Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Peer Zadi Episode 16 By Waheed Sultan - Daily Novels

 ناول:پیر زادی 

مصنف:وحید سلطان

قسط 16

شرافت جب بنگلے میں داخل ہوا تو اعجاز دوبارہ مین گیٹ سے ملحقہ چھوٹے دروازے کے ذریعے بنگلے میں داخل ہو گیا اور جب مدخل سے گزر کر شرافت اندر چلا گیا تو اعجاز محتاط انداز میں مدخل تک پہنچ گیا جبکہ شرافت کو اب معلوم ہی نہیں تھا کہ اعجاز احمد خالطی اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ لاؤنج سے گزرنے کے بعد شرافت شرفی گلفام مغل کے کمرے میں داخل ہو گیا جبکہ اعجاز بھی اب لاؤنج میں آ چکا تھا۔ اپنی سہولت کی خاطر اعجاز بڑے صوفے کے پاس پڑے شیشے کی میز کو محتاط انداز میں لاؤنج کے وسط میں لے آیا تھا۔ اب وہ بڑے صوفے کی جانب متوجہ ہوا جو کہ جنوبی دیوار کے ساتھ پڑا تھا۔ وہ بڑے صوفے کو آگے کی جانب گھسیٹنا چاہتا تھا لیکن اس نے ارادہ ترک کر دیا اور پھر چھوٹے صوفے کی جانب متوجہ ہوا۔ چھوٹے صوفے کو بڑے صوفے کی نسبت گھسیٹنا آسان تھا اس لیے وہ محتاط انداز میں چھوٹے صوفے کو گھسیٹ کر تھوڑی آگے لے آیا تھا۔ اب اعجاز نے سوچا کہ چھوٹے صوفے اور دیوار کے درمیان باآسانی چھپ کر بیٹھ سکے گا۔ اب وہ گلفام کے کمرے کے دروازے کے پاس گیا اور دروازے کے ساتھ کان لگا کر گلفام اور شرافت کی گفتگو سننے کی کوشش کر رہا تھا۔

۔"میں تمہارے وکیل کے پاس گیا تھا ، مجھے معلوم ہوا کہ تم نے وکیل اور وصیت دونوں ہی بدل دئیے۔"شرافت نے استفسار کرتے ہوئے کہا تو گلفام نے اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔

۔"ہاں مجھے پتا چلا تھا کہ ویکا نامی تنظیم کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی وصیت پر عمل نہیں کرتی اور قانون کی آنکھ میں دھول جھونک کر چیرٹی کا مال اور پراپرٹی ویکا تنظیم کی انتظامیہ خود ہڑپ کر جاتی ہے۔"گلفام نے شرافت کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔

۔"اب نئی وصیت؟"شرافت نے ادھورے انداز میں پوچھا تو گلفام اسکی جانب دوبارہ متوجہ ہوا۔

۔"تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟"شرافت حیران ہوتے ہوئے بولا کیونکہ گلفام اسے عجیب اور مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

۔"تم میرے پرانے وکیل کے پاس کیوں گئے تھے؟"گلفام نے شرافت کے سوال کا جواب سوال سے دیا تھا جبکہ شرافت ٹھٹھک کر رہ گیا اور گلفام کے سوال کا کوئی جواب نہ دے سکا۔

۔"میں نے اپنی وصیت بدل دی ہے ، اب میرے مرنے کے بعد مشال سیما میری جائیداد اور پراپرٹی کی واحد مالک ہو گی اور وہ میری وصیت کے مطابق میری ساری دولت اور پراپرٹی خیراتی اداروں میں تقسیم کر دے گی۔"گلفام نے شرافت کو بتایا تو اس کی پشیمانی حیرت میں بدل گئی۔

۔"تم میرے پرانے اور بہت اچھے دوست ہو اس لیے تمہیں بتا رہا ہوں۔"گلفام نے مزید بتاتے ہوئے کہا۔

اعجاز احمد خالطی گلفام اور شرافت کی باتیں سن چکا تھا اور اب اس نے وہاں سے جانے کی بجائے صوفے کے پیچھے چھپ کر بیٹھنا مناسب سمجھا۔

گلفام اور شرافت شرفی کے جانے کے بعد اعجاز احمد خالطی نے تھوڑی سی کوشش کے بعد مشال سیما کا کمرہ تلاش کر لیا تھا مگر اسے اپنی کوشش پر افسوس ہو رہا تھا۔ مشال سیما کا کمرہ بالکل خالی تھا۔ وہ اپنا سارا سامان وہاں سے لے جا چکی تھی اور اعجاز احمد خالطی کو یہ بات بخوبی سمجھ آ گئی تھی کہ مشال سیما گلفام مغل کے بنگلے سے جا چکی ہے اور وہ کہیں دوسری جگہ شفٹ ہو چکی ہے۔

☆☆☆☆

نور بنت نذیر نے اپنے شوہر امان علی کو بتایا کہ اب جبکہ وہ لاہور آئی ہے تو واپس جانے سے پہلے وہ نور عین سے اور پھر مشال سیما سے ملاقات ضرور کرے گی۔ امان علی نے نور کو بخوشی دونوں ملاقاتوں کی اجازت دے دی تو اس نے پہلے نور عین سے مختصر ملاقات کی اور پھر وہ مشال سیما کے پاس آ گئی۔ مشال سیما کو اداس دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی اور پھر اس نے اس سے اداسی کی وجہ دریافت کی اور ساتھ ہی وہ خوفزدہ بھی تھی کہ کہیں مشال سیما فارس کا ذکر چھیڑ کر نہ بیٹھ جائے۔

۔"میں پہلے سمیسٹر میں مکمل طور پر فیل ہو گئی۔"افسردہ لہجے میں مشال سیما بس اتنا ہی بول سکی تھی اور اسکی بات سن کر نور بنت نذیر کو سچ میں بہت دکھ ہوا تھا لیکن پھر اس نے اسے خوب تسلی دی اور اسی دوران قطب اپنا دوسرا سمیسٹر پاس کرنے کی خوشی میں بڑا سا کیک لے آئی تھی۔

نور بنت نذیر کے جانے کے بعد مشال سیما کو کوئی بات یاد آئی تو وہ فوری طور پر بھاگ کر نور کے پیچھے گئی۔ نور گاڑی میں سوار ہو چکی تھی جب امان علی نے اس طرف اشارہ کیا جس جانب سے مشال بھاگتے ہوئے آ رہی تھی۔ نور بنت نذیر فورا گاڑی سے باہر نکلی اور پھر اگلے لمحے مشال سیما اس کے پاس کھڑی ہانپ رہی تھی جبکہ نور بنت نذیر متحیر نگاہوں سے اسے اس حالت میں دیکھ رہی تھی۔

۔"مشال! کیا ہوا ہے؟"نور نے استفسار کیا۔

۔"وہ تمہیں ایک ضروری بات بتانا تھی۔"اپنی سانس بحال کرنے کے بعد مشال سیما بولی تو نور بنت نذیر نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

۔"میری دوست سدرہ فرہین شمع قرآن کے نام سے ایک ماہنامہ شائع کروا رہی ہے تو اس نے چالیس کاپیاں تقسیم کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی ہے۔"مشال سیما نے نور بنت نذی کو بتایا تو نور نے اسے کہا کہ ایک عدد رسالہ مجھے بھجوا دینا۔

۔"میں نے آستانہ کا پتہ رکھا چودھری پبلیکیشن کو دے دیا ہے اور چالیس میں سے تیس کاپیاں تمہیں بھجواؤں گی اور تم وہ رسالہ اپنی مریدنیوں کو بطور تحفہ دے دینا۔"مشال سیما نے کہا تو نور نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر مشال سیما اسے خدا حافظ بول کر واپس چلی گئی۔

☆☆☆☆

مشال سیما بیڈ پر لیٹی تھی اور وہ افسردہ نگاہوں سے چھت کو گھور رہی تھی جبکہ قطب اس کے پاس بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ آخر کیسے مشال سیما کی اداسی دور کی جائے۔

۔"یہ زندگی پچھلی زندگی سے قدرے مختلف ہوتی ہے ،اس میں بچپن کا مزہ نہیں ہوتا،بے فکری نہیں ہوتی،ایک جنگ ہوتی ہے خود کی باقی سب سے جو ہمیں جیتنی ہوتی ہے۔

یہ زندگی جہاں بے فکر نہیں ہوتی ہے وہیں با اصول نہیں ہوتی، جس کا دل کرے وه کتابوں کے جہاں میں گم رہے اور جس کا دل کرے وه اس جہاں سے منہ موڑ لے۔ 

اور ہاں یہ زندگی اس سب کے ساتھ ساتھ خود کو معتبر رکھنے کا نام ہے نہ کے زمیں بوس کرنے کا ، اس بار فیل ہوئی ہو تو اگلی بار کے لیے بہت بڑی کامیابی تمہاری منتظر ہو گی"قطب مشال سیما سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی تو مشال سیما اس کی جانب متوجہ ہوئی۔ اس نے قطب کو ناگوار نگاہوں سے دیکھا۔

۔"تمہارا تو سمیسٹر کلیئر ہو گیا نا ، تم تو بہت خوشی ہو ، مجھے میری اداسی کے ساتھ اکیلا چھوڑ دو۔"مشال سیما دوبارہ اپنی نگاہوں کا رخ چھت کی جانب کرتے ہوئے بولی۔

۔"وعدوں کا پورا نہ کرنا

غلطیوں کو تسلیم نہ کرنا

کردار اور گفتگو میں تضاد اور بے مقصد زندگی انسان کی  ناکامی کی اہم وجوہات ہیں ناکامی کی سب سے عام وجہ اس کی ایک ہے اور وہ ہے وقتی شکست کو دیکھ کر بھاگ جانے کی عادت ہے۔"قطب نے کہا تو اسکی بات سن کر وہ دوبارہ اس کی جانب متوجہ ہوئی ۔

۔"میں نے کونسا وعدہ توڑا ہے اور میری کس غلطی کی بات کر رہی ہو تم۔"مشال سیما تپ کر بولی تو قطب نے کہا کہ وہ محض اپنا فلسفہ جھاڑ رہی تھی۔

۔"تم اپنا فضول فلسفہ اپنے پاس ہی رکھو تو بہتر ہے۔"مشال سیما منہ پھلا کر بولی اور اس کی نگاہوں کا رخ دوبارہ چھت کی جانب ہو گیا۔

۔"صلاحیتوں سے مالا مال کوئی شخص کامیابی کے حصول میں ناکام ہونے کے بعد مزید کوشش نہیں کرتا تو یہ سب سے زیادہ افسوس ناک بات ہے۔ خودکُشی کامیابی کے حصول کی کوشش ترک کر دینے کی سب سے خطرناک صورت ہے۔"قطب نے اپنا فلسفی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا۔

۔"میں فیل ہوئی ہوں تم نہیں اس لیے میری کامیابی اور ناکامی کے ساتھ مجھے تنہا چھوڑ دو۔"مشال سیما مشتعل انداز میں بولی جبکہ قطب کامیابی اور ناکامی والا اپنا یہ لیکچر جاری رکھنا چاہتی تھی کیونکہ مشال کو یوں تنگ کرنے میں اسے بہت مزہ آ رہا تھا۔

۔"لاپرواہی انسانوں کے ناکام ہونے کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ صاف بات ہے اگر آپ کوئی کام پوری توجہ سے نہیں کریں گے تو آپ اسے ٹھیک طرح سے نہیں کر سکیں گے۔ لاپرواہی ہماری پوری زندگی کو برباد کر سکتی ہے۔ 

بعض اوقات ناکامی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ناکام ہونے والا شخص صحیح مقام پر نہیں ہوتا۔ وہ غلط ملک یا شہر یا غلط ملازمت میں ہوگا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی مشغلہ غلط ہو۔ یہ ناکامی کی سب سے پیچیدہ وجہ ہے

آپ کو کوئی کام نہیں کرنے دے رہا تو خوف کا سامنا کیجیے۔ جیسے ہی آپ خوف کے سامنے ڈٹ جائیں گے، کامیابی فوراً آپ کو حاصل ہو جائے گی۔ خوف پر قابو پا لینا ہی کامیابی ہے۔ یہ کامیابی مزید کامیابیوں کے دروازے کھول دے گی۔ یاد رکھیے خوف ناکامی کا سب سے خطرناک ہتھیار ہے۔ ایک اور بات یاد رکھیے، خوف روشنی کا سامنا نہیں کر سکتا۔ اگر آپ خوف کے سامنے ڈٹ جائیں گے تو جلد ہی وہ آپ سے ’’خوف زدہ‘‘ ہو جائے گا۔

اگر آپ ناکامی کی توقع رکھیں گے تو یقیناً ناکام ہو جائیں گے۔ ناامیدی اس لیے ناکامی کی وجہ بنتی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان اتنی کوششیں نہیں کرتا جتنی کہ اسے کرنا چاہئیں۔

 اگر آپ اپنے مقصد کے حصول کے حوالے سے بھرپور یقین سے محروم ہوں گے تو ابتدا ہی سے ناکامی آپ کا مقدر ہو گی۔"قطب رطب اللسان انداز میں بول رہی تھی جبکہ مشال سیما اب اس پر بالکل توجہ نہیں دے رہی تھی۔

☆☆☆☆

جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments