Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan By Gohar Arshad Episode 9 - Daily Novels

 

ناول:عشقِ یزداں

قسط:9

آنٹی اور میں دوکان سے نکلنے کے بعد گھر کی طرف چل دیے۔لیکن آنٹی کو پتہ نہیں آج کیا ہوا؟؟

انھوں نے عجیب و غریب سوال شروع کر دیے۔میں حیرت سے ان کے چہرے کو دیکھتی جا رہی تھی؟؟

انھوں نے پہلا سوال ہی یہی کیا تم جانتی ہو اس کو؟؟

میں نے حیرت سے پوچھا کس کو؟؟

ارے وہی لڑکا جو کپڑوں والی دوکان کے اندر تھا،جو آپ کی خدمت کر رہا تھا؟؟

توبہ ہے ویسے آنٹی خدمت اور میری؟ میں تو اس کو جانتی تک نہیں آج پہلی بار دیکھا ہے اور جہاں تک بات ہے بوتل کی تو میں نے منع بھی کیا لیکن اس نے منگوا دی بس؟؟

وہی تو میں کہہ رہی ہوں ہم نے اس دوکان سے کچھ لیا بھی نہیں تو اتنا تکلف؟؟؟

چھوڑے ان باتوں کو آپ بتائیں جو کچھ لینا تھا آپ نے لے لیا؟؟

ہاں وہ تو سب ہو گیا ہے،اب بس جلدی سے گھر پہنچ جائیں۔

اس سے آگے راستے میں ادھر اُدھر کی باتیں ہوئی اور گھر آگیا وہ اللہ حافظ کہہ کر اپنے گھر کی جانب چل دی،مجھے بہت کہا کہ ان کے گھر چلوں لیکن میں نے انکار کر دیا کہ پھر کبھی آؤں گی۔

گھر کے اندر آئی تو امی انتظار میں تھی۔انھوں نے پوچھا کہ کہاں رہ گئی تھی اتنی دیر لگا کر آئی ہو؟؟پورا بازار خرید رہی تھی؟

میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا ہاں جتنے پیسے آپ نے دیے تھے ان سے اک بازار کیا تین چار بازار خریدے جا سکتے ہیں۔

وہ ہنس کر اندر کو چلی گئی۔میں بھی کمرے میں گئی کپڑے وغیرہ بدل کر گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔یہ پیار محبت انساں کو تب یاد آتے ہیں جب اس کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا؟؟یا وہ اکیلا کہیں پر موجود ہوتا ہے؟؟ہم لڑکیوں کو تو یہ رات کے وقت زیادہ یاد آتا ہے جب آنکھوں سے نیند روٹھ کر کہیں دور چلی جاتی ہے۔پورا دن کام میں مصروف رہی کچھ یاد ہی نہیں تھا لیکن جوں ہی شام کا کھانا کھانے کے بعد کچھ ٹی وی پر بیٹھے تھے اور کچھ سونے کے لیے تیار تھے۔تب میں سونے کے لیے لیٹ تو گئی لیکن دور دور تک نیند کا نام و نشان تک نہ تھا،اگر میں یوں کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ نیند کس صحرا میں پانی کے قطروں کی گم ہو گئی،جیسے صحرا میں مسافر کو پانی کی شدید طلب ہوتی ہے اور وہ اس کو میسر نہیں ہوتا میری بھی کیفیت اس مسافر کی سی تھی۔ذہن خیالات کی دور وادی میں لے کر جانے میں کامیاب ہو گیا۔طرح طرح کے خیالات کو ہمارا دماغ جنم دینے میں ماہر ہے۔سب سے پہلے خیال آیا کہ آنٹی ٹھیک کہہ رہی تھی ہم نے اس دوکان سے کچھ لیا نہیں تو اس نے ٹھنڈا کیوں منگوایا؟؟

لیکن پھر جواب خود ہی اندر سے پھوٹ پڑا ہو سکتا ہے ان کے ہاں رواج ہو کہ کسی بھی آنے والے شخص کو کچھ کھلائے پلائے بغیر واپس نہیں جانے دینا۔

اب دوسری بات یہ کے میرے دماغ میں بار بار اس کا خیال کیوں آرہا ہے؟؟؟آج تو اس کا آخری دن تھا دوکان پر اب وہ تو چلا جائے گا پتہ نہیں۔ کہاں رہتا ہے اب دوبارہ نظر بھی آئے گا یا نہیں؟؟ دل میں عجب کشمکش جاری تھی؟؟ابھی تک وہ میرے دل و دماغ پر پوری طرح نہیں مگر چھا گیا تھا کافی حد تک،

میری کوشش کے باوجود اس کا خیال آ جاتا۔

باتیں تو بہت ہیں مگر میں ان باتوں کی وجہ سے دوبار اس دنیا میں نہیں جانا چاہتی خیر وقت تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا تھا،چھوڑی عید کے دن قریب آ گئے،اس وقت تک مجھے بازار گئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا تھا،اس وقت تک میرے ذہن میں کبھی کبھی خیال آتا تھا کہ شاید وہ یہی ہو یا اس سے دوبارہ کئی ملاقات ہو،ہوا کچھ یوں کہ عید کے دن جوں جوں نزدیک آ رہے تھے میرے اندر اک عجب سی خوشی اور گھبراہٹ دونوں بیک وقت موجود تھے پتہ نہیں کیوں؟؟؟

عید سے دو تین دن پہلے امی نے مجھے بلایا اور کہا کہ شاپنگ کے لیے بازار چلنا ہے کل،تم تیار رہنا

میں نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے کچن کی طرف چلی آئی اور کھانا بنانے لگی۔دوسرے دن صبح سات  بجے امی نے آواز دی کہ جلدی سے تیار ہو جاؤ بازار چلنا ہے تمہارے ابو کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔ابو کے ساتھ نہ جاتے تو گاڑی کے ملنے کے چانس کم تھے اس لیے امی نے کہا کہ ابو کے ساتھ ہی چلتے ہیں،ابو نے بھی ہاں کر دی ہم دونوں بلکہ گھر والے سب ہی بازار جانے کے لیے تیار ہو گئے،گھر سے باہر آئے تو موقع پر ہی اک گاڑی والے نے روک کر پوچھا کہ بازار جانا ہے ہم نے ہاں میں ہاں ملائی اور گاڑی پر سوار ہو کر بازار کی طرف چل دیے۔بازار میں پہنچ کر ابو نے ہمیں پیسے دیے اور کہا کہ جو لینا ہے لے لو اور خود کام پر نکل گئے،ہم سب امی کے ساتھ مختلف چیزیں لینے میں مصروف ہوگئے،لیکن جوں ہی کپڑوں کی باری آئی میرے دماغ میں فوراً سے وہی دوکان آئی۔میں اب امی کو کہہ تو نہیں سکتی تھی کہ اس دوکان سے لینے ہیں لیکن دل میں خواہش یہی تھی کہ امی وہاں چلیں دیکھوں تو وہ ادھر ہی ہے یا کہیں چلا گیا؟؟؟

امی نے اک دو دوکانوں پر دیکھنے کے بعد اس طرف مڑی تو امید کی اک کرن جاگ اٹھی لیکن خراب قسمت کہ امی اس سے ساتھ والی دوکان میں مجھے لے گئی اور وہاں سے ہی سب کپڑے پسند کر لیے اور ہم واپس گھر کی طرف آ گئے۔میری حالت کو دیکھ کر امی نے مجھ سے پوچھا کچھ پسند نہ ہو تو اور لے لو۔یا اس کے علاؤہ کچھ لینا ہے تو پیسے لے جاؤ اور لے آؤ 

میں نے ناں میں سر ہلایا اور واپس گھر کی طرف آ گئی۔امی کو میری حالت دیکھ کر اندازہ ہوگیا تھا کہ کچھ تو ہے جو مجھے نہیں بتا رہی۔

انھوں نے گھر آ کر بھی دو تین بار پوچھا کچھ مسئلہ ہے تو بتاؤں صحت ٹھیک ہے ناں تمہاری؟؟؟

کیا کہتی میں بس ہاں میں سر ہلاتی رہی اور اک دو باتوں پر مجھے غصہ کرتے دیکھ کر وہ اور حیرت زدہ ہوئی کیونکہ آج تک میں نے کسی بات پر غصہ نہیں کیا تھا،وہ کہنے لگی کہ شاید تمہیں کچھ پرابلم ہے یہ گولیاں کھا کر سو جاؤ۔میں نے ایسا ہی کیا گولیاں کھا کر سو گئی۔جب واپس اٹھی تو کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔اک بات ہے ویسے انسان کتنی ہی ٹینشن یا پریشانی میں کیوں نہ ہو اگر وہ اس وقت سو جائیں تو جب واپس اٹھتا ہے تو اپنے آپ کو کافی بہتر محسوس کر رہا ہوتا ہے اور مجھے تو لگتا ہے کہ وہ یہ تک بھول جاتا ہے کہ اس کو مسئلہ کیا تھا؟؟

امی نے پھر پوچھا کہ کیا ہوا تھا،

میں نے کہا کہ شاید دھول کی وجہ سے سر میں درد شروع ہو گیا اس لیے ایسا ہوا.

انھوں نے میری بات پر یقین کرتے ہوئے کہا ہاں یہ تو ہے سڑک کے اردگرد کی دھول اور گاڑیوں تیز رفتاری کی وجہ سے بہت بار یہ مسئلہ ہوتا ہے آئندہ احتیاط کرو

پھر اندھیری رات میرے لیے عذاب

سب آرام سے خراٹے لے کر سو رہے تھے اور میری نیند مجھے سے دور بھاگ رہی تھی،میری سوچوں کا محور و مرکز وہی،اب یہ تو پتہ نہیں کہ وہ کدھر ہے لیکن جہاں بھی ہے اس معصوم روح کو پریشان کر دیا ہے،اگر دوکان پر جانا ہو جاتا تو یہ پتہ چل جاتا کہ وہ یہی ہے کہ چھوڑ کر چلا گیا؟خیر اس سے کیا فرق پڑتا ہے،اب کیا پتہ کب بازار جانا نصیب ہو گا وہ تو چلا گیا ہو گا اور اگر نہیں بھی تو دوبارہ بازار جانے تک میرے وہ چلا جائے گا اور ویسے بھی وہ یہاں عارضی ہی تو آیا تھا۔ان سب الجھنوں میں رات بسر ہوئی۔عید کا پہلا دن آ گیا،صبح سویرے ہی سب کے چہرے خوشیوں سے باغ باغ،ہر طرف میٹھے کو پکانا کا انتظام ہو رہا تھا ہر طرف نئے رنگ برنگ کپڑوں میں ملبوس لوگ نظر آرہے تھے،عید کی نماز کے بعد ہمارے گھر میں لوگوں کی آمد آمد تھی سب گلے مل کر اک دوسرے کو عید مبارک کہہ رہے تھے،ہر اک کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا اور ان سب کے درمیان اک میں جو اپنے کھوئی ہوئی کسی چیز کو ڈھونڈ رہی تھی سب مجھے بڑے عجیب طرح سے دیکھ رہے تھے ابو نے بھی مجھے اپنے پاس بلایا اور وجہ ہوچھی کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ میری شہزادی خوش نہیں ہے پیسے چاہیے تو بتاؤں؟؟

میں نے ناں میں سر ہلایا اور کہا کہ میں تو ٹھیک ہوں پتہ نہیں آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے مجھے سے عجیب عجیب سوال پوچھ رہے ہو؟؟

اچھا ٹھیک ہے اگر تم ٹھیک ہو تو کوئی تم سے کچھ نہیں پوچھے گا،انھوں نے امی کو بلا کر کہا اس کے بعد میری شہزادی کو تنگ مت کرنا اس سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔

امی نے کہا مجھے کیا ضرورت ہے کچھ پوچھنے کی میں تو بس یہی چاہتی ہوں کہ یہ ٹھیک ہونی چاہیے ابو کو میری کمزوری کا اندازہ تھا ان کو پتہ تھا کہ مجھے بچپن سے گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا،

انھوں نے کہا کہ عید کے دوسرے دن یعنی کل ہم سب گھومنے کے لیے چلیں گئے انھوں نے اک جگہ کا بتایا جو ہمارے گھر سے تھوڑی ہی دور تھی،میں کھل اٹھی  سب مجھے اس طرح اچانک خوش دیکھ کر خوشی سے جھومنے لگے،ابو نے کہا کل سب تیار رہنا۔میں اپنی اداسی ساری اک طرف رکھ کر بھول گئی اور کل گھومنے کے لیے تیار ہونے لگی یہ جوتے،یہ کپڑے پہنو گی۔اس رات جلدی سو گئی اور دوسرے دن سب جانے کے لیے تیار ہو گئے،جس جگہ پر ہم جا رہے تھے وہاں اک بڑا پارک تھا،پارک کے اندر طرح طرح کے جھولے گھڑ سواری اور بہت سی اور پر لطف چیزیں تھی مجھے ہمیشہ سے زندگی کو پر لطف بنانے کا اشتیاق رہا۔ہر بار زندگی کو میں نئے رنگ میں دیکھنے کی خواہش مند رہی۔گھر سے جلدی نکلنے کی وجہ سے ہم نے راستے ہیں اک ہوٹل پر ناشتہ کیا خوب کھایا اور لطف اٹھایا ہر گھر کے اندر رہنے والی عورتوں کا یہ حق ہے میں سمجھتی ہوں کہ ان کو خاص کر کے عید جیسے موقعوں پر باہر کی دنیا کی سیر کروائی جائے کیونکہ اگر آپ پانچ سات دن گھر رہنے سے بور ہو سکتے ہیں تو جو سارا سال گھر میں رہتی ہیں وہ بھی بوریت محسوس کر سکتی ہیں ان کو بھی باہر کی دنیا کا اندازہ ہونا چاہیے۔ہم سب پارک میں پہنچے تو عید کی وجہ سے لوگوں کا بہت زیادہ رچ تھا ہر طرف ہنستے مسکراتے چہرائے نظر آ رہے تھے ہر خاص و عام یکساں خوشی محسوس کر رہا تھا۔بچے جھولوں کو دیکھ کر خوش اور ماں باپ بچوں کی خوشی کو دیکھ کر خوش تھے۔ہر طرف ہنستے  مسکراتے لوگوں میں دور کسی بچے کے رونے کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی،میں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا تو دور دور تک کچھ نظر نہ آیا پھر پارک کے گیٹ کے پاس اک بچہ روتا دکھائی دیا جو شاید اپنی امی کے ساتھ آیا تھا میں نے ابو سے اجازت لی اور اس بچہ کی طرف چل دی اس کے نزدیک پہنچ کر میں نے کیا دیکھا؟؟؟

اف اس کے پاؤں میں چپل تک نہ تھی اور کپڑوں کی حالت دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ یہ کتنے پرانے ہو سکتے ہیں۔وہ بچہ مسلسل روتا جا رہا تھا اس کی بات کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments