Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Jaan By Ana Shah Episode 3 - Daily Novels

قسط نمبر 

ناول نگار آنا شاہ 

ناول جان 


یہ منظر ہے ایک عالیشان محل کا جو سڑک کے بائیں جانب پوری شان و شوکت سے کھڑا تھا ۔گیٹ سے اندر جائیں توبڑا سامحل  اطراف میں باغ اور درمیان میں سے ایک سڑک محل کے میں ڈور کی طرف جارہی ہے جبکہ بائیں طرف ایک سوئمنگ پول بھی ہے باوردی ملازم چاکوچوبند کھڑے ہیں تین گاڑیاں اس وقت بھی لائین میں کھڑی ہیں 

 مین ڈور سے اندر داخل ہوتے ہیں تو موٹا ریشمی قالین اپنی توجہ کھینچ لیتا ہے اوپر لگا فانوس آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے ہر چیز ہی اپنی قیمت کا خود بتا دے رہی ہے لاؤنج کی ساءیڈ پر  بنے ہوئے کچن میں اس ٹائم  کوکس لنچ  تیار کر رہے ہیں لاؤنج  سے سیڑھیاں اوپر کو جاتی ہیں اوپر لائن میں بہت سے کمرے بنے ہیں ۔سب سے پہلا کمرہ کھولیں تو سامنے ہی جہازی سائز بیڈ پروہ محوِ خواب ہے ۔یہ کافی بڑا کمرہ ہے ۔اچانک الارم کی آواز کمرے میں گونجتی ہے وہ جو اوندھے منہ سو رہا تھا اس کی نیند میں خلل پڑتا ہے ۔وہ اپنی بھوری خمار آلود آنکھوں سے موبائل کی طرف دیکھتا ہے موبائل پر اپنے خاص بندے کی کال آتی دیکھ کر وہ جھپٹ  کر موبائل اٹھاتا ہے سردار بادشاہ !!مجھے اس لڑکی کی پوری ڈیٹیل مل چکی ہے لائن کی دوسری طرف اس کا خاص بندہ اسے اس لڑکی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے  لگ جاتا ہے لیکن جب اس کا بندہ یہ بتاتا ہے کہ امروز یہ بچپن سے ہی دامیر شاہ لارک کی منگیتر  ہے تو اس کے ماتھے پر کئ بل پڑ جاتے ہیں ۔ٹھیک ہے نواز !میرے اگلے حکم کا ویٹ کرو !یہ کہہ کر وہ کال ڈس کنیکٹ کر دیتا ہے ۔امروزیہ نفیس شاہ !

"تم بھلے کسی کی منگیتر ہو پر منکوحہ میری ہی بنو گی" وہ اس کے خیالی پیکر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے اور اس کی باتیں یادکر کے مسکراہٹ اس کے لبوں کا احاطہ کرتی ہے ۔پر جیسے ہی  منظر جس میں وہ دامیر شاہ لاری کی طرف بھاگ گئی ہے اس کے ذہن کے پردے پر تازہ ہوتا ہے اسکے ہونٹ مسکرانا بھول جاتے ہیں  ۔اور مسکراہٹ کی جگہ شدید غصے سے وہ پاگل ہو جاتا ہے ۔"بے شک میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں اور تمہیں کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا لیکن اس بات کی سزا ملے گی جو تم میرا ساتھ چھوڑ کر اس کی طرف بھاگ گئی "ایمرو زیانفیس شاہ لارک Just Wait And watch👁 "🌺🌺🌺🌺🌺

سائیڈ ونڈو سے دھوپ کی روشنی چھن چھن کر  کمرے میں آ رہی تھی  ۔دبیز پردوں نے  کسی حد تک اس روشنی کو روکا ہوا تھا۔ امروزیہ بیڈ پر محوِ خواب تھی ۔نفیس بیگم دروازہ کھول کر اندر آتی ہیں اور اسے بیڈ پر سویا دیکھ کر وہ محض سر ہلا کر رہ جاتی یہ تو وہ جانتی تھیں کہ وہ ہر طرح کی تعلیمی سرگرمی سے ایک ماہ تک فارغ تھی ۔یہ عرصہ اس نے پارٹیاں کرنے اور چند دوستوں کی شادی اٹینڈ کرنے میں گزارا تھا اس کے علاوہ جنگل والا واقعہ بھی اسی کے اندر آتا تھا نفیس بیگم نے بڑے پیار سے اس کے بالوں میں  ہاتھ پھیرا "امروزیہ  "!"بیٹااٹھ جاؤ بارہ بج چکے اور تمہاری فرینڈ انیلا کا تین دفعہ فون آ چکا ہے تم لوگوں کا شاید کچھ شاپنگ کا پروگرام ہے ۔"

امروز یا جس نے اپنی خوبصورت آنکھیں تھوڑی سی کھولی تھی ان کی بات سن کر اس کی بھوری آنکھیں پوری  کھل گئیں وہ ایک چھلا نگ لگا کر  بستر سے نکلی "او نو مما!  مجھے یاد نہیں تھا کہ آج ہم لوگوں نے شاپنگ پر جانا ہے "ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی جب دھاڑ سے دروازہ کھلا اورانیلا  اور عینی کا گینگ کمرے میں داخل ہوئ انہوں نے شاید اس کی مما کو نہیں دیکھا تھا اس لئے آتے ہی نون سٹاپ شروع ہوگئی تھیں ام  روز یہ !آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے !پٹنے کے لئے تیار ہو جاؤ اس کی مما پر جب ان کی نظر گئ تو ان کی بولتی بند ہوگئی اور انہوں نے جلدی سے اس کی مما کو سلام کیا!آنٹی کیسی ہیں آپ !نفیس بیگم نے شفقت سے ان کی طرف دیکھا  اور بولیی بیٹا میں ٹھیک ہے میں تو کب سے اٹھا رہی ہوں کہ آپ کے فرینڈزکی کالز آ رہی اٹھ جائے "** امروزیہ ان کو دییکھ کر آنکھ مار کر  واش روم میں گھس گئی اور جلدی سے آواز لگائی بس دو منٹ !انیلا اور عینی نے ایک دوسرے کو دیکھا 👀اور دانت پیس کر رہ گیں۔ 😤😤😤


🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺


دامیر شاھ ابھی ابھی آفس آیا تھا اور بہت ضروری فائلز دیکھ رہا تھا ۔جرم سے اسے شروع سے ہی نفرت تھی اسی لیے وہ اپنے والد کے ساتھ سیاست میں بھی شامل نہیں ہوا تھا اسے  معلوم تھا کہ سیاست میں آپ جتنا بھی ب چ لو پر وہ کیچڑ میں پھنس ہی جاتا ہے آپ کواپنے ھریف کو  نیچا دکھانے کے لئے ایسے  ھتکنڈے

استعمال کرنے پڑ تے ھیں۔جو انتہائی غلیظ ھیں اسی لمحے  سپاہی ایک ادھیڑ عمر   شخص کو لئے اندر داخل ہوا پست قد نو وارد کے چھرےچہرے پر گھنی داڑھی تھی وہ ایک قیمتی  سوٹ میں ملبوس تھا رعونت اس کے چہرے سے ٹپک رہی تھی ۔شاہ صاحب کیا حال ہے "جب سے آپ کراچی پوسٹ ہوئے ہیں آپ سے ملاقات ہی نہیں ہوئی اس کے چار بندے اس کے پیچھے کلاشنکوف لے کر کھڑے تھے ۔ایک کافی بڑا بریف کیس اس کے بندے نے ٹیبل پر  رکھا۔جسے دیکھ کر دا میرشاہ کی تیوریاں چڑھ گئیں وہ سمجھ تو گیا تھا کہ یہ بریف کیس کیوں ہے اور اس میں کیا ہے '۔* **

اس میں کوئی شک نہیں کہ دا میرشاہ کانسی کے مجسمے کی طرح سخت اور اپنی تیز آنکھوں کے باعث شاہین صفت لگتا تھا۔!!!اس کی آنکھوں کی سختی اور انداز نے اس بوڑھے کو بھی چونکا دیا تھا اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ گھی ٹیڑھی انگلیوں سے نہیں نکلے گا ۔۔وہ وہاں کوئی عام انسان نہیں بلکہ کراچی کا نامی گرامی گنڈا تھا ۔۔اس کی دہشت کافی تھی ۔وہ دا میر  شاہ کے بارے میں ساری معلومات لے کر ھی اس کے پاس پہنچا تھا تاکہ اسے رشوت دے کر اپنے کام آسان کروا سکے جو کہ د امیر شاہ کی وجہ سے رک گئے تھے ۔۔۔۔اور انڈرورلڈ کے تقریبا تمام گینگسٹر  دامیر شاہ کی وجہ سے کافی پریشان تھے کیونکہ دا میرشاہ نے ان کا  کافی مال پکڑا تھا اور ان کے اڈوں پر چھاپے مارے تھے ۔۔۔۔

وہ لوگ اس وجہ سے بھی خاموش تھے کیونکہ دامیرشاہ کے والد کے بارے میں بھی یہ سارا کچھ جانتے تھے کیونکہ وہ سیاست میں تھے اور سیاست میں کافی عملی طور پر کام کر رہے تھے اس لئے بھی وہ دامیر شاھ پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے تھے ۔۔دامیر شاہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور مسکرا کر بولا آپ میرے بارے میں ساری معلومات لے کرھی آئے ہوں گے اور جانتے ہوں گے ایسے کیئ ۔ بریف کیس پہلے سے ہی موجود ہیں بہرحال آپ اس بریف کیس  کو مہربانی کرکے اٹھا لیں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے وہ گنڈا جو  کہ نام نامی گرامی تھا اور لوگوں سے بھتے بھی وصول کرتا تھا۔اس نے کافی سنجیدگی سے شاہ کی طرف دیکھا اور بولا "شاہ جی آپ برا کیوں مانتے ہیں ہم لے جاتے ہیں لیکن ہم آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے آئے اور مجھے یقین ہے کہ آپ ہمیں مایوس نہیں کریں گے ھیں" ایک گنڈے کی اور پولیس آفیسر کی آپس میں کیا دوستی ہو سکتی ہے آپ غلط جگہ پر آ گئے اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا آپ جا سکتے ہیں ھیں "دا میر شاہ نے کافی کڑے  انداز میں اسے جواب دیا اس گنڈے  نے جو کہ کبیر سپاری کے نام سے جانا جاتا تھا۔بڑی مشکل سے اپنی بےعزتی برداشت کیں اور اپنے بندوں کو بریف کیس  اٹھانے کا کہا اور خاموشی سےکھڑا ہو گیا ۔۔"۔شاہ جی ہماری آفر پر غور ضرور کیجئے گا" کبیر سپاری نے دو انگلیوں کو ماتھے کی طرف لے جاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا **

شاہ کا اس کی باتیں سن کر دماغ خراب ہو چکا تھا وہ اس سسٹم کو ہی تو ٹھیک کرنے آیا تھا    ۔اسے پتہ تھا کہ یہ آسان نہیں اور وہ اکیلا کچھ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اس سسٹم میں بہت سی کالی بھیڑیں تھیں۔ لیکن اس بات کا اسے اندازہ تھا کیونکہ اس کے ساتھ فوج بھی ملی ہوئی تھی جو کہ اب ان گینگسٹر ذکو ختم کرنا چاہتی تھی جو کہ کراچی کو نگل رہے تھے ۔وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ جب اس کی موبائل بجنے لگا نمبر دیکھ کر وہ مسکرانے لگا کیونکہ اس کی اماں جان کی کال آئی تھی وہ جب تک اس سے ایک دفع بات نہ کر لیں انہیں سکون نہیں آتا تھا دا میرشاہ میں ان کی جان تھی ۔اس نے کال اٹھائ: جی ہاں اماں جان کیسی ہیں آپ!شاہ میں ٹھیک ہوں تم گاؤں کا چکر کب لگا رہے ہو "جی ہاں بس ایک دو کام ہیں جلدی چکر لگاؤں گا  "اور آپ اپنی دوائیاں باقاعدگی سے کھا رہی ہیں "بابا سائیں سے تو میری صبح بات ہوئی تھی "چھوڑ مجھ سے نہیں کھائی جاتی یہ کڑوی دوائیاں و'! تم گاؤں کا چکر لگا لو میں خود ہی ٹھیک ہو جاؤ گی"!" اماں دوائیاں تو آپ کھائیں میں 'ایک دو دن میں چکر لگاؤں گا اپنا خیال رکھیں" اللہ حافظ" !!دامیر شاھ  فائلوں کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔

🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

Post a Comment

0 Comments