Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Dil Se Dil Tak Episode 17 | By Sidra Shah - Daily Novels

___ساجن میرا فلفی کمار 

_______ســـــــدرہ شـــــاہ 

#قسط___22

 

؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞؞

یہ فون کیوں نہیں اٹھا رہی ۔۔۔۔!!! 


بیٹا شاویز یہاں تو گل سڑ اس کی یاد میں اور وہ وہاں آرام سکون سے بیٹھی ہے  میرا چین  سکون درہم برہم کرکے 

شاویز مسلسل ایک گھنٹے سے عاینہ کو فون کر رہا تھا پر عاینہ  بھی پھر عاینہ تھی اس کی کال اٹھا ہی نہیں رہی تھی ۔۔۔۔۔!!!


بس اب بہت ہوا 

عاینہ اگر تم نے اب میری کال اٹینڈ نہیں کی تو  کل ہماری ملاقات روبروو ہو گی ۔

شاویز نے غصے سے اس کو وائس میل کی ۔۔۔!!


عاینہ اُدھر شاویز کو مسلسل تنگ کر رہی تھی اور زویا کی بات پر پورا عمل کر رہی تھی ۔

روئی جیسے ہاتھوں میں سیل پکڑے کشن گودمیں رکھے وہ شاویز کے میسج اور کال کو دیکھ رہی تھی ۔

سبز آنکھوں میں شررارتی  سی چمک تھی ۔

اوہ تو وائس میل دیکھتی ہو کیا بھیجا ہے اس لنگور نے ۔۔۔۔!!!!! 


عاینہ اگر تم نے اب میری کال اٹینڈ نہیں کی تو  کل ہماری ملاقات  روبرو ہو گی ۔

سپیکر سے شاویز کی غصے بھری آوازہ ابھری ۔

جسے سن کر عاینہ کی روح فنا ہوئی۔۔۔۔!!!! 


اور بوکھلاہٹ میں اس کے ہاتھ سے  سیل فون گر گیا 

زویا تمھارے الٹے سیدھے مشوروں پر عمل ہی کیوں کیا ۔

عاینہ نے اس لمحے کو کوسا جب اس نے زویا کے مشوروں پر عمل کیا ۔

یہ یہ ویڈیو کال کیوں کر رہا ہے ۔

شاویز کے ویڈیو کال کرنے پر اس کی فنا ہوئی روح مزید فنا ہوئی ۔۔۔۔۔!!! 


ریلیکس عاینہ تم کیوں بلا وجہ اس لنگور سے ڈر رہی ہوں۔ 

عاینہ نے ایک لمبا سانس لیا اور کال پِک کی ۔

یہ موبائل صرف سانگ سننے اور پکچر لینے کے کام نہیں آتا اس پر جب کال کی جاۓ تو اٹھاتے ہیں ۔

اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھ کر سارا غصہ تو جھاگ کی طرح اڑ گیا پر جتانا بھی ضروری سمجھا ۔۔۔۔۔!!! 


وہ شاویز بھائی وہ میں مامی کے ساتھ تھی اور سیل روم میں تھا ۔

عاینہ نے کچھ جھجکتے ہوۓ اپنی بات مکمل کی ۔۔۔

شاویز جو عاینہ کے حسین روپ کو ملاحظہ کر رہا تھا بھائی کے لفظ پر جیسے  کڑوا بادام منہ میں آگیا ہو

تمھارا بھائی کراچی میں ہے 

میں تمھارا بھائی نہیں بن سکتا 

بھائی سے کچھ زیادہ قریبی رشتہ بن سکتا ہے اگر تم  اپنی نظرِ کرم کرو ۔

شاویز کی شوخ نظریں عاینہ کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں 

جو شرم سے لال تھا ۔

 وہ میں مامی بلا م میں گ گی۔

عاینہ نے کال بند کی 

دل تھا کہ باہر نکلنے کو بےتاب تھا  اس نے اپنے خشک ہونٹوں کو زبان سے تر کیا 

یہ لنگور تو میری سوچ سے زیادہ لنگور نکلا 

عاینہ اتنا برا بھی نہیں ہینڈسم تو ہے 

عاینہ نے خود ہی اپنی سوچ کی نفی کی ۔

عاینہ کے ساتھ اگر شاویز لگا لیا جاے تو کتنا اچھا لگے گا نہ 

عاینہ شاویز  ہاہاہا 

وہ کھلکھلاتی ہنس دی 

محبت کی ننھی سی کلی اب گلاب بن کر مہک رہی تھی اور عاینہ تتلی کی مانند اس کے گرد منڈلا رہی تھی ۔

؞*؞*؞*؞*؞*؞*؞*ۧ؞*؞*؞*

دادی آپ نے سالک سے بات کی تھی پھر 

سحرش یہاں وہاں کی باتیں کر لینے کے بعد اپنی مطلب کی بات پر آئی۔

کچھ لمحے عالیہ ایوان چپ رہی کہ کیسے سحرش کو سمجھائے 

ہیلو دادی  آپ سن رہی ہیں سپیکر سے سحرش کی آوازہ ابھری ۔

بیٹا وہ بات دراصل یہ ہے

عالیہ اعوان نے تمہید باندھی ۔

جی بولے دادی میں سن رہی ہوں۔

سحرش نے بےچینی سے بولا ۔

سحرش میری جان جب میں آوں گی تو تب تمھیں ساری بات تفصیل سے بتا دو گی بھلا یہ باتیں فون پر کرنے کی تھوڑی ہیں۔

عالیہ ایوان نے سحرش کو پچکارتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں فون رکھتی ہوں ابھی ڈنر پر فرینڈ کے ساتھ جانا ہے ۔

یہ کہتے ہی سحرش نے فون رکھ دیا ۔

اچھا کیا بی جان آپ نے فون پر نہیں بتایا ۔

کیا کروں ناعیمہ جیسے سالک اور عاینہ ہیں ویسے ہی میرے لے سحرش اور صارم بھی 

پر سالک میاں کو کون سمجھاۓ اب نجانے کس سے دل لگا بیٹھے 

کیا تمھیں کچھ بتایا سالک نے اس لڑکی کے بارے میں 

عالیہ ایوان نے کہا ۔

نہیں بی جان ہمیں تو آپ سے پتا چلی یہ بات ہمیں کچھ نہیں بتایا اس لڑکے نے 

ناعیمہ ایوان نے سالک سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوے کہا 

اور وہ میڈم کب تشریف لارہی ہے؟؟ 

معلوم نہیں بی جان۔۔۔ 

ناعیمہ ایوان نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

مجھ میں تو سحرش کا سامنا  کرنے کی ہمت نہیں پر ہمارے بگڑے نواب کو اس معصوم کی قدر نہیں ۔

ناعیمہ ایوان نے رنجیدہ لہجے میں کہا ۔

سب ٹھیک ہوجاے گا بی جان 

یہ تو نصیب کی بات ہے ۔

ناعیمہ ایوان نے بی جان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر تسلی دی ۔

بلکل جیسی اللہ کی مرضی 

میں ذرا نماز پڑھ لوں 

آئیے  میں آپکو چھوڑ دوں 

ناعیمہ ایوان نے پیار سے کہا 

جیتی رہو بیٹا ۔۔

عالیہ ایوان نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا 

ناعیمہ ایوان بی جان کو سہارا دیتی کمرے کی طرف بڑھ گئیں 

******۞۞۞****……

ارے تم دونوں کب آے بی جان بی جان دیکھیں تو زرا ہماری گھر کی رونق لوٹ آئی  ۔

ادھر آو میری جان میرے دل کے ٹکرے 

ناعیمہ ایوان نے اپنے دونوں بچوں کو گلےلگایا 

میں تم دونوں سے ناراض ہوں ایک بار بھی ماں کی یاد نہیں آئی ۔۔

ناعیمہ ایوان اچانک ان کی آمد پر کھل اٹھی تھی پر شکوہ کرنا بھی ضروری سمجھا ۔

نوماما آئی مس یو سو مچ ماماجانی ۔

عاینہ نے روتے ہوے ناعیمہ ایوان کو گلے لگاتے کہا ۔

ارے بس چپ میری جان میں نے بھی بہت یاد کیا ۔

ناعیمہ ایوان نے پیار سے عاینہ کو پچکارتے ہوۓ کہا ۔

عاینہ بیٹا جی آپ 

عالیہ ایوان جو ناعیمہ ایوان کی آوازہ سن کر آئی تھی ۔

اپنے دونوں بچوں کو دیکھ کر حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت سے کہا

میری پیاری بی جان کیسی ہیں آپ 

سالک نے عقیدت سے ناعیمہ ایوان کے دونوں ہاتھ چومتے ہوۓ کہا 

میں تو ٹھیک پر یہ تم دونوں کو کیا ہوا دیکھوں تو زرا اتنا سا منہ نکل آیا ہے 

ہاے میرے بچے کیسے صحت مندند و تندرست تھے 

وہاں جاکے کیا حال کر آۓ

عالیہ ایوان نے ان دونوں کو دیکھتے ہوۓ تشویش سے کہا 

بی جان آپکو ایسا لگ رہا ہے اتنے دنوں بعد جو دیکھا ہے اس لے ورنہ مجھے تو اس چڑیل کو دیکھ کر لگ رہا ہے سارے امریکہ کا راشن کھا کر آئی ہو دیکھو زرا ایسے پوری فارمی مرغی لگ رہی ہے موٹی گول گپے جیسی 

سالک نے عاینہ کو چھیڑتے ہوۓ کہا ۔

بی جان، ماما دیکھیں بھائی کو۔۔۔۔۔

سالک نے مزید عاینہ کو چڑانے  کےلیے زبان چڑھائی

میں جارہی ہوں اپنے روم میں 

عاینہ اپنی ناک پھلا کر بولی 


عاینہ اگر ڈور سے اندر نہ جا سکو تو بتادینا ہم ڈور والے کو بلا کر ڈور کو بڑا کروا دیں گے

سالک شرات سے باز نہیں آیا 

بی جان بھائی نا کہہ رہے تھے کہ آپکے ہاتھ کا وہ کدو والا حلوہ کھانے کو دل کر رہا ہے 

تو آپ بنا دینا ضرور اوکے 

باۓ ڈئیر برو ۔

وہ بھی اپنا حساب برابر کرکے چلتی بنی ۔

نہ نہیں بی جان مجھے نہیں کھانا 

سالک تو یہ کہتا بھاگ گیا ۔

پیچھے بی جان کو حیران چھوڑ کر 

پتہ نہیں یہ بچے بھی نا 

بی جان نے سر جھٹکتے ہوۓ کہا 

اب ناعیمہ ایوان کیسے بتاتی سالک کو کدو کا حلوہ کتنا ناپسند ہے 

تو چپ رہنے میں ہی عافیت جانی 

*********

Post a Comment

0 Comments