Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Hasratain Episode 5 By Aneela Anwar - Daily Novels

حسرتیں

انیلہ انور

قسط5

سورج اپنے جوبن میں گرمی کی شدت میں اضافہ کرتے ہوئے آسمان پر اپنے دائرے میں گردش کر رہا ہوتا ہے۔پنکھے اپنی تمام تر قوت کو استمال میں لاتے ہوئے بھی جبینوں پر عیاہ پسینے کو خشک کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے،سبھی گرمی کی شدت سے کمرے میں محدود گپے ہانک رہے ہوتے ہے کہ وقت کیسے گزر گیا

"وقت کی یہی بات اچھی لگتی جیسا بھی ہو آخر کو اسے گزر ہی جانا ہوتا ہے وقت کسی قرض کی مانند ہے جو ایک بار لے لیا جائے تو عمر گزرنے پر بھی ادا نہیں ہو پاتا"

احمد کو گزرے چار برس بیت گئے لیکن ان چار برسوں نے گھر کے تمام افراد کے غم کو تھوڑا کم کر دیا تھا۔وقت نے مرہم کا کام دکھایا ضرور تھا پر ہمارا معاشرہ اور اس میں رہنے والے لوگ کب کسی کو اس کے حال پر خوش رہنے کی تسلی دیتے ہے۔بلکہ اس کے زخموں پر نمک کا کام ضرور کرتے"۔ 

نمرہ اب نویں جماعت کی طالبہ ہو چکی تھی۔وہ اپنے آپ کو اب مصروف رکھنے لگی تھی۔کبھی گھر کے کام کاج دیکھ لیے۔کبھی کتابوں کو دوست مان کر ان سے استفادہ حاصل کرنے لگی تھی۔

صبح روٹین کے مطابق سکول جاتی اور اپنی کتابوں میں لگی رہتی۔آس پاس ہونے والی ایکٹویٹیز کو نظر انداز کرتی رہتی۔

صبح کا وقت تھا وہ معمول کے مطابق ناشتہ کر کے تیار ہوئی تھی راستے میں ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے لیٹ ہو گئی تھی۔کلاس میں لیٹ پہنچنے پر پتا چلا کہ آج کلاس میں ایک نئے ٹیچر آئے ہوئے جو باری باری سب کا انٹروڈکشن لے رہے ہے۔

نمرہ کی سانس پھولی ہوئی تھی وہ بمشکل سانس لے پا رہی تھی کیونکہ وہ سکول میں لیٹ آنے پر بھاگتی ہوئی کلاس میں انٹر ہوئی تھی

نمرہ نے سر سے پوچھا۔"sir may i coming"

سر نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔

نمرہ لاسٹ پر بچی ہوئی سیٹ پر ہی براجمان ہوگئی تھی۔

کچھ ہی لمحوں بعد اس کی باری آ گئی سر نے کھڑے ہو کر انٹروڈکشن دینے کا کہا۔

نمرہ جو پہلے ہی سمہی ہوئی تھی اس نے لڑکھڑاتے ہوئے ٹانگوں کو حرکت دی اور کھڑی ہو گئی تھی۔

نام پوچھنے کا بعد سر نے کہا "بیٹا آپ کے والد صاحب کیا کرتے"

نمرہ سر کے جواب میں سر نیچے کر کے خاموش ہو گئی تھی۔اسے اپنے بابا کی یاد آ گئی تھی جسے وہ کتابوں میں مصروف رکھ کر غم ہلکا کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی تھی۔

سر نے دوبارہ پوچھا " بیٹا کیا ہوا آپ بولتی کیوں کچھ نہیں"

نمرہ نے سر اٹھاتے ہوئے سر کو نم آنکھوں سے دیکھا اور صرف اتنا کہ سکی تھی" سر میرے بابا اب اس دنیا میں نہیں رہے"

سر نے سننا تھا کہ سر بھی کچھ لمحے خاموش ہو کر رہ گئے۔

پھر سر نے نمرہ کو مخطب کرتے ہوئے کہا تھا " بیٹا ہم سب ہی اس دنیا کے مسافر ہے جنہیں اس دنیا کو چھڑ کر اگلے جہان میں کوچ کر جانا ہے۔اللہ پاک اپنے نیک بندوں کو اپنے پاس جلدی بلا لیا کرتے ہے۔ ہر چیز کو فنا ہونا ہے ۔" 

پھر سر نے ایک آیت کا ترجمہ فرماتے ہوئے کہا " بیٹا ہر جاندار چیز کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے" 

میں یا آپ یا کوئی بھی ہو سب نے اس دنیا سے رخصت ہونا ہے.ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔بیٹا آپ اپنے والد کے لیے دعا کیا کرے۔وہ بچوں کی دعا بہت جلد سنا کرتا ہے"۔

سر کے الفاظوں نے اسے تسلی ضرور دی تھی۔

کچھ دن گزرنے کے بعد جب بھی اس کی کلاس فیلوز اس کے سامنے اپنے بابا کا نام لیا کرتی تو نمرہ کا چہرہ مرجھا جایا کرتا تھا۔اس کی کچھ نئی دوست بنی تھی۔جو اسکو اکثر ہی آ کر دکھاتی کہ نمرہ یہ دیکھو یہ میرے بابا کل میرے لیے کر آئے تھے۔نمرہ کو انکی باتیں دل کے درد کا کام کرتی تھی۔وہ انہیں روکنا چاہتی تھی کہ میرے سامنے ایسی باتیں نا بتایا کرو۔پر اسے خود کو ہی سمجھانا پڑتا تھا اس کی دوست جب بھی سکول میں اسکے بابا کی لائی ہوئی چیزیں دکھاتی تو نمرہ کو محسوس ہوتا کہ اسکا مزاق بنایا جا رہا وہ ہنس ہنس کر دکھاتی اور نمرہ دیکھ دیکھ کر روتی۔آنسو آنکھوں سے باہر نا آتے پر دل خون کے آنسو رو رہا ہوتا تھا۔

وہ اس سارے واقعات کو محوس کرتی اور اندر ہی اندر اسے کھوکھلا پن محسوس ہوتا

Post a Comment

0 Comments