Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Jaan Episode 1 By Ana Shah - Daily Novels

۔جان

ناول نگار۔۔۔انا شاہ۔

قسط#01

                  ” پورے جنگل میں اس کی چیخ گونجی تھی، اسکے پاؤںچل چل کر شل ھو چکے تھےپرکوئی منزل کوئی جگنو کوئی امید نا تھی ھر طرف گھنا جنگل سر اٹھاۓ کھڑاتھا.  سورج بس ڈوبنے ھی والاتھا .  رات ھو نے سے پھلےوھ کسی محفوظ جگہ  پھچنا چاھتی تھی.امبروزیا اپنی فرینڈذ کے ساتھ ایڈونچر کرنے نکلی تھی۔انیلا اور عینی اس کیکلاس فیلوز تںیھں. انیلا اور عینی اپر کلاس سے تعلق رکھتی تھیں ۔اور لائف انجوائے کر رہی تھیں  ۔امروزیہ کے پاپا بھی بزنس ٹائیکون تھے آج کل یو نی میں پیپرز کے بعد چھٹیاں تھیں اور ان تینوں نے اور ساتھ میں ان کے گروپ نے یہ ڈسائیڈ کیا تھا کہ کہیں گھومنے چلیں.ان کے گروپ میں بوائز بھی تھے ۔امروز یہ اپنے پیرنٹس کی اکلوتی اولاد تھیں ۔اولاد بھی وہ جو سر چڑھ گئی ہوئی تھی امروزیہ کے پیرنٹس اسکی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرتے تھے لیکن ایک دائرے کے اندر ۔اس کے والد اس کی وجہ سے کافی پریشان تھے  امروزیہ کی مما ایک سوشل ورکر تھیں ۔اس وجہ سے ان کے اپنے گھر پر کم توجہ تھی  اور لوگوں کے مسائل پر زیادہ توجہ تھیاس کے باوجود بھی روزی اپنے ماں باپ سے بہت محبت کرتی تھی ۔امروذیبہ کی مما پاپا کی لومیرج تھی  نفیس بیگم کا تعلق سٹی سے تھا جبکہ اس کے والد بنیادی طور پر گاؤں سے تعلق رکھتے تھے وہ ایک جاگیردارتھے اورمیرپورساکرو  کے وڈیرے تھے ۔نفیس شاہ لارک امروزیہ کے پاپا شہر میں رہنے کے باوجود اپنی گاؤں کی مٹی سے بہت پیار کرتے تھے اور ہرویکینڈ  وہاں کا چکر لگاتے تھے۔رئیس شاہ لارک ان  کے بڑے بھائی تھے جو کے گاؤں میں رھتے تھے.رئیس شاھ لارک  کے تین بیٹے تھے ۔بڑے بیٹے نواز شاہ تھے جو کہ سیاست میں قدم رکھ چکے تھے چھوٹے بیٹے براق شاہ اپنے باپ کی طرح جاگیردارتھے اور گاؤں کا نظام سنبھالے ہوئے تھے  ۔ چھوٹے بیٹے دا میر شاہ لارک سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد پولیس فورس جوائن کر چکاتھا۔ د امیر کی پوسٹنگ کچھ عرصہ پہلے ہی کراچی میں ہوئی تھی ۔امروذیا اپنے آبائی گاؤں بہت کم گئی تھی ۔جب وہ میٹر ک میں تھی اس ٹائم اپنے پاپا کے ساتھ ایک دفعہ اس کا چکر لگا تھاامروزیہ کو گاوں کا ماحول کچھ خاص پسند نہ تھا اس کا اپنے کزن کے بارے میں بھی یہی خیال تھا کہ وہ گاؤں میں جاگیردارانہ نظام کے اندر بس جاگیرداری ہی کر سکتے ہیں پڑھائی لکھائی سے ان  کا کوئی تعلق نہیں ہےدامیر کے پولیس آفیسر بننے نے اسے کافی شاک پہنچایا تھا اسے جیلسی بھی محسوس ہوئی دامیرشاہ بھی اپنی انا کا قیدی تھا وہ اپنے چچا کی بہت عزت کرتا تھا لیکن چچی کے سوشل ورک کے کاموں کے خلاف تھا کیونکہ یہ سوشل ورک صرف اپنا آپ شو آف کرنے کے لئے ہوتا ہے اور بیچارے غریب اور مسکین لوگوں کا اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔نفیس بیگم بھی انہی میں شامل ہوتی تھیں۔برانڈڈ شوز اور کپڑے دکھانے کے لیے اور اپنی عمارات کا روب ڈالنے کے لیے وہ یہ  سب کام کرتی تھیں۔وہی عادات اور غرور امروزیہ کے حصے میں بھی آئی تھیں۔جب سے دامیر کی پوسٹنگ کراچی میں ہوئی تھی تب سے امروزیہ کا دا میر کے ساتھ کوئی سامنا نہیں ہوا تھا کراچی میں اپنے چچا کا گھر ہونے کے باوجود اس نے سرکاری گھر میں رہنے کو فوقیت دی ۔نفیس شاہ نے اس بات پر اعتراض بھی کیا تھا لیکن دا میر نے انہیں طریقے سے سمجھا دیا تھا اس کا کہنا تھا کہ وہاں  سے میرا آفس نزدیک ہے یہ نہیں تھا کہ اس کے والد کی کراچی میں کوئی پراپرٹی نہیں تھی تین شوگر ملز  کے ساتھ ساتھ ان کا ڈیفنس میں ایک بنگلہ بھی تھا اور وہ بنگلاان کے خادموں کے حوالے تھا  ۔ وہاں پر لارکوں میں سے کوئی بھی رہائش پذیر نہیں تھا ۔دامیر پڑھائی کے سلسلے میں اس کو استعمال کرتا تھا ۔اب آتے ہیں جناب امروزیہ کی طرف جو کہ جنگل میں پھنس چکی ہیں پھنسی وہ اس طرح کے عین جنگل کے درمیان میں روڈ پر ان کی گاڑی خراب ہو گئی اور وہ باہر نکل آۓ۔ جنگل میں اس طرف آنا ممنوع تھا لیکن اس کی دوستوں نے ری سور سز استعمال کر کے ادھر آنے کی پرمیشن لے لی تھی ۔ان کی جیپ میں چھ لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی وہ تینوںلڑکیاں پیچھے بیٹھی  تھیں جب کہ ابراہیم اور جون آگے بیٹھے تھے ابراہیم اور جان اور امروزیہ کی فیملیز ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے تھے ۔اور والدین  کو اعتراض بھی نہیں تھا  ۔نفیس شاہ لارک کو لڑکوں کا ساتھ جانا پسند نہیں آیا تھا لیکن امروز یا نے انہیں منا ہی لیا تھا ۔امروزیہ کا کہنا تھا کہ بس ایک دن کی ہی تو بات ہے نفیس شاہ بھی ان کی سیفٹی کےخیال  سے خاموش ہو گئے تھے ۔اسے بھی سڑک کے درمیان ہی خراب ہونا تھا امروز یا نے اپنا سر پیٹا۔جان اور ابراہیم   جیپ کی خرابی کی وجہ ڈھونڈ رہے تھے ۔امروزیہ انیلا اور عینی ا رد گرد کا جائزہ لے رہی تھیں .یہ دوپہر کا ٹائم تھا ۔گھنا جنگل ہر سو پھیلا ہوا تھا درخت اتنے بڑے بڑے تھے کہ ان کا سایہ روڈ پر آرہا تھا اور روڈ پر ذرا بھی دھوپ نہیں پڑ رہی تھی۔عینی اور انیلا سڑک پر ہی بیٹھ گئی تھیں۔ امروزیہ کو پیاس محسوس ہوئی تو اس نے گاڑی میں جا کے پانی چیک کیا جو کہ بالکل ہی ختم ہو چکا تھا ۔امروزیہ بنا کسی کو بتائے بوتل اٹھا کر جنگل کی سائیڈ پر چل پڑی تھی ۔انیلا اور عینی بھی آنکھیں بند کر کے ستانے کے لیے لیٹی ہوئی تھیں وہ یہ محسوس  نہ کرسکیں کہ امروز یاوہاں موجود نہیں ہے  ۔جان ابراہیم گاڑی کی خرابی  ٹھیک کر چکے تھےعینی اور انیلا کی طرف پیش قدمی کی تھی عینی اور انیلا اب بھی ویسے ہی لیٹی ہوئی تھیں جان عینی  کو جھنجھوڑ کر اٹھایا  تھا اینی اٹھو !عینی جوکہ ابھی اپنی سپنوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی انیلا کی بھی آنکھ کھل گئی !کیا قیامت آ گئی انیلا نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھول کر پوچھا تھا ۔ابراہیم کو ان کے اس جواب پر تپ چڑھ گئ یہ  ہ تم لوگوں کا بیڈروم ہے جہاں پر تم اتنے مزے سے سوئی ہوئی ہو  امروز یہ کہاں ہیں ابراہیم نے دونوں کی طرف گھور کر دیکھتے ہوئے پوچھا تھاابراہیم کے امروزیہ کا پوچھنے پر انہوں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائ لیکن انہیں امروزیہ کہیں نظر نہی ائ ۔اب صورتحال یہ تھی کہ وہ چاروں امروزیہ کو ارد گرد دیکھ رہے تھے لیکن وہ انہیں کہیں بھی نہیں مل رہی تھی آخر کار انہوں نے جنگل میں امروزیہ کو ڈھونڈنے کا ارادہ کیا امروز یہ جنگل میں داخل ہوچکی تھی ۔اس کی سب سے

 بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے پیچھے کسی کو بھی بتایا نہیں تھا کہ میں جنگل کی طرف جا رہی ہو اس کے دوست اس بات سے بے خبر اپنے کام میں مصروف تھے جنگل انتہائی گانا ہوتا جا رہا تھا پندرہ بیس منٹ چلنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ اس نے غلطی کی ہے اسے پانی بھی کہیں نظر نہیں آیا تھا درخت اتنے گھنے اور بڑے تھے کہ وہاں پر سورج کی روشنی بھی بڑی مشکل سے پہنچ رہی تھی پرندوں کی آوازیں اسے اچھی لگ رہی تھی لیکن اب اسے خوف آنے لگ گیا تھا پیاس سے اس کا حلق سوکھ گیا تھا اب وہ واپسی کے راستے پر دوبارہ گامزن ہوئی تھی دس منٹ چلنے کے بعد اسے احساس ہوا  کےوہ راستہ بھول چکی ہے یہ سوچ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ وہ پورے جنگل میں اکیلی ہے اور شام بھی بس ہونے ہی والی تھی اس خیال سے اس کے پیروں میں بجلی بھر گئی اور اس نے بھاگنا سٹارٹ کر دیا کے کیا پتا اسے باہر کا راستہ مل جائے اور وہ واپس اپنے دوستوں تک پہنچ جائے اس کے پاؤں چل چل کر شامل ہو چکے تھے اسے رونا آ رہا تھا وہ اس وقت  کو کوس رہی تھی جب اس نے جنگل میں آنے کا ارادہ کیا تھا ۔آخر کار تھک کر وہ ایک درخت کے تنے کے ساتھ بیٹھ گئی ۔سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرا پھیلنے لگا تھا ۔وہ انتہائی خوف۔زدہ ہوگئی تھی اچانک اسے پتوں پر کسی کے چلنے  کی آواز آئی۔یہ علاقہ ممنوع تھا اور اس لیے یہ ممنوع کیا گیا تھا کہ یہاں پر جانور بھی موجود تھے اس کے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے یہ شیر بھی ہوسکتا تھا ۔اچانک اسے اپنے پیٹھ پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا بے اختیار اس کے حلق سے چیخ نکلی اور اس چیخ کا گلا کسی نے بڑی بے دردی سےاس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر گھونٹا ۔اچانک اس کے چہرے پر کسی نے روشنی کی ۔روشنی کرنے والے نے  اسے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا ۔امروزیہ بلاشبہ اپنے حسن میں اپنی مثال آپ تھی ۔کمر تک آتے  کالے  سیاہ بال جو بھاگ بھاگ کر کھول گئے  تھے  ،غلافی آنکھیں ،سنہری رنگ ،متوازن سراپااور کھڑے کھڑے نقوش اسے جاذب نظر بناتے تھے وہ کسی کے بھی دل کا چین لوٹ سکتی تھی ۔ سب سے بڑی بات اسے اپنے حسن کی اتنی پروا نہیں تھی ۔مطلب حسن بے پرواہ ۔اور وہ حسن جس کو خود اپنے حسن کا اندازہ نہ ہو زیادہ قاتل ہوتا ہے ۔اس نے پنک شرٹ کے ساتھ جینز پہنی ہوئی تھی اور اپنا اسٹالر گلے میں لٹکایا ہوا تھا۔وہ کوئی ایک بندہ نہیں تھا بلکہ چار پانچ لوگ تھے اور ان کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی جس آدمی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا اب وہ ہٹا چکا تھا اور اتنے لوگوں کے ہاتھ میں بندوقیں دیکھ کے ویسے ہی اس کی چیخ دب گئی تھی ۔ٹارچ والا آدمی مد ہوشی کے عالم میں اسے دیکھے ہی  جا رہا تھا ۔امروزیہ کو اب احساس ہوا تھا کہ وہ کتنی بڑی مصیبت میں پھنس گئی ہے ۔امروزیہ کو اس ٹارچ والے آدمی کی گندی نظروں سے خوف آ رہا تھا ۔سردار پاشا لڑکی تو کمال ہے ساتھ ہی لے جائیں انہیں میں سے کسی آدمی نے کہا تھا اور اس ٹارچ والے آدمی کا سکتا ٹوٹا تھا اس ٹارچ والے آدمی کا نام ہی سردار پاشا تھا "میرو جائے گی تو یہ ساتھ ہی مگر تم سب اپنی نظروں پر قابو رکھو یہ میری ہے ،"امروزیہ ان کی گھٹیا گفتگو سن کر شا ک ہو گئی تھی ۔سردار پاشا کی بات سن کر ان سب نے ادب سے اپنے سر جھکالیے تھے شاید یہ شخص ان کا سردار تھا ۔سردار پاشا نے اس کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی جیسے جیسے وہ اس کے قریب آ رہا تھا ویسے ویسے وہ پیچھے کی طرف سرک رہی تھی ۔اچانک اس کے پاؤں کے نیچے پتھر آیا تھا اور وہ لڑکھڑا گئی تھی سردار پاشا جواس کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا فورا  اسے تھام چکا تھا ۔وہ کبھی بھی اتنا کنفیوز نہیں ہوئی تھی جتنااب رات کے اس ٹائم اجنبی لوگوں کے درمیان خود کو اکیلا جان کر ہو رہی تھی ۔امروز یا نے شدت سے دعا کی تھی کوئی مسیحا اجائے اور اس کو ان کے چنگل سے بچا لے۔ 

انیلا اور عینی کی جان نکل گئی جب  انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ وہ امروزیہ کو کہیں کھو چکے ہیں ۔انیلا اور عینی تو باقاعدہ رونے لگی تھی اور یہ سوچ سوچ کر ہی پریشان ہو رہی تھی کہ وہ امروزیہ کے پیرنٹس کو کیا جواب دیں گی جان اورابراہیم نے ان کی ہمت بندھائی اور مشورہ دیا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ہمیں جا کر ان کے پاپا کو انفارم کرنا چاہیے اور اس کے لیے مدد لینی چاہیے .اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے واپسی کا سفر شروع کیا ۔اور جب وہ امروزیہ کے گھر جاکر انہیں صورتحال سے آگاہ کر رہے تھے تو دا میرشاہ لارک  بھی وہیں پر موجود تھا۔اور یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ امر روز یہ کی گمشدگی کا سن کر دامیر شاھ لا رک نے کیسے ضبط کیا ہوا تھا ۔اس کی سوچ کی طنا بیں بہت دور تک جا رہی تھیں۔

Post a Comment

0 Comments