Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan Episode 8 By Gohar Arshad - Daily Novels

ناول:عشق یزداں

قسط:8

کائنات کے رب نے ساری چیزوں کو اپنی جگہ و مقام پر بڑے احسن طریقے سے تخلیق کیا ہے،بلاشبہ یہ ہنر اور کاریگری اس رب دو جہاں کی ہے،جو کل جہان کا خالق ومالک ہے،سب اس کے دائرہ اختیار ہے،کوئی بھی شے اس کے اختیارات کی حدود سے باہر نہیں نکل سکتی۔اس کی تخلیق کے شاہکاروں کی اگر بات کی جائے،تو آپ زمیں پر رینگنے والی چیونٹی کو لے یا آسماں میں اڑانے والے پرندے کو یا سمندر کی اندر تیرنے والی رنگ برنگی مچھلی ہر اک کو دیکھ کر دل قدرت کی تعریف پر عش عش کر اٹھتا ہے،

میں دوست کو لے کر نیچے آ گئی۔ہم سب نے مل کر کھانا کھایا،اس دروان جب تک ہم وہاں موجود رہے وہ نظر نہیں آیا۔سب کھانا سے فارغ ہو کر دولہا کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔لیکن ابو پہلے ہی اس سے مل چکے تھے۔ہمیں جلدی نکلنا تھا۔گاڑی والا بھی ہمارے انتظار میں باہر ہی کھڑا تھا۔ہم نے ان سے اجازت لی اور جانے کے لیے تیار ہو گئے۔باہر نکلے تو گاڑی والا ہمارا انتظار میں تھا۔ابو سے اس سے دھیمہ لہجے میں پوچھا ہم نے زیادہ دیر تو نہیں کر دی۔ہم تقریباً وہاں دو گھنٹے روکے ہوں گئے۔اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا نہیں انکل آپ بلکل وقت پر آئے ہیں۔میں ابھی ہی سوچ رہا تھا آپ کو بلاؤ،لیکن آپ خود ہی آگئے۔گاڑی چلنا شروع ہوئی رات نو کا وقت تھا،میرا آج دل کر رہا تھا۔کہ رات کے وقت جنگلی جانور باہر نکلتے ہیں۔تو سڑک میں ضرور کچھ نہ کچھ نظر آئے گا۔میں آج ضرور دیکھوں گی،خواہ وہ سانپ،گیدڑ،خرگوش یا شیر ہو۔خوش قسمتی سے رات کا اندھیرا بہت تھا۔جس کی وجہ سے جہاں سے گاڑی گزرتی سارا منظر صاف نظر آتا 

ہم اک جگہ سے گزرے تو وہاں سڑک میں اچانک اک مادہ خرگوش اپنے دو چھوٹے بچوں کو لئے ہوئے سامنے آگئی،چونکہ موڑ کی وجہ سے گاڑی کی رفتار کم تھی۔اس لیے اس نے گاڑی بلکل روک دی۔گاڑی کی روشنی کی وجہ سے وہ مادہ خرگوش سڑک میں رک گئی۔دونوں بچے بھی غور سے گاڑی کو دیکھنے لگے۔ابو نے اس سے کہا کہ ان کو جانے دو پھر گاڑی آگے کرنا۔

ہم سب یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوئے آج میری کتنے برسوں کی خواہش پوری ہو گئی۔

ابو نے کہا "آج اس مادہ خرگوش یعنی ان دونوں بچوں کی ماں کو دیکھ کر اپنی ماں یاد آگئی۔دیکھوں ناں ماں پھر ماں ہوتی ہے"؟؟؟

غور سے سب تو آپ کو پتہ چلے گا۔ان بچوں کی ماں پہلے آگے گاڑی کے آگئی ہے کہ گاڑی مجھے بیشک کچل دے لیکن میرے بچوں کو کچھ نہ ہو۔اک ماں کا جگر اپنے بچوں کے لیے بہت بڑا ہوتا ہے،وہ بڑے سے بڑا دکھ خود پر لے لیتی ہیں لیکن اپنی اولاد کو کچھ نہیں ہونے دیتی۔

