے ہو رہے ہوتے ہیں، مہرو نے کہا کہ ڈینگی تیرے پاس کیا ثبوت ہے، ڈینگی نے کہا کہ ثبوت بھی دکھا دیں گے، کیونکہ ہم نے اس ثبوت کا اچار تھوڑی ڈالنا ہے، مگر پہلے ہمیں بھی اس محبت سے حصہ دو، مہرو بولی، حصہ کیسا حصہ؟ ڈینگی نے کہا کہ کچھ پیسے اور کچھ ملاقاتیں، مہرو نے کہا کہ ڈینگی پیسے تو لے لینا مگر ملاقاتیں مشکل، ڈینگی نے کہا کہ نہیں، ورنہ یہ ویڈیو، بیگم صاحب کے پاس گئی، اب ڈینگی بھی بلیک میلنگ پہ اتر آیا تھا، مہرو نے ڈینگی کی دونوں شرطیں پوری کر دیں اور ڈینگی سے وہ ویڈیو مانگی، ڈینگی نے کہا کہ وہ ویڈیو میں پہلے سے ہی ڈیلیٹ کر چکا ہوں، تم دونوں خوش رہو، مگر مجھے بھی کوئی امیر لڑکی ڈھونڈ دو، بھوک سے مرتا ہوں، مہرو بولی کہ ڈینگی یہ لو معصومہ کا نمبر اور عیش کر و، مگر اب مجھے تنگ نہیں کرنا، دینگی نے کہا کہ اب دونوں شرطوں کا مزا لے چکا ہوں، اب آپ کو کیوں تنگ کرنا، اب تو معصومہ جی کو ہی تنگ کروں گا، مجھے تو ابھی سے بے چینی ہو رہی ہے، تمہیں یہ نصیحت ہے کہ اپنی امی سے بچا کرو اور دوسرا محلے کے لوگوں سے، ورنہ میری طرح تمہیں استعمال کرتے رہیں گے اور تمہارے ہمسائے کا میری ایک ہمسائی سے بھی چکر ہے، یہ وہاں سے بھی رقم بٹورتا ہے، تم سنبھل کے چلو، اچھا میں اب چلا۔۔۔

Post a Comment

0 Comments