Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Mera Ishq To Mera Khuda Hai Episode 2 | By Noor E Saba - Monthly Novels

~•~•*میرا عشق تو میرا خدا ہے~•~•*

قسط نمبر:2.....

ازقلم: رائیٹر، نور ے صباء،( جونیجو+ کوندھر)

نایاب بیگم نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے "امیر شاہ" کھڑا تھا شاہ نایاب بیگم کی چھوٹی بہن کا بڑا بیٹا تھا،

وہ نایاب بیگم کے بیٹوں کے ساتھہ بیرون ملک میں مقیم تھا،

شاہ انگلینڈ میں پائیلٹ تھا اسکا بچپن ہی سے خواب تھا کہ وہ بڑا بن کر پائیلٹ بنے، اور ہوائی جہاز کو اپنی گرفت میں لے نیلے کھلے خوبصورت آسمان پہ اڑان بھرے، دنیا اسکے نیچے ہو اور وہ سب سے اوپر اپنے ہوائی جہاز کے ساتھہ آسمان کی سیر کرے کھلے آسمان اللہ کی خوبصورت ترین قدرت کے لاجواب نظارے دیکھے،،،

نایاب بیگم دروازہ کھولتے ہی شاہ کو دیکھتے ہی یہ سب باتیں سوچنے لگی اور اس میں اتنا کھو گئی کہ شاہ کو سلام تک نہ کیا، شاہ بھی بڑے مزے سے اپنی اس خالہ کی محبت کو دیکھے جا رہے تھے، 

کچھہ پل نایاب بیگم کی سوچوں کے نظر ہوگئے تو شاہ نے انکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی تو نایاب بیگم ہوش میں آئی،

شاہ نے سلام کیا ارے شاہ بیٹا وعلیکم السلام،

کیسے ہو بیٹا،؟ اور اتنے چینج ہوگئے ہو،

ایک نظر شاہ کے چہرے کو دیکھا جو کہ 🌙 چاند کی روشن اور بہت پرکشش تھا نیلی نیلی خوبصورت آنکھیں تھی اسکی مگر،،؟

مگر ان آنکھوں میں غم کی بہت داستان جھلک رہی تھی جو کہ شاید ہی کوئی محسوس کر پائے،

نایاب بیگم نے اسے پیشانی پہ پیار دیا اور اندر داخل ہونے کا کہا، شاہ اندر آئے اور کوریڈور میں ایک صوفے پہ بیٹھہ گئے،

نایاب بیگم نے پانی اور جوس پیش کیا اور شاہ سے باتوں میں لگ گئی،،،،،،

شاہ بیٹا کب آئے انگلینڈ سے،؟

اور بھلا ہماری یاد کیسے آئی،؟

خالہ جان آج صبح کی پہلی فلائٹ میں آیا ہوں، اور سب سے پہلے آپ سے ملاقات کے لئے چلا آیا اماں والوں کا گاؤں تھوڑا آگے  ہے تو سوچا رات کو نکل جاؤں گا،

نایاب بیگم: ارے بیٹا ایسے کیسے تمھیں چھوڑیں گے آئے ہو تو کچھہ دن رک جاؤ نہ،

شاہ: ارے نہیں خالہ جان بس کچھہ ہی دن کیلئے آئیں ہیں پھر روانہ ہوجائیں گے،

نایاب بیگم کو اپنے اس بھانجے سے بہت محبت تھی وہ شروع سے ہی اسے اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتی تھی اور اسے بہت پیار دیتی،

مگر جب جب وہ شاہ کو دیکھتی اسے اسکی بے حد خوبصورت آنکھوں میں اک اداسی سی نظر آتی نجانے کیوں مگر وہ کبھی شاہ سے اس بارے میں سوال نہ کر پاتی، 

کیوں کہ شاہ کی نیچر تو بہت پیاری تھی مگر وہ سنجیدہ مجاز تھا بچپن ہی سے خاموشی کا لبادہ اسنے اوڑھے رکھا تھا اور اب تو اسکی جاب پائیلٹ کی وجہ سے اور بھی زیادہ سنجیدہ رہنے لگا تھا،

مگر نایاب بیگم جانتی تھی کہ وقت کہ ساتھہ ساتھ وہ بدل جائیگا اور دل ہی دل 💓 کی۔ اسکی خوشیوں سے بھری زندگی کیلئے دعا گو تھی،،

»»»،،ترس رہی ہیں یہ آنکھیں،

تمھیں اک نظر دیکھنے کو،

کہ آجاؤ نا،

اے دیدہ دل،،

کہ اب رہا نہیں جارہا،،»»»

نایاب بیگم شاہ سے بہت باتیں کر رہی تھی کبھی اسے ہنسانے کی کوشش کرتی تو کبھی اسے اسکی بچپن کی باتیں سناتی، وہ چاہتی تھی کہ  شاہ کہ چہرے پہ مسکراہٹ آئے مگر شاہ کا دھیان کہیں اور تھا، 

نایاب بیگم نے نوٹ کیا کہ شاہ کہ نظریں سارے گھر میں کبھی یہاں تو کبھی وہاں کسی کی تلاش میں گھوم رہی تھی ،

نایاب بیگم: شاہ بیٹا کیا ہوا کچھہ چائیے،؟

»»»°°°جو چاہتے ہیں ہم ،

وہ ملتا نہیں ہم کو،

بچپن کی محبت پہ،

دل ہار بیٹھے ہیں°°°»»»

شاہ: نہیں خالہ جان بس گھر دیکھہ رہے تھے آپکا،

نایاب بیگم نے قہقہہ لگایا اور شاہ کو شرم آنے لگی،

شاہ کو وہاں بیٹھے چار گھنٹے گزر جانے کو تھے،

مگر جس کا اسے انتظار تھا وہ اس کی آنکھوں کے سامنے اب تک نہ گزری تھی،

آخرکار دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر شاہ نے سوال کر ہی ڈالا جو کہ نایاب بیگم پہلے ہی جانتی تھی کہ،

شاہ کی آنکھیں کس کی منتظر ہیں،

اور اسی کس کی تلاش ہے،

اور وہ کیا ڈھونڈ رہا ہے،

اور یہ نگاہیں اتنی بے چین کیوں ہیں،؟

شاہ: خالہ جان خالو اور باقی افراد نظر نہیں آرہے،؟

نایاب بیگم نے اپنی ہنسی چھپاتے ہوئے کہا بھائی آپ شاید بھول چکے ہیں کہ اس گھر میں ہم اکیلے ہی رہتے ہیں،

شاہ کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا،،

°°°»»» دل ہے کہ اک تیری ضد لگائے بیٹھا ہے،،

تم ہو کہ نہ آنے کی قسم کھائے بیٹھے ہو»»»°°°

شاہ نے نایاب بیگم کی اس بات سے اندازہ لگایا کہ شاید وہ بھی کہیں چلی گئی ہے پڑھائی کے سلسلے میں،

اور جس کی خاطر وہ اتنے سالوں سے بے چین سا تھا اسکی  لئے محبت شاہ کی آنکھوں سے جھلکتی تھی وہ جیسے ہی آنکھیں بند کرتا اسے بچپن کے وہ حسین منظر حسین یادیں نظر آتے،،،

ایک پیاری سی ننھی سی سات سال کی معصوم پری جیسی لڑکی، 

کھیلتے کودتے جب جب وہ ہار جاتی تو وہ دوڑ کر شاہ کہ پاس جاتی اور اور اپنی آواز میں کہتی "شاہ جی" یہ کھیل مجھے جیتنا ہے،

"شاہ جی" یہ گیم مجھے ون کرنا ہے ،

اور جب شاہ جی اسکی بات نہ سنتے تو وہ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسؤں لئے دریا کے کنارے منہ سجا کہ بیٹھہ جایا کرتی 

اور شاہ دوڑتا ہوا آتا اور اس پھول جیسی پری کو جیسے ہی دیکھتا اسکے آنسؤں ٹپ ٹپ کر کہ بھنے لگتے اور شاہ اپنے ہاتھوں سے اسکے آنسؤں صاف کرنے لگتا ، اچھا بابا سوری نہ اب نہیں ہوگا ایسا اب میں آپکی باتیں دھیان سے سنو گا ،

اور پھر وہ موم جیسی لڑکی غصہ چھوڑ کر شاہ سے شکایتیں کرتی ، شاہ جی آپنے کہ نہیں کیا آپنے وہ نہیں کیا اور شاہ کو اسکی شکایتوں سے سکون ملتا اور بڑے غور سے اسے دیکھے جاتا،

وہ معصوم پری 7 سال کی اور شاہ کی عمر تب 16 سال تھی،

اسے جو کوئی بھی تکلیف ہوتی وہ شاہ سے شکایت کرتی ، 

اپنے بھائیوں سے کہتی مگر اسکے بھائی کھیل کود میں اس پہ توجہ نہ دیتے اور اپنی ہی کھیل میں مگن رہتے اور شاہ کا سارا دھیان اسی پہ ہوتا، ساری توجہ اسی پہ دیتے،

صرف ایک وہی تھی جو شاہ کو "شاہ جی" کہتی تھی اور شاہ کو بھی صرف اس پری کا ہی "شاہ جی" کہنا پسند تھا اسے صرف اسی کہ ہی منہ سے وہ ادا کیا گیا وہ لفظ بہت پیارا لگتا اسے، 

اور وہ یہی چاہتا تھا کہ دنیا میں صرف اسکے علاؤہ اور کوئی بھی اسے "شاہ جی" سے نہ پکارے،،

یادوں کے اس خوبصورت تسلسل میں شاہ پتہ نہیں کھاں کھو گیا تھا کہ نا


یادوں کے اس خوبصورت تسلسل میں شاہ پتہ نہیں کھاں کھو گیا تھا کہ نایاب بیگم نے اسے شاہ شاہ کہہ کر بلایا،،

°°°»»» تیری یادوں کے سائے میں ہم،

روز جیتے بھی ہیں،

روز مرتے بھی ہیں،

میری ہر "سحر"بھی تیری ہے،

جاناں،،،

میری ہر "شب" بھی تیری ہے»»»°°°

نایاب بیگم: شاہ کہاں کھو گئے تھے بیٹا،؟

شاہ نے پھیکی سے مسکراہٹ دے کہ کہا کہیں نہیں خالہ کچھہ یاد آگیا تھا،

نایاب بیگم: ہمممممممم، دل ہی دل میں وہ کہنے لگی سب جانتی ہوں میں کہ میرے بچے کو کیا یاد آگیا تھا،

مگر نایاب بیگم بہت پریشان تھی کہ اندر ہی اندر چھپا رہی تھی ناجانے ان 10 سالوں میں کیا بدلا تھا،

کہ وہ اندر ہی اندر انہیں کچھہ کھا رہا تھا،

یا انکی نظروں میں سب بدل گیا تھا،

نایاب بیگم نے شاہ کے بلند وقار کو غور سے دیکھا،

سیاہ رنگ کا کرتا اس پے گھیر والی شلوار ، 

پشاوری چپل، گورا چٹا رنگ،

چوڑی پیشانی، کالی آنکھیں ان میں قدرت کی طرف سے نیلے لینس، کالے کھنے بال، اور کاندھوں پہ شال اوڑھے ہوئے وہ کسی شھزادے سے کم نہ لگ رہا تھا اور اداس بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا،

نایاب بیگم نے اسکی پریشانی کم کرنے کیلئے کہا بیٹا تم آرام کروں میں رات کا کھانا بناتی ہوں انمعول بھی آتی ہوگی،،

کیا،،؟؟

شاہ کو جیسے خود کو سنائی دی گئی بات پہ یقین نہ آیا ہو،

وہ پھر سے سننا چاہتا تھا کہ کہیں اسکا کوئی خیال تو نہیں،؟

نایاب بیگم: ہاں بیٹا کھانا بنا لوں انمعول اور آپکے خالو آتے ہی ہونگے،

شاہ کو اپنے اندر سکون کی لہر محسوس ہوئی جیسے اسے کسی نے اسے زمین سے اٹھا کر آسمان پہ لا رکھا ہو،

بہت سالوں بعد آج اس کا نام سن کہ اسے عجیب سی خوشی ملی تھی،

ایک ہی تو وجود تھا اسکے لئے کہ جس کا نام سن کر وہ خود کو خوش محسوس کرتا تھا اور آج اتنے سالوں بعد کسی نے اسکے سامنے وہ نام لیا تھا،

°°°»»» نگاہیں منتظر ہیں تیرے دیدار کو،،

سامنے آجاؤ،

جانان،،

کہ تم بن اب رہا نہیں جاتا°°°»»»

شاہ اسی روز یاد کرتا تھا، 

آخر وہ شاہ کی بچپن کی محبت تھی، 

شاہ کی آنکھوں کی وجہ سے اور اس کے عہدے پائلٹ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اس پہ مرتی تھی مگر وہ سنجیدہ مجاز تھا تو کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اس سے کوئی بغیر کام کے بات کرے،

شاہ کے دل میں ایک ہی بسی تھی شاہ کی خالص محبت تھی شاہ اسے ہر وقت یاد کرتا تھا، مگر وہ چاہتا تھا کہ وہ بڑا آدمی بن جائے اپنے پیروں پہ کھڑا ہو جائے تب وہ اپنے ملک واپس جائے اور اپنی پری کو دیکھے اور اپنے ساتھہ اسے بھی لے آئے مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اسکی قسمت میں کیا ہے،؟

جسے وہ روز یاد کرتا ہے کیا اسے وہ زرا سا بھی یاد ہوگا،؟

کیا اسے اسکا نام یا اسکا وجود تک یاد ہوگا،؟

اسے خبر نہیں تھی کہ آگے کیا ہوگا،؟

جان سے عزیز اک ذات اسکے لئے بدل گئی ہوگی یا پہلے جیسی،؟

وہ اپنے دل ہی دل میں خوش تھا مگر آگے کا کسی کو کیا معلوم،،،؟؟

°°°»»» تقدیر میں کیا لکھا ہے میرے لئے،؟

ارے پاگل،،

قدرت کے فیصلے ہیں،،

قدرت ہی جانے°°°»»»

جاری ہے....🍃 

Post a Comment

2 Comments