وہ سب کچھ ٹائم کے لیے گاڑی کو اپنی خوبصورت سی آنکھوں کے ساتھ دیکھتے رہے پھر اچھل کر اک طرف ہو گئے۔ابو نے گاڑی والے سے کہا کہ چلو

گاڑی گھر کے قریب آ کر رکی،سب شادی کی وجہ سے تھک گئے تھے۔وہ آرام کے لیے اپنے اپنے کمروں میں چلیں گئے۔میں بھی اپنے کمرے میں آرام کے لیے چلی گئی۔دن ہنسی خوشی گزار رہے تھے۔اس اجنبی کا تصوّر بھی ذہن سے نکل چکا تھا۔اک دن اچانک کچھ شاپنگ کے لیے بازار کا پروگرام بنا۔پہلے پہل تو امی تیار تھی کہ میں خود چلوں گئی۔بازار مجھے کچھ چیزیں اپنے لیے چاہیے لیکن پتہ نہیں ان کو کیا ہوا۔کہنے لگی تم چلی جاؤ بھائی کے ساتھ میرے لیے بھی سامان لیتی آنا۔میں بھائی کو لے کر بازار کے لیے نکلی۔اک دو دوکانوں سے سامان لینے کے بعد اب مزید کچھ لینے کی گنجائش نہیں بچی تھی کہ مزید کچھ لیتی۔میں نے بھائی کو کچھ کھانا کے لیے لینا بھیجا ہی تھا کہ اچانک میری نظر دیوار پر لگے آئینہ پر پڑی تو وہی شادی والے اجنبی شخص اپنی طرف آتا دیکھائی دیا۔میں اک دم سے ہوس باختہ ہوکر کر رہ گئی۔سوچا اب کیا کروں گی۔۔۔۔؟؟؟

۔اگر وہ میرے پاس آگیا تو؟؟؟؟

ہوا کچھ  یوں وہ اسی دوکان پر دوکاندار کے پاس آیا اس کے کان میں کچھ کہا دوکاندار نے ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔اور وہ اردگرد سے انجان اپنی رہ پر چل دیا۔اس شادی والے دن کی طرح آج بھی اس نے نظر اوپر نہ اٹھائی اور مجھے یقین ہے اس کو یہ تک نہ پتہ ہو گا کہ اس دوکاندار کے علاوہ بھی وہاں پر کوئی موجود تھا۔بھائی واپس آگیا۔ہم گھر کے لیے روانہ ہوگئے لیکن میرے ذہن میں نت نئے خیالات نے جنم لینا شروع کردیا۔اس کی شکل و صورت دیکھ کر کوئی بھی لڑکی اس کے طلسمی حسن کے حصار میں آئے بغیر نہ رہ سکتی۔اس کے چلنے کے انداز سے محسوس ہوتا تھا کہ نہایت مہذب خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔روانہ ہونے سے پہلے دوکاندار سے میں نے پوچھ لیا کہ یہ کون ہے؟؟؟

اس نے مختصر جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ آخری کونے میں جو کپڑوں کی دوکان نظر آ رہی ہے ان کا قریبی عزیز ہے۔دوکان کا ملازم دس پندرہ دن کے لیے چھٹی پر ہے تو یہ اس کی جگہ آتا ہے۔نام سلیم یے۔بس ابھی تک اتنا ہی پتہ ہے اس کو آتے ہوئے تین دن ہو گئے ہیں پر یہ بس کام کی بات کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں۔یہ سب باتیں اس کے بارے میں سن کر وہ اور بھی اچھا لگنا شروع ہو گیا تھا پتہ نہیں کیوں؟؟؟؟

بس دل کے اندر اک ہی بات کہ بات کر کے دیکھوں تو وہ کیسا ہے؟؟؟ایسا کوئی آج تک میری نظر سے نہیں گزارا کافی چیزیں اس کی دوسرے لوگوں سے مختلف تھی۔اب میرے ذہین میں یہی خیال کے اس کے بعد کب جلدی سے جلدی بازار جاؤ اس سے بات کروں کیونکہ اس نے پندرہ دن تک ہی دوکان پر رہنا تھا۔میرا خیال یہ تھا کہ مجھے جلدی موقع مل جائے گا لیکن یہ میری خام خیالی تھی۔اس دن کے بعد جب بھی میں بازار جانے کی بات کرتی تو امی منع کر دیتی۔پندرہ دن ہونے میں صرف تین دن باقی تھے۔ساری امیدیں جواب دے چکی تھی۔امی کو شام کے وقت کچھ یاد آیا تو مجھ سے کہنے لگی کل شفق تم نے بازار جانا ہے لازمی۔۔۔۔۔۔۔آگے انھوں نے کیا لینے کے لیے کہا مجھے اس سے کیا غرض،میرا مطلب تو پورا ہو رہا تھا ناں؟؟؟

دوسرے دن صبح نماز کے وقت امی نے دوبارہ سے وہ کام بتایا جو بازار میں کرنا تھا۔پیسے دیے اور چلی گئی۔امی نے نماز کے وقت سب کچھ اس لیے بتایا کیونکہ وہ نماز کے بعد سو جاتی اور پھر دس بجے کے بعد اٹھتی تھی۔اکثر اوقات ایسا ہوتا تھا کہ میں ظہر کی نماز کے بعد بازار میں جایا کرتی تھی اگر اتفاق سے جانا ہو تو۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس دن اف اللہ! مجھے سے صبر ہی نہ ہو۔تقریبا ساڑھے آٹھ کے قریب ساتھ والے گھر سے پڑوسن کی دروازے پر دستک ہوئی۔شمائلہ آنٹی دروازے پر تھی،ان کے ساتھ میری اچھی جان پہچان تھی۔وہ کوئی بھی کام کرنا ہو مجھے ضرور بتاتی تھی۔ان کی شادی کو دو تین سال ہوئے تھے،ان کے ہاں ابھی تک کوئی اولاد نہ تھی۔گھر سے باہر جانا ہو تو اس کے شوہر نے بھی اس کو کہا ہوا تھا کہ صرف شفق کے ساتھ جانا ہے،اور کسی کے گھر جانا ہو تو بھی شفق کے ہاں چلی جایا کرو۔جوں ہی میں نے دروازہ کھولا تو انھوں نے بغیر سلام دعا کے پہلی بات یہ ہوچھی کہ میرے ساتھ بازار چلو گی،بہت ضروری کام ہے اور تم جانتی ہو کہ میں تمہارے علاوہ کسی کے ساتھ باہر نہیں جاتی،جلدی بتاؤ ناں چلو گی ناں 

میں نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے۔

آہستہ سے کہا آپ اندر آ جائیں میں چلتی ہوں۔آج 

مجھے بھی بازار جانا تھا اور اگر نہ بھی جانا ہو تو بھی آج سے پہلے آپ کو کبھی انکار کیا ہے؟؟؟

بس یہی اک ادا پر تو میں قربان ہو جاتی ہوں تمہاری 

اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔

شمائلہ آنٹی نے پھر پوچھا امی کدھر ہیں تمہاری نظر نہیں آرہی۔

میں نے ان کو بولا کہ آہستہ وہ سو رہی ہیں 

اچھا اچھا ان کو تو بتا دو پھر چلیں؟؟

انھوں نے ہی صبح مجھے پیسے دیے تھے اور ان کے کام کے لیے ہی جا رہی ہوں ان کو پتہ ہے۔

آنٹی نے پھر کہا ان کو جاگا کر یہ بتا دو کہ ہم جا رہے ہیں؟؟

نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے بھائی گھر پر ہی ہے وہ دروازہ بند کر دے گا اندر سے باقی باتیں ان کو واپس آکر بتا دوں گی۔اب باقی سب کچھ چھوڑے آپ۔۔۔۔۔ادھر ہی روکے میں آتی ہوں تو بس چلتے ہیں۔اچھا ٹھیک ہے تھوڑا جلدی ؟؟؟؟؟

ہاں میں آتی ہوں آپ اتنی دیر میں بھائی کو آواز دیں وہ ادھر ہی ہے کہیں وہ آجائے،وہی دروازہ بند کرے گا ؟؟؟

میں بولتی ہوں تم جاؤ جلدی سے تیار ہو کر آؤ 

بھائی کو آنٹی نے آواز دی تو بھاگ کر آگیا دو تین منٹ میں میں بھی واپس باہر آگئی۔اور ہم بازار کے لیے روانہ ہوگئے،بھائی نے دروازہ بند کر دیا۔

اب بازار میں جا کر اتفاق سے آنٹی اسی دوکان پر جا کر ٹھہری،جہاں میں جانا چاہتی تھی۔اب اگر وہ اور کہیں جاتی تو میں تو ان کو نہیں کہہ سکتی تھی۔لیکن وہی بات ہے کہ اگر آپ کسی چیز کے لیے کوشیش کرتے ہیں اس کو سوچتے ہیں تو سارا جہاں اس کو آپ سے ملنے کی سازش کرتا ہے۔اب ہم دونوں جوں ہی دوکان کے اندر داخل ہوئی تو وہ اک طرف کونے میں بکھیرے ہوئے کپڑوں کو سمیٹ رہا تھا ان کو اپنی اصل حالت میں لانے کی کوشش کررہا تھا۔دوکان باقی سب دوکانیں سے بڑی اور زیادہ کشادہ تھی۔چاروں کونوں کے اندر شیشے لگے ہوئے تھے،چھت پر لاتعداد بلب روشن تھے،آنٹی کی طرف موڑ کر اس نے پوچھا کیا مدد کر سکتا ہوں میں آپ کی؟؟؟؟

انھوں نے کچھ سوٹ دیکھانے کو کہا تو وہ سوٹ کھولنا شروع ہوگیا،میں مسلسل اس کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہی تھی مگر مجال ہے اس نے اک بار بھی موڑ کر میری طرف دیکھا ہو۔آنٹی کو جو سوٹ چاہیے تھا وہ ان کو وہاں سے نہ ملا۔اب وہ مجھے وہی روکنے کا کہہ کر خود دوسری دوکان میں چلی گئی،اور مجھے کہہ کر گئی کہ میں بس دو منٹ میں آئی۔وہ باہر نکل گئی تو وہ مجھے سے مخاطب ہوا آپ کو کوئی چیز تو نہیں چاہیے؟؟؟

میں نے نہ میں سر ہلایا تو کہنے لگا آپ چائے پیے گی یا ٹھنڈا ؟؟؟

میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس نے فون نکال کر کال کی کہ ٹھنڈی ڈیو ہی بوتل ہماری دوکان پر دے جائے۔

میں نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی کہ باہر سے وہ بوتل لے کر آگیا اس نے گلاس میری طرف کرتے ہوئے مسکرایا اور کہنے لگا ابھی آپ پیے باقی باتیں بعد میں ہوں گی؟؟؟

میں پھر خاموش حیرانی سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگی؟؟؟

آنٹی جلدی سے اندر آئی اور مجھے ہلاتے ہوئے بولی جلدی ختم کرو اس کو تو چلیں اور بھی بہت سے کام ہیں۔

وہ پھر سے بولا آپ پہلی بار ہمارے پاس آئے ہیں تو ٹھنڈا پی کر جائے۔

آنٹی نے اکتاہٹ سے جواب دیا نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔وقت بہت کم ہے اور کام بہت سارے ہیں،

اس نے پھر سے کہا آپ ہمارے پاس پہلی بار آئے ہیں تو اچھا نہیں لگتا کچھ کھائے پیئے بغیر چلیں جائیں؟؟؟

اچھا  بھائی اتنا کہہ رہے ہو تو دے دو.اب ٹھیک ہے،دوکاندار کو کہہ کر آنٹی باہر نکلی

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments