Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Manqabat Episode 6 By Sidra Mohsin - Daily Novels

منقبت قسط 6
 
صبح سورج طلوع ہو گیا تھا لیکن عافیہ کی آنکھوں میں تو وہی شب کی تاریکی ٹھہری تھی۔۔۔
 دوسری جانب نائیکہ سجی سنوری اپنی جگہ پر بیٹھی ان امیر زادوں سے اپنی مرضی منوا رہی تھی ۔۔ان امیر زادوں کو ناجانے کیسا جنون تھا ان دونوں لڑکیوں کی جوانی سے لطف اٹھانے کا۔۔۔کہ وہ نائیکہ کی ہر کہی بات پر رضا مند تھے۔۔ روحیل جو ساتھ رکھنے ایک مہینے کی مدت اور منہ مانگی قیمت۔۔۔ بس وہ ہر صورت عافیہ رافیعہ سے سکون کے طلبگار تھے ۔۔۔ بے صبری کے ساتھ بے تحاشہ جنون    ۔۔۔
رافیعہ نیند سے بیدار ہوئ تو اس نے دیکھا کہ عافیہ اپنے کپڑے اور رافیعہ کے کپڑے ایک بڑے بیگ میں رکھ رہی ہے وہ گلابی قمیص میں بلا کی خوبصورت لگ رہی تھی سفید چہرے کے گلابی رخسار تیکھی چمکتی ناک خوبصورت ہونٹ لیکن اداس آنکھیں جو ہاتھ میں تھامی ہوئے ایک چادر کو تک رہی تھی 
رافیعہ نے بڑے انہماک سے عافیہ سے سوال دراز کیا کہ عافیہ تم ہر رات ہر بار کسی فنکشن کے بعد اور پہلے کہیں جانے سے پہلے اور بعد اس چادر کو کیوں تکتی ہو ۔۔ہم اتنے رنگوں میں گھیرے رہتے ہیں تمہیں یہ کالا رنگ ہی کیوں متاثر کرتا ہے 
عافیہ نے چادر کو بیگ میں ڈالا پھر عافیہ کے پاس بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئ کچھ لمحہ خاموش رہی ناجانے کس سوچ میں گم ہو گئ لیکن پھر کچھ لمحے بعد رافیعہ کے بال سنوارتی کہنے لگی 
رافیعہ ہر رنگ کی اپنی پہچان اپنی ایک کہانی ہے یہ کالا رنگ مجھے ۔۔۔پھر کچھ لمحہ خاموش ہو گئ ۔۔۔رافیعہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا بتاؤ بھی۔۔۔۔  کچھ نہیں بس اتنا سمجھ لو یہ مجھے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ایک دن ہمیں عزت ملے گی اس معاشرے میں وہ مقام ملے گا جس کی ہم بھی حقدار ہیں ہم اداؤں سے نہیں نظر جھکا کر چلیں گی ہمارے دل کی پاکیزگی ان جھکی نظروں سے عیاں ہوگی ۔۔تم دیکھنا ایسا ہوگا ۔۔۔
اتنے میں دروازے پر زور سے دستک ہوتی یے روحیل گرج کر بولتا ہے ۔۔۔ اتنی دیر کس بات کی ہے اوۓ جلدی کرو صاحب تے آنٹی انتظار کر رہے ہیں ہمیں نکلنا ہے منزل کی طرف تو تم دونوں ابھی تک اسی پڑی ہو ۔ پھر سے زوردار دستک ۔۔۔۔ اپنے سینے پر ہاتھ پھیرتا روحیل کہتا ہے اوۓ اٹھتی ہو کہ میں آؤں صبح کرنے ۔۔۔
عافیہ دروازے کھولتی ہے تو روحیل اس کو سر تا پا درندگی کی نظر سے دیکھتا ہے 
اوۓ ہوۓ آج تو تُو شہزادی لگ رہی ہے قہر ڈھا رہی ہے بھئ ۔۔۔ کتنے خوش نصیب ہیں یہ امیر زادے اپنے نوٹوں کے دم پر تیرے پاس بھی آئیں گے اور لطف بھی اٹھائیں گے۔۔۔ ایک ہم ہی رہیں گے سدا پیاسے ۔۔پھول کے قریب رہ کر بھی بسسسس سونگھنے کی اجازت ہے چھونے کی نہیں۔۔۔
عافیہ اس کو دیکھ کر مسکراتی اس کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے 
اگر تجھے بھی طلب پوری کرنے دیں تو تجھ میں اور ان میں کیا فرق باقی رہے گا؟ ہاں؟۔   پھر لہجے میں حقارت بھر کر کہنے لگی۔۔۔بھئ تُو کیسے یاد رکھے گا کہ تُو طوائف سے سکون پانے والا  سیٹھ نہیں بلکہ ایک دلال ہے ۔۔۔ 
روحیل نے یہ الفاظ سنتے ہی اس کے بال زور سے پکڑ لیے ۔۔۔اس کے گال کو دبوچ کر کہنے لگا کہ 
بس کسی ایک دن مجھے موقع ملنے دے تجھ پر ایسی گرفت کروں گا کہ تو موت مانگے کی اور میں تجھے دوں گا بھی لیکن تیرے سسکنے کے بعد ۔۔وہ جو تیری بھیک ہوگی میرا سکون ہوگی ۔۔۔ زور سے منہ جھٹک کر کہنے لگا۔۔۔ چل اب پانچ منٹ میں نیچے آ ۔۔۔نہیں تو آنٹی آجائیں گی اور پھر تو جانتی ہی ہے ان کا انداز۔۔۔۔ یہ کہ کر پھنکارتا ہوا اپنی چادر کاندھے پر ڈالے چلا گیا۔۔۔
عافیہ آنکھوں میں آنسو لیے غصے اور اذیت کی ملی جلی کیفیت میں آنسو صاف کرتی واپس کمرے میں چلی گئ اور دروازے بند کر لیا ۔۔۔
"ہمارے معاشرے میں  عزت کے معیار کتنے عجیب ہیں کوئ محل کے صحن میں کھڑا ہے تو معتبر، پاک، عزت دار ہے اور وہی اگر کوٹھے کے چوبارے میں موجود ہے تو بے حیا ، غلیظ بکاؤ ہے ۔۔۔ محل یا کوٹھے میں پیدا ہونے میں ہماری مرضی کہاں شامل ہوتی یے یہ تو رب کے فیصلے ہیں کیا ایسا ممکن نہیں؟ کہ پیدا کوٹھے میں لینن دل و زات کی پاکیزگی اس محل میں موجود شخصیت سے ابتر ہو؟

وہ سیٹھ اپنی گاڑی میں ان دونوں کا انتظار کر رہے تھے اور وہ نائیکہ سے رخصت ہونے کی اجازت طلب کر رہی تھیں  نائیکہ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتی ان کو پیار بھرے لہجے میں سمجھانے لگیں ۔۔۔ سنو لڑکیوں تم شہزادیاں ہو داسیاں نہیں۔۔یہ امیر زادے اپنی منکوحہ کو چھوڑ کر تمہاری اداؤں پر اپنی کمائی لٹاتے ہیں تو لٹانے دو تم بس اپنی جھولی بھر لو لیکن دل لگانے کی سوچنا بھی مت ۔۔۔کیونکہ ہمارے کاروبار میں سکون اس مٹی کے مجسمے سے پایا جاتا ہے اس میں قید روح سے نہیں ۔۔۔ اس بازار کی ہر عورت ۔۔ایسی عورت  سے وقت گزاری کی جاتی ہے پیار نہیں۔۔۔تو کسی نرم لہجے کو پیار مت سمجھنا۔۔ اب جاؤ شاباش اور میری باتیں یاد دکھنا۔۔

عافیہ رافیعہ روحیل کے ہمراہ ان کی گاڑی میں بیٹھ گئیں اور ایک نئ منزل کو روانہ ہو گئیں ۔۔۔۔ جاتے ہوۓ عافیہ اپنے کمرے کی کھڑکی جو تکنے لگی وہ اداس تھی کہ اب چاند کو مکمل اختیار کے ساتھ کیسے دیکھے گی کیسے کہے گی دل کی بات کیسے بتاۓ گی کہ وہ اس گندگی میں نہیں بلکہ پاکیزگی میں خوش ہے ۔۔۔۔ جہاں عافیہ اپنی جگہ سے دور ہو جانے پر اداس تھی وہییں رافیعہ آگے آنے والے وقت و حالات سے خوفزدہ تھی سگریٹ کی ڈبیوں شراب کی بوتلیں دیکھ اس نے عافیہ کا۔ بازو زور سے دبوچ لیا  اور عافیہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دیا اور اپنا عکس اس گاڑی کے آئینے میں دیکھا ۔۔ 
گاڑی ایک عالیشان کوٹھی کے سامنے رکی ۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک لڑکے نے آواز لگائی تو ایک نوکر بھاگتا ہوا آ یا اور سر جھکا حکم بجا لانے کو کر کھڑا ہو گیا اس لڑکے نے کہا ان تینوں کو ان کا کمرہ دکھاؤ اور گاڑی  میں موجود سامان ان کے کمرے میں اور باقی ہمارے خاص کمرے میں پہنچاؤ۔۔۔ کھانا تیار کرو اور ساتھ ہی شام کا انتظام۔۔۔ تم سمجھ گۓ یو نا؟۔۔ اس نوکر نے ہاں میں سر ہلایا اور گاڑی میں سے سامان نکالنا شروع ہوا 
جلد ہی ان تینوں کو کمرے میں پہنچا دیا گیا جہاں عافیہ کی نظر کھڑکی پر پڑی وہ وہاں جا کر کھڑی ہوئ تو سامنے گار ڈن میں رکھے پرندوں کے پنجرے پر اس کی نگاہ منجمد ہو گئ اس کو تکتے تکتے آزادی کی اڑان محسوس کرنے لگی۔۔۔۔
جاری یے۔۔ن

Post a Comment

0 Comments